Thursday, May 31, 2018

‘The Americans’ Finale: The Damage Done


By MIKE HALE from NYT Arts https://ift.tt/2H5KH2q

جنسی ہراسانی: آپ تب کیوں نہیں بولیں؟

گذشتہ برس اکتوبر میں امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین کو می ٹو کے ساتھ ان کی ٹویٹ کا جواب دینے کا کہا تاکہ دنیا کو اس مسئلے کی شدت کا اندازہ دلوایا جا سکے۔ ان کے ٹویٹ کرنے کی دیر تھی کہ ہیش ٹیگ می ٹو ٹرینڈ کرنے لگا۔ برسوں سے سلے ہوئے منہ جب کھلے تو پتہ لگا کہ جنسی ہراسانی کتنا سنگین مسئلہ ہے۔ الیسا کی یہ ٹویٹ اب تک 24480 دفعہ ری ٹویٹ ہو چکی ہے اور تقریباً اڑسٹھ ہزار لوگوں نے اس ٹویٹ کا جواب دیا ہے۔

یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔ ان لوگوں کو بہت سخت ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ پھر بھی بولے کہ اب بولنا لازم تھا۔

ہیش ٹیگ می ٹو پوری دنیا سے سفر کرتے ہوئے اب پاکستان میں آ پہنچا ہے۔ یہاں بھی اس کے ساتھ وہی کچھ ہو رہا ہے جو باقی دنیا میں ہوا ہے۔ آپ می ٹو کے ساتھ تویٹ کریں تو درج ذیل اعتراضات آپ کو سننے کو ملیں گے۔

  1. آپ تب کیوں نہیں بولیں؟
  2. سوشل میڈیا پر بولنے کا کیا مقصد ہے؟
  3. آپ کے پاس ثبوت کیا ہے؟
  4. آپ نے ہی جنسی ہراسانی کی دعوت دی ہوگی۔
  5. آپ نے کپڑے کیسے پہنے تھے؟
  6. آپ وہاں گئی ہی کیوں تھیں؟
  7. مردوں کو دعوت دیتے کپڑے پہنو گی تو ایسا تو ہوگا ہی۔

پاکستان کے تناظر میں درج ذیل اعتراضات کا اضافہ کرلیں۔

  1. اسی لیے اسلام نے عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنے سے منع کیا ہے۔
  2. یہ مغربی لباس پہننے کا نتیجہ ہے۔
  3. شریف گھروں کی عورتیں ایسے سوشل میڈیا پر اس بارے میں بات نہیں کرتیں۔
  4. مرد و زن کا اختلاط ہوگا تو ایسے ہی ہوگا۔

یہی سب اعتراضات میشا شفیع کے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد لگائے گئے تھے اور یہی سب اعتراضات اب ان لڑکیوں پر اٹھائے جا رہے ہیں جنہوں نے اپنے بورڈ امتحان کے نگران امتحان سعادت بشیر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔

دو روز قبل بحریہ ماڈل کالج اسلام آباد کی ایک طالبہ نے فیس بک پر بیالوجی کے پریکٹیکل امتحان کے نگران پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے اپنی اس پوسٹ میں بتایا کہ نگران امتحان پریکٹیکل کے دوران لڑکیوں کو جنسی اور زبانی طور پر ہراساں کرتے رہے۔ انہوں نے تقریباً تمام لڑکیوں کو نامناسب انداز میں چھوا۔

ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگران امتحان سعادت بشیر کا کہنا ہے کہ یہ ان کے خلاف ایک سازش ہے۔ ان کا رویہ سخت تھا۔ پورے نمبر نہ دینے کی وجہ سے ان کے خلاف سوچی سمجھی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہو سکتا ہے وہ کچھ لڑکیوں کے ساتھ ٹکرا گئے ہوں کہ وہاں اسی طالبات تھیں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق ماضی میں بھی سعادت بشیر پر طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگا تھا۔ مناسب ثبوت نہ ہونے کے بائث انکوائری ختم کر دی گئی تھی۔ سعادت بشیر اس الزام کو بھی اپنے خلاف ایک سازش قرار دیتے ہیں۔

اس طالبہ کی پوسٹ وائرل ہونے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا اعتراضین اپنے اپنے اعتراض کی پوٹلی لے کر اس پوسٹ پر پہنچ گئے۔ کسی نے لڑکیوں کے لباس کو قصور وار ٹھہرایا تو کسی نے کہا کہ سب لڑکیاں چپ چاپ برداشت کیوں کرتی رہیں؟ کسی نے کہا کہ لڑکیوں کے پریکٹیکل امتحان کے لیے خاتون نگران ہونی چاہئیے تھی تو کسی نے کہا کہ ان لبرل لڑکیوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئیے تھا۔

جنسی ہراسانی یا جنسی استحصال کسی جنس یا کم و زیادہ تعداد کی وجہ سے نہیں بلکہ طاقت میں فرق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ زیادہ طاقت والا اپنے سے کم طاقت رکھنے والے کا استحصال کرنے کی حالت میں ہوتا ہے۔ کمرہ امتحان میں نگران کے پاس زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ اگر امتحان بورڈ کا ہو تو یہ طاقت مزید بڑھ جاتی ہے۔ بورڈ کے امتحان سب سے اہم تصور کیے جاتے ہیں۔ طالب علموں سے زیادہ والدین کو ان امتحان کی فکر ہوتی ہے۔

پریکٹیکل امتحان کی بات کریں تو اس میں نگران زیادہ طاقتور اس لیے ہوتا ہے کہ اس نے پریکٹیکل کاپی اور وائیوا کے نمبر خود دینے ہوتے ہیں۔ وہ جتنے مرضی نمبر لگا دے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس حالت میں اگر نگران طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کر رہا ہو تو وہ کیا کر سکتی ہیں؟ پہلے تو وہ شاک کی کیفیت میں چلی جائیں گی۔ وہ ایک برا لمس تھا جو ان سب نے محسوس کیا لیکن اپنے احساسات وہ عدالت میں پیش نہیں کر سکتیں۔ اگر بولیں تو نگران آگے سے کہے گا، میں نے کیا کیا ہے؟ اسے کیا کہا جائے؟ وقت بھی گزر رہا ہے، مستقبل کا بھی سوال ہے، دیگر ساتھ کچھ فاصلے پر کھڑے ہیں، ذرا سی آواز پر پیپر کینسل ہو سکتا ہے، ایک بولے تو باقی بھی ساتھ دیں گے، اس کی کیا گارنٹی ہے؟ اگر سب بول بھی پڑیں تو امتحان رک جائے گا مگر گھڑی چلتی رہے گی، مقررہ وقت کے بعد وہ امتحان نہیں دے سکیں گی کہ بورڈ کے معاملات ایسے ہی ہیں۔ اس دبائو میں وہ کیسے آواز بلند کرتیں؟

پاکستان میں جنسی ہراسانی اتنا عام ہے کہ اسے مسئلہ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ جنسی ہراسانی کا شکارلوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے اس بارے میں بات ہی نہیں کرتا۔ جو اس بارے میں بات کرتا ہے اسے چپ کروا دیا جاتا ہے کہ اسی میں عزت ہے۔ اسی چپ کروانے نے ان بھیڑیوں کو مزید شہہ دی ہے۔ اس کمرہ امتحان میں بھی ایک ٹیچر موجود تھی جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی طالبات کو چپ رہنے پر مجبور کر رہی تھی کہ اس کے نزدیک اس مسئلے کا بہترین حل یہی تھا۔

سعادت بشیر کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن اگر وہ قصور وار ثابت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس ٹیچر کو بھی برابر کی سزا ملنی چاہئیے۔ اس کے پاس طاقت تھی، وہ سعادت بشیر کو روک سکتی تھی، پرنسپل کو بلا سکتی تھی، بورڈ کے دفتر فون کر سکتی تھی مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ وہ طالبات کو چپ رہنے پر مجبور کرتی رہی کہ یہاں عورت کا یہی کام ہے۔۔۔ چپ رہنا اور سب کچھ برداشت کرنا۔

اس کے ساتھ ساتھ فیڈرل بورڈ کو ان تمام طالبات کا دوبارہ سے پریکٹیکل امتحان منعقد کروانا چاہئیے تاکہ اگر نگران امتحان سعادت بشیر نے ان کے ساتھ کئی زیادتی کی ہے تو اس سے ان کا مستقبل تاریک نہ ہو۔

 

The post جنسی ہراسانی: آپ تب کیوں نہیں بولیں؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2L8QPJr

قانون کی باڑ اور معاشرتی امن

ہم نے ایک زمانے تک اپنے پہاڑی علاقوں میں قدرتی چشموں پر کانٹے دار جھاڑیاں رکھی دیکھی ہیں جنہیں چشموں کے اوپر سے ہٹا کر خواتین پانی بھرتیں اور پھر دوبارہ ان جھاڑیوں کو ان چشموں پر واپس رکھ دیتیں۔

بچپن میں تو یہ راز سمجھ نہ آتا کہ ہمارے بزرگوں کا یہ کیا طریقہ ہے کہ پانی کے کھلے چشموں کے منہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بند کر دیتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ آج پتہ چل رہا ہے کہ وہ قانون تھا جس کے تحت نجس جانوروں کو ان پاک صاف چشموں میں منہ مارنے سے روکنے کے لئے قانون کی یہ آڑ اور رکاوٹ کھڑی کی جاتی تاکہ کوئی جنگلی نجس جانور اس پانی میں منہ مار کر اس کی پاکی کو خراب نہ کرے۔

پھر یہ بھی سالوں تک دیکھا کہ کھیتوں میں فصلوں کو مال مویشی اور جنگلی جانوروں سے بچانے کے لئے کھیتوں کے ارد گرد اسی طرح کانٹے دار جھاڑیوں کی باڑ کھڑی کی جاتی جیسے پانی کے چشموں کو جھاڑیوں سے ڈھانپا جاتا تاکہ فصل جانوروں سے محفوظ رہے۔

ہماری دیہاتی زندگی نے قومی زندگی اور بندوبستی ریاست کو ایک دیسی اصول دیا کہ اگر معاشرے کو نقصان اور افراتفری سے بچانا ہے تو معاشرے کے صاف و شفاف پانی کے چشمے کو نجس جانوروں کی پہنچ سے محفوظ رکھنا ہوگا۔

اپنے معاشرے کی کھیتی کو جانوروں کے روندنے سے بچانا ہے تو اپنے معاشرے کے گرد قانون کی باڑ کھڑی کر دو تاکہ کوئی حوارہ بدچلن، بدقماش، بدکردار، کرپٹ اور جرائم پیشہ معاشرتی جانور تمھارے معاشرتی امن و سکون اور تمھارے پرامن بھائی چارے کو سبوتاژ نہ کر سکے اور معاشرے کی یہ فصل پھل آور رہے اور قومی زندگی کا یہ چشمہ اپنی خالصیت کے ساتھ ساتھ پاکیزگی و طہارت برقرار رکھ سکے۔

پاکستان جو ایک آزاد ریاست ہے جس میں قانون و آئین کی باڑ تو موجودہ ہے مگر ایک بندوبستی ریاست ہونے کے باوجود چھوٹے موٹے جرائم پیشہ افراد کے لئے تو یہاں قانون باڑ کا کام دے رہا ہے مگر بڑے بڑے بدمست خونخوار درندے ملک قوم کو لوٹ کر، عیش و عشرت کے ساتھ قومی خزانے کی لوٹ مار سے لے کر انسانی زندگیوں کی پامالی تک کے لئے آزاد ہیں۔

کرپشن لوٹ مار اور قتل و غارت گری کے باوجود یہاں نواز، زرداری جیسے بڑے اور طاقتور لوگ قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔

قانون کسی مزدور، کسی ریڑھی بان کسی کمزور کو تو اپنی آنکھیں دکھاتا ہے مگر کوئی سیاستدان کوئی جج کوئی جنرل کوئی بیوروکریٹ قانون کی اس باڑ کو تسلیم کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ ہر بڑا کرپٹ چور ڈاکو اور قاتل اس باڑ کو روندتے ہوئے گزر جاتا ہے۔

مگر قانون اس کے ہاتھ روکنے سے معذور نظر آتا ہے معاشرتی امن تب ہی تباہ ہوتا ہے جب قانون کی باڑ کتے، بلی، مرغی، چوزے کے لئے تو ہو مگر بڑی جسامت کے جانور اور درندے، ہاتھی گائے بیل وغیرہ اس باڑ کو روندتے ہوئے گزر جائیں تو فصلوں کی تبائی یقینی ہے۔

اعتدال پسندی اور انصاف پر مبنی معاشرے ہی پھلتے پھولتے ہیں۔ اگر قانون میں لچک نہ ہو تو بھی معاشرے بگڑ جاتے ہیں اور بغاوت کا خدشہ رہتا ہے۔

جیسے آپ دیہات کے ان پانی کے چشموں کو کسی ٹھوس شے سے بند کر کے چشمے میں ہوا اور روشنی کے گزرنے کی جگہ نہیں چھوڑتے تو وہ صاف شفاف پانی کا چشمہ تعفن ذدہ ہو کر ناقابل استعمال ہو جاتا ہے ویسے ہی بے جا سختی بھی معاشرتی تعفن کا باعث بنتی ہے۔

پس کوئی بھی معاشرہ آئین و قانون کی پاسداری کے بغیر اپنے نظم و نسق اور اپنی بقاء و سلامتی کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ہمیں ریاست سے گلی اور محلے تک اپنے کچھ اصول اور قوائد و ضوابط طے کرنے ہونگے تاکہ ہمارا آج کا یہ منتشر معاشرہ ایک قومی وحدت کا عکاس معاشرہ بن سکے۔

The post قانون کی باڑ اور معاشرتی امن appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2JgzbGB

بادشاہ تو بادشاہ ہوتا ہے

پہلے ہم خبریں پڑھتے تھے اب ہم خبریں دیکھتے ہیں۔ پڑھی ہوئی خبر پھر بھی کچھ سچی ہوا کرتی تھی مگر یہ دیکھی جانے والی خبریں تو جیسے کوئی اشرفیوں یا ڈالروں سے گھڑ کر بناتا ہے۔ کسی خبر پر بھی سچے ہونے کا شبہ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو صورت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ تاریخ اور سال بھی اگر ٹی وی پر دیکھیں تو شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کسی اینکر نے کسی کو خوش کرنے کے لئے یہ چھوڑ دی ہو۔ اس دائمی مرض میں چونکہ عرصہ دراز سے مبتلا ہیں اس لئے اب ناشتے کے ساتھ ساتھ ٹی وی کو بھی ٹکر مارتے رہتے ہیں۔ جب تک صبح سویرے خبریں دیکھ کر حیران اور پریشان نہ ہو لیں ہمارے خیالات کو جِلا ہی نہیں ملتی۔ چوری ڈاکے، زنا، قتل، فراڈ، بے حرمتی جیسے واقعات کو بطور خاص زیرِ لکیر کرتے ہیں اور پھر احباب سے اس بات پر اتراتے ہیں کہ یہ ہے ہمارا علاقہ۔ یہ نا انصافی کے دنگل پڑھ پڑھ کر ہمیں چھوٹی موٹی بے ایمانی یا نا انصافی اب نظر ہی نہیں آتی۔ لاکھوں کی کرپشن کی بات ہو تو ہم اس پر کان ہی نہیں دھرتے۔ ایپیکل سائز کی رشوت، کرپشن ہو، کوئی سونامی ہو چندے کی یا گالی گلوچ کی تو اب وہ ہمارے لئے خبر بنتی ہے۔ تاہم یہ خبریں دیکھ کر ہم زمانہ ماضی میں چلے جاتے ہیں اور اپنے دل کو بہلانے کے لئے کوئی خوشگوار واقعہ یاد کرتے ہیں۔

ایک ایسی ہی علمی پیاس بھڑکانے والی خبر پڑھی تو دھیان اُس واقعے کی طرف چلا گیا جو بچپن میں پڑھا تھا۔ کوئی بادشاہ تھا۔ وہ شکار پر نکلا ہوا تھا۔ آپ بھی سوچتے ہونگے کہ اسے صرف بادشاہوں کی کہانیاں ہی کیوں ہوتی ہیں؟ بھائی ان کے پاس ہی تو وقت ہوتا تھا عوام بیچاری تو ہماری جمہوریت کی طرح اس وقت بھی ایسی ہی تھی اپنی اپنی پڑی ہوتی تھی سب کو کہ صبح کھا لیا ہے تو شام کو کیا کھانا ہے۔ بادشاہ ایسے ہی فارغ ہوتے تھے جیسے ہماری نوکر شاہی فارغ ہے۔ سارے مسائل کا حل ایک اردلی ہے اور وہ ہی اردلی مسائل کا شکارعوام کو یہ بتا رہا ہوتا ہے کہ صاحب میٹنگ میں ہیں۔ ’’بہر حال‘‘ وہ بادشاہ شکار پر گیا۔ چنکا را ہرن کے شکار کے شوق میں اُس نے اس کے شکار پر سے پابندی ہٹا دی۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہماری بیورو کریسی ایک دن کے لئے پابندی ختم کر کے اپنا شکار کا شوق پورا کر لیتی ہے۔ یا ایک آدھ دن کیا گھنٹے کیلئے ملازمتوں پر سے پابندی اُٹھا کر بیچارے پریشان حال بے روز گار رشتہ داروں یا رشوت داروں کے آرڈر کر دیتی ہے۔

اُس بادشاہ نے تیر چلایا۔ جو تیر تو نہ بن سکا بس تُکا ہی رہ گیا کیونکہ وہ ہرن کو نہ لگ سکا۔ دورکھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان کے بیٹے کو جا لگا اور وہ وہیں گر کر ڈھیر ہو گیا۔ (آپ چاہیں تو اُس تیر کی مماثلت امریکی میزائلوں سے ہو سکتی ہے جو دہشت گردوں کا نشانہ لینے کی بجائے معصوم بچوں اور عورتوں اور بے گناہ لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔ امریکہ بھی تو بادشاہ ہی بنا ہوا ہے۔ ) بادشاہ تیر کی سمت میں چل پڑا۔ کیا دیکھا کہ ہرن کا تو پتہ نہیں مگر کسان کا بیٹا راہِ بادشاہ زندگی ہار بیٹھا ہے۔ بادشاہ بھلے وقتوں کا تھا اُسے قلق ہوا کہ یہ کیا ہوا ناحق خون بہا دیا۔ اس سے تو کچھ فائدہ بھی نہ ہوگا بلکہ رائے عامہ متاثر ہو گی۔ وہ کسان کے پاس گیا اور اُس کو پانچ لاکھ کا چیک پیش کیا۔ نہیں نہیں بھائی معاف کرنا چیک تو اُس وقت ہوتے ہی نہیں تھے۔ یہ تو ہماری حکومتوں کا شیوہ ہے کہ جس کا آدمی امریکہ بہادر کا میزائل نشانے پر لے لے اس کے لئے امریکہ سے ڈالر لے کر روپے میں ورثا کو ادائیگی کر دیں۔ رات ختم بات ختم۔

بادشاہ نے کسان کے ہاتھ میں تلوار دے دی اور ایک تھالی میں اشرفیاں پیش کر دیں۔ سر تسلیم خم کیا کہ چاہے تو کسان اُس کی جان لے لے اور چاہے تو خون بہا لے لے۔ کسان کو معلوم تھا کہ اشرفیاں لینے میں ہی بہتری ہے ورنہ بیٹا تو ہاتھ سے گیاڈالر بھی نکل جائیں گے۔ اُس نے اپنے بیٹے کا خون بہا لیا اور بادشاہ کے حق میں خاموش اکثریت بن کر گھر بیٹھ گیا۔

ایسی کہانیاں ہمارا دل بڑا کرتی ہیں ہمیں ڈھارس ملتی ہے کہ ہمارے ماضی میں بھی تیر یا میزائل سے موت کے بدلے میں اشرفیاں یا ڈالر لے لئے جاتے تھے اگر آج ہم نے لے لئے تو کیا ہوا۔ بادشاہ تو بادشاہ ہی ہوتا ہے چاہے تیر سے شکار کرنے والا ہو یا کرپشن سے یا غیر ملکی چندے سے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔

The post بادشاہ تو بادشاہ ہوتا ہے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2L8VXNK

پرنور پرکیف اور پرمسرت ساعتیں

رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والا معزز مہمان، بے پایاں رحمت کا سائبان اور انسان کی بخشش و مغفرت کا ایسا حیرت انگیز اور قدرتی سامان ہے کہ اگر اشرف المخلوقات اس حقیقت سے آشنا ہو جائے اور اس کی باطنی آنکھ وہ معجزاتی مناظر دیکھنے لگ جائے جو فرشتوں کی آمد و رفت سے پیدا ہوتے ہیں تو وہ دم بخود رہ جائے اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ اس ماہ مقدسہ میں رب تعالیٰ کے حکم سے روزہ داروں کے لئے فرشتے رحمتوں اور سعادتوں کی سوغات لے کر آسمان سے اترنا شروع ہو جاتے ہیں اور افطاری کے وقت روزےداروں پہ رحمتوں کی بارش کر دی جاتی ہے۔ ماہ مقدسہ کا ہر دن ہر لمحہ مسلمانوں کے لیے رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور ہوتا ہے۔

اللہ رب العزت نے بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے جیسا کہ یومِ جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہِ رمضان کو تمام مہینوں پر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر۔ اسی طرح ماہ مقدسہ کا ہر دن باقی دنوں کی بنسبت مسلمانوں کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ ہفتے کے چھ دنوں میں افطاری کے وقت روزانہ لاکھوں گناہگاروں کو بخش دیا جاتا ہے اور چھ دنوں میں جتنی تعداد کو بخشا ہوتا ہے، ان کی مجموعی تعداد کے برابر ساتویں دن خطاکاروں کو بخشا جاتا ہے اور ان کے گناہ مٹا کر انہیں مغفور لوگوں کی صف میں شامل کردیا جاتا ہے۔

ویسے تو رمضان کا پورا مہینہ باقی مہینوں میں ممتاز اور خصوصی مقام کا حامل ہے لیکن رمضان شریف کے آخری دس دنوں (آخری عشرہ) کے فضائل اور بھی زیادہ ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔ آپ ﷺ کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا بھر کے مسلمان آخری عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں اور رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے لیے بخشش و مغفرت طلب کرتے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح ملکِ پاکستان میں بھی ہر محلہ، ہر شہر اور صوبے بھر کی تمام مساجد میں اعتکاف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس سال دعوتِ اسلامی کے زیراہتمام مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سمیت سینکڑوں مساجد میں ماہِ مقدس کے آخری عشرے کا سنت اعتکاف کروایا جا رہا ہے جس میں انفرادی عبادت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کو حروف کی درست مخارج کےساتھ ادائیگی کےساتھ تلاوت کرنے کی تربیت دی جائےگی۔ اسی طرح بادشاہی مسجد، داتا دربار، شاہ فیصل مسجد سمیت ملک کی تمام بڑی وچھوٹی مساجد میں معتکفین کے لیے اعتکاف کا اہتمام کیا گیا ہے۔

حرمین شریفین کے بعد اسلامی دنیا کا سب سے بڑا شہر اعتکاف ٹاؤن شپ کی جامع المنہاج میں آباد ہوتا ہے۔ اس سال منہاج القرآن کے شہراعتکاف میں 25 ہزار افراد معتکف ہوں گے۔ جن میں 18 ہزار مرد جبکہ 7 ہزارخواتین شامل ہوں گی۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری روزانہ درس تصوف دیں گے۔ سال 2018 کے لیے مثنوی مولائے روم کے درسِ تصوف کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ہزاروں مرد و خواتین الگ الگ جگہوں پر معتکف ہوں گے۔ بیرونی دنیا سے بھی خصوصی وفود مسنون اعتکاف بیٹھیں گے۔ کہتے ہیں کہ نسلوں کی تربیت کرنی ہو تو ماں کی تربیت کرو۔ اسی فکر کے پیش نظر سالانہ شہر اعتکاف میں مردوں کے علاوہ ہزاروں خواتین بھی معتکف ہوتی ہیں جن کے لیے الگ الگ انتظامات کیے جاتے ہیں۔ مردوں کے شہر اعتکاف سے روازانہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے روح پرور خطابات براہ راست دیکھنے اور سننے کو ملیں گے۔ شہر اعتکاف میں تلاوت، نعت خوانی، وظائف اور دیگر روحانی و تربیتی امور خواتین کے معمولات میں شامل ہیں۔ شہر اعتکاف میں موجود ہزاروں لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے 51 انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اعتکاف کیلئے قبل ازوقت ہونے والی رجسٹریشن کے باعث انتظامات کا معیار بہتر سے بہتر بنایا گیا ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں ہر سال رمضان المبارک کی یہ مبارک ساعتیں دیکھنا نصیب ہوں۔ خداوند کریم ان مبارک ساعتوں کے صدقے ملک پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین.

The post پرنور پرکیف اور پرمسرت ساعتیں appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2JgywVD

Fox News Breaking News Alert

Fox News Breaking News Alert

Anti-Kremlin journalist’s death faked to thwart murder plot, officials say

05/30/18 10:52 AM

Wednesday, May 30, 2018

Supreme Court Blocks Appeal, Allowing Arkansas To Restrict Medical Abortions

Supreme Court Blocks Appeal, Allowing Arkansas To Restrict Medical AbortionsThe Supreme Court refused to hear a case from a Planned Parenthood affiliate




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2IYmMUi

NATO, Russia to hold first talks since Skripal attack

NATO, Russia to hold first talks since Skripal attackNATO will on Thursday hold its first formal talks with Russia since the nerve agent attack on a former Kremlin double agent in Britain, as the alliance seeks to counter Moscow's increasing assertiveness. Tensions between the transatlantic alliance and Russia have hit post-Cold War highs in recent years over Moscow's annexation of Crimea and more recently the attempted assassination of former spy Sergei Skripal and his daughter in the British city of Salisbury. NATO vehemently criticised Moscow over the attack in March, the first hostile use of a nerve agent in Europe since World War Two, and expelled seven Russian diplomats as part of a coordinated international response.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2GWyoFi

A Valedictorian Was Barred From Delivering His High School Graduation Speech. He Spoke by Megaphone Instead

A Valedictorian Was Barred From Delivering His High School Graduation Speech. He Spoke by Megaphone Instead"The young people will win' because we’re finished being complacent"




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2JbDenw

Malaysia axes project to build high-speed rail link with Singapore

Malaysia axes project to build high-speed rail link with SingaporeBy Liz Lee and John Geddie KUALA LUMPUR (Reuters) - Malaysia is cancelling a project to build a high-speed rail link between its capital, Kuala Lumpur, and Singapore, and will talk with its southern neighbor about any compensation Malaysia has to pay, Prime Minister Mahathir Mohamad said on Monday. Mahathir, the 92-year-old who triumphed in a general election this month, has made it a priority to cut the national debt and pledged to review big projects agreed by his predecessor that he says are expensive and have no financial benefit. "It is a final decision, but it will take time because we have an agreement with Singapore," Mahathir told a news conference referring to his scrapping of the project, valued by analysts at about $17 billion.




from Yahoo News - Latest News & Headlines https://ift.tt/2sd9QU8

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny