Saturday, March 31, 2018

رنگ میں بھنگ

ہدایات برائے مطالعہ زیرِ نظر بلاگ:

بلاگ پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ:

1۔ آپ بلاگ کی درجہ بندی کرنے کے عادی تو نہیں؟

2۔ آپ ہر دوسرے بلاگ کو بوگس یا دو نمبر قرار دینے کے عادی تو نہیں؟

3۔ کہیں آپ کو اکثر بلاگ کاپی پیسٹ تو نہیں محسوس ہوتے؟

4۔ کہیں آپ بلاگ میں معلومات کے فقدان کے شکایتی تو نہیں؟

5۔ کہیں آپ بلاگرز کو جائز یا ناجائز نصیحتیں کرنے کے عادی تو نہیں؟

6۔ کہیں آپ جان بوجھ کر نئے لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے شوقین تو نہیں؟

اگر مندرجہ بالا تمام نقاط میں سے کوئی ایک بھی نقطہ آپ پر لاگو ہوتا ہے تو آپ مہربانی فرمائیں اور اس بلاگ سے صرف نظر کریں۔ یہ بلاگ آپ کے لیے نہیں ہے۔

اب آتے ہیں بلاگ کی جانب۔

یہ آج سے تین ہزار سال قبل کا واقعہ ہے۔ زمین کے کسی خطے پر ایک ملک آباد تھا۔ بلاگستان نامی اس ملک میں ایک اخبار شائع ہوا کرتا تھا۔ اخبار کا نام “رنگ میں بھنگ” تھا۔ اس اخبار کو چلانے والے چار نامور اور سینیئر صحافی تھے۔ پہلے کا نام مرزا تنقید بھیانک آبادی تھا۔ دوسرے صاحب شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی تھے۔ تیسرے صاحب کا نام اچھل کود بیگ پھدکوی اور چوتھے صاحب مشاورت خان پھینکوی صاحب کے نام سے جانے جاتے تھے۔

روزنامہ “رنگ میں بھنگ” بلاگستان کا سب سے زیادہ شائع ہونے والا اور معتبر اخبار تھا۔ بلاگستان کے ہاکر ہر روز گھروں میں “رنگ میں بھنگ” ڈالتے تھے اور عوام دانت پیستی رہ جاتی تھی۔ بلاگستان میں اور بھی کئی اخبارات شائع ہوتے تھے مگر “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت کے آگے کسی کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جو کاغذ “رنگ میں بھنگ” کی اشاعت میں استعمال ہوتا تھا وہ تیل بہت اچھی طرح چوس لیا کرتا تھا اس لیے پکوڑے، سموسے اور جلیبی وغیرہ بھی اسی اخبار پر رکھ کر بیچے جاتے تھے تاکہ ان کا تیل زیادہ سے زیادہ خشک ہو سکے۔

مرزا تنقید بھیانک آبادی روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کے ایڈیٹر تھے اور ان کا کام ہر وقت بھیانک قسم کی تنقید کرنا تھا۔ ہر نیا لکھنے والا ان کے نام سے لرزتا رہتا تھا۔ اچھی سے اچھی تحریر پر تنقید کی ایسی گولہ باری کرتے تھے کہ نیا لکھنے والا کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ تلا کرتا ہوا لکھنے سے تائب ہو جاتا تھا۔ یہ مرزا تنقید بھیانک آبادی کی ذمہ داری بھی تھی کیونکہ اگر نئے لکھنے والے لکھنا شروع کر دیتے تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت داؤ پر لگ سکتی تھی اور اس طرح بہت سوں کی روزی روٹی خطرے میں پڑ جاتی۔ چناچہ گربہ کشتن روز اول کے مصداق جوں ہی کسی نئے لکھنے والے کا علم ہوتا تو مرزا تنقید بھیانک آبادی اپنے تنقیدی چھری کانٹے لے کر پل پڑتے اور لکھنے والے کے وہ لتے لیتے کہ الامان و الحفیظ۔

شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی اس کام میں بھیانک آبادی صاحب کے معاون خصوصی تھے۔ جوں ہی مرزا تنقیدبھیانک آبادی کا رخ کسی نئے لکھنے والے کی طرف ہوتا، شیخ صاحب اس بے چارے لکھنے والے کی ایسی کی تیسی پھیرنے کے لیے بھیانک قسم کی تائید کے ساتھ آن موجود ہوتے۔ مرزا صاحب کی تنقید پر آمنا و صدقنا کے نعرے لگاتے شیخ صاحب مرزا صاحب کی باتوں کی تائید کرتے چلے جاتے اور نئے لکھنے والوں کی پیشانی عرق ندامت میں بھیگتی چلی جاتی۔ مرزا تنقید بھیانک آبادی کی تنقید کو وہ نظر انداز کر بھی دیتے تو شیخ تائید کنندہ ایسی تیسوی کی تائید ان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی کہ شاید مرزا تنقید بھیانک آبادی کی تنقید جائز ہی ہے۔ چناچہ وہ اپنی تحاریر پر خود ہی شرمندہ ہوتے پھرتے۔

روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کے تیسرے صاحب اچھل کود پھدکوی تھے جو بلاگستان میں شائع ہونے والے دیگر تمام اخبارات پر پھدکتے پھرتے اور نئے لکھنے والوں کی فہرست مرتب کرتے۔ جوں ہی انہیں شبہ گذرتا کہ کوئی نیا لکھنے والا کوشش کر رہا ہے کہ میدان میں جمے پرانے بلکہ “کھانگڑ” قسم کے لکھاریوں کے مقابلے میں اپنی شناخت بنائے، پھدکوی صاحب فوری طور پر اس کے نام کو خط کشیدہ کر لیتے۔ خط کشیدہ کرنے کے بعد وہ کشیدگی پھیلانے کی غرض سے ایک چبھتا ہوا تبصرہ فرما کر فوراً روزنامہ “رنگ میں بھنگ” جا پہنچتے اور مرزا تنقید بھیانک آبادی کو اطلاع دیتے۔ مرزا صاحب کی باچھیں کانوں تک کھل جاتیں اور وہ فوراً اس لکھاری کی تحریر پر آ دھمکتے اور پھر وہی ہوتا جو کچھ اوپر بیان کیا گیا ہے۔ حالات کچھ کشیدہ ہو جاتے اور روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت کو چار چاند لگ جاتے۔

چوتھے صاحب مشاورت خان پھینکوی تھے جو جا بجا مشورے دیتے پھرتے۔ ان کا اصل کام تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی ادارت اور سرکولیشن میں مشاورت مہیا کرنا تھا مگر یہ اتنے عمدہ قسم کے مشیر تھے کہ ہر اس جگہ مشورہ دینے پہنچ جاتے جہاں مشورے کی قطعاً ضرورت نہ ہوتی۔ یہ اکثر نئے لکھاریوں کو بھی مشورہ دے جاتے جس سے مرزا تنقید بھیانک آبادی کے حلق سے بھیانک قسم کی آوازیں نکلنا شروع ہو جاتیں۔ وہ ہمیشہ مشاورت خان پھینکوی کو لتاڑتے رہتے کہ اگر ان کے مشوروں کی بدولت کسی نئے لکھنے والے نے سکہ جما لیا تو روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کی مقبولیت میں کمی واقع ہو جائے گی۔

ایک دن ایسا ہوا کہ ایک نیا اخبار بلاگستان میں شائع ہونا شروع ہو گیا۔ اس اخبار کا نام روزنامہ “بنیا” تھا۔ ظاہر ہے اخبار ہی بنیا تھا تو کام بھی مفت میں لینے کا عادی تھا۔ اس اخبار نے مفت میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی شروع کر دی اور ان کی تحاریر کو چھاپنا شروع کر دیا۔ اب مرزا تنقید بھیانک آبادی اور ان کے عملے کو فکر پڑی کہ اگر یہ مفتے والا اخبار چل نکلا تو عوام نے روزنامہ “رنگ میں بھنگ” کو پکوڑوں اور سموسوں کے لیے بھی لیناچھوڑ دینا ہے۔ چناچہ ان چاروں حضرات کا پورا لاؤ لشکر بمع دیگر “پس پشت قوتیں” روزنامہ “بنیا” کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گیا۔ ایسی بھیانک تنقید شروع ہوئی۔ ایسی تائیدیں آئیں۔ ایسی اچھل کود ہوئی اور ایسے ایسے مشورے ارزاں کیے گئے کہ نئے لکھنے والوں نے روزنامہ “بنیا” میں لکھنے پر نظر ثانی شروع کر دی۔

مسئلہ یہ آن پڑا کہ نئے لکھنے والے جائیں تو کہاں جائیں۔ روزنامہ “رنگ میں بھنگ” نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا بلکہ ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ لکھنے والا محنت سے کچھ لکھتا ہے تو وہ چاہتا ہے کہ اس کی تحریر چھپے۔ بھلے اس کو اس کا معاوضہ نہ ملے مگر لوگ اس کو پڑھیں۔

تین ہزار سال قبل کا ادب اسی لیے ہماری دسترس میں نہیں ہے کہ اس وقت تنقید کی گولہ باری سے نئے اور اچھا لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی کر دی گئی۔ تین ہزار سال بعد بھی اگر ہم اسی روش پر چلیں گے تو تین ہزار سال بعد آنے والے ہمارے بارے میں بھی یہی لکھیں گے۔

“سراہا جانا ہمیشہ سے انسان کی خواہش رہی ہے۔ جب بھی کسی کی کسی بھی کاوش کو سراہا جاتا ہے تو اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی چھلانگیں لگانا شروع نہیں کر دیتا بلکہ اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں وقت لگتا ہے۔ پھر وہ قدم قدم چلنا شروع کرتا ہے۔ ایسے میں اس کا ہاتھ تھام کر اور اس کو سہارا دے کر اس کے اندر کا خوف دور کیا جاتا ہے۔

ذرا تصور کیجیے۔ آپ کا بچہ پہلی مرتبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہوا مگر کچھ ہی دیر میں لڑکھڑا کر گر پڑا۔ تو آپ کیا کریں گے؟ اس پر تنقید کریں گے؟ اس کو مشورے دیں گے؟ یا پھر اس کا ہاتھ تھام کر اسے کھڑا ہونے میں مدد دیں گے۔ اس کی دل جوئی کریں گے اور اسے شاباش دیں گے؟

آپ اپنی انسانیت کو مدنظر رکھ کر خود فیصلہ کر لیجیئے۔”

 

The post رنگ میں بھنگ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2H0NafS

حیدرآباد میں ایک جنرل یونیورسٹی بنائی جائے

عام تعلیمی ادارے اور جامعہ میں بنیادی فرق تحقیق کا ہے۔ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق جامعات کی بنیادی ذمہ داری اورمیدانِ خاص ہے۔ تحقیق کا اظہار جدت اوراختراعات لیے ہوتا ہے، جامعات اس میں نمایاں کردارادا کرتی ہیں۔ عموماً یہ طنزسننے میں آتا ہے کہ جب برصغیرمیں تاج محل بن رہا تھا اس وقت انگلستان میں جامعات کی بنیاد ڈالی جا رہی تھی۔ بے شک حقیقت یہی تھی لیکن ہماراعلم درس گاہوں سے نکل کر اس سطح پر آ چکا تھا کہ اس کا اظہار دنیا کے منفرد عجوبے تاج محل کی صورت میں رونما ہو رہا تھا۔

سائنس، دفاع اورمعیشت سمیت ہرمیدانِ علم کی بنیاد روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جا رہی ہے، نت نئی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں، نصاب پرمسلسل نظر ثانی ہو رہی ہے، کتب شائع ہو رہی ہیں، تراجم کے ذریعے علوم وفنوں کو اپنے ہاں منتقل کیا جا رہا ہے, برقی ذرائع ابلاغ سے مدد لی جا رہی ہے۔ ایک طرف طلبہ کی تربیت کی جا رہی ہے دوسری طرف اساتذہ کو نئی جہات سے روشناس کیا جا رہا ہے۔ ملک میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائرایجوکیشن کمیشن میں بدل کر اس کے فرائض میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ صوبائی سطح پر ہائرایجوکیشن کمیشن تشکیل دیے جا رہے ہیں۔ پرائمری تعلیم سے جامعہ تک اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا ہے۔ سندھ میں بھی جابجا تعلیمی ادارے تعمیر ہوتے جا رہے ہیں۔ شہر کیا دیہات کے لیے بھی جامعات کے چارٹر منظورکیے جا رہے ہیں۔ مگر ملک کا پانچواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد یونی ورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے محروم ہے۔

اندرونِ سندھ کا مرکز حیدرآباد ایسا بدقسمت شہر ہے جس میں سرکاری و نجی سطح پرکوئی جنرل یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد میں اُس جگہ منتقل کیا گیا جہاں آج سندھ یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس قائم ہے، وہ کیمپس آج صرف ایجوکیشن فیکلٹی کا کام کر رہا ہے۔ بعد ازاں جامعہ سندھ بھی یہاں سے جام شورو منتقل کر دی گئی۔ لیاقت میڈیکل کالج اورمہران انجینئیرنگ کالج بھی حیدرآباد کے لیے منظور ہوئے تھے اوریہیں قائم تھے، انھیں بھی جام شورو ضلع میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ دونوں پروفیشنل کالج یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ یعنی پہلے حیدرآباد کے طلبہ و طالبات کو جنرل یونیورسٹی اور انجینئیرنگ اور میڈیکل کالج جیسے پروفیشنل ادارے میسر تھے۔ ماضی کی نسبت یہ ادارے گنجائش میں کم ہیں اور حیدرآباد کی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں مگر ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں۔

البتہ سرکاری سطح پر حیدرآباد دیہی میں ایک زِرعی جامعہ اور نجی سطح پر مہنگی ترین میڈیکل اورایک آدھ سائنسی شعبے پر مشتمل جامعہ ضرور ہے۔ چھٹی مردُم شماری کے مطابق حیدرآباد ضلع کی کل آبادی 20 لاکھ 20 ہزارایک سو اُناسی ہے۔ تعلیمی بورڈ حیدرآباد سے ہرسال پچاس ہزارسے زائد طلبہ و طالبات انٹر کا امتحان پاس کرتے ہیں جن میں پری انجینئیرنگ کے طلبہ و طالبات کی تعداد 18 ہزار ایک سو چھتیس، پری میڈیکل کے 27 ہزار ایک سو اڑسٹھ اور جنرل سائنس کے 993 طلبہ و طالبات شامل ہیں۔

حیدرآباد میں اعلیٰ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے سبب قریب ترین لیاقت میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسزمیں پہلے 47 سیٹیں مختص تھیں، وہ بھی اب گھٹا کر37 کر دی گئی ہیں۔ مہران انجینئیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی میں حیدرآباد ڈومیسائل کے حامل طلبہ و طالبات کے لیے صرف 88 نشستیں ہیں جب کہ پبلک یونیورسٹی سندھ کے مین کیمپس سمیت لاڑکانہ، نوشہروفیروز، دادو، میرپور، حیدرآباد، ٹھٹھہ اوربدین کیمپس میں کل 18930 گریجویشن اورپوسٹ گریجویشن داخلے کی گنجائش ہے۔ قانوناً 60 اور 40 کا دیہی اور شہری کوٹہ نافذ ہے۔ پروفیشنل کالجز کیا، سندھ جیسی جنرل یونیورسٹی میں حیدرآباد کے طلبہ کی غالب اکثریت داخلوں سے محروم ہیں۔ معدودے چند سو کے علاوہ باقی ماندہ طلبہ و طالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب ہی ٹھہرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد شرح خواندگی کے لحاظ سے پانچ سرفہرست شہروں میں شامل تھا،70 سال بعد یعنی اکیسویں صدی بھی میں اس کا شمارپہلے دس شہروں میں بھی نہیں ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مختلف الخیال، عقائد، رنگ اورنسل کی اجتماعیت میں رواداری نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، یہاں اس کے برعکس کو فروغ دیا گیا ہے۔ سرمئی شاموں اور ہوادانوں کے اس شہرکو لسانیت کی راہ دکھائی اور اپنے کہلائے جانے والے اور پرائے قرار دیے جانے دونوں اس عصبیت میں اپنا ہی نقصان کرتے رہے ہیں۔ حیدرآباد ضلع چار تحصیلوں حیدرآباد سٹی، لطیف آباد، قاسم آباد اورحیدرآباد دیہی (ٹنڈوجام) پر مشتمل ہے۔ اردواورسندھی بولنے والوں کے ساتھ پختون، پنجابی، کشمیری و دیگر اس کے باسی ہیں۔ یہ سب کے سب حیدرآباد کا ڈومیسائل رکھنے کے سبب یونی ورسٹی میں داخلے سے محروم ہیں۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کوٹے کی وجہ سے انہیں بیرونی جامعات میں بھی نہ ہونے کے برابر داخلہ مل پاتا ہے۔ بیرونی جامعات میں یہاں کے طلبہ وطالبات جس گریڈ پر داخلے سے محروم ہو جاتے ہیں اسی گریڈ اور اس سے کمتر گریڈ پر دیگراضلاع کے طلبہ وطالبات کو باآسانی داخلہ مل جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے محدود ترین مواقع ہونے کی وجہ سے وفاقی اورصوبائی مقابلے امتحانات میں بھی کم تعداد شریک ہوتی ہے۔

مقامی نوجوانوں کے اس مقدمے کے بعد ایک امید افزاء خبر ضرور زیر گردش ہے۔ خبر اس لیے کہ ابھی تک میڈیا سے ایوانوں تک محدود ہے۔ گزشتہ سال مئی میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے حیدرآباد آمد پر اسے یونیورسٹی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں یونیورسٹی کے لیے قرارداد منظور ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ ہی کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہی بات کراچی میں دہرائی۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے بھی ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا۔ سندھ اسمبلی بھی حیدرآباد کے سوسالہ قدیم تاریخی گورنمنٹ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے لیے ایک قرارداد منظور کر چکی ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے مزید آگے بڑھ کر وزیرِ تعلیم جام مہتاب ڈھرکی سربراہی میں کمیٹی کو قائم کرکے خصوصی ٹاسک دیا۔ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دی اور 2 مارچ کوسندھ اسمبلی نے گورنمنٹ کالج حیدرآباد کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کا تاریخی بل منظورکیا ہے۔

یونیورسٹی کا قیام حیدرآباد کے شہریوں خصوصاً طلبہ کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ بلا امتیازحیدرآباد کے شہری سندھ اسمبلی کے اس تاریخی بل کو اسی سال مدت ختم ہونے سے پہلے عملی جامہ پہنتے دیکھنے کے شدید خواہش مند ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام سے جہاں معیارتعلیم بلند ہوگا، جامعات کے درمیان علمی و تحقیقی مسابقت پیدا ہوگی وہیں حکومت وقت کو بھی اس کا کریڈٹ دیا جائے گا۔ بشرط یہ کہ صوبائی حکومت اپنی مدت کے اختتام سے پہلے یہ اہم کام کر گرزے۔

The post حیدرآباد میں ایک جنرل یونیورسٹی بنائی جائے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2E86RzD

دامِ حیات کتنے ہیں؟

ہم میں سے شاید ہی کوئی ہو جسے اپنی زندگی عزیز نہ ہو۔ سب سے قیمتی متاع ہمارے پاس یہی ہوتی ہے لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اس کی اس زندگی کی قیمت کیا ہے؟ ہم میں سے ہر شخص کیلئے زندگی کی قیمت کے حوالے سے مختلف رائے ہو گی۔ کچھ کیلئے زندگی کی بہت قیمت ہو گی اور کچھ تو اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھتے ہیں جیسے یہ خدا کی کوئی نعمت نہیں بلکہ مانگے، تانگے کی چیز ہے۔

کسی دور میں کہا جاتا تھا کہ،

زندگی زندہ دلی کا نام ہے
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

مگر زندہ دلوں کو زندہ رہنے کس نے دیا، زندہ دلی ہی جرم بنا دی گئی۔ کچھ زندگی کی تشریح قرآن حکیم کی اس آیت سے کرتے ہیں۔

الذی خلق الموت و الحیوٰۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا وھوالعزیز الغفور ٭

اس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب (اور) بخشنے والا ہے۔ (سورۃ ملک، آیت2 )

کچھ کے نزدیک زندگی پنجابی کی یہ کہاوت ہے کہ

“ایہہ جگ مِٹھا‘ اگلا کس نے ڈِٹھا”

(یہ ہی اصل زندگی ہے، اگلا جہان کس نے دیکھا ہے)

کچھ منچلوں سے پوچھا جائے تو وہ کچھ اس قسم کا جواب دیتے ہیں،

کوئی پوچھ رہا ہے مجھ سے میری زندگی کی قیمت
تیرا ہلکا ہلکا مسکرانا مجھے یاد آ رہا ہے

اور کچھ تو اس حد تک سنجیدہ مزاج واقع ہوئے ہیں کہ کہتے ہیں کہ زندگی کی قیمت کا اندازہ تو مرنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔

“زندہ ہاتھی لاکھ، مردہ سوا لاکھ کا”

کہاوت تو سب نے سن رکھی ہے مگر یہ دیکھیے کہ،

چکن 200روپے کلو اور چکن کڑاھی 700روپے کلو۔

مگر کبھی کچھ لمحاتِ تنہائی اس سوال کی نذر کیجئے گا ضرور کہ زندگی کی قیمت کیا ہے؟ “آوازِ دوست” میں “مختار مسعود” زندگی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ

“قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی”

آپ خود بھی اس بات کا تجربہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ دیکھیں بازارِ دنیا میں زندگی کس بھائو ملتی ہے۔ زندگی کے دام کتنے ہیں۔ شاید ہی آج کوئی اس جیسی قیمتی چیز اس سے بھی ارزاں رہ گئی ہو۔ جس ملک میں ہر روز کئی درجن افراد کی لاشیں گرتی ہوں، جہاں ملک کے سب سے بڑے شہر میں پانی کمیاب ہو اور سڑکوں پر لہو بکثرت ملتا ہو، جہاں بھتہ نہ دینے پر ڈھائی سو کے قریب لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے، جہاں چار لوگوں کا جمع ہو جانا خطرے کی علامت متصور ہوتا ہو، جہاں قاتل و مقتول دونوں نوحہ کناں ہوں، وہاں زندگی کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔ یہ چشم حیران تو پانچ، پانچ ہزار روپے لیکر قتل کرنے والے افراد بھی دیکھ چکی ہے اور محض چند روپوں کی خاطر قتل کر دئیے جانے والے افراد کیلئے بھی آنسو بہا چکی ہے۔ زندگی کی قیمت کیا ہو سکتی ہے اور پھر ہم جیسوں کی زندگی کی قیمت کوئی ہو سکتی ہے؟ یہاں تو جس کی لاٹھی ہے، اسی کی بھینس ہے۔ جس کے پاس انبارِ دولت ہیں محض اس کی زندگی کی ہی قیمت ہے، باقی سب تو بے مول ہیں۔ بازار لگا پڑا ہے، ضمیر بکتا ہے، ایمان بکتا ہے، انسان بکتا ہے اور تو اور چند ہزار روپوں میں خود کش حملہ آور بھی بکتا ہے۔

اگر آپ لاہور کے زین ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت بی ایم ڈبلیو گاڑی کا وہ سات ہزار والا شیشہ ہے جس کے ٹوٹنے پر مصطفیٰ کانجو نے ہنگامہ کھڑا کیا اور یہ لڑائی زین کے قتل پر منتج ہوئی۔

اگرآپ کراچی کے شاہ زیب ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت شاہ رخ جتوئی کی بیہودہ نظروں پر اعتراض کرنے کے مساوی ہے۔

اگر آپ لاہور کے طاہر ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت محض ایک اوور ٹیک ہے کہ جس پر سابق وزیرِ اعظم کے بیٹے عبدالقادر گیلانی کے محافظوں نے طاہر کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔

اگر آپ مردان کے مشال ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت نظریاتی ڈگر سے تھوڑا ہٹ کر چلنا بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث ہجوم آپ پر پل پڑتا ہے اور چند منٹوں میں آپ کو فانی وجود سے آزاد کر دیتا ہے۔

اگر آپ ہنگو کے اعتزاز احسن ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت باقی افراد کو بچانے کی فکر بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے لیے آپ اپنی تمام سوچوں سے آزاد ہو کر خودکش حملہ آور کو تھام لیتے ہیں اور پورے سکول کو بچا لیتے ہیں۔

اگر آپ افغانستان کی فرخندہ ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت ایک مذہبی پیشوا سے کسی معاملے میں الجھنا ہو سکتی ہے کہ جس کے باعث اس پر توہینِ قرآن کا الزام لگا کر “پاکبازوں” نے اسے سنگسار کر دیا تھا۔

اگرآپ سپاہی مقبول حسین ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت “پاکستان زندہ باد” کا نعرہ لگانا بھی ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں آپ پر اس قدر ظلم و ستم کیا جاتا ہے کہ کسی چیز کا ہوش ہی باقی نہیں رہا۔

اگر آپ بارڈر پر کھڑے سپاہی ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت دشمن کی طرف سے “ازراہِ تفنن” چلائی گئی کوئی گولی بھی ہو سکتی ہے۔

اگر آپ پاک افغان سرحدی علاقے میں رہنے والے کوئی معصوم بچے ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت آپ کے آس پاس بسنے والے مشکوک افراد ہیں کہ کسی بھی وقت، کسی بھی ڈرون حملے میں آپ شک و شبہے کی نذر ہو سکتے۔

اگر آپ تھر میں بسنے والے کوئی شخص ہیں تو شاید آپ کی زندگی کی قیمت پانی کی چند بوندیں ہوں کہ جن کیلئے آپ کو سسک سسک کر مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اگر آپ خاتون ہیں تو آپ کی زندگی کی قیمت اپنے “سرپرست، ولی، شوہر، بھائی، حتیٰ کہ بیٹے” سے اختلاف کرنا بھی ہو سکتی ہے جس کے باعث کبھی لاہور ہائی کورٹ کے احاطہ میں فرزانہ کو پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو کبھی کراچی میں زینب کو۔

اگر آپ ایک عام شخص ہیں، بالکل عام سے، تو پھر آپ کی زندگی کی قیمت کا ہونا ضروری نہیں۔ آپ کسی اشارے پر، ایمبولینس میں اس وجہ سے جان دے سکتے ہیں کہ سڑک سے “صاحب” گزرنے والے ہیں، آپ کو راہ چلتے کوئی عابد باکسر، کوئی رائو انوار اٹھا سکتا ہے اور پھر آپ کی لاش ہی گھر پہنچے گی۔ آپ ناکے سے چند قدم آگے بائیک کھڑی کرتے ہیں تو پھر آپ پر برسٹ فائر کیے جا سکتے ہیں، ممکن ہے کہیں مزدوری کرتے ہوئے مٹی کا تودہ گرنے سے آپ جازی کی بازی ہار جائیں یا یہ بھی ممکن ہے کہ کسی بڑے شہر میں، عالمی معیار کے تعمیراتی پراجیکٹ میں “نظرِ بد” سے بچنے کے لیے آپ کا خون بہانے کی ضرورت پڑ جائے اور آپ وہاں کام آ جائیں… جیسے لاہور کا اورنج لائن میٹرو ٹرین پراجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہی بیس کے قریب افراد کو نگل چکا ہے۔

کسی کے نزدیک زندگی کی قیمت اس کے خوابوں کی تعبیرہے اور کوئی دوسروں کیلئے جینے کو زندگی کی حقیقی قیمت سمجھتا ہے مگرکبھی سوچیے گا ضرور کہ آپ کی سب سے قیمتی متاع، سب سے عزیز شے یہ زندگی، یہ چند فٹ کا وجود کہ جس پر آپ اتنا مان کرتے ہیں اسکی قدر و قیمت کیا ہے، اس کے اصل دام کتنے ہیں۔

The post دامِ حیات کتنے ہیں؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2GXXcOW

The men who had millions of lives in their hands

How do the families of generals who sent men into battle commemorate World War One?

from BBC News - World https://ift.tt/2pSLT2l

Wikipedia article of the day for March 31, 2018

The Wikipedia article of the day for March 31, 2018 is Awake (TV series).
"Nightswimming" is the eighth episode of the American television police procedural fantasy drama Awake, which originally aired on NBC in 2012. Written by Leonard Chang and co-executive producer Davey Holmes, and directed by executive producer Jeffrey Reiner, the episode received mixed reviews. Awake stars Jason Isaacs (pictured) as Michael Britten, a detective living in two separate realities after a car crash. In one reality, his wife Hannah (Laura Allen) survived the crash; in the other, his son Rex (Dylan Minnette) survived. In this episode, Michael helps accountant Marcus Ananyev (Elijah Alexander) and his wife Alina (Ayelet Zurer) start a new life in the Witness Protection Program after a gang member attempts to kill Marcus in Rex's reality. In the other reality, Michael and Hannah prepare for a new life in Oregon, and go swimming at a college pool to celebrate their love. During filming, a woman who was near the swimming pool confronted Isaacs about his nudity. The episode featured Otis Redding's "Pain in My Heart". "Nightswimming" drew 2.8 million viewers on its debut.

Friday, March 30, 2018

Coffee must carry cancer warning label, California judge rules

  1. Coffee must carry cancer warning label, California judge rules  USA TODAY
  2. Coffee must carry cancer warning, California judge rules  Washington Post
  3. Californians to take their coffee with a cancer warning  ABC News
  4. Coffee will now come with a cancer warning in California. It's official.  The San Diego Union-TribuneFull coverage


from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2pQ2F2c

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Police officer killed in Hopkinsville, Ky., governor announces; suspect reportedly on the run

03/29/18 7:45 PM

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Outgoing VA Secretary David Shulkin appears on 'Special Report,' 6 pm ET on Fox News

03/29/18 5:31 PM

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Attorney general: Federal prosecutor evaluating alleged FBI, DOJ wrongdoing, no second special counsel for now

03/29/18 5:19 PM

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

‘Serial’ podcast subject Adnan Syed granted new trial

03/29/18 1:17 PM

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny