The Supreme Court refused to hear a case from a Planned Parenthood affiliate
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IYmMUi
NATO will on Thursday hold its first formal talks with Russia since the nerve agent attack on a former Kremlin double agent in Britain, as the alliance seeks to counter Moscow's increasing assertiveness. Tensions between the transatlantic alliance and Russia have hit post-Cold War highs in recent years over Moscow's annexation of Crimea and more recently the attempted assassination of former spy Sergei Skripal and his daughter in the British city of Salisbury. NATO vehemently criticised Moscow over the attack in March, the first hostile use of a nerve agent in Europe since World War Two, and expelled seven Russian diplomats as part of a coordinated international response.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2GWyoFi
By Liz Lee and John Geddie KUALA LUMPUR (Reuters) - Malaysia is cancelling a project to build a high-speed rail link between its capital, Kuala Lumpur, and Singapore, and will talk with its southern neighbor about any compensation Malaysia has to pay, Prime Minister Mahathir Mohamad said on Monday. Mahathir, the 92-year-old who triumphed in a general election this month, has made it a priority to cut the national debt and pledged to review big projects agreed by his predecessor that he says are expensive and have no financial benefit. "It is a final decision, but it will take time because we have an agreement with Singapore," Mahathir told a news conference referring to his scrapping of the project, valued by analysts at about $17 billion.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2sd9QU8
A Briton who spent four years on death row in Ethiopia walked out of prison on Tuesday, freed by the regime that once labelled him a “terrorist”. Andargachew Tsege, who fled to Britain in 1974, was greeted by hundreds of supporters who gathered outside his family’s home in Addis Ababa, the Ethiopian capital, to celebrate the release of one of the government’s most outspoken critics. Such scenes in one of Africa’s most repressive regimes would have been unthinkable just a few months ago. Mr Andargachew, perhaps unable to grasp the scale of Ethiopia’s rapid political thaw, seemed stunned by the reception. “I did not expect this much turn out,” he said, suggesting he did not deserve it since “four years in prison is not that much of a sacrifice.” Other dissidents had indeed been incarcerated for longer, though few were captured in such dramatic circumstances. While waiting to catch a connecting flight to Eritrea in 2014, Mr Andargachew was seized by armed men in a transit lounge at an airport in Yemen. He was immediately bundled onto a flight to Addis Ababa, with Ethiopia claiming it had merely extradited one of their most wanted men. Britain protested, but Ethiopia stood firm: as one of the leaders of Ginbot 7, a group of Ethiopian exiles who had based themselves in neighbouring Eritrea, Mr Andargachew was a “traitor” and “coup plotter”. In the past year, however, Ethiopia’s ruling coalition has been forced to yield to domestic pressure after an ethnic and political crisis threatened to tear apart the old political order. In the past three months, the Ethiopian government has pardoned more than 10,000 political prisoners. Boris Johnson, the Foreign Secretary, hailed Mr Andargachew’s release and the broader political significance it portended. “Recent moves by the Ethiopian Government send a positive signal that they remain serious about following through with promised reforms to increase political space,” Mr Johnson said. The Foreign Secretary also insisted that Mr Andargachew’s case had been “a priority” for his department, a claim that will be questioned by those who campaigned for the dissident’s release, particularly his UK-based partner, Yemisrach Hailemariam. Mr Johnson was criticised for not raising Mr Andargachew’s plight publicly — although he said he did in private — when he visited Addis Ababa last year, a trip in which the Foreign Secretary largely skirted over Ethiopia’s human rights record. Mrs Yemisrach extended thanks to Jeremy Corbyn, who is Mr Andargachew’s MP, and to Emily Thornberry, the shadow foreign secretary, for their efforts to win his freedom. But she pointedly excluded Mr Johnson.
from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2L7rEXF
نہ کریا کر۔۔ نہ کریا کر۔۔ بابا کرمو نے جنداں کو مخاطب ہو کر کہا۔
نہ۔۔ کیوں نہ کروں۔
جے کون سا انساپ ہے۔
کسی کو تو دیوے کوٹھیاں بنگلے۔۔۔ اور۔۔لمبی،، لمبی گاڑیاں۔ اور
ایہاں جھگی میں پینے کو پانی بھی نہیں۔۔
تو۔۔ کہے وہ بڑا انساپ کرنے والا ہے۔
اری نہ بول۔
یہ کھپر کے کلمے۔
یہ سب اس کی محبت کا انداج ہے۔
بابا کرمو نے ہفتوں سے اَن دھلے ہاتھوں کو میل سے اٹے ہوئے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا۔۔
وہ جسے چاہے۔
جس حال میں رکھے۔
ہم کون ہوویں اعتراج کرنےوالے۔۔
اچھا چل یہ بتا۔ کھانے کو کج ہے یا نہیں۔۔
بابا کرمو نے جنداں سے پو چھا۔۔۔
جنداں نے درجن بھر سے زائد گندے میلے شاپروں کو کھولنا شروع کیا۔۔
لے یہ مرگی کا سالن ، اس ماں بھی ہڈیا ں جادہ اور گوست کم ہے۔۔
یہ ہے دال جو نبھے نال۔
جے سبجی۔۔
اور جے حلبا۔۔
مولبی ساب کے گھر سے ملا۔ جے روگنی، اور سادہ نان اس کے علاوہ روٹیاں بھی ہیں۔۔
جندا ں اب تو ہی بتا۔
کیا کسی جھگی میں رہنے والے کے ایسے بھاگ ہوویں۔
کتنی نعمتیں دیتا ہے وہ مجھ کو۔
ہاں بس اس کا انداج نرالا ہے دینے کا
بس تو کھپر کے کلموں سے توبہ کر توبہ۔۔۔۔
The post جنداں توبہ کر appeared first on دنیا اردو بلاگ.
ننھا مبارک خوشی خوشی اپنے گھر کی گلی میں تیز تیز قدموں سے بازار کی جانب دوڑا جا رہا تھا۔ اس کی امی نے اسے بازار سے بیسن لانے کا کہا تھا۔ بیسن سے پکوڑے بننے تھے جو مبارک کو بہت پسند تھے۔ اور اسی پسند کی وجہ سے وہ ہر سال رمضان کا انتظار کیا کرتا تھا کیونکہ رمضان کے مہینے میں گھر میں ہر روز پکوڑے بنتے تھے۔
ماہ رمضان اگلے دن سے شروع ہو رہا تھا اور مبارک پرجوش تھا کیونکہ اس مرتبہ اس کی امی نے اسے ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ مبارک کی عمر ابھی صرف چھ برس تھی۔
گلی کے کسی گھر میں کسی نے اونچی آواز میں ملی نغمہ لگایا ہوا تھا۔ بھاگتے ہوئے مبارک کے کانوں میں ملی نغمے کے بول گونج رہے تھے۔ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے اس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے۔ مبارک کو ملی نغمے بہت پسند تھے۔
ہر سال جب چودہ اگست آتی تھی تو ہر طرف ملی نغموں کی بہار آ جاتی تھی۔ مبارک ملی نغمے سن کر ان میں اپنی آواز ملایا کرتا اور جھوما پھرتا تھا۔ چودہ اگست والے دن ان کے گھر خاص اہتمام کیا جاتا تھا۔ گھر کو سبز ہلالی جھنڈیوں سے بھر دیا جاتا تھا اور چھت پر پانی کی ٹینکی سے اونچے سے بانس پر اس کے ابو پاکستان کا قومی پرچم لگایا کرتے تھے۔ مبارک کے کپڑوں پر جھنڈے کا بیج لازمی ہوتا تھا اور اس دن سب گھر والے آزادی کا جشن منایا کرتے تھے۔
دوپہر کا وقت تھا اور گلی سنسان تھی۔ مبارک جیسے ہی گلی سے نکل کر بازار جانے والے راستے کی طرف مڑا اس کو ایک ٹھوکر لگی اور وہ منہ کہ بل زمین پر آ رہا۔ یوں اچانک گرنے سے اسے گھٹنوں اور ٹھوڑی پر چوٹ آئی۔ اس اچانک صدمے سے گھبرا کر اس نے رونا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی اس کے کانوں میں ہنسنے کی آواز آئی۔ اس نے اپنی آنکھوں میں آ جانے والے آنسو صاف کرتے ہوئے دیکھا تو محلے کے پندرہ سولہ سال کی عمر کے تین لڑکے اس کے سامنے کھڑے ہنس رہے تھے۔ انہی میں سے ایک نے بھاگتے ہوئے مبارک کے پیروں میں پیر اڑا کر اسے گرایا تھا۔ مبارک انہیں دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا۔ یہ لڑکے اکثر اسے اکیلا پا کر گھیر لیتے تھے۔ اورکبھی کبھار اسے ایک آدھا چانٹا بھی لگا دیتے تھے۔ وہ ہمیشہ اس سے ایک بات کہا کرتے تھے۔ آج بھی ان میں سے ایک نے حقارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے وہی جملہ انتہائی نفرت زدہ لہجے میں کہا:
“اوئے کتے! بولو کہ تم کتے ہو۔”
مبارک کے گلے میں جیسے نمکین گولا سا پھنس گیا۔ وہ اپنی ہمت جمع کر کے زمین سے اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
“نہیں میں کتا نہیں ہوں۔”
مبارک کو یاد تھا کہ جب پہلی مرتبہ ان لوگوں نے اسے کتا کہا تو اس نے گھر واپس جا کر اپنے ابو سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کتا ہے؟ اس کے ابو اس کی بات سن کر چونک گئے تھے۔ انہوں نے اس سے نہایت پیار سے دریافت کیا کہ یہ لفظ اس نے کہاں سے سنا۔ مبارک نے بتا دیا کہ اسے ساتھ کی گلی والے امجد نے کتا کہا تھا۔ اس کے ابو نے اسے پیار کیا اور اسے بتایا کہ وہ بالکل بھی کتا نہیں ہے بلکہ وہ تو انسان ہے۔
اس رات اس نے اپنے امی اور ابو کو رات دیر تک صحن میں بیٹھ کر پریشانی کے عالم میں باتیں کرتے دیکھا تھا۔ اس کا ننھا سا ذہن ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر تھا چناچہ وہ اپنے ٹیڈی بیئر کو بتانے لگا کہ اسے امجد نے کتا کہا تھا۔ مبارک کے تخیل نے ٹیڈی بیئر کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ وہ کتا نہیں ہے۔
اس کی یادوں کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب ان میں سے ایک لڑکے نے اسے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
“تم کتے ہو۔ تمہیں بولنا پڑے گا کہ تم کتے ہو۔”
“میں کتا نہیں ہوں۔” مبارک نے پھر وہی بات دوہرائی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لڑکے کیوں اس کو کتا کہتے ہیں۔
“تم کتے ہو۔ تمہارا باپ بھی کتا ہے۔ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ وہ کافر ہے۔ وہ ہماری مسجد میں بھی نہیں آتا۔ ہم تم سب کو مار دیں گے۔ تم سب کتے ہو۔ تم کہو کہ تم کتے ہو۔”
مبارک نے نفی میں سر ہلایا۔ “نہیں میں کتا نہیں ہوں۔”
جس لڑکے نے اسے بازو سے پکڑا ہوا تھا اس نے اسے زور سے دھکا دیا۔ ننھا مبارک بے چارہ زور سے دیوار سے جا ٹکرایا۔ اس کا سر پورے زور میں دیوار سے لگا اور پھٹ گیا۔ خون ابل ابل کر اس کے سر سے نکلنے لگا۔
خون دیکھ کر لڑکوں کے رنگ زرد پڑ گئے۔ انہوں نے فوری طور پر ادھر ادھر دیکھا۔ راستہ سنسان تھا اور دور دور تک کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں تھا۔ وہ وہاں سے بھاگ نکلے۔
مبارک بے چارہ پہلے ہی دھان پان سا تھا۔ اس چوٹ کو سہار نہ سکا اور چکرا کر زمین پر گر گیا۔ اس کے سر سے خون بہ بہ کر گلی میں پھیل رہا تھا۔ اور وہ خون تھا بھی کتنا۔ چھ سال کے بچے کے جسم میں تھوڑا سا ہی تو خون ہوتا ہے۔
جب آدھ گھنٹے تک مبارک کی گھر واپسی نہ ہوئی تو اس کی امی کو فکر ہوئی۔ وہ فوری طور پر گھر سے نکلیں تاکہ مبارک کا پتہ کر سکیں۔ جوں ہی وہ گلی کے نکڑ پر پہنچیں ان کی نظر زمین پر گرے ہوئے مبارک پر پڑی۔ ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ پھولے ہوئے ہاتھ پیروں کے ساتھ مبارک تک پہنچیں۔ وہ بے ہوش تھا اور اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا۔ خون اس کے آس پاس پھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے مبارک کو زور سے جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کو آوازیں دی۔
مبارک ایک ذرا سا کسمسایا اور اس کی آنکھیں کھلیں۔ اس کی نظر اپنی امی پر پڑی۔ اس کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے خوشی چمکی۔ اس نے اپنے جسم کی بچی کھچی طاقت لگا کر کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ سے آواز نہ نکل سکی۔ اس نے پھر زور لگایا۔ اس کی امی اس پر جھکیں اور ان کے کانوں سے مبارک کی ٹوٹتی ہوئی آواز ٹکرائی۔
“امی میں کتا نہیں ہوں۔” یہ اس کے آخری الفاظ تھے اور پھر اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔
گلی میں اب بھی وہی ملی نغمہ گونج رہا تھا “تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہےاس پہ دل قربان اس پہ جان بھی قربان ہے۔”
The post اوئے کتے! بولو کہ تم کتے ہو appeared first on دنیا اردو بلاگ.
غزہ، اسرائیل اور بحیرہ روم کے درمیان، ایک چھوٹی سی پٹی ہے، جو صرف 25 میل لمبی ہے اور ساڑھے سات میل چوڑی ہے۔ 141 مربع میل کی اس پٹی میں 20 لاکھ فلسطینی آباد ہیں، جو قیدیوں کی طرح محصور ہیں۔ انہیں نہ تو ساٹھ میل دور رام اللہ میں فلسطینی انتظامہ جانے کی اجازت ہے اور نہ جنوب میں رفاہ کی سرحد پار مصرجانے کی اجازت ہے۔
2007 سے جب انتخابات میں فتح مند حماس بر سر اقتدار آئی ہے، اسرائیل نے اس چھوٹی سے پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل کی سرحد پر تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں، حتی کہ مسمار شدہ عمارتوں کی مرمت اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لئے سیمنٹ بھی غزہ میں لے جانے کی اجازت نہیں ہے، نتیجہ یہ کہ اسرائیل کی بمباری سے کھنڈر بننے والی عمارتیں غزہ کی بے بسی کی نشان بنی کھڑی ہیں۔
غزہ کے فلسطینیوں نے اس محاصرے کو توڑنے کے لئے بحیرہ روم کے ساحل تک سرنگیں کھودی تھیں لیکن اسرائیلی فضائیہ نے ان کے دہانوں پر بمباری کر کے یہ راستہ بھی بند کر دیا۔
2008 میں اسرائیل نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کے خلاف جارحیت کی تیاریاں کر رہی ہے اور پھرغزہ پر بھر پور حملہ کردیا جس کے دوران اسرائیل نے شدید بمباری کر کے سرکاری دفاتر، اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے گوداموں کو بھی مسمار کر دیا۔ اس حملہ میں ایک ہزار چار سو فلسطینی ہلاک اور 926 زخمی ہوگئے تھے۔ گذشتہ دس برس سے غزہ محصو رہے لیکن اس محاصرے میں قید فلسطینیوں کے حالتِ زار پر بیشتر دنیا مجرمانہ انداز سے خاموش ہے، شاید اس بناء پر کہ غزہ کی 98 فی صد آبادی مسلمانوں کی ہے۔
پچھلے دنوں غزہ کے فلسطینیوں کی اسرائیل کی سرحد تک ”گھر واپسی” کی پُر امن مارچ پر اسرائیلی فوج نے اندھا دھند فائرنگ سے ایک سو بارہ فلسطینی ہلاک کر دیے تھے۔ اس کی دنیا بھر میں جو مذمت کی گئی اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اس کا رخ موڑنے کے لئے اسرائیل نے یہ الزام لگایا کہ غزہ سے اسرائیل پر بڑی تعداد میں راکٹ چھوڑے گئے ہیں جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر شدید بمباری کی ہے جس سے عزہ کے ایک سو شہری ہلاک اور ڈیڑھ ہزار افراد زخمی ہوگئے۔ ایک وجہ غزہ پر اسرائیلی بمباری کی یہ بھی ہے کہ اس روز صبح کو غزہ کے محصور فلسطینیو ں نے سمندری محاصرہ توڑنے کی مہم شروع کی تھی۔ غزہ کے 17 طالب علموں نے غزہ کی گھر واپسی کی مارچ میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کو کشتیوں میں لے کر سمندر میں کود پڑے اور بحیرہ روم میں اسرائیل کا بحری محاصرہ توڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اسرائیل کے جنگی جہازوں نے انہیں گھیر لیا اور ان طالب علموں کو گرفتار کر کے اسرائیلی بندرگاہ ایشدود لے گئے۔ ایک طرف غزہ پر اسرائیلی طیاروں کی شدید بمباری اور دوسری جانب بحیرہ روم میں اسرائیل کے جنگی جہازوں کی کارروائی دراصل غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف یہ اسرائیل کے دو مکھی فوجی اقدام کا آغاز ہے۔
الحریت کہلانے والے فلسطینی طلباء کی تنظیم کا کہنا ہے کہ ”امن اور آزای ہمارا پیغام ہے اور ہم پوری دنیا سے کہتے ہیں کہ وہ ہماری آواز سنے کہ ہم غزہ کے محاصرہ کو مزیر برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔”
2013 میں غزہ کے محصور عوام کے ترک حامیوں نے اسرائیل کے بحری محاصرہ کو توڑنے کی کوشش کی تھی جس پر اسرائیلی جنگی جہازوں نے گولہ باری کر کے ان کا راستہ روک دیا تھا۔ اس دوران اسرائیلی گولہ باری سے 9 ترک ہلاک ہو گئے تھے۔ ترکی کی حکومت نے ترک شہریوں کی اس ہلاکت پر بطور احتجاج اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لئے تھے جو ایک طویل عرصہ تک منقطع رہے۔
The post غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے فلسطینی سمندر میں کود پڑے appeared first on دنیا اردو بلاگ.
؎ دشمن بھی ہے اور ساتھ رہے جان کی طرح
مجھ میں اتر گیا ہے وہ سرطان کی طرح
اس شعر میں یقیناً اپنے محبوب کی محبت میں بے اعتنائی کا ذکر کیا جا رہا ہے ، لیکن ہمارے حساب سے یہ محبت ایک تمباکو نوش کی سگریٹ سے ہے۔ تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے، یہ جانتے ہوئے بھی سگریٹ سے اس کی محبت کم نہیں ہوتی۔ جو کوئی سگریٹ کو منہ لگاتا ہے تو پھر ایسا تو ہوتا ہی ہے :
؎ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
اور بیشتر صورتوں میں سگریٹ نوشی زندگی سے اس طرح چمٹ جاتی ہے کہ جان لے کر ہی دم لیتی ہے۔ مگربقول سگریٹ نوش۔ ۔ ۔
سگریٹ کے ایک کش کا مزہ تم کیا جانو
مشکلات میں سکون کا لمحہ ہے یہ
دباؤ سے نجات کا طریقہ ہے یہ
زمانے میں کول نظرآنے کا انداز ہے یہ
باس کے ادب اور ترقی کا نیا راز ہے یہ
ترقی کے نئے ڈھب اپناتے ہوئے باس کے سامنے نمبر بڑھانے کے لیے ان کے ساتھ سگریٹ کے سُٹے لگانا اب عام بات ہوگئی ہے، جس میں صرف مرد نہیں بلکہ خواتین بھی بھرپور حصہ ڈالتی ہیں۔ کچھ لوگ تو سگریٹ کے ازلی دشمن ہوتے ہیں۔ جیب، گھر یا دفتر کے کسی بھی حصے میں جہاں سگریٹ نظر آئی وہیں اسے جلا کر راکھ کر دیا۔ صبح اٹھ کر اس وقت تک کچھ نہیں کر سکیں گے جب تک اسے پھونک نہ لیں اور رات اس وقت تک سو نہ سکیں گے جب تک اسے ابدی نیند سلا نہ لیں۔ غرض ان کی زندگی دھوئیں کا ایک ہالہ ہے۔
؎ ہوئے ختم سگریٹ اب کیا کریں ہم
ہے پچھلا پہر رات کے دو بجے ہیں
’’سگریٹ کے نقصان بہت کم اور فائدے ہیں بہت زیادہ‘‘
اس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اسے کوئی کمزور آدمی پی ہی نہیں سکتا۔ مطلب یہ کہ جو بھی اسے پیتا ہے وہ بڑا بہادر اور ’ماچو‘ قسم کا شخص ہے ورنہ کس کی مجال ہے کہ اس چیز کو ہاتھ لگائے۔ ۔
سگریٹ میں آرسینک (ایک خطرناک زہر جو کیڑے مار دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے)، سائنائڈ ( تامل ٹائیگر خودکشی کے لئے ہر وقت اس کا تعویز گلے میں رکھتے ہیں اور یہ صنعتی فضلے کا حصہ بھی ہے)، کیڈمیئم (ایک زہریلا مواد جو بیٹریوں میں پایا جاتا ہے)، ایسیٹون (جسے ناخنوں سے نیل پالش اتارنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) اور فارملڈیہائڈ (زہریلا مادہ جو مردہ جسموں کو محفوظ رکھنے کے کام آتا ہے) موجود ہے۔
فہرست بڑی لمبی ہے لیکن مختصر یہ کہ ایک سگریٹ بنانے میں 4 ہزار مضرصحت کیمیکلز استعمال ہوتے ہیں۔ جن میں سے تین خطرناک ترین یہ ہیں :
سگریٹ جسم میں ایک مادہ پھینک دیتا ہے جسے ٹار کہتے ہیں، دوسرا کاربن مونو آکسائڈ گیس اور تیسرا نِکوٹین۔
ٹار۔ ۔ انگلیاں اور دانت گندے کر دیتی ہے اور انسان ذرا ’پیلا‘ پڑ جاتا ہے۔ اس کے نسبتاً کم نقصانات میں اس کا ستر فیصد پھیپھڑوں میں بیٹھے رہنا ہے جس سے کینسر کا خطرہ پیش آ سکتا ہے۔
کاربن مونو آکسائڈ گیس۔ ۔ جسم میں پندرہ فیصد تک آکسیجن میں کمی لا سکتی ہے جس سے پھیپھڑوں کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
اور تیسرا ہے نکوٹین۔ جب سگریٹ نوش ایک کش لیتا ہے تو صرف 6 سیکنڈ میں نِکوٹین اس کے دماغ پر اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتی ہے۔ اور دماغ ڈوپامائن dopamine نام کا ہارمون خارج کرتا ہے جس سے بہت سرور محسوس ہوتا ہے۔ لگتا ہے کہ کسی کام کا اجر ملا ہے۔ اس سے دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور میٹابولزم تیز ہو جاتا ہے۔
جلد ہی دماغ کو نکوٹین کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ بار بار سگریٹ پیتے ہیں۔ طبی ماہرین کے خیال میں ایک سگریٹ زندگی کے 11 قیمتی منٹ ضائع کرتی ہے۔ یوں سگریٹ نوش کی زندگی کے اوسطاً 10 سال کم ہو جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں تمباکو نوشی کے باعث ہر چھ سیکنڈ میں ایک شخص موت کا تر نوالہ بن رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہرسال ساٹھ لاکھ افراد کی ہلاکت کا سبب تمباکو نوشی بنتی ہے۔ پاکستان تمباکواستعمال کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے جہاں دو کروڑ 40 لاکھ سے زائد نوجوان اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ سگریٹ پینے والے ایک لاکھ سے زائد افراد ہرسال پھیپھڑوں کے کینسر، دل اور سانس کی بیماریوں کے سبب ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ہمارے ایک اچھے ساتھی سینئیر صحافی سلیم احمد صاحب گو کے خود سگریٹ نوش نہیں لیکن اس عذاب میں مبتلا افراد کی دھوئیں بھری زندگی کو کچھ اس طرح عبارت کرتے ہیں۔
؎ زندگی سمجھا تھا جس سگریٹ کو میں
بن کے سرطان جاں میری لے گئی
تمباکو ایک زرعی پیداوار ہے، جو تمباکو کے پتوں سے تیار کی جاتی ہے۔ تمباکو دنیا میں سب سے زیادہ کیوبا، چین اور امریکا میں پیدا ہوتی ہے، جبکہ پاکستان دنیا کا اعلیٰ معیار کا تمباکو پیدا کرنے والے سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ تمباکو کا سب سے عام استعمال سگریٹ میں ہوتا ہے۔
تمباکو کی بڑھتی ہوئی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے عالمی ادارہ صحت نے1987 میں یوم ِ انسدادِ تمباکو نوشی World No-Tobacco Day منانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ہر سال 31 مئی کو یہ دن منایا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کی ایک ارب سے زائد آبادی تمباکو نوشی کی لت میں مبتلا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ سے آلودہ فضا میں رہنے والے ایسے افراد جو تمباکو نوشی نہیں کرتے وہ بھی کئی ایک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں سرطان، ذہنی دباؤ، دل اور سانس کی بیماریاں بھی شامل ہیں۔
شیشہ پینا بھی تمباکو نوشی کی ہی ایک شکل ہے جو بدقسمتی سے نوجوانوں کو سب سے زیادہ متوجہ کر رہی ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ایک گھنٹہ شیشہ پینا، 200 سگریٹ پینے کے برابر ہے۔ جس میں کئی لیٹر ٹاکسک پھیپھڑوں میں جذب ہو جاتی ہے۔
تمباکو نوشی ترک کرنے کیلئے ای سگریٹ کا استعمال بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق ای سگریٹ کا استعمال کرنے والے دوبارہ سگریٹ نوشی کی طرف جلد مائل ہوجاتے ہیں۔
امریکا کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹماٹروں کا استعمال نہ صرف پھیپھڑوں کو تندرست رکھتا ہے بلکہ سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصان کی ایک حد تک تلافی کرکے پھیپھڑوں کے افعال کو بہتر بنا سکتا ہے۔
سائنسی جریدے ’’ایڈکشن‘‘ میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے مطابق نوجوانوں میں سگریٹ نوشی کی عادت کو چُھڑانے کے لیے فیس بک اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اُن نوجوانوں کو بھی سگریٹ نوشی سے نجات دلائی جا سکتی ہے جو اس عادت کو ترک کرنے کے لیے تیار بھی نہیں تھے۔
تمباکو نوشی چھوڑنا مشکل ضرور ہے، ناممکن نہیں۔ اس سے چھٹکارا پانے کے لیے چند دواؤں اور مضبوط قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ رمضان المبارک اس سلسلے میں انسان کو بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ جب انسان روزے کی حالت میں دن بھر تقریباً 13 سے 14 گھنٹے سگریٹ نہیں پیتا، تو ترک ِتمباکو نوشی کے لیے یہ عمل سال بھر بھی کر سکتا ہے۔
The post جلتی سگریٹ سے سُلگتی زندگی appeared first on دنیا اردو بلاگ.
By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny