Showing posts with label dunya. Show all posts
Showing posts with label dunya. Show all posts

Friday, May 31, 2019

“کون سا ٹوتھ پیسٹ”

ہم میں سے جن کا بچپن پی ٹی وی کے سا تھ گزرا ہےانکی یادداشت میں ڈنٹونک پاوڈر کا اشتہار لازمی نقش ہو گا۔غالباً یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا انیمیٹڈ اشتہار تھا اور اس نے ہر عمر کے لوگوں میں بے انتہا مقبولیت حاصل کی۔ وہ دور مسواک اور دانتوں کے منجن کا دور تھا۔ٹوتھ پیسٹ مارکیٹ میں دستیاب تو تھی مگر اسکے خریدار مارکیٹ میں خال خال ہی نظر آتے تھے۔ بڑی عمر کے مرد اپنے دانتوں کی صفائی کے لیےمسواک استعمال کرتے جبکہ خواتین میں مسواک کے علاوہ ملٹھی رنگ کی ایک چھال کا استعمال زیادہ مقبول تھا۔ غالباًاسے “داتن” کہا جاتا تھا۔اسکی خاص بات یہ تھی کہ استعمال کرنے والے کے ہونٹوں اور دانتوں پر اپنا رنگ چھوڑتی تھی۔ نوعمرلڑکوں اور بچوں میں ڈنٹونک اور ڈنٹونک کی طرح کے دوسرے پاوڈرزیادہ مقبول تھے۔ پھر جیسا کہ وقت کا اصول ہے کہ وہ ہر چیز پر سے گزر جاتاہے، شہروں میں بسنے والوں کے لیے مسواک، “داتن اور دانتوں کے پاوڈر طاق نسیاں ہوتے گئے۔آج ٹیکنالوجی کی جدت اور پیسٹ بنانے والی کمپنیوں کی کامیاب مارکیٹنگ کی بدولت” داتن” تو تقریباً متروک ہو چکا ہے۔ مسواک استعمال کرنے والے بھی دن بدن کم ہوتے جا رہے ہیں۔ جبکہ دانتوں کے پاوڈر بھی لوگوں کی پہلی ترجیح نہیں رہے۔آج ان سب کی جگہ ٹوتھ پیسٹ استعمال ہوتا ہے ۔ مڈل کلاس سےلے کر اپر کلاس تک’ آج دانتوں کے لیے “ٹوتھ پیسٹ” ہی سب کی پہلی ترجیح ہے۔

شروع شروع میں ہر کمپنی کا ایک ہی ٹوتھ پیسٹ مارکیٹ میں دستیاب تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر کمپنی نے مختلف اقسام کے ٹوتھ پیسٹ مارکیٹ میں متعارف کروانے شروع کر دیے۔کوئی دانتوں کی صفائی کے لیے تو کوئی حساس دانتوں کے لیے ۔ کوئی مسوڑوں کی سوجن کے لیے تو کوئی سموکرز کے دانتوں پر لگے بدنما دھبوں کو مٹانے کے لیے۔ غرض یہ کہ آپکو مارکیٹ سے ہر قسم کا ٹوتھ پیسٹ مل جائے گا۔ قدرتاً سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مختلف اقسام کے ٹوتھ پیسٹ ایک ہی جیسے اجزاء پر مشتمل ہوتے ہیں؟ جیسا کہ اکثر لوگوں کا خیال ہے یا ان میں واقعتاً کوئی فرق ہوتا ہے؟۔ دراصل ہر ٹوتھ پیسٹ کے بنیادی اجزاء ایک سے ہی ہو تے ہیں مگر اسکے ساتھ ساتھ ہر ٹوتھ پیسٹ میں کچھ اضافی اجزاء بھی ڈالے جاتے ہیں جو ایک ٹوتھ پیسٹ کو دوسرے سے ممتاز کرتے ہیں۔ ان ہی اضافی اجزاء میں سے ایک ٹرکلوسان ہے جسے ایک طویل عرصے تک ماہرین منہ کی بیکٹیریل انفیکشنز اور مسوڑوں کی سوجن جیسی بیماریوں میں مفید سمجھتے رہے ہیں۔اس بارے میں جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ٹرکلوسان صرف ٹوتھ پیسٹ ہی نہیں بلکہ اینٹی بیکٹیریل سوپ’باڈی واش’ کاسمیٹکس اور کچن کے برتن دھونے کے لیے استعمال ہونے والے صابن میں بھی بطور اینٹی بیکٹیریل یعنی جراثیم کش عامل کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

سن 2016 میں امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن ایجنسی نے صابن اور باڈی واش وغیرہ میں ٹرکلوسان کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا۔اسکی بنیادی وجہ وہ تحقیقاتی رپورٹس بنیں جن کے مطابق ٹرکلوسان پانی میں شامل ہو کر زرعی زمین کو آلودہ کر رہا تھا اور اسکی وجہ سے انسانی بیماریوں میں استعمال ہونے والی جراثیم کش ادویات اپنا اثر کھو رہی تھیں۔جون 2018 میں بین الاقوامی شہرت کے حامل جریدے “بلومبرگ” میں ایک مضمون شائع ہوا ۔ مضمون نگار نے ایک مشہور برانڈ کے ٹوتھ پیسٹ کو اس وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ اس میں ابھی بھی ٹرکلوسان کا استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ جانوروں پر ہونے والی تحقیق نے واضح کیا ہے کہ ٹرکلوسان کے استعمال سے جلد اور بڑی آنت کے کینسر ‘، ہارمونز میں عدم توازن اور دمہ جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

یہ جاننے کے لیے کہ ٹرکلوسان والا پیسٹ استعمال کرنے کے کتنی دیر بعد تک ٹرکلوسان بطور جز ہمارے ٹوتھ برش کا حصہ بنا رہتا ہے’ ماحولیاتی سائنس اور ٹیکنالوجی کے جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر آپ ٹرکلوسان والا برش استعمال کرنا چھوڑ بھی دیں تو ٹرکلوسان کم از کم دو ہفتوں تک ہمارے برش کے ریشوں میں پایا جاتا ہے اور برش کرنے کے عمل کے ذریعے ہمارے مسوڑوں میں جذب ہو کر ہمارے جسم کا حصہ بنتا رہتا ہےاور بعد ازاں گو نا گوں بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

ٹرکلوسان کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے لیے امریکہ کی ریاست مینی سوٹا میں ان تمام اشیاء کے استعمال پر پابندی عائد ہے جن میں ٹرکلوسان بطور جز استعمال ہوتا ہے۔ نہیں معلوم کہ پاکستان کے ارباب اختیار ٹوتھ پیسٹ بنانے والی کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنائیں گے کہ وہ ٹوتھ پیسٹ کی تیاری میں ٹرکلوسان کا استعمال ترک کر دیں اور متبادل اجزاء استعمال کریں؟ یا ہمیشہ کی طرح وہ اس وقت ہوش میں آئیں گے جب پانی سر سے اونچا ہو جائے گا؟ ایک بات طے ہے کہ اس معاملے میں خود ہمیں اپنی مدد آپ کے تحت ٹوتھ پیسٹ کی خریداری کے وقت اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ ٹوتھ پیسٹ مکمل طور پر ٹرکلوسان فری ہو تاکہ ہم اپنے آپکو اور اپنے چاہنے والوں کو ٹرکلوسان سے ہونے والے ممکنہ نقصانات سے بچا سکیں۔

The post “کون سا ٹوتھ پیسٹ” appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2WcyrcX

Thursday, May 30, 2019

ملاو ٹ زدہ دودھ…. نعمت یا زحمت ؟

دودھ انسان کی پہلی خوراک بنتا ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ماں کا دودھ اسے وہ غذائیت دیتا ہے جو اس کی نشو ونُما کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ بچہ جب تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کا دودھ اسے بڑھاپے تک توانائی دیتا ہے۔ یہ سفید سیال غذائیت کا خزانہ ہے۔ ایک گلاس دودھ انسان کو پروٹین، چکنائی، کاربوہائڈریٹ، کیلشیم، میگنیشم اور قیمتی وٹا من فراہم کرتا ہے۔پاکستان اس وقت دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہے۔ دودھ کی پیداوار سے ملکی جی ڈی پی میں 11فیصد حصہ شامل کیا جارہا ہے، جبکہ پاکستان کی دودھ میں پیداواری صلاحیت تقریباً 54 بلین لیٹرسالانہ ہے۔ پاکستان میں صرف دودھ ہی نہیں بلکہ اس سے تیار شدہ اشیاء کا استعمال بھی بہت حد تک کیا جاتا ہے جیسے کہ کریم، کھویا، دہی، لسی، پنیر، گھی، ربڑی، مکھن اور دیگر اشیا۔

لیکن ذرا ٹھریے! لازمی نہیں کہ جو دودھ آپ اور میں استعمال کررہے ہیں وہ خالص بھی ہو۔ افسوس کہ انسان کے لالچ نے اس آفاقی نعمت کو بھی تنازعات اور اسکینڈلوں کا نشانہ بنا دیا۔اگر بات دودھ میں صرف پانی کی ملاوٹ کی حد تک ہوتی تو بھی قابلِِ قبول تھی، لیکن دورِ جدید میں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لیے ملاوٹ مافیا نے ایسے ایسے طریقے اختیار کررکھے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ جعلی دودھ کے لیبارٹری ٹیسٹ سے معلوم ہوا ہے کہ گوالے اور جعلساز دودھ میں گھٹیا قسم کے پکانے کے تیل، سنگھاڑوں کا سفوف، آلودہ پانی،فارملین(ایک کیمیکل جس کا ایک قطرہ چار لیٹر دودھ کو 48 گھنٹے تک محفوظ رکھتا ہے،ڈاکٹر اس کیمیکل کو لاشیں سڑنے سے بچانے کیلئے استعمال کرتے ہیں)، میلامائین (ایک کیمیکل جو اشیاء کو چمکدار بنانے میں کام آتا ہے)، پنسلین، بال صفاء پاوڈر، شیمپو، ہائیڈروجن پر آکسائیڈ، ڈیٹرجنٹ، کاغذ، گلوکوز، شکر، خشک دودھ، مالٹوڈیکسٹرین پاوڈر، زنیٹامائیسین، آراوٹ اور بورک ایسڈ وغیرہ شامل کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے گوالے جانوروں کو آکسیٹوسین(Oxytocin) ہارمون کا ٹیکہ لگاتے ہیں جو دودھ کی پیداوار میں ’’50 فیصد‘‘ تک اضافہ کر سکتا ہے۔ ایسے دودھ کے استعمال سے بہت سی بیماریاں ہوسکتی ہیں، مثلاً سر درد، متلی، قے، ڈائریا،آنکھوں کی بینائی متاثر ہونا، معدہ، گردے اور دل کے مسائل، کینسر، حتیٰ کہ موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔ جو دودھ آپ اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں وہ آپ کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

اس مہلک عمل کی روک تھام کے لیے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے صوبے بھر میں ملاوٹ مافیا کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں آنے والی رپورٹس کے مطابق گزشتہ ایک سال میں متعدد کاروایاں کی گئیں اور لاکھوں لیٹر ملاوٹ شدہ دودھ تلف کیا گیا ساتھ ہی مالکان کو بھاری جرمانے بھی کیے گئے۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے حالیہ احکامات کی تائید کرتے ہوئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے خالص دودھ کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مزید اقدامات کیے جا رہے ہیں اور چند سالوں تک پنجاب بھر میں کھلے دودھ کی فروخت کو مکمل طور پر بند کیا جائے گا اور عوام تک محفوظ اور پاسچرایٔزڈ دودھ پہنچایا جائے گا جو ہر طرح کی ملاوٹ سے پاک ہوگا۔ ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی کیپٹن(ر) محمدعثمان یونس، جو کہ رات کے پچھلے پہر بھی ملاوٹ مافیا کے خلاف ہونے والی کاروائیوں کی خود نگرانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، اس اقدام کے لیے کوشاں ہیں اور اپنے تمام تر وسائل اس مہم کی کامیابی کے لیے وقف کر رہے ہیں۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے لائحہ عمل کے تحت آنے والے چند سالوں میں کھلا دودھ بیچنے پر پابندی عائد ہوجائے گی، یعنی یہی کھلا دودھ پاسچرائزیشن کے عمل سے گزرنے کے بعد پلاسٹک کی تھیلیوں یا شیشے کی بوتلوں میں محفوظ کرکے صارفین تک پہنچایا جائے گا ۔ پیکیجنگ پر پتہ درج ہونے سے نہ صرف ملاوٹ مافیا کا راستہ روکا جا سکے گا بلکہ عوام تک دودھ جیسی نعمت کوپھر سے خالص حالت میں پہنچایا جائے گا ۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی ترکی کی طرز پر دودھ کو محفوظ بنانے کا نظام لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ترکی نے جب دودھ کو پاسچرائزیشن کے عمل سے گزارنے کے بعد محفوظ طریقے سے لوگوں کو پہنچاناشروع کیا تو جہاں ایک طرف ترکی کی معیشت مضبوط ہوئی وہیں ڈیری انڈسٹری کی برآمدات میں 90 فیصد اضافہ ہوا اور اس انڈسٹری سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی آمدنی میں بھی 300 فیصد اضافہ ہوا۔

پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے بھرپور عوامی آگاہی مہم کا آغاز کردیا گیا ہے جس کے تحت لوگوں میں بلخصوص پاسچرائزیشن کے عمل اور اس کے فوائد کے حوالے سے تفصیلی آگاہی فراہم کی جائےگی تاکہ پابندی سے قبل عوام اور ڈیری انڈسٹری سے وابستہ لوگ اس تبدیلی کو تسلیم کرنے اور اسے اپنے حق میں بہتر بنانے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں۔ حکومت اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے یہ ایک خوش آئند اقدام ہے جس سے پنجاب کی عوام تک خالص دودھ پہنچایا جا سکے گااور کئی بیماریوں کا بھی خاتمہ کیا جا سکے گا۔

The post ملاو ٹ زدہ دودھ…. نعمت یا زحمت ؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2KbEhUx

Wednesday, May 29, 2019

فرشتہ نے فرشتوں کو رلا دیا

مملکت خداد پاکستان رب لم یزل کا انعام عظیم ہے۔ جس کا جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ اس انمول نعمت کی قدر وقیمت کا احساس اس وقت بڑی شدت سے ہوتا ہے جب امت مسلمہ کا قیمتی خون زمین پر پانی کی طرح بہتا نظر آتا ہے۔ جس کی اہمیت کا احساس اس وقت اور بڑھ جاتا ہے جب ملت اسلامیہ کی عفت مآب خواتین کی آبرو ریزی قریہ قریہ بستی بستی کی جاتی ہے۔

کشمیر،فلسطین، شام ، عراق ،البانیہ،برمہ ،افغانستان اور دنیا کے دیگر کئی ممالک میں اس تماشے کے نظارے عام ہیں۔ایسے وقت میں رب عظیم کا احسان عظیم پاکستان جب نظروں کے سامنے آتا ہے تو بے ساختہ سجدہ شکر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن اسی مملکت خدادا میں کہیں کہیں ایسے واقعات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو ذہن کو منتشر اور دل کو مضطرب کر دیتے ہیں، روح کو زخمی کرجاتے ہیں۔ سوچ و فکر میں تلاطم پیدا کرکے سارے وجود کو زندہ لاش بنا دیتے ہیں، اُس وقت جب کوئی کمزور باپ کانپتے ہاتھوں،نیچی نگاہوں کے ساتھ اور جب کوئی مسکین صورت ماں اپنی لخت جگر ،اپنی بھولی بھالی معصوم صورت کلی کو کسی درندے کی درندگی کی بھینٹ چڑھنے سے بچا نہیں پاتی، اُس وقت جب کوئی کم نسل کسی معصوم کلی کی عصمت سے اپنی ہوس کی پیاس بجھاتا ہے اور وہ معصوم پری دہائیاں دیتے ہوئے اس بھیڑئے کے سامنے بے بس ہو کر زندگی کا دیا بھجا کر خود تو زندگی کی دوڑ سے آزاد ہوجاتی ہے لیکن اپنے پیچھے زندگی سے زیادہ پیار کرنے والے ماں باپ کو جیتے جی زندہ دفن کر جاتی ہے۔ وہ صبح شام موت کی تمنا کرتے ہیں ، انہیں سانسوں کی مالا انگاروں کا ہار لگتی ہے۔ جنہیں ظلم، جبر، بربریت کا ایسا نشتر لگتا ہے کہ کائنات کا کوئی مرہم ان کے زخموں کا علاج نہیں کر سکتا۔ اردو ادب اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود ایسے الفاظ لانے سے قاصر ہے جس سے اس باپ اور اس مظلوم خاندان کے دکھ کو الفاظ کے قالب میں لایا جاسکے۔

ایسی سفاکیت جس سے عرش اعظم بھی کانپ اٹھا ہوگا۔ فرشتوں میں تہیر پیدا ہوا ہوگا کہ کیا یہ انسان ذلت کے اس درجے پر بھی آسکتا ہے؟یقینا پوری قوم کی آنکھیں شرم سے جھکی ہوئی ہیں۔ قصور کی بے قصور کلی زینب کے بعد مردان کی گجر گڑھی کی اسما ء،کراچی کی خدیجہ اور اب اسلام آباد کی فرشتہ نے ساری قوم کو قصور وار ٹھرا دیا مگر ہم ٹھس سے مس نہ ہوئے بے حسی کی،لاقانیت کی مثال بن گئے۔ زمین تو نہ پھٹ سکی لیکن اسلام آباد کی فرشتہ نے اللہ کے فرشتوں کو بھی رلا دیا ہوگا. قصور کی زینب،گجر گڑھی کی اسماءاور اسلام آباد کی فرشتہ کی ان سنی صدا ؤں اورعرش کو ہلاتی چیخوں نے دل و دماغ پر ایسے ا نمٹ نقوش چھوڑ ے ہیں کہ کئی دنوں سے نیند آنکھوں سے دور ہے۔ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جارہا ہے کہ کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے؟

ایسے اندوہناک واقعات کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قوم کے لیڈران جو کہ خود بھی معصوم کلیوں کے والدین ہیں ان واقعات سے عبرت حاصل کرتے اور مجرموں کو گرفتار کر کے ایسی عبرت ناک سزائیں دیتے کہ آئندہ کوئی ایسی ناپاک سوچ والا اس بربریت کے بارے میں سوچتا بھی تو اس کی روح کانپ جاتی۔ لیکن افسوس کہ پہلے سابقہ حکومت کے افراد نے زینب کے والدین کو پریس کانفرنسوں میں بٹھا بٹھا کر اپنی کامیابی کی تشہیر کی اور اب فرشتہ کے معاملے پر بھی وہی روایتی تحقیقاتی کمیشن۔ آخر کیوں انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفع 22کا استعمال کرکے ان درندوں کو نشان عبرت نہیں بنایا جاتا؟

افسوس شیطان اور اس کی آلہ کار چند این جی اوز نے ان ارباب اقتدار کو الٹی راہ دکھلا دی۔انہوں نے دکھوں کا مداوا دکھ میں ہی بتا دیا۔زخموں کا علاج مزید زخمی کرنا تجویز کیا۔ بے حیائی کو بے حیائی سے مات دینے کی بات کی ۔ارباب اختیار بے قصور معصوم کلیوں کو گرفتار کرنے اور انہیں عبرتنا ک سزا دینے کے بجائے نصاب میں تبدیلی کی جانب راغب ہوگئےاور اسے ہی درندگی کا علاج سمجھ کرغور کے سمندر میں ڈوب گئے۔ یاد رہے آگاہی کے نام پر نصاب میں تبدیلی بے حیائی کو مزید فروغ دینے کے مترادف ہے۔اگر ایسا ہوا تو ہماری حالت مزید ابتر ہوجائے گی۔

ارباب اقتدار کو سمجھنا ہوگا کہ جنسی آگاہی کے نام پر نصاب میں تبدیلی ان مسئلوں کا حل نہیں۔انصاف کو عام کرنا ہوگا۔ سخت فیصلے کرنا ہونگے۔ ان معصوموں کے مجرموں کو سرعام سزائیں دینی ہوں گی۔ اسلامی نظام ہی ان معصوم کلیوں کی عصمتوں کا محافظ ہے ہمیں سمجھنا ہوگا۔

The post فرشتہ نے فرشتوں کو رلا دیا appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Xaeqjx

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی ،کام کرنا تو کوئی ان سے سیکھے!

لاہور داتا دربار خودکش دھماکے کے بعد خودکش بمباراورسہولت کار کی تلاش کے لیے پاکستانیوں کی نظریں سب سے پہلے جس ادارے کی طرف گئیں وہ سیف سٹیز اتھارٹی تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ لاہور چیرنگ کراس دھماکے کے بعد سے لیکر سہولت کاروں کی گرفتاری کا عمل لاہور سیف سٹی پراجیکٹ کے کیمروں کی مدد سے مکمل کیا گیا تھا اور ٹھیک اس باربھی داتا دربار دھماکے کے بعد سے لیکر سہولت کاروں کی گرفتاری کا عمل بھی سیف سٹی کے کیمروں کی مرہومنت ہی مکمل ہوا۔ لاہور سیف سٹی ساڑھے 13ارب روپے کا پراجیکٹ ہے جو کہ حجم میں اسلام آباد سیف سٹی پراجیکٹ سے 5گناہ بڑا پراجیکٹ ہے ۔ اس کے دو بنیادی مقاصد ہیں اور وہ ہیں(۱)تھانہ کلچرکو تبدیل کرنا (۲) کیمروں کی مدد سے شہر کی مانیٹرنگ کو یقینی بنانا ۔ اس پراجیکٹ کے تحت ٹریفک مینجمنٹ سسٹم پاکستان میں پہلی دفعہ متعارف کروایا گیا ۔اس مقصد کے لیے مواصلاتی رابطے کا جدید ترین نظام4 جی ٹیکنالوجی کااستعمال کیا جارہا ہے۔ پولیس کی گشت کرنے والی گاڑیوں پر بھی کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن کی مدد سے ان کی موجودگی کی اطلاع اوران کے متعلق آگاہی رہتی ہے اور یوں پولیس کے احتساب کو بھی بہتر بنایا جارہا ہے ۔اس کے علاوہ دوران آپریشن پولیس کے پاس موجود فور جی ہینڈ سیٹ کے ذریعے آپریشن کمانڈر کو موقع کی صورتحال بھی پتہ چلتی رہتی ہے۔

سیف سٹی پراجیکٹ حفاظتی اقدامات کے لیےنہایت موثر ہے ،لاہورشہر میں ٹریفک آگاہی کے لیے سڑکوں پر وی ایم ایس ایل ای ڈیزلگائی گئی ہیں جن کے مدد سے ٹریفک بارے عوام کو معلومات ملتی رہتی ہے ۔ان سکرینوں پر سڑک پر گاڑی چلانے کے قواعد وضوابط ،تصاویر کے ساتھ اردو اور انگریزی زبانوں میں پیغام چلتے نظر آتے ہیں جو بآسانی پڑھے جاسکتے ہیں یوں یہ نظام حادثات کی بڑھتی شرح میں کمی لانے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔

سیف سٹیز پراجیکٹ پنجاب میں انسداد دہشت گردی، ٹریفک مینجمنٹ سروسز اور جرائم میں کمی لانے میں مدد گار ثابت ہورہا ہے۔دنیا میں جہاں بھی سیف سٹیز پراجیکٹ لگائے گئے ہیں وہاں پہلے سال میں 25سے 30فیصد جرائم میں کمی دیکھنے میں آئی اوریہ کمی بڑھتے ہوئے 60سے65فیصد تک جا پہنچی ۔ سیف سٹیز پراجیکٹ نہ صرف لاہور شہر میں لگایا گیا ہے بلکہ پنجاب کے 9اضلاع میں اسی طرز کے پراجیکٹ لگائے جارہے ہیں جن میں فیصل آباد،راولپنڈی ،بہارلپور،ملتان،گوجرانوالہ ،سرگودھا،ننکانہ،شیخوپورہ اور قصور شامل ہیں۔لاہور میں پنجاب پولیس انٹی گریٹڈ کمانڈ کنٹرول اینڈ کمیونیکشن( پی پی آئی سی تھری) سنٹر قائم کیا گیا ہے اس سنٹر میں ایشیاء کی سب سے بڑی ویڈیو وال بنائی گئی ہے جہاں سے پورا شہر مانیٹر کیا جا رہا ہے ۔لاہور میں پی پی آئی سی تھری سنٹرکے لیے 8000ہزار سے زائد کیمرے نصب کیے گئے ہیں جن میں چاروں اطراف گھومنے والے ،گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پڑھنے والے ،رات کے اندھیرے میں اچھی اور صاف تصویر دینے والے اورفیس ریکگنائزیشن کیمروں کے علاوہ پی آر یو جو کہ پولیس تھانوں کی گاڑیوں میں کیمرے نصب کیے گئے ہیں، مختلف امور کی انجام دہی میں مدد گار ثابت ہورہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق بہت جلد پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی جدید پولیس یونیفائیڈ کمیونیکیشن اینڈ رسپانس (PUCAR-15) سسٹم پنجاب بھر میں شروع کرنے جارہی ہے ۔ پُکار15 پاکستان اور جنوبی ایشیا میں اپنی طرز کا واحد اور منفرد ایمرجنسی سسٹم ہوگا جس کے ذریعے پنجاب بھرسے آنے والی 15 ایمرجنسی کالز کو مرکزی نظام کے ذریعے سنا اور ان پر رسپانس کیا جائے گا۔ اس ضمن میں سیف سٹیز اتھارٹی نے پنجاب کے تمام 36 اضلاع کیلئے مخصوص سینٹرلائیزڈ کال سینٹر اور رسپانس میکنزم تیارکر لیا ہے۔ اس نظام کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب بھر کے پولیس افسران اورتمام 1200تھانے “Safe Police Network” کے تحت رابطے میں ہوں۔

ایک اندازے کے مطابق 3ماہ میں پورے پنجاب کا 15ایمرجنسی ڈیٹا تجزیے کیلئے تیا رہوگا اورہر ضلع کے جرائم اور پولیس رسپانس بارے تفصیلات میسر ہوں گی ۔اس طرح آئی جی پنجاب، تمام آرپی او/ ڈی پی او روزانہ کی بنیا د پر ہرایمرجنسی کال پررسپانس اور کارروائی کا جائزہ لے سکیں گے۔ پُکار15 کی بدولت عوام اپنی شکایات سوشل میڈیا کے ذریعے بھی درج کروا سکیں گے اور جلد ہی 15ایمرجنسی کال کو ابتدائی FIRکا درجہ مل سکے گا۔ پنجاب سیف سٹیزاتھارٹی کاایک اور بہت بڑا اقدام دیکھنے کو ملا اور وہ یہ کہ سیف سٹیز اتھارٹی نے شاہراہوں پر موٹر سا ئیکلوں اورآہستہ چلنے والی گاڑیوں کے لیے علیحدہ لین متعارف کروا دی ہے۔ ابتدائی طور پرمال روڈ اور کنال روڈ پر گرین لین بنائی گی ہےجس کے ذریعے لاہور کی شاہراہوں پر تیزرفتاراورآہستہ چلنے والی ٹرانسپورٹ جن میں موٹرسائیکل،بس،رکشہ،سائیکل ودیگر آہستہ رفتار سے چلنے والی گاڑیاں شامل ہیں کے لیے الگ ، الگ لین بنا نے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھا جاسکے۔ اس ضمن میں ابتدائی طور پر گرین لین کا پائلٹ پراجیکٹ مال روڈ، کینال روڈ سے شروع کیا گیا ہے جس میں چھوٹی گاڑیوں کو مال روڈ پر بائیں لین میں چلنے کا پابند بنانے کی کوشش کی جائیگی ۔

The post پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی ،کام کرنا تو کوئی ان سے سیکھے! appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2K8acp2

Tuesday, May 28, 2019

بھارتی مسلمانوں کی سیاسی ناکامی

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوری قوت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ تو کہتی ہے لیکن آج تک کشمیر اور کشمیریوں کو ان کے جمہوری حقوق دینے سے انکاری ہے۔ مودی جی کی بی جے پی نے انتخابات2019 میں کامیابی حاصل کی اور اس کامیابی کی مبارکباد کشمیریوں کو حریت رہنما موسیٰ ذاکر کی شہادت کی صورت میں دی۔ بی جے پی 1980میں قائم ہوئی۔ یہ سیاسی جماعت نام نہاد سیکولر بھارت کے چہرے سے نقاب ہٹا دیتی ہے۔ بھارت جہاں کسی وقت میں کانگریس سب سے بڑی جماعت تصور کی جاتی تھی اب وہاں کی سب سے بڑی جماعت بی جے پی ہے۔ بی جے پی معتصب ہندوؤں کا ایک گروہ ہے جس کا نظریہ INDIA FOR HINDUSہے۔

بابری مسجد کی شہادت ہو یا ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل عام اور مسلمانوں پر ظلم و ستم بی جے پی کا نام ہمیشہ سر فہرست رہا ہے۔

مودی جی کی انتخابات میں کامیابی پر جہاں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے انہیں مبارک باد دی ہے اور اپنی شکست تسلیم کی وہیں پاکستان کے کپتان جی عمران خان نے بھی انہیں مبارکباد دی۔اس مبارک باد کا مقصد شاید یہ تھا کہ بھارت کو مثبت پیغام دیا جائے کہ پاکستان بھارت سے اچھے تعلقات چاہتا ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام تھا لیکن بھارتی میڈیا کے مطابق مودی جی کی تقریب حلف برداری میں عمران خان کو دعوت نہیں دی جائے گی، اب خدا جانے بھارت کیا چاہتا ہے؟خیر یہ ایک الگ بحث ہے۔بھارت میں مسلمانوں کے لئے جہاں بی جے پی کی کامیابی اچھا شگن نہیں ہے وہیں پریشان کن بات یہ ہے کے بھارتی ایوانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔542نشستوں میں سے صرف 22پر مسلمان براجمان ہوں گے۔

مسلمان بھارت کی دوسری بڑی قوم ہے۔بھارت کی کل آبادی کا تقریبا 18فیصد مسلمان ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ بھارتی مسلمان اتحاد کے بجائے دیگر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔بھارت کی سیاسی جماعتوں نے شعوری طور پر مسلمانوں کو مذہبی سوالوں میں الجھائے رکھا ہے۔ کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کریکٹر، کبھی شاہ بانو کیس، کبھی تین طلاق تو کبھی اردو کو سیکنڈ زبان کا درجہ دینے کی باتیں۔ چالیس برس سے سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو انھیں سوالوں میں الجھائے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو ایک مذہبی فریم میں قید کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ ماضی میں کانگریس، سماجوادی، بہوجن سماج پارٹی اور دوسری جماعتیں بی جے پی کا خوف دلا کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرتی رہی ہیں جبکہ اقتدار میں آنے والی مسلم مخالف جماعت بی جے پی نے بھی مسلمانوں کو برائے نام نمائندگی دے رکھی ہے۔

دوسری جانب کل ہند مجلس اتحاد المسلمین یا جمعت علمائے ہند جیسی مسلم جماعتیں بھارتی سیاست میں ناکام اور محدود ہی نظر آتی ہیں۔مسلمانوں کی بھارتی ایوانوں میں نمائندگی میں دن بدن کمی کی وجہ بھارتی مسلمانوں کی تقسیم ہے۔کہیں کانگریس مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈراتی ہےاور انہیں یہ یقین دلاتی ہے کہ کانگریس ہی مسلمانوں کی نمائندگی کرے گی اور انہیں برابری کے حقوق دلائے گی تو دوسری جانب بی جے پی اپنے کئے پر مسلمانوں سے معافی مانگ کر انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ بی جے پی ایک طاقتور جماعت ہے اگر مسلمان اس کا ساتھ دیں تو ان کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ مجلس اتحاد المسلمین کانگریسی اور بی جے پی کے مسلمان رہنماؤں کی مخالفت کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتیں اور جمیعت بھی ایک مخصوص طبقے تک ہی محدود ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ آج بھی بھارت میں وہی ہورہا ہے جو تقسیم ہند کے وقت ہوا۔ تب انگریزوں نے Divide and Ruleکا فارمولا اپنا کر ہندوستان پر حکومت کی اور آج ہندو اس فارمولے کی مدد سے مسلمانوں پر حکومت کر رہے ہیں اور انہیں مسلسل دبا رہے ہیں۔ کبھی مسلمان گائے کا گوشت کھانے پر قتل کردیا جاتا ہے تو کبھی جے ہند کا نعرہ نہ لگانے پر۔ کبھی بابری مسجد شہید کرکے معافی کا لا لی پاپ دے کر مسلمانوں سے ووٹ لیا جاتا ہے تو کبھی دوسری سیاسی جماعت کا خوف دلا کر۔

تقسیم ہند کے وقت مولانا آزاد کی نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اس وقت بھی کانگریس نے انہیں استعمال کیا اور محمد علی جناح کو ناکام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ پاکستان کے مخالف کسی حد تک اس کوشش میں کامیاب ہوئے اور پاکستان ایک بڑا اور مستحکم پاکستان نہ بن سکا۔ محمد علی جناح ؒکی بہترین سیاسی بصیرت ہی تھی کے آج پاکستان کے مسلمان بھارت کےمسلمانوں سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

بھارتی مسلمان رہنماؤں کو تقسیم ہند میں اپنے بڑوں کی ناکامیوں کو یاد کرنا ہوگا اور بھارتی ہندوؤں کی سازشوں کو سمجھنا ہوگا۔ مسلمان رہنما ؤں کو مختلف سیاسی جماعتوں میں بٹنے کے بجائے اپنے میں سے ایک قائد کا انتخاب کرنا ہوگا اور تمام جماعتوں سے وابستہ مسلمانوں کو اس کی سرپرستی میں ایک ہونا ہوگا۔ جو ہونا تھا ہوگیا لیکن بی جے پی کی 5سالہ حکومت میں مسلمانوں کو مسلم سیاسی اتحاد بنا کر آئندہ انتخابات کی بھرپور تیاری کرنا ہوگی اگر ایسا نہ کیا گیا تو بھارت کے مسلمان مزید پستی کا شکار ہوں گے۔

The post بھارتی مسلمانوں کی سیاسی ناکامی appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2HFuXqo

Monday, May 27, 2019

جنگ آزادی مئی ۱۸۵۷ء اور میوقوم

جس قوم نے مادر وطن کوغیروں کی غلامی سے بچانے کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دیں اورجب غداروں کی ضمیر فروشی کے نتیجے میں ملک کو غیروں نے اپنا غلام بنا لیا تو جس قوم نے زنجیر غلامی کوتوڑنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور سب سے زیادہ جانی اورمالی نقصان برداشت کیا،جس کی جدی پشتی ملکیتی زمینیں اور جاگیریں انگریزوں نے اس لئے ضبط کر لیں کہ اس قوم نے جنگ آزادی میں انگریزوں کو بہت نقصان پہنچایاتھا، اس کا ذکرتاریخ میں کہیں نہیں ۔ اس قوم کے ہیروز کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ لکھنے والوںکواس کی قوم کا نام لکھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ میرا اشارہ میو اورمیواتیوںکی طرف ہے۔

۱۸۵۷ء کے غازیوں میں سب سے بڑا نام بھونری کے جنرل بخت کا ہے۔جو میوات میں بھونری کی پہاڑیوںمیں دفن ہے۔انگریز آخر دم تک جس کا پتہ نہ لگا سکے۔اگر ہمار ے بزرگ ہمیں اس بات سے آگا ہ نہ کرتے کہ جنرل بخت میو تھا ۔وہ اور ایک شہزادہ (جسے کسی شہزادی نے یہ کہہ کر اس کی جھولی میں ڈال دیا تھا کہ جنرل میرا بیٹا آپ کے پاس امانت ہے)بھونری کی پہاڑیوںمیں دفن ہیں،اگر ظہیر دہلوی دلّی کاآنکھوں دیکھا حال میں جنرل بخت کا حلیہ ٹھیٹ میو کابیان نہ کرتا اور عشرت رحمانی اپنی ۵۷ء کی تاریخ میںجنرل بخت کی زبان سے نکلا ہوا ٹھیٹ میواتی زبان کایہ فقرہ نقل نہ کرتا کہ’’ہم جا کی مونڈ ی پہ پنہاں دھر دیاں اُو باشاہ بن جاوے ‘‘یعنی ہم جس کے سر پر اپنی جوتی رکھ دیتے ہیں وہ بادشاہ بن جاتا ہے‘‘تو ہمیں شاید کبھی معلوم نہ ہوتاکہ جنگ آزادی ۵۷ء کا عظیم ہیرو جنرل بخت میوتھا۔ یار لوگ تو اسے بے دھڑک روہیلہ پٹھان لکھتے ہیں ۔اس فقرے سے متعلق واقعہ مختصر یہ ہے کہ جب الٰہی بخش اورحکیم احسن اللہ جیسے غداروں کی سازشوںسے انگریز دہلی پر قابض ہو گئے تو جنرل بخت،بادشاہ بہاد ر شاہ ظفرکے پاس گیا اور اسے دہلی چھوڑ کرکسی اورمحفوظ جگہ سے لڑائی جاری رکھنے کامشورہ دیا۔بادشاہ نے آمادگی ظاہر کی اوراگلے دن ہمایوںکے مقبرے میںملنے کو کہا۔انگریزوں نے الٰہی بخش کے سپرد یہ کام کیا تھا کہ بادشاہ کو انقلابیوں کے ساتھ جانے سے روکے۔ جنرل بخت کے جاتے ہی وہ بادشاہ کے پاس آیااوربڑھاپے،برسات،بیگمات ،شہزادے، شہزادیوںاور سفر کی صعوبتوں کا ایسا نقشہ کھینچا کہ بادشاہ تذبذب کاشکار ہو گیا۔اس پر اس نے یہ وعدہ کیا وہ انگریزوں سے بادشاہ کی صلح کرا دے گا۔اس پرایک خواجہ سرا نے کہا ’’حضور۔۔صاحب عالم ا لٰہی بخش تو انگریزوں سے ملے ہوئے ہیں ،آپ بخت خاں بہادر کی گذارش پر توجہ فرمائیے۔مرنا اور تکلیف اٹھانا تو زندگی کے ساتھ ہے ‘‘بادشاہ نے اس کے کہے پر توجہ نہ دی۔ الٰہی بخش ہر بات کی اطلاع انگریزوںکو دے رہا تھا۔حکم آیا کہ جیسے بھی ہو ۲۴ گھنٹے تک بادشاہ کو روکو ۔ جنرل بخت اگلے دن بادشاہ کے پاس آیا تو الٰہی بخش بھی موجود تھا۔جب اس نے دیکھاکہ بادشاہ ہتھے سے اکھڑنے والا ہے تو اس نے جنرل بخت پرچوٹ کی کہ لارڈ گورنر صاحب لگتا ہے آپ جہاںپناہ کی آڑمیں خود حکومت کرنا چاہتے ہیں‘‘اس پر جنرل بخت نے غصے میں تلوار کھینچی اورکہا ’’ہم جا کی منڈی پہ پناہ دھر دیواں او باشاہ بن جاوے ہے‘‘.

اس پر بادشاہ نے کہا کہ بہادرہمیں تیری ہر بات کا یقین ہے مگر جسم کی قوت نے جواب دے دیا ہے۔ ہم اپنامعاملہ تقدیرکے حوالے کرتے ہیں۔مجھ کو میرے حال پر چھوڑ دو‘‘جنرل بخت چلا گیا،الٰہی بخش کی مخبری پر ہڈسن فوجی دستے کے ساتھ گرفتار کرنے کے لئے ہتھکڑیاں لے کرآیاتو بادشاہ کی آنکھیں کھلیں کہ اس ساتھ دھوکا ہو گیا۔اس نے کہا،بخت کو بلاؤ مگر تب بخت دور جا چکا تھا۔

۱۸۵۷ء میں دلی کے جنوب میں سرائے لاٹ سے لے کر الور تک اور متھرا سے لے کر نار نول تک میوات تھا۔یہی وہ علاقہ تھا جو انگریزوں کے لئے قبرستان بن گیا۔ میوات کا ایک ایک گاؤںانگریزکی تربیت یافتہ ،منظم ،جدید ترین اسلحہ سے لیس فوج کے لئے سخت میدان جنگ ثابت ہوا۔ بریگیڈیر جنرل شاور کے الفاظ میں’’مجھ پر ہر اس گاؤںمیں حملہ ہوا جہاں سے میں گذرا۔ مجھے دشمنوںکے خلاف لگاتار ہوشیار رہنا پڑا‘‘میواتی کسانوں نے ہل کے دستہ کی جگہ تلوار کا دستہ پکڑ لیا اور باز کی طرح فرنگی افواج پر ٹوٹ پڑے پہلے سوہنا اور تاؤڑو کے درمیان ایڈن سے لوہا لیا۔بعدازاں نوح میں انگریزوں کا صفایا کیا۔ رائے سینا میں کلیوفورڈ کاسر قلم ہونے سے انگریز فوج حیرت زدہ ہو گئی۔ گھاسیڑہ ،روپڑا کا،مَہُو،فیروز پور،دوہا،پنگواں ہوڈل میں انگریز فوج کو وہ سبق سکھایا کہ انگریز فوج بھی ان کی بہادری کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔ لارڈ کیننگ کے الفاظ میں ’’میوقوم نے مسلمان بادشاہوںکو بھی تنگ کیا تھا،ہمیں تو کچھ زیادہ ہی پریشان کیا ہے‘‘ اس کے علاوہ اندور ، گوالیار ،علی گڑھ،الٰہ آباد ،ناگپور،جھانسی، بجنور، بلند شہراور پیلی بھینت کے میواتیوں نے بھی انگریزوں کوناکوں چنے چبوائے۔اگرچہ پٹیالہ ،جیند، نابھا،الور، گوالیار ،کوٹہ،میواڑ، مارواڑاورجنوب کی بیشتر ریاستوں کے حکمرانوں نے انگریزوں کاساتھ دیایا الگ تھلگ رہے ،اس کے باوجود ان علاقوں میں باغی عوام کودبانے کے لئے انگریزوں کوایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑا۔سکھ ، مراٹھے ،راجپوت،مغل،ترک ،پٹھان، گور کھا ،جاٹ اور میو برادری نے بڑ ی جانبازی دکھائی مگر فرنگیوں کی سیاست، منصوبہ بندی اور جدید ہتھیار ہندوستانیوں پرجتنے بھاری پڑے، اس سے زیادہ غداروں اور قوم فروشوں نے انقلابیوں کی ناکامی اور انگریزوںکی کامیابی میں اپنا گھناؤنا کردار ادا کیا ۔دلی کے جنوب میں واقع اور ہریانہ کے ساتھ مشرقی راجستھان کے الور اور بھرت پور اضلاع میںپھیلے ہوئے میوات کے عوام نے انگریزوں سے ملک کو بچانے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دی ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے معروف میواتی شہیدوںمیں پننگواں کا سالار صدرالدین جو سقوط دہلی کے بعد بھی کوئی تین ماہ تک انگریزوں کا مقابلہ کرتا رہا،یہاں تک اس کے بیٹے اورپھر خود بھی شہید ہوگیا۔ دلی کا میجر حور خاں، اندورکا سعادت خاں میواتی،الٰہ آباد کا مولوی لیاقت علی،پیلی بھینت کا علی خاں میواتی،رائے سینا کا علی حسن خاں میواتی ،الور کالعل بہادر خاں میواتی اوربسئی کھوڑ کا کالے خاں توپچی (جس کی توپ کے بے خطا گولوں نے انگریز کو چھٹی کا دودھ یا دلا دیا، جب تک وہ کشمیری دروازے پر ڈ ٹارہا،اس کی توپ گولے اگلتی رہی اور انگریزوں کو دلی میں داخل ہونے کی جرأت نہ ہوئی۔جب غداروں نے اپنے انگریزآقا کے کہنے پر بارود میں رائی ،ریت اورپانی ملا دیا اوربارود کی جگہ پالش شدہ باجرہ بھجوایاجانے لگا اور پھر آخر ۷، اگست ۵۷ء کوبارودخانہ جو شمرو بیگم کی حویلی واقع محلہ چوڑی دالان میں تھا اڑا دیا گیا تو کالے خاں سمجھ گیا کہ اب سقوط دہلی یقینی ہے وہ بے خطا گولہ انداز مایوس ہو کراسی رات واپس میوات اپنے گاؤں بڑ میںلوٹ آیا۔ ان غدار وں میں بادشاہ کے سمدھی الٰہی بخش،وزیر حکیم احسن اللہ جیسے لوگ شامل تھے جن کو موقع پر پکڑے جانے کے با وجودبادشاہ ہر باربچالیتے تھے۔ اس بات نے کالے خاںجیسے بہادروں کومایوس کر دیا۔ہندوستان پر قبضہ کے بعد فرنگی حکمرانوںنے انگریز فوج کے افسر دلّی کے اسسٹنٹ کلکٹرکلیفورڈ کی کمان میں کالے خاں کی تلاش میں فوج کا ایک دستہ بھیجا ۔میوات کے قصبہ رائے سیناکے مقام پرآمنا سامنا ہوا ۔بے خبری میں کالے خاںکلیو فورڈ کی گولیوں کا نشانہ بنا مگرزمین پرگرے ہوئے بہادر میو نے اس پر گولی چلائی جواس کا دل چیرتی ہوئی نکل گئی اوروہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ اس لڑائی میںکالے خاں دھو کے سے مارا گیا مگر انگریزی فوج کاایک سپاہی بھی بچ کر نہ جاسکا۔

میو قوم کو اس وطن پرستی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ہندوستان میں انگریزوں کی مکمل عملداری کے بعدانگریزوں نے میوات کو نشانے پر رکھ لیا ۔ بریگیڈئر جنرل ساورس نے سونا اور تاؤڑو کے علاقوںمیں کوئی تین ماہ تک قتل و غارت کا بازار گر م کیا۔اس نے بابر کی طرح میوات میں آگ لگا کر سینکڑوںگاؤں کو خاکستر کیا۔بابر سے پہلے بلبن کے ہاتھوں میوات کی تباہی تاریخ کا سنگین حادثہ ہے۔۵۷ء کی جنگ آزادی میںراسینہ ، سوہنہ ، تاؤڑو اور نوح میوات میں خصوصی مراکز تھے۔جہاں انگریزوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ہندوستان پر قبضے کے بعدانگریزسرکارنے دوسرے قصبات کے ساتھ ان کی زمینیں بھی بحق سرکارضبط کر لیں۔ مکمل عملداری کے بعد راسینہ اور اس کے متعلقہ دیہات نو نہرہ ، محمد پور ، سانپ کی ننگلی،ہریا ہڑہ،بائی کی،ہرمتھلہ وغیرہ جو میووں کی بسویداری میں تھے ، بحق سرکار انگلشیہ ضبط کر لئے گئے۔میوآج تک ان دیہات میں بطور مزارع کاشت کرتے ہیں۔ان کے علاوہ اور بہت سے دیہات کی زمینیں بحق سرکار ضبط کر لی گئیں۔راسینہ کی بیشتر آبادی پاکستان چلی گئی مگر وہاں بھی ان کو زمینیں نہیں ملیں۔ہندوستان کی آزادی کے بعدیہ سلوک ان لوگوں سے اپنوں کے ہاتھوںہواجنہوںنے وطن کی آزادی کے لئے میدان جنگ میںلاکھوں جانیں قربان کیں ،ان گنت لوگوںکو پھانسی دے دی گئی۔بعد میں انگریز سرکار نے کسی مصلحت کے تحت سارا ریکارڈ جلا دیا۔پھانسی دی جانے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔
انتہائی شرم کامقام ہے کہ جن غدار، وطن فروشوںکو غداری کے صلے میں جاگیریں ملیں وہ آزادی کے بعد بھی ان کے مالک رہے اورآج بھی ان کی اولادیں ان جاگیروں کی مالک ہیں اور جن وطن پرستوں کی جدی پشتی جاگیروں کو غاصب انگیریز اپنے زر خریدوں کو دے گیا وہ آزادی کے بعد بھی ان کولوٹائی نہ گئیں۔چاہیئے تو یہ تھاکہ جن وطن پرستوںسے انگریزوں نے ان کی جائیدادیںچھینی تھیں ، آزادی کی بعد نہ صرف یہ کہ ان کی جائیدادیںان کو واپس کی جاتی بلکہ ان کی قربانی کے صلے میںان کو مزید انعام سے نوازا جاتا اورغداروں سے ان کے ناجائزآقاؤں کی بخشی گئی جائیدادیں چھین لی جاتیں ۔ مگر ایسا نہیںہوا ۔یہی نہیں میوات کو پنجاب اور راجستھان میں بانٹ دیا گیا۔ بعد ازاںپنجاب کی جگہ ہریانہ نے لے لی۔میوات کے علاقہ کو الور اور بھرت پور ریاستوں نیزگوڑ گانواں اورمتھرا ضلعوںمیںتقسیم کر دیا گیا۔دلّی کے دیہی علاقے کے سیکڑوںدیہات کو اجاڑ دیا گیا۔بعد ازاں وائسرائے ہاؤس کی تعمیر کے بہانے پانچ چھ گاؤں کونیست ونابود کر دیا گیا۔ان کی زرعی زمینوں پرآر کے پورم،ساؤتھ ایکس ٹینشن اور کناٹ پیلس کو بسا دیا گیا۔ارد گرد کے سینکڑوں گاؤں کو جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔میووںکو میوات سے باہر لے جا کر پھانسیاں دی گئیں اوربعد میں ریکارڈ جلا دیا گیا۔

میو مجاہدین کی بہادری کو انگریزوں نے تو تسلیم کیا ہے جنکے خلاف وہ لڑے مگر ہندوستانی مورخوں کو ان پرتحقیق اور تحریر کی توفیق نہ ہوئی۔مجاہدین کے پورے کے پورے گاؤںجلا دیے گئے ، زمینیں بحق سرکار ضبط کر لی گئیں جو آزادی کے بعد ان کو واپس نہیں کی گئیں۔ دونوں ملکوں میںمجاہدین آزادی کے ساتھ جو سلوک ہواکیا و ہ وطن فروشی اور غلامی کی ترغیب دینے کی طرح نہیں۔دوبا رہ تقسیم کیا جانے والا میوات آج تک تقسیم کے اس درد سے تڑپ رہا ہے۔

میو قو م کی جن قربانیوں کی تاریخ لکھنے کے لئے ہزاروں صفحات بھی کم پڑتے ہوں ا ن کوخورشید مصطفٰے زیدی اپنی کتاب جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں چند سطروںمیں یوں بیان کر کے اپنا فرض ادا کر دیتا ہے:’’شہزادے (فیروز شاہ) کے ساتھی ۶ ،اکتوبر کو آگرہ میں داخل ہوئے مگر چار دن بعد دہلی سے انگریزی فوجیںگر تیہڈ کی رہنمائی میںپہنچیں اور انقلابیوں کو منتشر ہونا پڑا۔فتح پور سیکری کا سردارلال خاں میواتی بھی کہا جاتا ہے کہ شہزادے سے آملا تھا۔فتح پور سیکری کے میواتی کافی عرصہ تک بغاوت کرتے رہے۔بالآخرفتح پور سیکری جلا دیا گیا اور ۴ فروری ۵۸ء کوآخری پارٹی نکالی جا سکی۔میواتی تباہ کر دیے گئے ‘‘

۹،ستمبر ۵۷ء سقوط دہلی سے ۴فروری ۵۸ء تک تقریبا ۵ مہینے بنتے ہیں۔ گویا میو دہلی پر قبضہ ہونے بعد بھی ۸،۹ مہینے تک انگریزوں کے خلاف جنگ کرتے رہے۔ کیونکہ آگرہ کے بعد بھی میو اندرون میوات انگریزوں سے بر سر پیکا رہے۔یہ معمولی بات نہیں۔میوقوم کاجرم اپنی مٹی سے محبت اور غلامی سے نفرت ہے۔جس کی سزا وہ آج تک پا رہی ہے۔

بھارت سرکار نے میوات کو ادھر ادھر کے علاقوںمیںبانٹ کر اسے بے نشا ن کرنے کی کوشش کی ہے۔ایک چھوٹاسا علاقہ جسے ضلع میوات کا نام دے کر میو قوم کی اشک سوئی کی گئی تھی ،سنا ہے مودی سرکارکویہ نا م بھی چبھنے لگا ہے اور میوات کی بجائے اسے کوئی اور نام دینے کی سازش کی جا رہی ہے۔ الحذر اے چیرہ دستاں الحذر۔
٭٭٭

The post جنگ آزادی مئی ۱۸۵۷ء اور میوقوم appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2XaLdFc

Saturday, May 25, 2019

ہندوستان میں ہندوتا کا عذاب جاری رہے گا؟

نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیا جنتا پارٹی نے بھاری اکثریت سے ہندوستان کی لوک سبھا کے انتخابات جیت لئے ہیں۔ ان انتخابات میں بھارتیا جنتا پارٹی کو پچھلے عام انتخابات سے بھی کہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک غیر کانگریس پارٹی کو اتنی بھاری اکثریت سے انتخابی فتح حاصل ہوئی ہے جو ہندوستان کے مستقبل کے لئے بے حد اہم قرار دی جارہی ہے۔

یہ انتخابی جیت در اصل اُس کٹر ہندو قوم پرستی، ہندوتا کی جیت ہے جسے نریندر مودی نے پچھلے پانچ سال کے دوران فروغ دیا ہے اور دوسرے معنوں میں یہ شکست ہے ہندوستان میں سیکولرازم اور اس کی علمبر دار کانگریس پارٹی اور کمیونسٹوں کے زیر قیادت بائیں بازو کی قوتوں کی۔ ستم ظریفی ہے کہ کانگریس پارٹی نے بھی نریندر مودی کے ہندوتا کا ڈٹ کر سیکولرازم کے جھنڈے تلے مقابلہ کرنے کے بجائے ہندو مت کا سہارا لیا اور کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بھی اپنے آپ کو جنیو دھاری ہندو (وہ ہندو جو جنیو کا دھاگہ پہنتا ہے)ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی اور مندروں میں پوجا پاٹھ کرنے کی مصلحتی تدبیر اختیار کی۔

نتیجہ یہ رہا کہ بھارتیا جنتا پارٹی کے زیر قیادت NDA اتحاد کو جس میں شیو سینا، جنتا دل یوناٹیڈ، شرومنی اکالی دل اور آل انڈیا ڈی ایم کے شامل ہیں ان انتخابات میں 45فی صد ووٹ ملے۔

نریندر مودی کی جیت کے جہاں اور کئی اسباب ہیں وہاں بنیادی طور پر گذشتہ فروری میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پلواما میں ہندوستانی فوج کے قافلے پر خود کش حملہ تھا جس کے بعد ہندوستان نے پاکستان پر جو فضائی حملہ کیا گو وہ یکسر ناکام رہا لیکن نریندر مودی نے نہایت عیاری سے یہ نعرہ لگا کر کہ ”گھر میں گھس کر ماریں گے“عوام کے جذبات بھڑکائے اور یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے خلاف کوئی خم ٹھوک کر کھڑا ہونے والااور ملک کی سلامتی کا ڈٹ کردفاع کرنے والا لیڈر ہے تو وہ نریندر مودی ہے۔ پھر انہوں نے ہندوستان کے عوام پر یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ نریندر مودی ہی ہیں جنہوں نے عالم اقوام میں پاکستان کو دھشت گردوں کا مدد گار اور ان کا گڑھ ثابت کیا ہے۔ یوں نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جذبات بھڑکا کر ملک کے ہندوؤں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی اور اسی بنیا د پر مغربی بنگال میں بھارتیا جنتا پارٹی کی سخت مخالف ممتا بینرجی کی ترینمول کانگریس کو زبردست زک پہنچائی۔

ممتا بینرجی کو اس قدر اعتماد تھا کہ وہ یہ دعوی کرتی تھیں کہ وہ نریندر مودی کو سیاست سے نکال باہر کر دیں گی۔ مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت ممتا بینرجی کی حامی ہے، اس تعلق کو توڑنے کے لئے بھارتیا جنتا پارٹی کے صدر امیت شاہ نے بڑے پیمانہ پر فرقہ وارانہ فساد اور کشیدگی بھڑکانے کی کوشش کی تھی۔ مغربی بنگال میں جہاں تیس سال تک کمیونسٹ مارکسسٹ کی حکومت رہی اور پچھلی دو دہایوں سے ممتا بینرجی کی حکمرانی رہی ہے وہاں اب بھارتیا جنتا پارٹی کی کامیابی بنگال کی سیاست کی اہم سنگ میل ہے جس کا بلاشبہ ہندوستان کے ان علاقوں پر بھی اثر پڑے گا جہاں ابھی بھارتیا جنتا پارٹی کے سیاسی قدم نہیں جمے ہیں۔

انتخابی مہم کے دوران، نریندر مودی کی تمام تر کوشش یہ رہی کہ ان کے پانچ سالہ دور کی حکومت کی کارکردگی پر بحث نہ ہواور نہ ملک کو درپیش سنگین اقتصادی مشکلات کی بحث میں عوام کو الجھایا جائے۔ کانگریس نے صرف رافیل طیاروں کی خریداری کے اسکینڈل کو اچھالا اور نوٹ بندی کی ناکام پالیسی،بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے مسئلے اور کسانوں کے سنگین مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہی۔ کانگریس کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر رہا کہ راہول گاندھی اپنے دادا فیروز گاندھی کی طرح پارسی نہیں بلکہ جنیو دھاری ہندو ہیں۔

راہول گاندھی نے ہندوستان کے نئے حقائق کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھا اور اس کے مطابق حکمت عملی وضع نہیں کی۔ بنیادی حقیقت یہ ہے کہ نہرو کے دور سے اب تک ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کا بے پناہ اثر بڑھا ہے او ر یہ علاقائی قوتیں ہمیشہ کانگریس کو جو مرکز میں بر سر اقتدار رہی ہے اپنا رقیب سمجھتی رہی ہیں، راہول گاندھی نے اس نئی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے علاقائی جماعتوں سے مفاہمت اور ان سے اتحاد پر زور نہیں دیا اور نہ بھارتیا جنتا پارٹی کے خلاف ایک مضبوط ،متحدہ محاذ قائم کرنے کی کوشش کی، انہوں نے اکیلے ہی انتخابی جنگ لڑنے کو ترجیح دی ، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کا مقابلہ بھارتیا جنتا پارٹی سے ہے جس کے پیچھے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہزاروں رضاکاروں کے دستے ہیں۔

راہول گاندھی نے لوک سبھا کے انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے اور مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے مسلم امیدواروں کو کھڑا کرنے سے عمدا اجتناب برتا کیونکہ نریندر مودی ہمیشہ کانگریس کو مسلمانوں کا حامی قرار دیتے رہے ہیں او ر یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ کانگریس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے، یہی وجہ ہے ہندو ووٹروں کی ناراضگی کے پیش نظر راہول نے مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے یا مسلم امیدوارکھڑے کرنے میں تردد کیا ہے۔

2017 میں اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں نریندر مودی کی بنیادی حکمت عملی ہندو اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی رہی ہے جس کی بنیاد پر بھارتیا جنتا پارٹی نے ایک طرف ہندو ووٹوں کی حمایت حاصل کی اور ریاست میں بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت قائم کی، دوسری جانب اس حکمت عملی کے بل پر مسلمان سیاسی میدان سے بڑی حد تک خارج ہوگئے۔ پچھلے انتخابا ت کے بعد ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہو کر صرف ۴۱ اراکین اسمبلی تک رہ گئی جب کہ اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد تین کروڑ تیراسی لاکھ ہے یعنی ۹۱ فی صد۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کو بھارتیا جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے اقتدار حاصل کرنے کی سخت سزا ملی ہے۔ کشمیر کے عوام کی بھاری تعداد نے لوک سبھا کے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔اس کے باوجود فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے لوک سبھا کی تین نشستیں حاصل کی ہیں اس کے ساتھ بھارتیا جنتا پارٹی نے بھی تین نشستیں حاصل کی ہیں۔ نتیجہ یہ رہا کہ کشمیر میں کانگریس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کا صفایا ہوگیا ہے۔ ادھم پور سے مہاراجہ ہر ی سنگھ کے پوتے جو کانگریس کے امیدوار تھے بری طرح سے ہار گئے ہیں۔

عام انتخابات میں نریندر مودی کی غیر معمولی جیت کے پیچھے بڑے بڑے سرمایہ داروں اور امبانی ایسے بڑے تجارتی گھرانوں کی حمایت کار فرما رہی ہے اور اسی کے ساتھ میڈیا کا اہم رول رہا ہے خاص طور پر اس میڈیا کا جسے عام طور پر گودی میڈیا کہا جاتا ہے یعنی بھارتیا جنتا پارٹی کی گود میں بیٹھا میڈیا جو نریندر مودی کو انتخابات میں جتانے کے لئے پیش پیش تھا۔

بلا شبہ پچھلے پانچ برس کے دوران نریند ر مودی نے کٹر ہندوقوم پرست ہندوتا کے ذریعہ ہندوستان کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے، جہاں گائے کے نام نہاد محافظوں نے آزادانہ طور پر مسلمانوں کی جانیں لینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مسلمانوں کو زبردستی ہندو مت اختیار کرنے کے لئے ”گھر واپسی“ کی مہم شروع کی ہے۔ مسلمانوں کو غیر ملکی حملہ آور قرار دے کر ان سے کہا گیا ہے کہ وہ یا تو ہندو مت اختیار کر لیں یا یہ سرزمین چھوڑ دیں جس پر ان کے آباو اجداد پشتہا پشت سے آباد تھے۔غرض نریندر مودی کے پچھلے پانچ سال کے دور میں مسلمان ایک دائمی عذاب میں مبتلا رہے ہیں۔ اگلے پانچ برس میں اس عذاب سے نجات کی راہ نظر نہیں آتی۔

The post ہندوستان میں ہندوتا کا عذاب جاری رہے گا؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Mah47X

Thursday, May 23, 2019

پاکستان میں صحافی اور صحافت غیر محفوظ

خیبرپختونخوا ہ سمیت ملک بھر میں صحافیوں کو تحفظ دینے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ،صحافیوں کے اغواء،قتل،انہیں دھمکانے اور تشدد کے واقعات معمول بن گئے ہیں۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لئے ٹھوس اقدامات نا ہونے سے صحافی غیر محفوظ اور خطرات سے دوچار ہیں ۔

پاکستان خطرناک کیوں ؟

پاکستان کا شمار صحافیوں کے لئے خطرناک ملکوں میں ہوتا ہےجہاں پر صحافیوں کو فرائض کی انجام دہی میں لاتعداد مسائل اور خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 27 صحافیوں کا قتل ہوا جن میں 7 صحافی صوبہ خیبر پختونخواہ میں قتل کئے گئے۔2002ء سے لیکر اب تک ملک بھر میں 73صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے، انٹر میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2000 ء سے اب تک خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 42 صحافی قتل ہوئے ۔ ان صحافیوں میں چار صحافی سوات کے بھی ہیں جنہیں کشیدگی کے دوران قتل کیا گیا ۔ سوات کے ایک صحافی عبدالعزیز شاہین کو طالبان نے اغواء کیا جو سیکورٹی فورسز کی جانب سے فضائی حملے میں جاں بحق ہوا۔

عبدالعزیز شاہین کا اغواء اور شہادت

عبدالعزیز شاہین سوات کی تحصیل مٹہ جو طالبان کا گڑھ تھا میں روزنامہ آزادی اور خبرکار کے ساتھ منسلک تھے،2008ء میں شدت پسندی بڑھی تو اس کا اثر صحافیوں پر بھی ہونے لگا، طالبان کے خلاف خبریں چلتی تو صحافیوں پر پابندیاں لگادی جاتی، انہیں اغواء اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی، دہشت گردوں کے اس ظالمانہ رویے کا شکار صحافی عبدالعزیز شاہین بھی ہوا۔ شاہین کے قریبی ساتھی اور تحصیل مٹہ میں روزنامہ آزادی کے بیورو چیف خائستہ باچا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شاہین ایک بہادر اور نڈر صحافی تھے،”طالبان کے باربار دھمکانے کے باوجود وہ حق اور سچ لکھتے نہیں کتراتے تھے ، اگست 2008 میں اُن کے گھر پر طالبان نے حملہ کیا اور اُن کی گاڑی نذرآتش کردی،شدت پسندوں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ پولیس میں رپورٹ درج کرانا جوئے شیر لانے کے برابر ہوتا “۔

خائستہ باچا مزید کہتے ہے کہ عبدالعزیز شاہین 27 اگست 2008 کو چپریال کے علاقے میں شدت پسندوں کے ہاتھوں اغواء ہوئے اور طالبان کے ہیڈ کوارٹر علاقہ گٹ پیوچار میں قید کرلئے گئے۔

سیکورٹی ذرائع اور سرکاری ریکارڈ کے مطابق 29 اگست 2008 کو علاقہ گٹ پیوچار میں شدت پسندوں کے اُسی ٹھکانے پر فضائی حملہ ہوا جہاں پر عبدالعزیز شاہین قید تھے ۔ اِس حملے میں دیگر بیس افراد سمیت عبدالعزیز شاہین کی بھی موت ہوئی ۔

ایف آئی آر درج ہوئی نا ہی تحقیقات ہو پائی

سوات میں جاری کشیدگی کے دوران حکومتی عملداری مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی،سرکاری عمارات پر بھی شدت پسندوں کا قبضہ تھا جبکہ پولیس اسٹیشن کو طالبان اسٹیشن کا نام دے دیا گیا تھا ۔ ایسے حالات میں طالبان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا یا ان کے خلاف بات کرنا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔ یہی وہ اسباب تھے جس کے باعث صحافی عبدالعزیز پر ہوئے حملے اور ان کے اغواء کی نہ تحقیقات ہو پائی اور نا ہی کسی نے رپورٹ درج کی۔

اس حوالے سے مٹہ پولیس اسٹیشن کے ایک پولیس آفیسر نے بتایا کہ 2008 میں علاقہ مکمل طور پر طالبان کے کنڑول میں تھا،حکومتی مشینری ٹھپ ہو کر رہ گئی تھی”ادارے مفلوج تھے اور زیادہ تر پولیس اہلکار طالبان کے ڈرسے مستعفی ہو رہے تھے ”

عبدالعزیز شاہین کے بڑے بھائی جبار خان نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت ہر طرف طالبان کا راج تھا ، پولیس اسٹیشن بھی ان کے قبضے میں تھا اور حکومتی اداروں کا نام و نشان تک نہیں تھا ،ہم چاہ کر بھی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی کے متحمل نہ تھے ” نہ تو اغواء اور حملے کی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ بعد میں کسی نے تحقیقات کرنے کی زحمت کی ، ہمیں علم تھا کہ کوئی سراغ نہیں ملنے والا اسی لیےہم نے چھپ رہنا ہی بہتر سمجھا ”

جبار خان نے مزید کہا کہ امن کی بحالی اور متاثرین کی سوات واپسی کے بعد بھی شاہین کے کیس میں کوئی پیش رفت ہوئی اور نا ہی کسی نے تحقیقات آگے بڑھائی ” ہمارے اپنے گھر میں فوجی چوکی بن گئی تھی جس کو کشیدگی کے دوران کافی نقصان پہنچا تھا، سیکورٹی اداروں اور حکومت نے ہمارے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔” انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے تین لاکھ روپے معاوضہ دیا گیا جبکہ کراچی میں منظور شدہ پلاٹ کا ابھی تک کچھ پتہ نہ لگ سکا ۔

سابق ایڈوکیٹ جنرل اور پشاور ہائی کورٹ کے سینئر وکیل صابر شاہ کہتے ہیں کہ فوجداری مقدمات ایف آئی آر سے شروع ہوتے ہیں ،مقدمات میں مدعی کسی کے خلاف رپورٹ درج کراتا ہے “جب ملزم کا کسی کو علم نہ ہو اور وہ نامعلوم ہو ، گواہان بھی موجود نا ہو تو پولیس پھر اپنے طریقے سے تفتیش کرتی ہے ، پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ملنے والے یا جائے وقوعہ سے حاصل کردہ شواہد کی بناءپر ہی تحقیقات کی جاتی ہے ” انہوں نے مزید کہا کہ ایسے کیسز خودبخود ختم ہوجاتے ہیں جس میں کسی کو نامزد نا کیا گیا ہو۔

عبدالعزیز شاہین کے کیس کے حوالے سے سابق ایڈوکیٹ جنرل صابر شاہ نے کہا کہ شاہین پر حملے اور اُن کے اغواء کی ایف آئی آر درج ہونی چاہئے تھی ” کچھ ایسے کیسز ہیں جن کی ایف آر حکومتی عملداری بحال ہونے کے بعد درج ہوئی،عبدالعزیز کی موت حالت جنگ میں فضائی حملے میں ہوئی تھی، اب حکومت یا اداروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا یا ان کو ملزم نامزد کرنا نا ممکن ہے ۔

عبدالعزیز شاہین کی شہادت کے بعد سوات سمیت ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئی ،صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے مطالبات ہوئے،پی ایف یو جے کی جانب سے بھی سیکورٹی فورسز سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ صحافیوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کیا جائے ۔ صحافی رفیع اللہ خان کہتے ہیں کہ حکومت یا دیگر سیکورٹی اداروں کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے صرف اعلانات کئے گئے ، تحفظ اس وقت بھی نہیں ملا اور آج بھی صحافی غیر محفوظ ہیں ۔

میرے بھائی کی جان ” صحافت ” نے لی

عبدالعزیز شاہین کا تعلق ایک متوسط اور کاروباری گھرانے سے تھا،شعبہ صحافت کے ساتھ اُن کا دلی لگاؤ تھا ۔ شاہین کے بڑے بھائی جبار خان کہتے ہیں کہ بار بار اپنے بھائی کو صحافت چھوڑنے کا کہا لیکن وہ نہ مانے ” شدت پسندوں کی بار بار دھمکیوں کے باجود وہ اپنے کام میں مگن رہے اور حتیٰ کہ اپنی جان بھی دے دی، میں سمجھتا ہوں کہ صحافت ہی کی وجہ سے میرے بھائی کی جان گئی ۔

مجھے بھی بابا کی طرح ” صحافی ” بننا ہے

عبدالعزیز شاہین کی شہادت کے کئی سال بعد اس کی بیوہ نے دوسری شادی کرلی، شاہین کے تین بیٹے اور ایک بیٹی اپنی ماں کے پاس ہی ہیں ۔ شاہین کے بڑے بیٹے اٹھارہ سالہ عنایت اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے والد کے بعد ہمیں لاتعداد مسائل کا سامنا کرنا پڑا” میں جتنا بھی اپنے والد کے بارے سنتا آرہا ہوں تو یہی جانا ہے کہ وہ ایک بہادر اور نڈر انسان تھے،میں بھی اپنے والد کی طرح بہادر صحافی بن کر ملک و قوم کی خدمت کروں گا اور اپنے والد کے ہی نقش و قدم پر چل کر سچائی کا ہمیشہ ساتھ دوں گا “۔

صحافی آج بھی غیرمحفوظ

سوات کے کشیدہ حالات میں شاہین کی طرح دیگر صحافیوں کو بھی کئی بار اغواء کیا گیا اور وہ تشدد کا نشانہ بنے ، صحافی نیاز احمد خان جو اُس وقت خیبر نیوز کے ساتھ منسلک تھے کہتے ہیں کہ شدت پسندوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے پہلے آپریشن کے دوران انہیں جاسوس کا نام دے کر طالبان نے اغواء کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا ” کئی گھنٹوں بعد صحافیوں کے احتجاج اور ادارے کی مداخلت پر انہیں رہائی ملی ، وہ وقت بہت کٹھن اور تکلیف دہ تھا تاہم آج بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں ملتی ہے اور صحافیوں کو اغواء کیا جاتا ہے ،صحافی آج بھی مختلف اداروں اور سیاسی تنظیموں کی جانب سے دباؤ کے شکار ہیں “۔

سیاسی دہشت گردی بڑا خطرہ

سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں با اثراور سیاسی افراد کی جانب صحافیوں کو خطرات لاحق رہتے ہیں، صحافی رفیع اللہ خان بھی سیاسی دہشت گردی کا شکار رہ چکے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایم این اے ڈاکٹر حیدر علی خان کے بھتیجے نے سربازار انہیں اغواء کرنے کی کوشش کی اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا ” سیٹزن پورٹل میں ان کے خلاف کسی نے شکایت کی تو الزام مجھ پر لگایا گیا،28 دسمبر2018 کو میرے اوپر اپنی گاڑی چڑھادی اور اغواء کرنے کی کوشش کی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے کپڑے پھاڑ دئے اور مجھ پر تشدد کیا ۔

رفیع اللہ خان مزید کہتے ہیں کہ پولیس اسٹیشن میں ان کی رپورٹ درج کروانے کے لئے کوئی تیار نہیں تھا،چھ گھنٹے کی مسلسل کوششوں کے بعد ہی ایف آئی آر درج ہوئی،”میڈیا اداروں اور صحافتی تنظیموں نے بھرپور ساتھ دیا بعدازاں علاقے کے مشران اور جرگہ کی دباؤ کی وجہ سے راضی نامہ کرنا پڑا”۔

صحافیوں کا تحفظ اور حکومتی اقدامات

سوات سمیت ملک بھر میں صحافیوں کے تحفظ کے لئے ابھی تک ٹھوس قانون سازی نہیں کی جا سکی ۔ 2014 میں سوات کی خاتون ایم این اے عائشہ سید نے دیگر تین ارکان اسمبلی کے ہمراہ قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جسے ” دی پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ 2014″ کا نام دیا گیا تھا ۔ بل پیش ہونے کے بعد حکومتی ارکان اسمبلی اور اپوزیشن نے اِسے متفقہ طور پر منظور بھی کرلیا جبکہ بعد میں بل کو سٹینڈنگ کمیٹی کو بھجوادیا ۔ پروٹیکشن آف جرنلسٹ ایکٹ کے اہم نکات میں صحافیوں کی آزادی اظہار رائے اور تحفظ کو ابتدائیاں میں شامل کیاگیا تھا جبکہ دیگر اہم نکات یہ تھے ” صحافیوں سے اُن کے سورسز(ذرائع) معلوم کرنے کے لئے دباؤ نہ ڈالا جائےگا۔ علاقے کا ایس ایچ او صحافی کے مطالبے پر فوری سیکورٹی فراہم کرےگا۔ جن صحافیوں کا قتل ہوا یا اُن پر تشدد ہوا ان کے مقدمات خصوصی عدالت میں چلائے جائیں گے اور ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری یقینی بنائی جائے “۔

عائشہ سید نے ایکٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بل کو اُنہوں نے ہی اسمبلی میں پیش کیا تا ہم اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد سٹینڈنگ کمیٹی نے اس کو فعال بنانے یا آئین میں شامل کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کے بعد وہ ایکٹ سرد خانے کی نظر ہوگیا ہے ۔

جرنلسٹ پروٹیکشن ایکٹ کی طرح دیگر ایسے کئی بِل اسمبلی سے پاس ہوئے، میڈیا تنظیموں کے سامنے رکھے گئے مگر کوئی خاص پیش رفت نا ہو سکی جس کی وجہ سے صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

صحافیوں کے تحفظ کے لئے حکومت سمیت میڈیا اداروں، متعلقہ حکومتی اداروں اور میڈیا تنظیموں کو مل کر کوئی ٹھوس حل نکالنا ہوگا اور اقدامات کرنے ہوں گے، تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک صحافیوں کا تحفظ ممکن نہیں بنایا جاتا ،مؤثر قانون سازی نہیں ہوتی تب تک صحافی خطرات سے دوچار رہیں گے ۔

The post پاکستان میں صحافی اور صحافت غیر محفوظ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2M0LV6B

تیل نکل بھی آتا تو ہم کیا تیر مار لیتے

گزشتہ چند روز سے پورا سوشل اور پرنٹ میڈیا تیلم تیل ہوا پڑا ہے. حکومتی مخالفین تیل نہ نکلنے پہ حکومت کا تیل نکال رہے ہیں تو حمایتی یہ تھیوری دے کر دل بہلا رہے ہیں کہ تیل نکل آیا ہے لیکن عالمی سازشوں سے بچنے کے لیے اعلان نہیں کیا گیا۔ گویا جو بات عام پاکستانی جانتے ہیں اسکاعالمی ایجنسیوں کو علم نہیں باوجود اس کے کہ سوشل میڈیا پہ سب کو بتارہے ہیں کہ تیل نکل آیا ہے، اعلان اس لیے نہیں کیا کہ امریکہ سے چھپانا مقصود ہے۔ تیل کے لیے ڈرلنگ کرنے والی کمپنی امریکن تھی لیکن امریکہ کو علم نہیں؟ ثابت ہوا کہ بچگانہ پن صرف بچوں میں نہیں ہوتا۔ خیر، مجھے دونوں سے سروکار نہیں، سوال یہ ہے کہ اگر تیل نکل بھی آتا تو کیا اس سے ہمارے مسائل حل ہوجاتے؟ کیا تیل نکلنا ہی ہمارے مسائل کا حل ہے؟

اگر تیل نکل آنا مسائل کا حل ہوتا تو دنیا میں تیل کی پیداوار میں ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ایران اور وینزویلا اس وقت دیوالیہ نہ ہوتے، عراق تباہ نہ ہوچکا ہوتا اور روس آج سے تین دہائیاں قبل متعدد ٹکڑوں میں بکھر نہ چکا ہوتا، رہ گئے امریکہ اور کینیڈا، تو کینیڈا کی حالت بہتر ہے لیکن امریکن قرضوں کی تفصیل میں جائیں تو بھیانک خواب دیکھنے کی کسر باقی نہیں رہ جاتی۔

دنیا میں105ممالک میں گنا کاشت ہوتا ہے پاکستان میں پائی جانے والی گنے کی اقسام، موسمی حالات، آب و ہوا اور بہترین پیداواری صلاحیت کی حامل زمین کی وجہ سےہم دنیا بھر میں گنے کی کاشت میں پانچویں نمبر پر ہیں جبکہ چینی پیدا کرنے والے ممالک کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کا 14 واں نمبر ہے لیکن کیا ہمیں سستی چینی میسر ہے؟ پاکستان کا شمار دنیا کے ان خوش قسمت ملکوں میں ہوتا ہے جو نہ صرف اپنی ضرورت کی تمام گندم اُگاتاہے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرتاہے پچھلے سال کے عالمی سروے میں پاکستان سالانہ 25ملین ٹن گندم کی پیداوار کے ساتھ آٹھویں نمبر پر ہے لیکن بطور شہری کیا آپکو سستی روٹی میسر ہے؟

چاول جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے۔ دنیا میں چاول پیدا کرنے والے 47 ممالک میں چین، بھارت اور انڈو نیشیا کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے، پاکستان کے کل زرعی رقبے میں سے دس فیصد پر چاول کاشت ہوتا ہے۔ گندم اور کپاس کے بعد چاول پاکستان کی تیسری اہم ترین فصل ہے کیونکہ ملکی جی ڈی پی میں اس کا حصہ 1.6فیصد سے زائد ہے. ہم صرف چاول کی درآمد سے دو ارب امریکی ڈالر کماتے ہیں، اسکے باوجود ذرا بازار جایئے اور چاول کا نرخ پوچھیے آپکے چودہ طبق یوں روشن ہونگے جیسے زیادہ بجلی آجانے سے بلب پھٹنے سے چند سیکنڈ پہلے ہائی وولٹیج روشنی دیتا ہے۔ پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر آتا ہے کپاس اور اس کی مصنوعات کے ذریعے ملک کو کثیر زرِمبادلہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اپنے گردوپیش نظر دوڑایئے آپکو ایسے لوگ بہت ملیں گے جو بآسانی اپنا تن ڈھانپنے میں بھی کامیاب نہیں۔

تیل نہیں نکلا تو کیا ہوا ہمارا ملک برف پوش پہاڑوں سے لیکر سبز میدانوں، صحراؤں اور خوبصورت سمندری کناروں پہ مشتمل ہے اس کا کیا فائدہ اٹھایا ؟ ہماری تو وہ مثال ہے کہ ہم سونے کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں اورغربت کو رو رہے ہیں. جتنے وسائل اللہ نے ہمیں دئیے ہیں کم ہی کسی قوم کو ملے ہیں. تیل بھی ذراعت و دویگر معدنیاتی وسائل جیسا ہی ہے اگر آپکے باقی وسائل پہ سیاسی مافیا قابض ہے تو تیل کا نکل آنا بھی آپکا کچھ نہیں سنوار پائے گا۔

اگر گندم، چاول، کپاس اور گنے جیسی بنیادی ضرورتوں کی پیداوار میں دنیا میں ٹاپ ٹین میں ہونے کے باوجود عوام خوشحال نہیں، تیل دریافت ہو بھی جاتا تو انہی شریفوں، قریشیوں، ترینوں, چوہدریوں, سومروں, ملکوں, خانوں, زرداریوں, جیلانیوں، سرداروں اور وڈیروں پہ مشتمل دو سو گھرانوں کی چمکی ہوئی قسمت کو مزید چمکانے کے علاوہ کوئی کرشمہ نہ کرپاتا۔ کیونکہ مسئلہ وسائل نہیں بلکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم کا ہے ،ہمارا سیاسی نظام صرف طاقتور کے لیے ہے اس میں وہی کامیاب ہے جس کے پاس دھن، دھونس اور دھاندلی جیسے مضبوط ہتھیار ہیں۔ جو جتنا بڑا کرپٹ ہے وہ حکومتی ایوانوں میں بیٹھنے اور وزیر مشیر بننے کے لیے اتنا ہی بہتر کوالیفائی کرتا ہے۔

پچھلے چالیس سال کی حکومتیں اٹھا کے دیکھ لیں یہی دو سو خاندان ہر حکومت میں شامل ہوتے ہیں جس کے پلڑے میں یہ اپنا وزن ڈالیں وہی سکندر بنتا ہے، سابقہ ادوار میں پی پی اور ن لیگ کی حکومتیں بناتے رہے اس دفعہ تحریک انصاف پہ مہربان ہوئے لیکن کچھ نہ بدلا۔ ہمارا سیاسی نظام صرف اسی اشرافیہ کےمفادات کا تحفظ ہے، جس کی تازہ مثال ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے کالا دھن سفید کرنے کا چور راستہ کھولاجانا ہے۔

سابقہ حکومت کے سروے کے مطابق 60 ملین (6 کروڑ) پاکستانی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ تیل ضرور ڈھونڈئیے صاحب، لیکن جو کچھ میسر ہے اسکی تقسیم تو منصفانہ کرلیجئے، اشرافیہ کا ناجائز قبضہ ہٹایئے عوامی وسائل عوام تک جانے دیجیئے. ہاتھ میں پکڑے نوالے کو کھانے کے بجائے آسمان پہ اڑتے کبوتر کھانے کے لیے رال ٹپکائیں گے تو سامنے پڑا نوالہ بھی کوا لے جائے گا۔ اس ناانصافی کے نظام میں سمندر سے تیل نکل بھی آئے تو اشرافیہ ہی نہال ہوگی۔ جب تک نظام تبدیل نہیں ہوتا مڈل کلاس کو کاروبار اور اسمبلیوں میں آنے کا راستہ نہیں ملے گا ،عوام کا تیل یونہی نکالاجاتا رہے گا اور حکومتیں کشکول گدائی لے کر آئی ایم ایف کے پیچھے پھرتی رہیں گی اور عوام مہنگائی میں پستے رہیں گے.

The post تیل نکل بھی آتا تو ہم کیا تیر مار لیتے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2MfPmqv

مہنگائی میں ہوشربا اضافہ…!

نئے پاکستان میں روزبروز بڑھتی مہنگائی، روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور ڈالر کی اونچی اڑان کا سلسلہ جاری ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں مزید کمی کے امکانات ہیں جس سے مہنگائی کا نیا طوفان پیدا ہوگا۔ اس کے علاوہ گزشتہ روز سونے کی قیمت میں بھی 500 روپے فی تولہ اضافہ ہوگیا ،جس سے سونے کی فی تولہ قیمت 71500 روپے سے بڑھ کر72000 روپے ہوگئی ۔ غریب پاکستانیوں پرمزید ستم یہ کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے بھی چھوٹے صارفین کیلئے گیس مزید مہنگی کرنے کی سفارش کردی ہے ۔ جبکہ بجلی کی قیمتوں میں بھی مرحلہ وار اضافے کی پیشگوئی کی جاری ہے، مہنگائی کی اس سنگین صورتحال نے پاکستانی شہریوں کو تشویش میں مبتلا کررکھا ہے ۔

ہر گزرتے دن کیساتھ روپے کی قدر میں کمی ، بجلی ، گیس سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہونے والی مہنگائی سے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر ہو کررہ گیا ہے ۔ انتخابات سے قبل پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے،آئی ایم ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ جیسے پی ٹی آئی حکومت کے آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ قرضوں میں ڈوبی قوم کو جب عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھر مار ختم کرنے کے خواب دکھائے تو قوم کو ان کے روپ میں ایک مسیحا نظر آیا ۔یہ حقیقت ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت اور پرانے سیاسی چہرے بھیس بدل کر نئے روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو عوام پاکستان نئی قیادت سے امیدیں باندھ لیتے ہیں،پاکستانی قوم نئے پاکستان میں سنہرے دور کے خواب دیکھنے لگی اور عمران خان سے خوشحالی کی نہ جانے کتنی توقعات وابستہ کرلیں اور غربت و مہنگائی کے خاتمے کے لئے نہ جانے کتنی امیدیں باندھ لیں۔

پاکستانی قوم گزشتہ 73 سالوں سے حقیقی تبدیلی اور طرز حکومت میں بہتری کی منتظر ہے اور کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے ۔ مگر پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی عملی کردار سے زیادہ محض گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور برسر اقتدار آنے کے بعد سے حکومتی اقدامات محض ہاتھ باندھنے، اور اپوزیشن جماعتوں پر کڑی تنقید کی حکمت عملی سے زیادہ کچھ نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مہنگائی و بے روز گاری اور ملکی قرضوں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود موجودہ حکمران بھی کشکول تھامے آئی ایم ایف کے در پر جا بیٹھے ہیں۔ جبکہ ڈالرکی مسلسل اُڑان کی وجہ سے عام عوام کی مشکلات مزید بڑھ گئیں ہیں۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں چین ، سعودی عرب، قطر، امریکہ اورورلڈ بنک سے بھی امداد مل چکی ہے۔ اگر دیکھاجائے تو پاکستان کو لگ بھگ دس ارب ڈالر مل چکے ہیں جبکہ پاکستان سے جمع ہونے والا ریونیو بھی کھربوں روپے اکٹھا ہوتا ہے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اتنی رقم اکٹھا ہونے کے باوجود ابھی تک پورا ملک نحوست کے بادلوں میں گھرا ہوا ہے اورحکومت نے نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کو مخبوط الحواس بنا رکھا ہے، مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب ہر شخص پریشان اور مضطرب ہے جبکہ ملک میں ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

ان حالات میں قوم سوال کررہی ہے کہ آخر پیسہ کہاں جارہا ہے ؟حکومت کیوں اب تک ڈالر کی قیمت کنٹرول نہ کرپائی جو کہ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان عوام پاکستان سے معاشی و اقتصادی ترقی کے جو وعدے اور دعوے کرتے رہے ہیں وہ اب برسراقتدار آنے کے بعد ان کے برعکس اقدامات اٹھا تے دکھائی دیتے ہیں. گزشتہ حکمران جماعتوں نے بھی ایسا نہیں کیا جیسا کہ اس حکومت میں ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافے کے نام پر عوام کو نشانہ ستم بنانے کی تیاری کی گئی ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں کو پوراکرتی اورعوام کوریلیف فراہم کیا جاتا مگرافسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی بجائے عوام کو تکلیف دی جارہی ہے۔

موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے ہیں، آج عوام کو کسی بھی قسم کا کوئی ریلیف میسر نہیں جس سے لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے۔دعوئوں کے برعکس ڈالر، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو اس کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر غریب پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کےبجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے کہیں بہتر تھی۔

ملک کے سیاسی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ، پاکستان کو آگے بڑھانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے لیکن کلیدی کردار ہمیشہ برسراقتدارسیاسی طبقات کا ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپوزیشن کو گلے سے لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی طرف لے جانے کے لیے حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ معاشی استحکام براہ راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے،وزیراعظم عمران خان کو علم ہونا چاہئے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔آج پاکستان معاشی طورپر ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے اور عام آدمی کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدابیر اختیار کی جائے تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔
٭…٭…٭

The post مہنگائی میں ہوشربا اضافہ…! appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2EqoFJ0

Wednesday, May 22, 2019

خواتین صحافی اور جنسی ہراس

خواتین ویسے تو ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں لیکن اگر شعبہ صحافت کی بات کی جائے تو اس شعبے میں بھی خواتین مردوں سے پیچھے نہیں ہیں ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خواتین رپورٹر ، سب ایڈیٹر ، فیچر رائٹر ، کالم نگار ، میزبان ، پروڈیوسر ، کاپی رائٹر ، اسائنمنٹ ایڈیٹر اور نیوز کاسٹر ایسے بہت سے کاموں میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں۔ میڈیا انڈسٹری میں خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسرے شعبوں کی طرح صحافت کے شعبہ میں بھی خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات کم نہیں ہیں، دھرنوں اور جلسوں کی سیاست کے بعد خواتین کے ساتھ ہراسگی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ایسے واقعات ریکارڈ پر موجود ہیں جن میں نامور اینکر پرسن خواتین کو دوران ڈیوٹی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے قدیم اور تاریخی شہر ملتان سمیت جنوبی پنجاب بھر میں اگر خواتین صحافیوں کے ساتھ ہراسگی کے واقعات پر نظر دوڑائی جائے تو ایسے واقعات کم نہیں ہیں تاہم دیکھا گیا ہے کہ خواتین اپنی اور اپنے خاندان کی عزت کے ڈر سے ایسے واقعات ریکارڈ پر لانے میں قاصر رہی ہیں جبکہ اگر خواتین صحافی اپنا واقعہ رپورٹ کروانا بھی چاہیں تو اداروں کی طرف سے معذرت کر لی جاتی ہے۔ سال 2018 میں ملتان میں ایک خاتون صحافی (ع) نے ہراسگی کے خلاف جنوبی پنجاب کے واحد خواتین کے تحفظ کے لئے بنائے گئے ادارے انسداد تشدد مرکز برائے خواتین میں رپورٹ کروانا چاہی تو انتظامیہ کی جانب سے یہ کہہ کر رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ آپ صحافی ہیں ہم یہ رپورٹ درج نہیں کر سکتے جس کے کچھ ہی عرصہ بعد چند ذاتی وجوہات کے باعث خاتون نوکری سے استعفیٰ دے کر چلی گئیں۔

ضلع ملتان میں اس وقت پریس کلب میں 37 خواتین صحافی بطور ممبر رجسٹرڈ ہیں ان میں سے 9 خواتین رپورٹرکے فرائض سرانجام دے رہی ہیں ۔ کچھ خواتین ایسی ہیں جن کو دوران فیلڈ ، آفس ورک اور گھر سے آفس آتے ہوئے مختلف انداز میں ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ خاتون صحافی شائرین رانا کا کہنا تھا کہ خواتین صحافیوں کے ساتھ ہراسگی کے مختلف طریقے دیکھنے میں آئے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے کسی ادارے میں بطور رپورٹر اپنی ملازمت کا آغاز کیا ہے اس دوران ایک سینئر ساتھی آپ کے کاموں میں مدد کرتاہے اور آپ اسے ان کی خوش اخلاقی سمجھتی ہیں لیکن پھر محسوس کرتی ہیں کہ اس ساتھی کا رویہ آپ کو پریشان کررہا ہے کبھی کوئی ذومعنی بات کہہ دیتا ہے اور کبھی آپ کو چھو لیتا ہے ۔ آپ اس خیال کو ذہن سے نکال کر کام میں مگن ہوجاتی ہیں اور پھر ایک دن کچھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو لگتا ہے اس نے حد پار کرلی ہے۔

آفس یا دوران ڈیوٹی خواتین کے اوپر جھکنا ، ناپسندیدہ جنسی حرکات ، کسی سے جنسی فائدہ اٹھانے کی کوشش یا جنسی نوعیت کا لفظی یا جسمانی برتاؤ جو کام میں مداخلت کرے یا نوکری برقرار رکھنے کی شرط بن جائے یا آفس میں جارحانہ ماحول پیدا کردے یہ ساری باتیں جنسی ہراس کے زمرے میں آتی ہیں.

عام طور پر جنسی ہراس کسی ایک بات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ نامناسب رویوں کے سلسلے پر مشتمل ہوتا ہے اور دفاتر میں ہراساں ہونے والے شخص کی طرف سے منع کرنے کے باوجود بھی یہ رویہ جاری رہتا ہے۔ اس کے برعکس ایک بار ہونے والا واقعہ بھی جنسی ہراس ہی ہے اور اس بات سے قطعاً فرق نہیں پڑتا کہ کسی دوسرےکو یہ فعل غلط لگ رہا ہے یا نہیں۔ جنسی نوعیت کی باتیں یا مذاق، جنسی پیش قدمی کرنا یا کسی کو چھونا، بری نظر سے دیکھنا، گھورنا، ذاتی نوعیت کے جنسی سوالات کرنا، جنسی افواہیں پھیلانا اور جنسی نوعیت کی تصویریں بھیجنا جنسی ہراس کے زمرے میں آتے ہیں۔

ملازمت پیشہ خواتین کے تحفظ کیلئے قائم صوبائی خاتون محتسب پنجاب اور پنجاب کمیشن برائے حیثت نسواں ہراسمنٹ ایکٹ کو بھی حقیقی معنوں میں فعال نہیں کرا سکے اور جنوبی پنجاب سمیت صوبہ کی ملازمت پیشہ خواتین کا تحفظ کر نے میں ناکام ہو گئے۔ اداروں میں ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم نہیں کی جا سکیں اور نہ ہی خواتین کی رسائی متعلقہ محتسب تک یقینی بنا ئی جا سکی۔ جس سے ہراسمنٹ کے واقعات میں اضافہ ہوا اور قانون کی غیر فعالی سے ملازمت پیشہ خواتین بدستور ذہنی ،جسمانی اور جنسی ہراسمنٹ کے سبب تشدد کا شکار ہیں ۔ اس سلسلہ میں صوبائی خاتون محتسب پنجاب کی رپورٹ کے مطابق 3 سالوں میں صوبہ بھر سے صرف 899 خواتین کی شکایات موصول کی گئیں جن میں سے 2016 میں 354 ، سال2018،380،2017 میں450 جبکہ رواں سال کے تقریبا ًپہلے دو ماہ کے دوران 19 شکایات کا اندراج کیا گیا ہے کل صرف 110کے قریب کیس حل کیے جا سکے جن میں سے زیادہ تر ہیلپ لا ئن 1043 کے ذریعے درج ہوئے اور بے بنیاد اور جھوٹ قرار دیتے ہو ئے ختم کر دیئے گئے۔

کیسز میں جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع ملتان، مظفرگڑھ، وہاڑی، رحیم یار خاں اور ڈیرہ غازی خاں میں 25سے زائد ملازمت پیشہ خواتین کی شکایات بھی شامل ہیں ۔واضح رہے کہ شکایات کا اندراج کرانے والی تمام خوا تین اعلٰی تعلیم یا فتہ اور مختلف شعبہ جات سے وابستہ ہیں۔ خصوصاً حال ہی میں محکمہ صحت کی ڈاکٹرز اور نرسوں سمیت محکمہ تعلیم میں ہراسانی کے خلاف متعدد خواتین اساتذہ نے آواز اٹھائی ہے۔ بیشتر کے کیس صوبائی خاتون محتسب کے پا س بدستور زیر سماعت ہیں جبکہ ان سے کئی گنا زیادہ تعداد ایسی خواتین کی ہے جو روز ہراسمنٹ جیسی ذہنی اور جسمانی اذیت سے دوچار ہو تی ہیں مگر اس ظلم کے خلا ف آواز بلند کر نے کا حوصلہ نہیں کر پا تیں کہ ان کے سامنے اب تک شکایات اندراج کرانے پر ازالہ کیے جانے والی مثالیں نہ ہو نے کے برابر ہیں ۔ جس کی اہم ترین وجوہات میں ملازمت پیشہ خواتین کو صوبا ئی محتسب اور قانون بارے آگا ہی نہ ہونا، خاتون محتسب کا دفتر صرف لا ہور میں ہونا، اداروں کی جانب سے ہراسمنٹ کمیٹیاں قائم نہ کر نا شامل ہیں۔ واضح رہے کہ تعزیرات پا کستان 1860 کے ایکٹ کی دفعہ509 اور ہراسمنٹ ایکٹ 2010 کے مطابق ملازمت پیشہ خواتین کو جنسی اور ذ ہنی طور پر ہراساں کر نے کی سزا 3 سال قید،5 ہزار سے 1لاکھ روپے تک جرمانہ۔ جبری ریٹائرنمنٹ،ملازمت سے برخاستگی اور دیگر شامل ہیں اس کے باوجود خاندانی و معاشرتی دباؤ اور اخراجات کے سبب بیشتر خواتین ہراسمنٹ کے خلا ف آواز بلند کر نے کے بعد مسائل کے ڈر سے کیس واپس لینے پر مجبور ہو جا تی ہیں۔ صوبائی خاتون محتسب فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ خواتین ہراسگی کے بہت کم کیسز رجسڑڈ کرواتی ہیں جس کی بنیادی وجہ خاندانی، معاشرتی دباؤ اور خواتین کے اندر کا خوف ہے کہ نوکری ہاتھ سے نہ چلی جائے۔

خاتون صحافی میمونہ سعید کا کہنا ہے کہ خواتین کسی بھی شعبہ میں کام کر رہی ہوں انہیں وہاں کے ماحول کے مطابق مختلف اقسام کی ہراسگی جیسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، اگر ہم جرنلزم کی فیلڈ کی بات کریں تو اب تک جنوبی پنجاب میں ملتان واحد اسٹیشن ہے جہاں خواتین صحافی کام کر رہی ہیں ، مردوں سے کم تنخواہ میں مردوں کے برابر کام کرنے کے علاوہ سب سے اہم اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں مرد صحافی خواتین کی کردار کشی کرتے ہیں ، آپ فیلڈ میں نیوز کے متعلق سورس ( صنف مخالف ) سے معلومات لیں ، آپ کسی تقریب کا حصہ ہوں ، آپ کسی کولیگ سے ہنس کر بات کریں ، تو آپ کا تعلق جوڑ دیا جاتا ہے ، جس کا براہ راست اثر خواتین کی ذاتی اور گھریلو زندگیوں پر پڑتا ہے ، خواتین کے لباس حتی کہ ان کے میک اپ اور لپ اسٹک کے رنگ کو بھی ڈسکس کیا جاتا ہے ، میرا خیال ہے کہ یہ سب ہراساں کرنے کی بدترین مثالیں ہیں ہمیں اب اس سے آگے بڑھنا ہے کیونکہ اگر ہم خواتین کو کام کے معاملہ میں رعائیت نہیں دینا چاہتے تو ان کی ذاتی آزادی ، پسند و نا پسند پر بحث بھی بلا ضرورت ہے۔

خاتون صحافی سعدیہ تبسم کا کہنا ہے کہ ہمارے شعبے میں خواتین کی جسمانی ساخت پر بھپتیاں کسنے، کردار پر الزام تراشی، زیادتی اور قتل کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں جبکہ خواتین صحافیوں کے خلاف بہت زیادہ گری ہوئی زبان استعمال کی جاتی ہے ، شدید جنسی اشارے کئے جاتے ہیں اور ان کی جنس پر حملہ کیا جاتا ہے جس سے خواتین نفسیاتی طور پر متاثر ہوتی ہیں ۔

صحافی علشبا کہتی ہیں کہ ہمارا کام ایسا ہے کہ ہمیں مسلسل سوشل میڈیا استعمال کرنا پڑتا ہے ایسے میں یوں لگتا ہے کہ خواتین مسلسل نشانے پر اور غیر محفوظ ہیں ان کا کہنا ہے دوران ڈیوٹی ہمیں بعض اوقات جسمانی ساخت کے حوالے سے ہراسگی سامنا کرنا پڑتا ہے ، چھوٹا قد ، کمسنی کی عمر اور خوبصورتی کو لے کر بھی مردوں کی نامناسب باتیں سننے کو ملتی ہیں جو کہ ہراسگی کے زمرے میں آتی ہیں۔ان کا کہنا ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں 70 فیصد خواتین اپنی زندگی کے دوران جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں جبکہ 93 فیصد خواتین کو عوامی مقامات پر کسی نہ کسی طرح جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے حکومت کو چاہئے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے قوانین پر موثر عملدرآمد کروائے تاکہ خواتین کو معاشرے میں کام کرنے کی آزادی حاصل ہوسکے ۔

خاتون صحافی سہیرا طارق کا کہنا ہے کہ ہمیں شعبہ صحافت میں دوران رپورٹنگ ، آفس میں غیر مساوی سلوک ، جنسی فائدہ نہ دینے کی صورت میں اہم کوریج سے دور رکھنا ، اسائنمنٹ یا پروگرام نہ دینے اور دفتری اوقات کار تبدیل کردینے ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے دفاتر میں ہراسگی سے متعلق آگاہی بورڈ ، پمفلٹ یا بینر آویزاں بھی نہیں ہوتے جس کی وجہ سے مرد حضرات انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

ملتان یونین آف جرنلٹس کے صدر شہادت حسین کا کہنا ہے خواتین صحافیوں کے ساتھ ہراسگی کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں ۔ خواتین کے تحفظ کے قانون 2010 کے تحت ملک کے تمام ادارے پابند ہیں کہ وہ تین رکنی داخلی کمیٹیاں بنائیں اس قانون میں سزاؤں اور تحقیقات کا طریقہ واضح ہے اس لئے قانون پر عملدرآمد کی ضرورت ہے اس کے ساتھ دفاتر میں ہراسگی روکنے کے لئے دفاتر میں آگاہی پمفلٹ ، بینر یا بورڈ بھی آویزاں کیے جانے چاہیئے تاکہ خواتین صحافیوں کو نہ صرف تحفظ کا احساس ہو بلکہ انہیں آزادی سےکام کرنےکے مواقع بھی میسر آسکیں۔

The post خواتین صحافی اور جنسی ہراس appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2wcFCCs

Tuesday, May 21, 2019

اگر اجازت ہو تو میں گھبرا لوں؟

بزرگ کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولولیکن چونکہ انتخابات سے قبل جماعت اسلامی نے اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، اس لیے شاید تحریک انصاف تولنے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی اور کپتان جی اور ان کے کھلاڑی بس بولتے ہی چلے گئے۔چور لٹیرے جائیں گے اچھے سچے آئیں گے،روپے کی قدر میں کمی ہو تو سمجھ لو حکمران چور ہیں،این آر او نہیں ہوگا،کوئی ملک سے باہر نہیں جائے گا،پروٹوکول نہیں لیں گے،تمام بڑی عمارتیں جامعات میں تبدیل کر دی جائیں گی،تین ماہ میں ایسی تبدیلی آئے گی کہ کیا بتاؤں کیسی تبدیلی آئے گی،ملک کا لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس آئے گا،آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے،آئی ایم ایف کا پیسہ اس کے منہ پر دے ماریں گے،میں ان کو رلاؤں گا اور وہ فرمان جس سے کپتان کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ ہے’ میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے’۔

پھر پاکستانیوں نے عجیب منظر دیکھا اور وہ یہ کہ جن لوگوں نے جانا تھا اور انکی جگہ اچھے سچوں نے آنا تھا انہیں الیکٹ ایبلز کہا گیا اور وہ پارٹی میں شامل ہوئے، انہیں ٹکٹ بھی ملا ، وہ انتخاب بھی لڑے ،جیتے بھی اور وزیر مشیر بھی بن گئے لیکن چونکہ کپتان جی نے کہا تھا کہ میرے پاکستانیوں آپ نے گھبرانا نہیں ہے تو ہم نہیں گھبرائے۔ روپے کی قدر میں اس قدر کمی ہوئی کہ ماہ رمضان میں ڈالر کے درجات بلند ہوتے چلے گئے اور ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا لیکن ہم نہیں گھبرائے۔ ڈالر بڑھنے کے باعث اشیاخورونوش،ادویات اور دیگر چیزوں کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن ہم پھر بھی نہیں گھبرائے۔جامعات کے قیام کا اعلان تو ہوا لیکن نہ کوئی داخلہ پالیسی آئی نہ تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا،نئی ملازمتوں کے خواب دیکھنے والے لوگ اپنے خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے کہ ہزاروں لوگ بیروزگار ہوگئے، کچھ کو بحران کے نام پر نکالا گیا،کچھ کو اشتہارات میں کمی کے نام پر اور کچھ کو تجاوزات کے نام پر بیروزگار کیا گیا۔جن کو خان صاحب نے جیل میں ڈالنا تھا وہ کچھ ملک سے بھاگ گئے اور کچھ اپنی پیشیوں کو رحمت کہتے مطمئن نظر آئے لیکن ہم نہیں گھبرائے۔۔۔

حکومت معاشی بحران کی وجہ سے آئی ایم ایف کے پاس بھی چلی گئی۔اس کے نقصانات یہ ہوں گے کہ حکومت عوام کو جو سبسڈی دیتی ہے وہ ختم ہوگی، مہنگائی میں اضافہ ہو گا بالخصوس بجلی اور گیس پر دی جانے والی سبسڈی ختم کی جائے گی اور پیٹرول کے بعد بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا جس کا اثر تمام صنعتوں پر پڑے گا اور عام شہری متاثر ہوگا۔خیر کچھ بھی ہو چونکہ فرمان کپتان تھا کہ گھبرانا نہیں ہے تو ہم نہیں گھبرائے۔ قوم کو نوید سنائی گئی کے سمندر میں تیل کے ذخائر موجود ہیں، یہ ذخائر ایران اور سعودی ارب کے ذخیروں سے بھی بڑ ے ہوں گے لہذا تمام تر مشکلات کا خاتمہ ہوجائے گا، پاکستانیوں کی قسمت پھر جائے گی۔ یہ خواب اتنے سہانے تھے کہ ٹھیلے والابھی اپنے پتھارے کو برانڈڈ کار سمجھنے لگا اور ہوا میں اڑنے لگا ۔قوم کو اس دن کا انتظار تھا کہ کب کپتان جی اعلان کریں گے کہ میرے عزیز ہم وطنوں سمندر میں تیل کے ذخائر مل گئے ہیں اور انکو نکالنے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔

ایسے میں جب وزیر اعظم پشاور میں ایک تقریب میں اعلان کررہے تھے کہ تیل کے ذخائر کے حوالے سے جلد آگاہ کردیا جائے گا تو اس وقت میڈیا پر ایک بری خبر نشر ہونے لگی کے کراچی کے قریب سمندر سے تیل کے ذخائر نہیں ملے۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر نے کراچی کے قریب گہرے سمندر میں ڈرلنگ کے دوران تیل و گیس کے ذخائر نہ ملنے کی تصدیق بھی کردی۔ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے قریب گہرے سمندرمیں ڈرلنگ کے دوران تیل و گیس کے ذخائر نہیں مل سکے۔

قوم کو بتایا گیا کہ کیکڑا ون کے مقام پر 5500 میٹر سے زیادہ گہرائی تک ڈرلنگ کی گئی تاہم ذخائر نہ ملنے کے بعد اب ڈرلنگ کا کام ترک کردیا گیا ہے۔ کیکڑا ون کے مقام پر اٹلی کی کمپنی کی قیادت میں جوائنٹ وینچر نے ڈرلنگ کی جس میں امریکی کمپنی ایگزون موبل کے علاوہ او جی ڈی سی اور پی پی ایل شامل تھے اور ڈرلنگ کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا رہا۔

اس تمام تر صورت حال کے بعد کپتان جی اور ان کے کھلاڑیوں سے گزارش ہے کہ قوم کو تھوڑا سا گھبرانے کی اجازت دے دیں۔سوشل میڈیا ٹیم ہر بات کی دلیل یہ دیتی ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے بھی تو ایسے کیا تب کیوں کوئی کچھ نہ بولا تو ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ جناب قوم نے عمران خان صاحب کو منتخب اسی لیا کیا تھا کیوں کہ وہ سابقہ حکمرانوں سے خوش نہ تھے۔کپتان جی کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنا ہوگی وگرنا سمندر سے تو تیل نہ نکلا کہیں معیشت کا تیل نہ نکل جائے

The post اگر اجازت ہو تو میں گھبرا لوں؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Qi2dGY

Sunday, May 19, 2019

صحافی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے!

پوری دنیا میں صحافی اور میڈیا کے کارکنوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مختلف خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کام سچائی اور حقائق کو عوام تک لانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات سچائی اور حقائق کو سامنے لاتے ہوئے ان کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ مشکل صورتحال میں رپورٹنگ کی تربیت کا نا ہونا بھی صحافی کیلئے جان کا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔

پی پی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 2019 تک یعنی گزشتہ 17 برسوں میں 48 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جبکہ 24 کوکام کے دوران قتل کیا گیا، 171 کوشدید جبکہ 77 کومعمولی زخمی کیا گیا۔2002 سے لیکر 2019 تک ٹوٹل 699 تشدد کے واقعات ریکارڈ کئے گئے۔

آن ریکارڈ اخبار کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک لاہور کے امن پر متعدد بار شب خون مارا جا چکا ہے۔ جیسے کہ 15 مارچ 2018 کو رائے ونڈ میں ہونے والے دھماکے میں پولیس اہلکاروں سمیت 7 افراد ہلاک ہوئے۔ 8 اگست 2017 کو سگیاں پل پر پھلوں سے لدے ایک ٹرک میں زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔

27 مارچ 2016 کو گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 60 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اعداد و شمار بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان حالات میں وہاں صحافی بھی موجود تھے جو رپورٹنگ تو کر رہے تھے لیکن بے سر و سامانی اور بغیر تربیت کے اور تمام ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے کام لیا جا رہا تھا۔صحافیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر اپریل 2017 میں جرنلسٹ ویلفیر اینڈ پروٹیکشن بل پیش کیا گیا۔جس میں اہم بات یہ شامل تھی کہ قانون کے مطابق میڈیا مالک سال میں کم از کم ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کروانے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اداروں میں تربیتی ورکشاپس کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔

صحافیوں کے لئے تربیت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئےلاہور سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی مبشر بخاری نے کہا کہ صحافیوں کی تربیت کی ذمہ داری متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا جب انہوں نے رائٹرز (Reuters) میں شمولیت اختیار کی تو ان کی ادارے کی جانب سے تربیت کروائی گئی کہ کشیدہ حالات میں چیزوں کو کیسے کور کرنا ہے۔

انہوں نے کہا لیبر ڈیپارٹمنٹ انڈسٹری کو این او سی یا لائسنس تب جاری کرتا ہے جب سکیورٹی انتظامات کا جائزہ مکمل کر لے۔ لیکن میڈیا انڈسٹری کو لائسنس آنکھیں بند کر کے جاری کر دیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا جب سے اداروں میں ایڈیٹوریل بورڈ کمزور ہوا ہے پیشہ وارانہ صلاحیت بھی کم ہو گئی ہے۔2007 میں الحمرہ آرٹ کونسل میں کریکر دھماکے ہوئے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہیں ذرائع نے بتایا کہ وہ کہیں محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔ مزید دھماکے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو محفوظ مقام پر جانے کا کہا لیکن اسی دوران ان کے دفتر سے کال آ گئی کہ ادارے کے لئے خبر اہم ہے ،آپ ٹیم کو کام کرنے دیں ،اسی دوران پھر تین دھماکے ہو گئے۔

دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا بین الاقوامی اداروں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ خراب صورتحال میں رپورٹنگ کیسے کرنی ہے ۔
رائٹرز(Routers) کی ٹریننگ میں ان کو بتایا گیا کہ پولیس کے آگے کھڑے ہو کر کوریج نہیں کرنی، جلوس کے درمیان میں کھڑے نہیں ہونا، بم بلاسٹ والی جگہ سے دور رہ کر کام کرنا ہے۔ مشتعل ہجوم میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کوئی ایسی بات نہیں کرنی جو ان کے خلاف ہو۔ فرسٹ ایڈ بکس کیسے استعمال کرنا ہے، بلڈ کو کیسے روکنا ہے، سی پی آر کیسے کرنا ہے۔رائٹرز ایس او پی کے مطابق اگر رپورٹر شہر سے باہر گیا ہو تو اس کو دن کی روشنی میں واپس لوٹنا چاہئیے۔اگر آپ کا دوست زخمی ہے تو آپ فورا اس کو نہیں اٹھائیں گے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کو اٹھا کر محفوظ جگہ لے جائیں۔کشیدہ حالات میں انتہائی دائیں یا بائیں رہ کر کوریج کریں۔لیکن یہ چیزیں پاکستان کے میڈیا ہاؤسز میں نہیں بتائی جاتیں۔

اسلام آباد کے صحافی فیض پراچہ کے مطابق 2001 کے بعد دہشتگردی پروان چڑھی خصوصا 2006 سے لیکر 2015 تک بہت سے صحافی، کیمرہ مین اور دیگر میڈیا ورکرز موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔
2007 میں لال مسجد کا واقع پیش آیا جس میں سی این بی سی کے سینئیر کیمرہ مین اسرار احمد گولی لگنے سے پوری زندگی کے لئے مفلوج ہو گئے۔ علاوہ ازیں ایک کیمرہ مین کی موت واقع ہوئی اورایک فوٹو گرافر گولی لگنے سے زخمی ہوا۔انہوں نے کہا صحافی کا کام خبر دینا ہوتا ہے خبر بننا نہیں۔ لیکن ریٹنگ کی دوڑ میں ان کے میڈیا مینیجر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے اندر کی چیزیں منظر عام پر لائی جائیں۔
دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میری ایٹ ہوٹل پر حملے کی کوریج انہوں نے خود کی،” مجھے میرے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ اندر جا کر ساری صورتحال سکرین پر دکھاؤ حالانکہ اس وقت اندر جانا خطرے سے کم نہیں تھا۔

لاہور کے پروڈیوسرعبدالاحدکہتے ہیں جب رپورٹر کو ناخوش گوار صورتحال پر جانے کے لئے کہا جاتا ہے تو ادارہ اور رپورٹر دونوں جلدی میں ہوتے ہیں۔ حادثے والی جگہ پر کیا ہوا ہے، وہاں کیا ہوگا اس بات کا کسی کو علم نہیں ہوتا لہٰذا تمام حالات سے آگاہی کے لئے ہمیں رپورٹر سے ایسے سوالات کرنے پڑتے ہیں تاکہ ابتدائی معلومات منظر عام پر آ سکے۔مزید بر آںہمیں نقصان سے بھی آگاہی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پردھماکے والی جگہ اور اس کے مضافات میں کیا نقصان ہوا ہے اس کی جان کاری لینا بھی لازمی ہوتی ہے۔
عبدالاحد کے مطابق، ادارے کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی جان کا تحفظ لازمی کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایسے حالات میں میڈیا ورکرز کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات رپورٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ادارے کو ایسی خبر دے جو کسی چینل نے نا چلائی ہو۔اس چیز کا کریڈٹ لینے کے لئے رپورٹر اپنے ذاتی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی جان کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔دوسری جانب انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ سپاٹ پر رپورٹنگ کرنے کے دوران ان کے پاس بلٹ پروف جیکٹ سمیت دیگر ایسا سامان نہیں ہوتا جو جان کا تحفظ کر سکے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا جائے وقوعہ پر ٹیم بھیجنے سے پہلے ڈائریکٹر نیوز اور دیگر لوگ میٹنگ کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بیٹھ کر پالیسی بنا لی جائے ٹیم کو جلد از جلد موقع پر پہنچنے کی ہدایت ہوتی ہے۔

بلال چودھری لاہور نیوز سے بطور رپورٹر وابستہ ہیں وہ کہتے ہیں 10 فروری 2017 کو لاہور میں سانحہ مال روڈ ہوا جس میں سی ٹی او لاہور کیپٹن (ر) مبین شہید ہوئے۔ بلال نے بتایا دھماکہ ہونے سے قبل وہ لائیو بیپر دے رہا تھا کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔ وہ منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ ان کا بتانا ہے اس سانحے میں وہ محفوظ رہے۔ دھماکہ اچانک ہوا تھا مگراس وقت ان کے پاس کوئی ایسا سامان نہ تھا جس کوپہن کر وہ محفوظ ہو سکتے۔

ہم نے متعدد سینئیر صحافیوں جن میںرائیٹرز کے نمائندے مبشر بخاری، دن نیوز سے فیض پراچہ، دنیا نیوز کے سینئیر رپوٹر و کالم نگار سہیل قیصر اور بلال چودھری سے اس معاملے پر رائے لی ہے۔

1۔ سہیل قیصر کے مطابق صحافی کو جائے وقوعہ پر جانے سے پہلے ادارہ ساز و سامان مہیا کرے جس کے استعمال سے وہ محفوظ ہو۔ مثلا بلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹ، ماسک جو ڈی ایس این جی میں ہی موجود ہونا چاہئیے تاکہ حادثے والی جگہ پر پہنچنے سے پہلے وہ تیار ہو۔ دوران رپورٹنگ اس کا رابطہ وقتا فوقتا نیوز روم، پولیس اور دیگر سہولت کار اداروں سے رہے۔

سینئیر ایڈیٹر کاظم جعفری کے بقول ادارہ میڈیا ورکرز کو بھرتی کرتے ہوئے ان کی ٹریننگ کروائے تاکہ کشیدہ صورتحال میں انہوں نے کتنے فاصلے سے اپنا کام کرنا ہے اور کن کن پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے، اسے معلوم ہو۔انہوں نے کہا کہ ادارے کو آگاہی سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد کروا کر رپورٹرز کی تربیت کرنی چاہئیے تاکہ نا خوشگوار حالات میں انہوںنے کن الفاظ کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ اس بات کا تعین بھی کرنا لازمی ہے کہ حساس اداروں کے متعلق معلومات کس طرح دینی ہے۔تربیت کے دوران اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ وہ اپنا کارڈ لگائے رکھے تاکہ وہ اشتعال انگیز عناصر سے محفوظ رہے۔

بلال کا کہنا ہے دھماکے والے واقعات رپورٹ کرتے ہوئے صحافی کو فاصلے کا تعین کرنے کی تلقین کی جائے تاکہ وہ اندھی گولی یا دانستہ طور پر کسی کے حملے سے محفوظ رہ سکے۔ اداروں کو سالانہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کروانا چاہئیے، جس میں ان لوگوں کو بلایا جائے جو مہارت رکھتے ہوں اور ایسے واقعات کو کور کر چکے ہوں۔ تاکہ وہ نا تجربہ کار صحافیوں کو بتا سکیں کہ وہ کس طرح محفوظ رہ کر اپنا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔

پی ایف یو سی کے جنرل سیکرٹری رانا علی کہتے ہیں تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تنظیموں کا کام صحافی برادری کی آواز اٹھانا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث وہ ورکشاپس نہیں کروا سکتے۔

وزیر اطلاعات و نشریات پنجاب صمصام بخاری کا دنیا نیوز کو بتانا ہے کہ پاکستان میں صحافتی تربیت کا فقدان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت صحافیوں کی تربیت ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان منصوبوں پر عمل در آمد نہیں ہوتا ان کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔

The post صحافی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے! appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Q95XdK

Monday, May 13, 2019

ناکامی کامیابی کی کنجی ہے

کہا جاتا ہے کہ جب ایڈیسن نے بلب بنانا چاہا تو 999 کوششیں ناکام گئیں اور 1000 ویں دفعہ بن گیا ۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ آپ نے 999 ناکام طریقوں کے بعد 1000ویں بار صحیح بلب بنایا اور وہ کامیاب طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے تو ایڈیسن نے کہا ‘ نہیں میں نے ناکام نہیں بلکہ 999 وہ طریقے ایجاد کیے ہیں جن سے بلب نہیں بنایا جاسکتا اور 1000 ویں بار وہ طریقہ ایجاد کیا جس سے بلب بنایا جاسکتا ہے اور وہ طریقہ تبھی ملا جب میں 999 وہ طریقے ڈھونڈ چکا تھا جن سے بلب نہیں بنایا جا سکتا ۔

ناکامی ایک ایسی شے ہے جسے ہر کوئی بلا سمجھتا ہے اور اس سے دور بھاگتا ہے، یہ ایک فطری بات بھی ہے ۔ انسان ہمیشہ سے ہی کامیابی کا خواہشمند رہا ہے، اسے اسی کی طلب رہی ہے ناکامی اسے کبھی پسند نہیں آئی ویسے بھی ناکامی کو کون پسند کر سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے کوشش کرتا ہے کہ وہ ایسی باتوں اور چیزوں سے دور رہے جو ناکامی کی وجہ بنیں ۔ اس بات کی وضاحت ایک مشہور مقولے سے کی جا سکتی ہے کہ اگر آپ نے اپنا مستقبل بدلنا ہے تو اپنی عادات بدلیں اور عادات بدلنی ہیں تو اپنی سوچ کو بہتر کریں اور اس کےلیے اردگرد کے ماحول کو بہتر بنائیں ،کیونکہ جیسا ماحول ہوتا ہے ویسی ہی انسان کی سوچ ہوتی ہے ۔اچھے اور مثبت ماحول میں رہنے والوں کی سوچ بھی اچھی اور مثبت ہو گی اور اسی طرح ان کی عادات بھی ۔

ناکامی بری ہو سکتی ہے ، تکلیف دہ ہو سکتی ہے مگر یہی ناکامی ہے جو کامیابی کی طرف گامزن کرتی ہے ۔ناکامی سے کامیابی تک جانے کا راستہ ہی ہے جو آپ کو کامیابی کےلیے تیار کرتا ہے اور اس کے قابل بناتا ہے ۔ ناکامی آپ کو وہ کچھ سکھاتی ہے جو آپ عام طور پر نہیں سیکھ سکتے ۔ زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ کو بےشمار ناکامیوں کا سامنا رہتا ہے مگر جب آپ ان ناکامیوں کا مقابلہ کرتے ہیں تو آپ نہ صرف بہت کچھ سیکھتے ہیں بلکہ کامیابی کو بھی اپنے قدم چھومنے پر مجبور کرتے ہیں ۔

سفر کا آغاز کیجئے ، آہستہ آہستہ اور مستقل قدموں کی ساتھ منزل کی جانب بڑھتے رہیے یہ سوچے بغیر کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں ،وہ کہاں چلے جا رہے ہیں اور میں کہاں ہوں ۔ راستے میں آنے والی رکاوٹوں اور ناکامیوں سے سیکھ کر آگے بڑھتے جائیے ۔ ہاں میں مانتی ہوں کہ آپ کو ناکامی کے بعد دکھ ضرور ہے ،رونا بھی آتا ہے بعض اوقات رو لیجیے،جتنا رونا ہے رو لیجیے مگر رونے کے بعد پھر سے اٹھیے اور سفر پر چل پڑیں نئی کوششوں اور ہمت کے ساتھ ، منزل دور ہے مگر ملے گی ضرور ۔ ناکامی آپ کو بہت کچھ سیکھاتی ہے ،ناکامی سہنے کے بعد آپ کو پتا چلتا ہے کہ کونسا طریقہ کار صحیح رہے گا اور کونسا نہیں ،پھر آپ کےلیے آسان ہو جاتا ہےدرست راستے کو منتخب کرنا ۔کوئی بھی کامیابی آخری نہیں ہوتی ہے اور اسی طرح کوئی بھی ناکامی ہمیشہ کےلیے نہیں ہوتی ہے، یہ ایک سفر ہے جو کامیابیوں اور ناکامیوں پر مشتمل ہے اور اس سفر میں جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ ہمت اور حوصلہ ہے جس کی بدولت آپ میدان میں جمے رہتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں ۔ یہ مقابلہ اگر خود کے ساتھ، اپنی بہتری اور ترقی کے ساتھ ہو تو کامیاب رہتا ہے ،سیکھنے کو بہت کچھ ملتا ہے ۔
اکثر حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ہم خود کا دوسروں سے مقابلہ کرنے لگ جاتے ہیں پھر گلے شکوے ہوتے ہیں کہ فلاں نے بھی تو میرےساتھ سفر شروع کیا تھا مگر وہ مجھ سے آگے کیسے نکل گیا؟ ضرور کسی دو نمبری کا نتیجہ ہے، یہ نظام ہی ایسا ہے ۔ہم یہ نہیں کرتے کہ دیکھیں کہ فلاں نے کیسے یہ کامیابی حاصل کی ،کتنی محنت کی اور ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے۔ ہمیں اسے سمجھنا چاہیے اور اس سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا چاہیے دوسروں کی کامیابیوں پر کڑنے سے تکلیف اور پریشانی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔اس سے بہتر ہے اپنی محنت بڑھا لی جائے اور کوشش دوگنی کر دی جائے ۔

ایک انگریز لیڈر کا کہنا ہے کہ کوئی کامیابی آخری نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی ناکامی جان لیوا ہے یہ ہمت ہے جو اہمیت کی حامل ہے ۔پالو کا کہنا ہے کہ اپنے خوابوں کو پہچانیں اور ان کےلیے لڑیں، آپ کو پتا ہونا چاہیے کہ آپ کو زندگی سے کیا چاہئے اور اس کی کھوج لگائیں ۔کچھ بھی آپ کے خوابوں کو حقیقت بننے سے نہیں روک سکتا سوائے ناکامی کے ڈر کے ۔

ناکامی کا خوف سب سے بڑی بیماری ہے جو کچھ کرنے نہیں دیتی، آگے بڑھنے نہیں دیتی اور اس خوف سے نجات صرف آپ خود ہی حاصل کر سکتے ہیں بار بار میدان میں کود کر ،ہار اور جیت سے بے پروا ہو کر ،مسلسل محنت اور کوشش جب آپ کی نگہبان ہوگی تو کوئی چاہ کر بھی آپ کو ہرا نہیں سکتا ہے ۔ ناکامی ایک موقع ہے کہ کیسے اگلی بار اس سے بھی اور زیادہ بہتر انداز میں آگے بڑھنا ہے اور کوشش کرنی ہے ۔ یہ ناکامیاں ہی ہیں جو انسان کو کامیاب بناتی ہیں۔ ہر کامیاب شخص کے پیچھے بےشمار ناکامیاں ہوتی ہیں اور یہی اسکی کامیابی کی وجہ بھی ہوتی ہیں۔

نہ تو آئے گا نہ چین آئے گا
دل بس یونہی شور مچائے گا

نہ راستہ تھمے گا نہ میں روکوں گا
منزل کی جانب یونہی چلتا رہوں گا

کبھی دل خوف سے ڈر جائے گا
کبھی امید کے دلاسے دلائے گا

منزل کی جستجو میں بس گھمائے گا
دل یونہی تم کو ہر دم ستائے گا

پر گر کوشش تم نہ چھوڑوں گے
اور مشکلوں سے تم نہ ہارو گے

تو خدا بھی مہربان تم پہ ہو گا
اور منزل تجھ سے ملا دے گا

راستے مشکل چاہے کتنے ہوں گے
حوصلے تمہارے نگہبان ہوں گے

The post ناکامی کامیابی کی کنجی ہے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2LFCUQt

کیا کم عمری کی شادی پر پابندی جائز ہے؟

آج کل پاکستان کے ایوانوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے بل پاس کیے جارہے ہیں لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ نہ تو ان بل پیش کرنے والوں نے جانچ پڑتال یا تحقیق کرنے کی کوشش کی ہو گی اور نہ ہی بل کی حمایت میں ووٹ دینے والوں نے۔ یہی وجہ ہے کہ سنی سنائی باتوں پر کان دھرتے ہوئے اس بل کی حمایت میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

کم عمری کی شادی جائز ہے یا ناجائز ؟ اس بابت کوئی حتمی نتیجہ نکالنے سے قبل چند ضروری سوالات کے جوابات دینا اشد ضروری ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ ایک لڑکے یا لڑکی کی شادی کے قابل ہونے کی صحیح عمر کیا ہے؟اس متعلق اگر ہم قدرت کی طرف دیکھیں تو ہمیں واضح جواب مل جاتا ہے کہ جب کوئی لڑکا باپ اور لڑکی ماں بننے کے قابل ہوجائے تو وہی شادی کی صحیح عمر ہے۔ کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا یہ کامل ایمان ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے وہ درست کرتا ہے اور اس میں رتی برابر بھی جھول نہیں ہوسکتا۔

جس عمر میں ایک بچی حاملہ ہونے کی حیثیت حاصل کرسکتی ہے وہی اسکی شادی کی اصل عمر ہے ۔ لیکن یہاں بعض نام نہاد دانشور مغرب کی تقلید میں تنقید کرتے ہیں کہ بچی کی عمر اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنی دیکھ بھال صحیح طرح سے نہیں کرپاتی تو وہ بچے کی پرورش کیسے کرپائے گی؟ ایسے لوگوں کو سیدھا سا جواب یہ بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتا کہ اس سے اٹھایا نہ جاسکے۔ کوئی بھی کام خود سے نہیں آتا ، اسے باربار کرنے سے آتا ہے اور اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ ایک بچی کی اگر کم عمری میں شادی نہ کی جائے تو بیس ، بائیس یا پچیس سال کی عمر میں وہ اتنی سمجھ دار ہوجائے گی کہ بچے کی پرورش احسن طریقے سے کرسکے گی؟۔ جب تک اسے حاملہ عورت کی پچیدگیوں اور زچگی کی تکالیفوں کا تجربہ نہیں ہوگا اور بچے کو ماں کا دودھ پلانے کا تجربہ نہیں ہوگا وہ کیسے یہ تمام کام سیکھ پائے گی؟ اگر تجربے سے ہی یہ تمام کام سیکھے جاتے ہیں تو پھر یہ تجربہ کم عمری میں مانع کیوں ہوا؟

مغربی تہذیب کے پیروکار نام نہاد دانشور کم عمری کی شادی پر تنقید کرتے ہوئے دو سوال اٹھاتے ہیں۔ اول یہ کہ لڑکی اور لڑکے کی معاشی حیثیت کمزور ہوتی ہے ۔ دوم ، کم عمر بچی کا جسم اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ حمل کی تکالیف کو احسن طریقے سے برداشت کرسکے۔ جہاں تک اول الذکر سوال کا تعلق ہے تو جس گھر میں ایک لڑکا پرورش پا رہا ہے وہاں ایک فرد یعنی بیوی کے آجانے سے کتنا خرچہ بڑھتا ہے؟مزید یہ کہ گھر میں نئی آنے والی اپنا رزق اپنے ساتھ لے کر آتی ہے۔ لہذا نام نہاد نقادوں کا یہ پوائنٹ وزن نہیں رکھتا۔ آخرالذکر سوال بچی کی جسمانی طاقت کے متعلق ہے تو جب اللہ تعالیٰ ایک بچی کو ماں بنانے کے قابل کردیتا ہے تو اسے حمل اور زچگی کی تکالیف برداشت کرنے کے قابل بھی بنا دیتا ہے۔ ہم فیصلہ کرنے والے کون ہوتے ہیں کہ کس عمر میں ایک بچی کو ماں بننا چاہیے کیونکہ یہ فیصلہ اس عظیم ہستی کے ہاتھ میں ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے کہ ایک بچی کو ماں کب بنانا ہے۔ لہذا ان دانشوروں کا دوسرا پوائنٹ بھی وزن نہیں رکھتا۔

چلئے تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگوانے کے حق میں دلائل دینے والوں کا موقف درست ہے ۔ اگر یہ مان لیا جائے تو پھر ایسے ممالک کا جائز ہ لینا پڑے گا جہاں کم عمری کی شادی پر پابندی نافذ ہے اور دیکھنا پڑے گا کہ آیا وہاں اس کےمثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں یا منفی؟تو جناب مغرب میں کم عمری کی شادی پر پابندی کے بل انیسوی صدی کے شروع میں ہی پاس ہونا شروع گئے تھے ۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ان ملکوں میں بچیاں بغیر شادی کے مائیں بن رہی ہیں، یعنی ناجائز اولا د پیدا ہورہی ہے جنکا کوئی والی وارث نہیں ہوتا اور انکو خیراتی اداروں کے سپرد کردیا جاتا ہے کہ انکی دیکھ بھال کی جائے۔ کیونکہ بغیر شادی کے جب کوئی لڑکا لڑکی ماں باپ بنتے ہیں تو ایسی صورت میں پیدا ہونے والی اولاد کو کوئی بھی اپنانے کی جسارت نہیں کرتا ۔ لہذا لڑکا اور لڑکی دونوں اپنی اپنی راہ اپناتے ہیں اور ناجائز بچے کو خیراتی اداروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ ایسا ناجائز بچہ جب تمام عمر ماں باپ کی شفقت حاصل نہیں کرپاتا اور اسے جب یہ علم ہوتا ہے کہ وہ ایک ناجائز بچہ ہے تو وہ پھر اسی معاشرے سے اپنا انتقام لیتا ہے جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ لہذا ایسی صورت میں جرائم کی شرح بڑھ جاتی ہے۔

ایسے ملکوں میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے کئی اور نقصانات سامنے آئے ہیں۔ مثلاََ مانع حمل دواؤں کی کثرت یا بچہ ضائع کرنے کے لئے آپریشن کروانا، کنواری ماؤں کی تعداد کا بڑھنا، خیراتی اداروں میں ناجائز اولادوں کی کثرت ہونا،خاندانی نظام جہاں لوگ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے ہیں کا تباہ و برباد ہوجانا۔ نکاح یا شادی کی رسم کا ناپید ہوجانا وغیرہ وغیر ،یہ سب مغربی ممالک میں کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے کے ثمرات ہیں۔

اگر ہم بھی یہی چاہتے ہیں کہ کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پیدا ہونے والی برائیاں ہمارے معاشرے میں بھی در آئیں تو بسم اللہ کیجئے اور اسی مغربی راستے پر چلتے رہیے بصورت دیگر قدرت کے فیصلے پر راضی ہوجائیے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کی شادی کی صحیح عمر کیا ہے۔ خدارا کم عمری کی شادی پر پابندی لگانے سے پہلے یہ بھی سروے کروالیں کہ کتنی بہنیں اور بیٹیاں رشتوں کے انتظا ر میں ماں باپ کے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں۔

The post کیا کم عمری کی شادی پر پابندی جائز ہے؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2J9tMS7

تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ایڈز

ہمارے ملک کا نظام دوسرے ممالک سے کچھ ہٹ کر ہے۔ ہمارے ہاں جس مقصد کیلئے آگاہی مہم کا آغاز کیا جاتا ہے مہم میں اس بات کو چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جہاں آگاہی مہم سے زیادہ ادارے کے ملازمین کو اس بات پر آمادہ کرنا اہم ہے کہ ان کی بھی کچھ ذمہ داری ہے، وہاں ہم بڑھ چڑھ کرآگاہی مہم چلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر میونسپل کارپوریشن کے افراد صفائی کے نظام کو بہتر بنانے سے زیادہ بینر اٹھائے عوام میں صفائی کا شعور بیدار کرنے میں زیادہ مشغول ہیں۔ملک میں صفائی کا نظام زیادہ بہتر ہوسکتا تھا اگر میونسپل کارپوریشن کے ملازمین صفائی پر توجہ دیں اور اسکولوں کالجوں میں معلم بچوں میں صفائی کے متعلق شعور پیدار کریں۔ آبادی پر قابو پانے کے خواہش مند حضرات نے اس حوالے سے ایک بہترین نغمہ بنا کر نشر کردیا ،ہر گاڑی ہر گھر میں ایک وقت میں یہ نغمہ گنگنایا جاتا لیکن اس دور کی معصوم نسل کو اس نغمے کا مطلب معلوم نہ ہوتا ہاں اتنا اندازہ ضرور تھا کہ بڑوں کے سامنے یہ نغمہ گنگنایا تو جھاڑ ضرور پڑے گی۔اسی طرح کئی سالوں سے ٹیلی ویژن پر تشہیر کی جارہی ہے کہ ایڈز لاعلاج ہے اور احتیاط واحد علاج ہے لیکن یہ احتیاط کیا ہے آج تک کسی نے اپنے چھوٹوں کو نہ بتایا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔صرف گذشتہ برس ایک کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔اب بھی تقریباً تین کروڑ ستر لاکھ افراد ایسے ہیں جو اس وائرس کا شکار ہیں، ان میں سے 70 فیصد افریقہ میں موجود ہیں۔ پاکستان جیسا ملک جہاں پولیو کیخلاف اس حد تک کام کیا جارہا ہے کہ ہر گھر ہر اسکول ہر مدرسے میں جاکر پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو ویکسین پلائی جاتی ہے اور جو شخص اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کی ویکسین پلانے سے انکار کرتا ہے اس کیخلاف مقدمہ درج کردیا جاتا ہے کیوں کہ پولیو کنٹرول کے ادارے یہ سمجھتے ہیں یہ ایک قومی مسئلہ ہے لیکن ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اس پر قابو پانے کیلئے ایسا کوئی بھی سخت عمل سامنے نہیں آرہا۔

ملک بھر میں اس وقت ایڈز کے رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 23 ہزار سے زیادہ ہے۔ یاد رہے کہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد 165000 ہے جبکہ ان میں سے صرف 23757 افراد نے متعقلہ سینٹر میں اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔ قومی اسمبلی میں ایڈز کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد کے بارے میں ارکان کو بتایا گیا، جو تعداد پیش کی گئی اس میں صرف انہی افراد کا ذکر کیا گیا ہے جنھوں نے اپنی رجسٹریشن کروائی ہے۔جب کہ ایک خبر رساں ادارے کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ایڈز کے شکار افراد کی تعداد دیڑھ لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تعداد پولیو کے مریضوں سے کئی زیادہ ہے آخر اس مرض پہ قابو پانے کیلئے پولیو کنٹرول جیسے اقدامات کیوں نہیں اپنائے جا رہے ۔

ایڈز کے پھیلاؤ کے حوالے سے کچھ ایسی باتیں بھی لوگوں کہ ذہن میں موجود ہیں کہ یہ مرض ساتھ کھانا کھانے سے،ہاتھ ملانے سے یا ایک ہی فضا میں سانس لینے سے پھیلتا ہے جس کی وجہ سے ایک وقت تک ان مریضوں سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ اب بھی معاشرے میں اس مرض کےشکار افراد کوکسی حد تک امتیازی سلوک کا سامنا ہے،ڈاکٹروں کے مطابق یہ سب باتیں درست نہیں ہیں۔ایڈز کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ایڈز کے مریض سے جنسی تعلق کے نتیجے میں ایڈز پھیل سکتا ہے۔متاثرہ شخص کے خون سے بھی ایڈز پھیل سکتا ہے جبکہ اس کی ایک بڑی وجہ استعمال شدہ سرنج یا انجکشن کا دوبارہ استعمال بھی ہے۔پاکستان میں کئی افراد انجکشن کی بدولت نشہ آور ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔لہذا اس قسم کے نشے میں مبتلا افراد اس بیماری کا نشانہ بنتے ہیں۔بدقسمتی سے ملک میں اسلامی نظام نہ ہونے کی وجہ سے کئی افراد جنسی بے راہ روی کا شکار ہیں۔ اسی طرح ترقی کے اس دور میں ابھی بھی اسپتالوں میں مریضوں کو غیر تصدیق شدہ لیبارٹریوں سے حاصل کردہ خون لگا دیا جاتا ہے۔ایک اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں چھوٹے کلینکس میں مریضوں کو 99فیصد غیر ضروری انجکشن لگایا جاتا ہے۔

حکومت کو سب سے پہلے اس حوالے سے ایک آگاہی مہم چلانا ہوگی جس میں اس بات پر زور دینا ہوگا کہ اس بیماری میں مبتلا افراد کوئی قومی مجرم نہیں نہ ہی یہ بیماری ساتھ بیٹھنے، کھانے یا ملنے سے پھیلتی ہے، لہذا اس بیماری کے شکار افراد سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے۔جب ایسا ماحول پیدا ہوگا تو اس بیماری میں مبتلا غیر رجسٹرڈ افراد بھی اپنی رجسٹریشن کرا سکیں گے اور ان کا علاج کیا جائے گا۔ان میڈیکل اسٹوروں کیخلاف بھی پولیو کنٹرول جیسی مہم کا آغاز کیا جائے جو ڈاکٹروں کے نسخوں کے بغیر ایسی ادویات دے دیتے ہیں جو نشے کو طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں سڑکوں پر کئی افراد انجکشن کا نشہ کرتے نظر آتے ہیں، ان افراد کیخلاف بھی کریک ڈاؤن کرنا ہوگا اور ان کا علاج کرانا ہوگا۔ ملک میں موجود فحاشی کے اڈوں کا خاتمہ بھی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔اگر اس بیماری کیخلاف سنجیدہ بنیادوں پر کام نہ کیا گیا تو یہ کئی قیمتی جانوں کو لہد تک لے جائے گی۔کپتان اور انکی ٹیم کو سوچنا ہوگا۔

The post تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ایڈز appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2PUJssF

Wednesday, May 8, 2019

لیبیا پھر ایک بارتباہ کن آفت کے گھیرے میں۔

برطانیہ کے دفتر خارجہ کے وزیر مارک فیلڈ اس حقیقت کونہ چھپا سکے کہ لیبیا میں آٹھ سال پہلے برطانیہ کی فوجی مداخلت کے نہایت تباہ کن نتائج بر آمد ہوئے تھے جس کے اب تک تاریک سائے منڈلارہے ہیں۔ 2011میں لیبیا میں عرب بہار کی آڑ میں معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور ان کی جان لینے کے لئے مغربی اتحادیوں نے جن میں برطانیہ، امریکا اور فرانس پیش پیش تھے، باغیوں کی مدد کے لئے ناٹو کے تابڑ توڑ حملے کر کے قیامت ڈھائی تھی۔ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کا دعوی تھا کہ یہ فوجی مداخلت معمر قذافی کے باغیوں کا قتل عام روکنے کے لئے انسانی ہمدردی کا اقدام ہے۔ دراصل مغربی طاقتوں نے قذافی کا تختہ الٹنے اور لیبیا کے تیل اور سونے کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے باغیوں کی شورش برپا کی تھی جس کے دوران لیبیا کے شہر کھنڈر بن کر رہ گئے، کئی ہزار افراد ہلاک ہوگئے اور پانچ لاکھ سے زیادہ لیبیائی جو پورے افریقہ میں سب سے زیادہ خوشحال مانے جاتے تھے نادار اور بے گھر ہوگئے۔

صدر بش کے دور کے نائب وزیر دفاع ڈگلس فیتھ نے عراق کی جنگ کے بارے میں اپنی کتاب میں یہ انکشاف کیا ہے کہ 9/11سے بہت پہلے امریکا نے معمر قذافی کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ امریکا اور اس کے اتحادی 1969سے معمر قذافی سے سخت ناراض جلے بیٹھے تھے جب انہوں نے لیبیا میں غیر ملکی بنکوں کو قومی تحویل میں لے لیا تھا اور مغربی طاقتوں کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوگیا جب قذافی نے لیبیا کے تیل کے ذخائر قومی ملکیت میں لینے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ لیبیا کے تیل کی دولت لیبیا کےعوام کی دولت ہے اوراسے انہیں اپنی خوشحالی کے لئے استعمال کرنے کا حق ہے۔

اسی وقت مغربی قوتوں نے قذافی کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ لیبیا کا جوہری پروگرام اور جوہری اسلحہ بنانے کی صلاحیت تھی۔ مغربی اتحادیوں نے یہ مشن برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کے سپرد کیا کہ وہ قذافی کو اپنا جوہری پروگرام ترک کرنے اور جوہری تنصیبات امریکہ کے حوالہ کرنے پر آمادہ کریں۔ چنانچہ 2004میں ٹونی بلیر بھاگے بھاگے طرابلس گئے اور معمر قذافی کو ڈرایا کہ ان کا حشر بھی صدام حسین کی طرح ہو سکتا ہے۔ ٹونی بلیر نے ایسی عیاری سے معمر قذافی کو شیشے میں اتار ا کہ وہ اپنی جوہری تنصیبات جہاز میں لادکر امریکا کے حوالے کرنے پر تیار ہوگئے۔

مغربی قوتیں اس وقت بھڑک اٹھیں جب انہیں پتہ چلا کہ معمر قذافی نے لیبیا کے سنٹرل بنک کو سو فی صد قومی ملکیت میں لینے اور دینار کی کرنسی کے اجرا کے بعد افریقہ کے مرکزی بنک کے قیام کا منصوبہ تیار کر لیا ہے اور اس مقصد کے لئے 150ٹن سونا مخصوص کیا ہے، اس منصوبہ کی وجہ سے امریکا کو اپنے ڈالر کے ڈوبنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔

2011میں معمر قذافی کے خلاف عوام کو بھڑکانا آسان نہیں تھا کیونکہ 1967میں جب شاہ ادریس کو تخت سے اتار کر فوج کے بل پر معمر قذافی بر سر اقتدار آئے تھے تو اس وقت لیبیا افریقہ کا غریب ترین ملک تھا لیکن چالیس سال کے دور میں قذافی نے تیل کی دولت کواور غیر ملکی بنکوں کو مغربی تسلط سے آزاد کرا کے ملک کو افریقہ کا سب سے زیادہ خوشحال ملک بنا دیا۔ قذافی کے دور میں ہر شہری کو مفت صحت کی سہولت حاصل تھی، ہر شہری کے لئے ہر سطح پر تعلیم مفت تھی، بجلی بالکل مفت تھی، نئے شادی شدہ جوڑوں کو حکومت کی طرف سے وافر مالی امداد دی جاتی تھی تاکہ وہ خوش حال زندگی بسر کر سکیں۔ شہریوں کو بلا سود قرضوں کی سہولت حاصل تھی۔ معمر قذافی کے دور سے پہلے گنی چنی لڑکیاں یونیورسٹی جاتی تھیں لیکن پچھلے چالیس برس میں یونیورسٹیوں میں طالبات کی تعداد نصف سے زیادہ ہے اور ساٹھ فیصد خواتیں بر سر روزگار ہیں۔ لیبیا نہ صرف شمالی افریقہ کے ملکوں کے شہریوں کو روزگار فراہم کرتا تھا بلکہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیا کے شہریوں کے لئے بھی روزگار کے دروازے کھلے تھے۔

معمر قذافی کا تختہ الٹنے اور ان کے قتل کے بعد، لیبیا میں اس بُری طرح سے افرا تفری مچی اور علاقائی سرداروں کے درمیاں اقتدار کے لئے ایسی سخت جنگ بھڑک اٹھی کہ مغربی قوتیں لیبیا پر اپنا تسلط نہ جما سکیں۔ پچھلے آٹھ سال کے دوران لیبیا ۳ متحارب حکومتوں میں بٹا رہاہے۔ ایک طرف طبرق میں 2014کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت تھی اور دوسری جانب طرابلس میں قائم قومی نجات کی حکومت تھی اور تیسری قومی مفاہمت کی GNA حکومت جو در اصل مغربی قوتوں نے 2015کے آخر میں قائم کی تھی جس کو یورپی یونین اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ اسی کے ساتھ مشرق میں ایوان نمائندگان کی حکومت کی حامی لیبین نیشنل آرمی ہے جس کے سربراہ جنرل خلیفہ حفتر ہیں۔ جنر ل حفتر، معمر قذافی کے پرانے ساتھی تھے لیکن وہ قذافی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش میں پکڑے گئے تھے اور قید کر لئے گئے تھے۔ امریکا نے ان کو قذافی کی قید سے آزاد کرایا تھا اور 1993سے وہ امریکا میں مقیم تھے جہاں انہوں نے امریکی شہریت لے کر سکونت اختیار کر لی تھی لیکن 2011میں جب مغربی قوتوں نے قذافی کے خلاف شورش بھڑکائی تو جنرل حفتر فورا ًلیبیا واپس آگئے اور باغیوں کی قیادت سنبھال لی۔

اب مغربی قوتوں کی پشت پناہی اور مدد و اعانت کے ساتھ جنرل حفتر نے طرابلس میں قائم حکومت کو گرانے کے لئے خوں ریزفوج کشی شروع کر دی ہے، جس کے دوران کئی سو لیبیائی ہلاک ہو چکے ہیں۔جنرل حفتر کو فرانس کی کھلم کھلا حمایت حاصل ہے اور مصر کے فوجی آمر جنرل عبدالفتاح السیسی کی پشت پناہی اور مشورے بھی انہیں حاصل ہیں۔ پچھلے دنوں جنرل السیسی نے لیبیا کی صورت حال پر واشنگٹن میں صدر ٹرمپ سے صلاح مشورہ کیا ہے۔ جنرل حفتر کو امریکا کی شہہ پرسعودی عرب کی بھی حمایت اور مالی امداد بھی حاصل ہے۔

مغربی قوتیں اس وقت لیبیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ بلاشبہ ان کا اولین مقصد لیبیا کے تیل کی دولت پر قبضہ کرنے اور افریقہ میں اپنا اثر جمانے کا ہے اور اسی کے ساتھ کوشش ہے کہ لیبیا سے یورپ میں پناہ گزینوں کے سیلاب کو روکنے کے اقدامات کئے جائیں۔ غرض لیبیا کو پھر ایک بار تباہ کن آفت کا سامنا ہے۔

The post لیبیا پھر ایک بارتباہ کن آفت کے گھیرے میں۔ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2LwnVs3

فلاحی اداروں کو بچائیں …

فلاحی ادارے سوسائٹی کا حسن ہوتے ہیں ۔ یہ حکومت کے متبادل کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ جن ایشوز کو حکومت نظر انداز کرتی ہے یا جہاں پر وہ نہیں پہنچ پاتی ، وہاں ہمیں فلاحی ادارے نظر آتے ہیں ۔ ان اداروں کو حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی بلکہ عوام کے تعاون سے یہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ بدقسمتی سے گذشتہ دو سالوں میں فلاحی اداروں کو اپنی خدمات جاری رکھنے کے سلسلے میں خاصی مشکلات کا سامنا ہے ۔ انہیں مختلف چیلنجز سے گزرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے رفاہی کاموں کا دائرہ کار محدود ہو رہا ہے ۔ بیشتر اداروں کو فنڈز کی بندش ، مسلسل سکروٹنی کے عمل سے گزرنے اور کلئیرنس جیسے مسائل درپیش ہونے کی وجہ سے اپنے پراجیکٹس سمیٹنا پڑ رہے ہیں ۔ فلاحی کاموں میں رضاکارانہ وقت دینے والے افراد اور عطیات دینے والے حضرات ، دونوں ہی اپنی خدمات کا دائرہ محدود کر رہے ہیں ، جس کے نتیجے میں فلاحی و رفاہی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں آ رہی ہے ۔ خدمات کی سرپرستی سے یوںہاتھ کھینچا جانے لگے گا تو فلاحی ادارے بند ہونا شروع ہو جائیںگے ۔ یوں جن کے زخموں پر ان اداروں کی وجہ سے مرہم رکھا جاتا ہے ، ان کے زخم پھر سے ہرے ہوں گے اور یہ امر خود حکومت کیلئے بھی مشکل کا باعث بنے گا ۔

ہمارے معاشرے میں 70 فیصد سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جبکہ ’’نئے پاکستان‘‘ کے قیام کے بعد ’’نومولود‘‘ حکومت جن چیلنجز کا شکار ہے ، وہ غربت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں ۔ عام طبقے میں احساس محرومی بڑھ رہا ہے اور معاشرہ عدم برداشت کی جانب گامزن ہے ۔ ایسے میں فلاحی ادارے ہی سفید پوش طبقے کا واحد سہارا ہوتے ہیں جو انہیں مایوسی کی کیفیت سے نکال کر زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں ۔ ان اداروں کا ہونا ہمارے معاشرے کیلئے کسی غنیمت سے کم نہیں ہے ۔ ان کی سرپرستی اور انہیں چیلنجز سے نکال کر قومی دھارے میں واپس لانا اشد ضروری ہے تاکہ یہ خدمات کی ترسیل کر سکیں اور مجبور طبقے کو سکھ کا سانس نصیب ہو ۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بے شمار چیلنجز اور درپیش مسائل کے باوجود بہت سے فلاحی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ اگرچہ ان کی خدمات کا دائرہ محدود ہوا ہے ، ان کے وسائل میں کمی آئی ہے ، مگر ان کا سفر جاری ہے ۔ ہاں البتہ جن غیر ملکی این جی اوز کا بوریا بستر گول ہوا ہے ، وہ اس لحاظ سے نیک شگون ثابت ہوا ہے کہ ہمارے لوگوں نے ان اداروں کو پرکھ کر ان کا ساتھ دینے کا آغاز کیا ہے ۔ یہ ایک مثبت تبدیلی ہے جسے بہرصورت سراہنا چاہئے ۔

ماہ رمضان کی آمد ہوتی ہے تو ہر ادارے کی طرف سے نہ صرف عوام الناس سے عطیات کی اپیل کی جاتی ہے بلکہ ان اداروں کی جانب سے قلم قبیلے کو بھی درخواست کی جاتی ہے کہ وہ قلم کی زکوۃ دیتے ہوئے ان کا پیغام قارئین تک پہنچائیں ۔ کیونکہ الفاظ بظاہر غیر متحرک اور بے وزن دکھائی دیتے ہیں مگر یہی ساکت نقطے اور بے جان لکیریں ایک دل سے نکل کر کسی دوسرے کی دنیا بنا سکتی ہیں۔

ہمارے ہاں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ پیٹ کے بعد لوگوں کی صحت کا ہے ۔ ہسپتالوں میں جائیں تو آپ کو مریضوں کی لائنیں لگی ملتی ہیں ۔ تعلیم کے بعد سب سے مہنگا آئٹم علاج ہے ۔ ہر بیماری لمبی رقم مانگتی ہے ، لیکن ہر فرد اس کا بندوبست کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ۔ دوسری جانب گلی گلی کھلے نجی ہسپتال بھی عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ ایسے میں لاہور کے کینٹ میں واقع آمنہ جبار ہسپتال سفید پوش طبقے کو علاج میں آسانی فراہم کررہا ہے ۔ مریض صرف 30 روپے میں بہترین اور ماہر ڈاکٹرز سے استفادہ کر رہے ہیں جبکہ مفت دوائی اور حیران کُن حد تک سستے ترین لیبارٹری ٹیسٹ کی سہولت بھی دی جارہی ہے ۔ محدود وسائل کے باوجود اہلیان علاقہ کی خدمت میں مصروف ایک مستند مرکزِ صحت ہے ۔ آمنہ جبار ہسپتال رواں سال میں آنکھوں کے آپریشن کی سہولت کا آغاز کرنا چاہتا ہے ۔ اس ضمن میں مشینری کی خریداری کیلئے ہسپتال کو زکوۃ و عطیات کی اشد ضرورت ہے ۔

ثریا عظیم ہسپتال کم خرچ پر علاج کرنے والا مرکزِ صحت ہے ۔ دیگر ہسپتالوں کی نسبت سینئر ڈاکٹرز کی فیس یہاں انتہائی کم ہے جبکہ مستحقین کو علاج کی مفت سہولیات دی گئی ہیں ۔ گذشتہ سال ہسپتال نے مخیر حضرات کے تعاون سے ڈائیلیسز اور کارڈیک کا شعبہ قائم کیا تھا ۔ علاج کی بروقت سہولیات دینے کیلئے ان دونوں منصوبوں میں توسیع درکار ہے ۔

تھوڑی سی بات تعلیم پر بھی کریں تو ہماری بیشتر این جی اوز کو یتامیٰ کی کفالت کیلئے فنڈز کی اشد ضرورت رہتی ہے ۔ اس ضمن میں وہ ہر سال عطیات کی اپیل کرتی ہیں ۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ بھی ایک ایسا ہی ادارہ ہے جو پاکستان کے پسماندہ دیہاتوں میں محدود وسائل ، دگرگوں معاشی حالات اور ترجیحات کی عدم دستیابی کا شکار مستقبل کے معماروں کے سر پر موجود بے یقینی کی دھند کو ہٹانے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔یہ ادارہ 45 ہزار سے زائد یتیم اور مستحق بچوں کی تعلیمی کفالت کرکے ایک عظیم فریضہ نبھا رہا ہے ۔ رواں سال غزالی ٹرسٹ کا ٹارگٹ دیہاتوں کے مزید 2000 یتیم اور مستحق بچوں کو تعلیمی کفالت کے دائرے میں شامل کرنا ہے ۔ بلاشبہ یہ کام مخیر حضرات کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ۔

سعدیہ کیمپس معذوربچوں کی پرورش کر رہا ہے ۔ ان کو تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں اور معاشی میدان میں بھی انہیں خود مختار بنانے کیلئے کوشاں ہے ۔ یہ تسلسل برقرار رکھنے کیلئے سعدیہ کیمپس کو زکوۃ و عطیات کی ضرورت رہتی ہے ۔

ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اپنے اپنے تئیں دکھی انسانیت کی خدمت اور وسائل سے محروم طبقے کو سہولیات کی دستیابی ممکن بنا رہے ہیں ۔ ایسے اداروں کو دیکھ پرکھ کر ان کا ساتھ دینا ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی ۔ موجودہ حالات اور درپیش چینلجز کی وجہ سے ایسے فلاحی اداروں کا دائرہ کار مختصر ہو رہا ہے ۔ انہیں ہم سب نے مل کر سنبھالنا ہے ۔ ان کی حفاظت کرنی ہے ۔ انہیں بچانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ۔محروم طبقات کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کیلئے قدرت نے ہمیں ’’سہولت کار‘‘ بنایا ہے اور ہمیں اپنی اس ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے اپنی اپنی سہولت کے مطابق رفاہی اداروں کا ساتھ دینا ہے … کیونکہ یہ ہمیں نیکی کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اس موقع کو دانستہ طور پر ضائع کر دیں؟ … ہمیں اس ضمن میں حکومت سے کوئی امید نہیں رکھنی چاہئے ۔ فلاحی ادارے ہمارے اپنے ادارے ہیں اور انہیں ہم سب نے مل کر ہی چلانا ہے ۔ آئیے قدرت کی جانب سے دی گئی ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ان اداروں کی معاونت کریں ۔ بلاشبہ یہ امر یوم آخرت ہماری کامیابی کا عنوان ٹھہرے گا ۔

The post فلاحی اداروں کو بچائیں … appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2YdD02T

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny