Tuesday, May 1, 2018

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Israeli PM Netanyahu reveals Iranian nuke designs, blueprints, spreadsheets

04/30/18 1:27 PM

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Netanyahu set to reveal 'dramatic' intelligence about Iran nuke deal, report says

04/30/18 12:55 PM

شبِ برأت

امام ترمذی ’’السنن‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں ایک رات میں نے حضور نبی اکرمؐ کو (بستر مبارک پر) موجود نہ پایا تو میں آپؐ کی تلاش میں نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ (مدینہ منورہ کے قبرستان) جنت البقیع میں موجود ہیں۔

آپؐ نے (مجھے دیکھ کر) فرمایا: ’’اے عائشہ! کیا تم اس با ت کا خوف رکھتی ہوکہ اللہ اور اس کے رسولؐ تمہارے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی ناانصافی کریں گے۔‘‘ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ﷺ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ شعبان کی پندرہویں شب اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف ایک خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے، اور (عرب میں سب سے زیادہ بکریاں رکھنے والے) قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کو بخشتا ہے۔ ‘‘

امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ جب شعبان کی پندرہویں شب آئے، تو اس رات قیام کیا کرو اور دن میں روزہ رکھا کرو۔ اس رات غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان قدرت کے ساتھ) نزولِ اِجلال فرماتا ہے اور اعلان فرماتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے گناہوں کی معافی مانگنے والا سو میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کے رزق میں وسعت پیدا کر دوں، ہے کوئی مصائب و آلام میں مبتلا شخص کہ مجھ سے مانگے، سو میں اسے عافیت عطا کر دوں، ہے کوئی ایسا شخص ، کوئی ایسا شخص ہے، کوئی ایسا شخص ہے (ساری رات اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا رہتا ہے اور اپنی عطا و سخا کے دامن کو پھیلائے رکھتا ہے) حتیٰ کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔ ‘‘

آج کی رات جب رحمت الہٰی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اس وقت رحمت الہٰی پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کوئی ہے بخشش مانگنے والا کہ اسے بخش دوں، کوئی ہے رزق کا طلب گار کہ میں اس کا دامن مراد بھردوں۔ امام ابن ماجہ ’’السنن‘‘ میں حدیث بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ سے بہترین دعا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ترجمہ: ’’ اے اللہ! بے شک تو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ پس اے بخشنے والے! ہمیں بھی بخش دے۔‘‘

یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برأت کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت و سعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔

من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بے امنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔

آئیے اس غفار، رحمٰن اور رحیم ربّ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہائیں اور خلوصِ دل سے توبہ کریں، حسبِ توفیق تلاوت کلام پاک کریں اور نوافل پڑھیں۔ استغفار اور دیگر مسنون اَذکار کے ساتھ دلوں کی زمین میں بوئی جانے والی فصل تیار کریں اور پھر اسے آنسوؤں کی نہروں سے اسے سیراب کریں تاکہ رمضان المبارک میں معرفت و محبت الہٰی کی کھیتی اچھی طرح نشو و نما پاکر تیار ہو سکے۔

قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اْگی خود رَو جھاڑیوں کو (جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں) اکھاڑ سکے گی اور ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور جذب کا مادہ پیدا ہو گا۔ سو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے، جس میں ہم خود کو بہتر طور پر آنے والے مقدس مہینے کے لیے تیار کر سکتے ہیں۔

The post شبِ برأت appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HJdv1M

مغفرت و شفاعت کی رات

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ عزوجل (خاص طور پر) ان چار راتوں میں بھلائیوں کے دروازے کھول دیتا ہے، عیدالاضحی کی رات، عیدالفطر کی رات، شعبان کی پندرھویں رات (اس رات میں مرنے والوں کے نام اور لوگوں کا رزق اور (اس سال) حج کرنے والوں کے نام لکھے جاتے ہیں) عرفہ (نو ذی الحج کی رات، اذان فجر تک)۔‘‘

پندرہ شعبان المعظم کی رات بہت اہم ہے کہ اس میں نہ جانے کس کی قسمت میں کیا لکھ دیا جائے۔

’’غنیتہ الطالبین‘‘ میں آیا ہے: ’’بہت سے کفن دھل کر تیار رکھے ہوتے ہیں، مگر کفن پہننے والے بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں، مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالاں کہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ بہت سے مکانات کی تعمیر کا کام مکمل ہونے والا ہوتا ہے، مگر ساتھ ہی ان مکانوں کے مالکان کی موت کا وقت بھی سر پر پہنچ چکا ہوتا ہے۔‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے، حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میرے پاس جبرائیل ؑ آئے اور کہا: یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ جہنم سے اتنے لوگوں کو آزاد فرماتا ہے جتنے بنی کلب کی بکریوں کے بال ہیں، مگر کافر اور عداوت والے اور رشتے کاٹنے والے اور (ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والے اور والدین کی نافرمانی کرنے والے، اور شراب کے عادی، ان لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرماتا۔‘‘

امام محمد غزالی ؒ فرماتے ہیں: ’’شراب کا عادی، زنا کا عادی، ماں باپ کا نافرمان، رشتے داروں سے قطع تعلق کرنے والا، نشے باز اور چغل خور کی اس رات بخشش نہیں۔‘‘

ایک روایت میں نشے باز کی جگہ تصویریں بنانے والا بھی آیا ہے۔ اسی طرح کاہن، جادوگر، تکبر کے ساتھ پاجاما یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکالنے والے، دو مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈلوانے والے اور کسی مسلمان سے کینہ رکھنے والے پر بھی اس رات مغفرت سے محرومی کی وعید ہے۔ چناں چہ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر خدا نہ خواستہ وہ متذکرہ گناہوں میں سے کسی گناہ میں ملوث ہوں تو شب برأت کے آنے سے پہلے ہی دل سے سچی توبہ کرلیں اور تمام معاملات صاف کرلیں۔

حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان عظیم ہے: ’’جب پندرہ شعبان کی رات آئے تو اس میں قیام (یعنی عبادت) کرو اور دن میں روزے رکھو! بے شک، اللہ غروب آفتاب کے بعد آسمان دنیا پر خاص تجلی فرماتا اور فرماتا ہے: ’’ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے کوئی روزی طلب کرنے والا کہ اسے روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اسے عافیت عطا کروں؟ ہے کوئی ایسا، ہے کوئی ایسا، اور یہ اس وقت تک فرماتا رہتا ہے، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجائے۔‘‘

شب برأت میں اعمال نامے تبدیل ہوتے ہیں، لہٰذا ممکن ہو تو چودھویں شعبان المعظم کو بھی روزہ رکھ لیا جائے، تاکہ اعمال نامے کے آخری دن بھی روزہ ہو۔ 14 شعبان کو عصر کی نماز پڑھ کر مسجد میں نفلی اعتکاف کی نیت سے قیام کیا جائے، تاکہ اعمال نامہ تبدیل ہونے کے آخری لمحات میں مسجد کی حاضری اور اعتکاف لکھا جائے۔

معمولات اولیائے کرام میں سے ہے کہ مغرب کے فرض و سنت وغیرہ کے بعد چھے رکعت نفل دو دو رکعت کرکے ادا کیے جائیں۔ پہلی دو رکعت سے پہلے یہ نیت کریں: ’’یااللہ! ان کی برکت سے درازی عمر بالخیر عطا فرما۔‘‘

اس کے بعد دو رکعت میں یہ نیت کریں: ’’یااللہ! ان کی برکت سے تمام بلاؤں اور آفات سے میری حفاظت فرما۔‘‘

اس کے بعد والی دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کریں: ’’یااللہ! ان کی برکت سے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر!‘‘

ہر دو رکعت کے بعد اکیس بار قل ہو اللہ احد (پوری سورت) یا ایک بار سورۂ یٰسین پڑھیں، بل کہ ہوسکے تو دونوں ہی پڑھ لیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی ایک فرد یٰسین شریف بلند آواز سے پڑھے اور دوسرے خاموشی سے سنیں۔ اس میں یہ خیال رکھیں کہ دوسرا اس دوران زبان سے یٰس شریف بل کہ کچھ بھی نہ پڑھے۔ انشاء اللہ رات شروع ہوتے ہی ثواب کا انبار لگ جائے گا۔ ہر بار یٰس شریف کے بعد دعائے نصف شعبان بھی پڑھیں۔

مغرب کے بعد کی جانے والی یہ عادت نفلی ہے، فرض یا واجب نہیں۔ مغرب کے بعد نوافل و تلاوت کی شریعت میں کہیں ممانعت بھی نہیں لہٰذا ممکن ہو تو تمام حضرات اپنی مساجد میں اس کا اہتمام فرمائیں اور ڈھیروں ثواب کمائیں۔ خواتین اپنے گھروں میں اس کا اہتمام کریں۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات سرور کائنات ﷺ کو جنت البقیع میں دیکھا۔ آپؐ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’بے شک! اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات کو آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گناہ گاروں کو بخش دیتا ہے۔‘‘

شب برأت میں مَردوں کا قبرستان جانا سنّت ہے، البتہ خواتین کو شرعاً اجازت نہیں ہے۔ شب برأت، جہنم کی آگ سے برأت یعنی چھٹکارا پانے کی رات ہے۔ اس میں دل و جان سے اللہ کی عبادت کی جائے، اس کی رضا اور خوش نودی حاصل کی جائے اور آتش بازی جیسے فعل حرام سے اجتناب کیا جائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو اس مقدس رات کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

The post مغفرت و شفاعت کی رات appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I3R76A

یکم مئی، تاریخ کا ایک اَمر دن

یکم مئی 1986 وہ تاریخ ساز دن تھا جب امریکا کے شہر شکاگو کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں نے غیرانسانی اوقات کار، حالات کار اور اُجرتوں میں اضافے جیسے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پر امن جدوجہد کا آغاز کیا۔

یکم مئی کی تحریک کوئی اچانک پیدا ہوجانے والی تحریک نہیں تھی، بلکہ یہ امریکا میں انیسویں صدی کے آغاز سے شروع ہوجانے والی مزدور تحریکوں کا تسلسل تھی۔ 1806 میں امریکا کے مزدوروں نے اوقات کار میں کمی کی تحریک شروع ۔ 1827 میں فلاڈیلیفیا میں15 مزدور یونینوں کے اتحاد ’’مکنیکس یونین آف ٹریڈ ایسوسی ایشن‘‘ نے غیرمعینہ مدت کے بجائے دس گھنٹے اوقات کار کے لیے احتجاجی تحریک چلائی۔ 1861 میں امریکی کانوں کے محنت کش بھی خود کو منظم کرچکے تھے۔

اس زمانے میں مزدوروں کی بیس انجمنیں قائم ہوچکی تھیں جو اوقات کار میں کمی کے لیے ہم آواز تھیں۔ 20 اگست 1866 کو امریکا بھر کی مزدور تنظیموں کے نمائندوں نے بالٹی مور میں جمع ہوکر ’’نیشنل یونین لیبر‘‘ کے نام سے ایک مشترکہ تنظیم بنائی جس نے امریکا بھر میں یومیہ آٹھ گھنٹے کام کرنے کا شیڈول نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس تحریک کو دبانے کے لیے صنعت کاروں نے  جبری برطرفیوں اور تشدد کی روش اختیار کی، لیکن اس تحریک کو دبایا نہیں جاسکا۔ 1870 اور 80 کی دہائیوں میں امریکا کے مزدوروں نے کئی ایک احتجاجی تحریکیں اور ہڑتالیں کیں۔

1973 میں شکاگو میں امریکا کی تاریخ میں امریکی حکومت کے خلاف مزدوروں کا سب سے بڑا مظاہرہ ہوا، 1875 میں مزدور تحریک کے دس سرگرم کارکنوں کو سزائے موت دی گئی لیکن مزدور تحریک آگے بڑھتی رہی۔ اکتوبر 1884 میں ’’فیڈریشن آف ٹریڈ یونین‘‘ نے ایک قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ اگر یکم مئی 1886 تک اوقات کار آٹھ گھنٹے نہ کیے گئے تو مزدور کام بند کردیں گے۔ اس اعلان کے بعد ایک طرف مزدوروں کی جدوجہد میں تیزی آئی تو دوسری جانب حکومت کے جبر و تشدد میں بھی اضافہ ہوتا چلاگیا۔

یکم مئی 1884 تک محنت کشوں کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا، جس کے نتیجے میں اس دن سے پورے امریکا میں مزدوروں نے کام روک کر احتجاج کا سلسلہ شروع کردیا۔ تین مئی کو شکاگو میں امریکی پولیس نے ہڑتالی مزدوروں پر شدید لاٹھی چارج کیا اور بعد ازاں فائرنگ شروع کردی جس سے چار محنت کش شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔

حاکموں کی اس بربریت کے خلاف اگلے روز پورے امریکا میں مزدور سراپا احتجاج تھے۔ شکاگو کے Hey market square پر مرکزی جلسے سے مزدور راہ نماؤں کے خطاب کے دوران پولیس نے مداخلت کی اور اسے زبردستی ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس میں ناکامی پر پولیس نے جلسے پر دستی بم پھینکا جس سے خود ایک پولیس اہل کار ہلاک ہوگیا۔ اس کے بعد پولیس نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ پچاس کے قریب مزدور پولیس فائرنگ سے شہید جب کہ ان گنت زخمی ہوگئے۔ اس موقع پر ایک مزدور نے اپنے شہید ساتھی کی سفید قمیص جو خون سے سرخ ہوچکی تھی، پرچم کے طور پر فضا میں بلند کی۔ تب سے سرخ پرچم محنت کشوں کا عالمی نشان ٹھہرا۔

شکاگو کے سرکردہ مزدور راہ نماؤں اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر، جارج اینجل، لوئس لنگ، مائیکل شواب، سیموئیل فیلڈن اور اسکرنیب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان میں سب اوگست اسپائس، البرٹ پارسنز، اڈولف فشر اور جارج اینجل کو 11 نومبر 1887 کو پھانسی دی گئی جب کہ مائیکل شواب اور سیموئیل فلڈن کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔ لوئس لنگ کی جیل میں وفات ہوگئی تھی۔ ان مزدور راہ نماؤں میں سے 2 کا امریکا جب کہ باقی کا برطانیہ، آئر لینڈ اور جرمنی سے تعلق تھا۔ شکاگو کے حاکموں نے اس واقعے کو محض ’’ہے مارکیٹ کے بلوے‘‘ کا نام دینا چاہا، مگر یہ دن تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ 1889 میں یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ہوا اور 1890 سے اس دن کو دنیا بھر میں منانے کا آغاز ہوا۔

آج ایک طرف سام راجی ممالک دنیا بھر میں محنت کش عوام کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ، منڈیوں کے پھیلاؤ اور قبضوں کی اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگوں میں مصروف ہیں اور عالمی مالیاتی سام راجی اداروں کے ذریعے مسلط کردہ پالیسیوں اور معاہدوں کے ذریعے غلامی کے ایک ایسے نئے چلن کو عام کردیا گیا ہے جس سے کرۂ ارض پر موجود کوئی سماج اور اس میں بسنے والے انسان محفوظ نہیں ہیں۔

دوسری طرف ہم ایسے ممالک بالخصوص پاکستان کے رجعت پسند صنعت کار حکم راں ہیں جو ان کی گماشتے بن کر یہاں کے محنت کش عوام کی زندگیوں سے مسلسل کھلواڑ میں مصروف ہیں۔ ایک جانب IMF، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے نتیجے میں سرمایہ داروں کی دولت اور منافع میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے، تو دوسری طرف ملک کی تقریباً آدھی آبادی غربت کی سطح سے بھی انتہائی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی ہے۔ نجکاری اور ڈاؤن سائزنگ قوت خرید کو مکمل طور پر مفلوج کردینے کی بھیانک شکل میں سامنے ہے۔ بے روزگاری، غربت، بھوک، بیماری اور افراط زر میں ہوشربا اضافے کے باعث محنت کشوں کی حقیقی اُجرتوں میں 100فی صد سے زاید کمی انہی مزدور دشمن پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔

عوامی مینڈیٹ کے زعم میں مبتلا وفاقی حکومت ہوں یا سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی صوبائی حکومتیں ہوں یہ سب محنت کش طبقے کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ مراعات چھیننے میں ایک دوسرے سے کم نہیں۔ صنعتی و مالیاتی اداروں کی نج کاری کا معاملہ ہو، جبری برطرفیاں ہوں، کم از کم تنخواہ پر عمل در آمد، سوشل سیکیوریٹی سمیت سماج تحفظ سے رجسٹریشن کا معاملہ ہو یا اداروں میں یونین سازی کے حق کو تسلیم کرنے کا معاملہ، ان سب کا مزدور دشمن رویہ روز روشن کی طرح عیاں نظر آتا ہے، صنعتی اداروں میں مخدوش صورت حال کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف پانچ فی صد ورکرز کے پاس ہی تقرر نامے ہیں، جب کہ 95 فی صد اس بنیادی حق سے محروم ہیں، جس کے باعث وہ لیبر عدالتوں یا سماجی تحفظ کے اداروں میں خود کو مزدور ثابت کرکے اپنا قانونی حق حاصل نہیں کرسکتے۔

اسی طرح صرف 2.5 فی صد مزدوروں کو یونین سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی طرح ملک کی 6 کروڑ 20 لاکھ کی ورک فورس میں 70 فی صد غیر منظم شعبے سے وابستہ ہے اور ان کی ایک بڑی تعداد گھر مزدوروں کی ہے۔ 1 کروڑ 80 لاکھ گھر مزدوروں میں خواتین محنت کشوں کی تعداد 1 کروڑ 50 لاکھ ہے لیکن پیداواری عمل میں حصہ لینے والے یہ گھر مزدور قانونی طور پر ورکر تسلیم نہ کیے جانے کی وجہ سے اپنے قانونی حقوق سے محروم ہیں۔

آج یکم مئی کا درس یہی ہے کہ مزدور تحریکوں، احتجاجوں اور مزاحمت کی چنگاریوں کو ایک ایسے توانا شعلے میں تبدیل کردیا جائے جو لوٹ کھسوٹ اور جبر پر مبنی اس فرسودہ اور عوام دشمن سرمایہ داری جاگیرداری کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے۔

The post یکم مئی، تاریخ کا ایک اَمر دن appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2HJdmvg

مزدور تحریک عالمی سطح پر

ہر سال کی طرح اِمسال بھی یکم مئی کا دن آیا ہے۔

دنیا بھر میں کروڑوں محنت کش عوام شکاگو کے اُن شہداء کو کہ جو1886میں 8گھنٹہ یومیہ اوقاتِ کار مقرر کروانے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلے، ریاست کے جبر کا سامنا کیا، سیکڑوں کی تعداد میں زخمی ہوئے، کم از کم دس مزدوروں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، جب کہ مزدوروں کو منظم اور اُن کی آواز بلند کرنے کے جرم میں سیکڑوں مزدور راہ نماؤں کو گرفتار کیا گیا۔ اُن میں سے مشہور راہ نما اسپائس، فیلڈین، پارسنز، ایڈولف، فشر، جارج اور اینجل کو موت کی سزا دی گئی اور اُنہیں11نومبر 1887میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا۔

پاکستان میں مزدور تحریک کے ستر سال جدوجہد، قربانیوں، آزمائشوں، محرومیوں اور کام یابیوں پر بھی مشتمل ہیں۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ آج پاکستان میں ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک انحطاط کا شکار ہے۔ ملازمتوں کے ٹھیکے داری نظام، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ ایمپلائمنٹ سسٹم اور آؤٹ سورسنگ کے نظام نے ٹریڈ یونینز کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

سروس سیکٹر کے اداروں بالخصوص پرائیوٹائزڈ کمرشیل بینکس کہ جہاں پرائیوٹائزیشن سے قبل ملازمین کی کُل تعداد کا تقریباً 75فی صد کسی بھی بینک کی یونین کے ممبر ہوتے تھے اب یہ شرح گھٹ کر صرف 10فی صد رہ گئی ہے۔ بڑے بڑے کمرشیل بینکس میں ٹریڈ یونین کے لئے کام کرنا دن بدن مشکل ہوتا جارہا ہے۔

انہیں کام کرنے سے روکا جارہا ہے، عہدے داران کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں، اُنہیں دیوار سے لگادیا گیا ہے۔ ٹریڈ یونین تحریک کے جانے پہچانے راہ نما ناصر منصور کے بقول پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک ڈایالیسس پر ہے جب کہ راقم الحروف کے خیال میں خاص طور پر بینکنگ انڈسٹری میں یہ تحریک بدقسمتی سے بسترِمرگ پر آخری سانسیں لے رہی ہے۔ اس صورت حال کی تبدیلی کے لیے جدوجہد بہرکیف جاری ہے اور ہمیں یقین ہے کہ طویل سیاہ رات بہت زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے گی کیوںکہ اُجالے کا راستہ آج تک کوئی روک نہیں سکا ۔

ہم دنیا کے دیگر ممالک میں مزدور تحریک پر بھی نظر ڈالیں تو صورت حال حوصلہ افزا کسی طور نظر نہیں آتی۔ ریاستِ ہائے متحدہ امریکا میں 1983؁ میں 17.7ملین کی تعداد یونین کی ممبر ہوتی تھی جب کہ 2016؁ میں یہ تعداد گھٹ کر 14.6ملین رہ گئی ہے۔

پرائیویٹ سیکٹر میں یونین کی ممبر شپ 60 فی صد سے بھی نیچے گرگئی۔ صنعتی انقلاب کے نتیجے میں 19ویں صدی کے وسط میں امریکا میں ٹریڈ یونین کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا تھا وہاں بھی پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں میں ٹریڈ یونین کی ممبرشپ دن بہ دن گھٹتی جارہی ہے۔ امریکا میں ٹریڈیونینز ریاستوں اور وفاقی سطح پر سیاست اور انتخابات میں حصہ لیتی ہیں اور ہم خیال تنظیموں کے اشتراک سے سیاسی، سماجی اور صحت کے مسائل جیسی سرگرمیوں میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ امریکا میں ٹریڈ یونین ایجوکیشن کے باضابطہ ادارے قائم ہیں۔ اس ضمن میں کارنل یونیورسٹی پوری دنیا میں سب سے زیادہ لیبر ایجوکیشن کے حوالہ سے قیادتی کردار ادا کرنے والے ادارہ کے طور پر معروف ہے۔

برطانیہ جمہوریت اور ٹریڈ یونینز اور مزدور تحریک کے حوالہ سے دنیا بھر میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اُس ملک کے مزدوروں اور تنظیموں نے دو صدیوں کی طویل جدوجہد کے بعد موجودہ حقوق حاصل کیے۔

یاد رہے کہ 18ویں صدی میں برطانیہ میں ہڑتال کرنے کی سزا 3 ماہ کی قید یا 2 ماہ کی قید بامشقت ہوا کرتی تھی۔ 1888؁ اور 1918؁ کے دوران ٹریڈ یونینز کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مزدوروں نے اپنے حقوق تسلیم کرنے والے کے لیے کام یاب ہڑتالیں بھی کیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی حکومت نے کوئلہ، گیس اور بجلی کی صنعتوں کو قومیالیا۔ 1950؁ کی دہائی میں زبردست صنعتی ترقی ہوئی، خواتین کی ملازمتوں میں شمولیت میں اضافہ ہوا اور اسی دوران ٹریڈ یونینز نے بڑی کام یابیاں حاصل کیں، جن میں خواتین کے لیے مساوی تنخواہ کا حق بھی حاصل ہے۔

1980؁ اور 1990؁ کی دہائیاں ٹریڈ یونین تحریک کے لیے برطانیہ میں چیلینجز کے ادوار تھیں۔ بے روزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ممبرشپ میں زبردست کمی واقع ہوئی۔ کنزرویٹیو پارٹی کی حکومت نے قومی ملکیتی صنعتوں ریلویز، گیس اور بجلی فراہم کرنے والے اداروں کی نجکاری کردی، جس کی وجہ سے ٹریڈ یونینز کی قوت میں مزید ضعف پیدا ہوا۔ وزیراعظم مارگریٹ تھیچر کی حکومت نے 1979؁ اور 1990؁کے دوران قانون سازی کے ذریعہ ٹریڈ یونینز کو شدید طور پر کم زور کردیا۔

ہمارے ہم سائے ملک بھارت میں گو کہ مزدور تحریک کی تاریخ پرانی ہے لیکن اس کے باوجود یونین سازی زیادہ تر فارمل سیکٹر میں ہوتی ہے اور چھوٹی صنعتوں اور ان فارمل سیکٹر میں ٹریڈ یونین نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت میں قومی ملکیتی اداروں میں ٹریڈ یونینز مضبوط ہیں اور 90 فی صد اداروں میں مزدور تنظیمیں قائم ہیں، جب کہ پرائیویٹ سیکٹر میں ٹریڈ یونینز انتہائی محدود ہیں اور اُن کی ممبرشپ بھی کم ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 1990 میں بھارت کی ٹوٹل لیبر فورس کا صرف 2 فی صد حصہ یونینز کا ممبر تھا۔ بھارت میں بھی یونینز کی ممبر شپ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں صنعتوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور بین الاقوامی ٹرینڈز شامل ہیں۔

پاکستان اور 3 دیگر ممالک کی طرح ٹریڈ یونین صورت حال کا سرسری جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم ازکم ان ممالک میں محنت کشوں کے حوالے سے صورت حال بہتر نہیں۔

اگر اس مشہور مقولے کو بنیاد بنایا جائے کہ ’’دیگ میں سے چند چاول چکھ کر پوری دیگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے‘‘ تو پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالباً پوری دنیا میں مزدور تنظیموں اور اور ٹریڈ یونین تحریک کی صورت حال حوصلہ افزاء نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یورپ، امریکا، آسٹریلیا اور ایشیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک، کہ جہاں جمہوریتیں مضبوط ہیں، وہاں محنت کشوں کو اُن کے حقوق اور ملازمتوں کے حوالے سے بہتر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد شعبہ محنت مکمل طور پر صوبوں کو منتقل ہوچکا ہے۔ اس ضمن میں صوبہ سندھ کی حکومت نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔

پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک شدید انحطاط سے دو چار ہونے کے باوجود حالات سے نبردآزما ہے۔ ٹریڈ یونینز اپنے اپنے اداروں میں اور مشترکہ طور پر بھی محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔ ملک میں جمہوریت جڑیں پکڑ رہی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ٹریڈ یونینز کے حالات میں بھی بہتری پیدا ہوگی۔ اس مقصد کے لیے مزدور تنظیموں کو سیاسی جمہوری عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے جب کہ عوام دوست اور ترقی پسند سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ وہ مزدور تحریک کے کارکنوں کو اپنے پلیٹ فارم سے منتخب ایوانوں کا حصہ بنائیں تاکہ محنت کش طبقے کی آواز زیادہ مؤثر طور پر ایوان میں پہنچے اور اُن کے احساسِ محرومی میں بھی کمی واقع ہو۔

The post مزدور تحریک عالمی سطح پر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2I2Txma

Iconic images of photographer killed in Kabul

A selection of photographs by Shah Marai who has been killed in a bombing in Kabul.

from BBC News - World https://ift.tt/2w0qn20

What could a female director mean for Star Trek?

Acclaimed TV director SJ Clarkson is tipped to helm the next Star Trek film.

from BBC News - World https://ift.tt/2FtLo4H

Wikipedia article of the day for May 1, 2018

The Wikipedia article of the day for May 1, 2018 is Standing Liberty quarter.
The Standing Liberty quarter was a 25-cent coin struck by the United States Mint from 1916 to 1930. It succeeded the Barber quarter, which had been minted since 1892. Featuring the goddess of Liberty on one side and an eagle in flight on the other, the coin was designed by sculptor Hermon Atkins MacNeil. In 1915, he submitted a design that showed Liberty on guard against attacks. The Mint required modifications, and his revised version included dolphins to represent the oceans. In late 1916, Mint officials made major changes, but MacNeil was allowed to create a new design, which included a chain mail vest covering Liberty's formerly bare breast. In circulation, the coin's date wore away quickly, and Mint engravers modified the design to address the issue in 1925. The Standing Liberty quarter was discontinued in 1931, a year in which no quarters were struck. The Washington quarter was introduced the next year to celebrate the bicentennial of George Washington's birth.

Sen. Marco Rubio Admits There's No Proof Tax Cut Is Helping American Workers

Sen. Marco Rubio Admits There's No Proof Tax Cut Is Helping American WorkersMarco Rubio may have committed the ultimate heresy for a Republican: The




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2raC4O5

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny