Monday, January 22, 2018

سرخرو پروفیسر اور ننھی زینب کے لیے جنت میں تقریب

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں واقع ضلع قصور میں رواں سال کے پانچویں ہی روز یعنی 5 جنوری کو اندوہ ناک واقعہ پیش آیا کہ جب تین روز سے لاپتہ بچی کا سراغ مل گیا، وہ کچرے کے ڈھیر میں ہونٹ بھینچے سکون کی طویل نیند سوتی پائی گئی، خیر گھر والوں کی ایک پریشانی تو دور ہوئی کہ لاپتہ بچی جیسے تیسے اور جس حالت میں پر ملی تو ہے۔

زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس گئے ہوئے تھے کہ اس دوران اُن کو بیٹی کی گمشدہ ہونے کی خبر ملی، ظاہر ہے ایک تو لخت جگر کی گمشدگی اور اوپر سے والدین دیارِ غیر میں، اس کیفیت کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو صاحبِ اولاد ہیں (اللہ تمام اولادوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین)۔

ماں گھر کے کاموں میں مصروف ہو اور اُسے اولاد کے بارے میں کوئی بری خبر جیسے کسی دوسرے نے پٹائی کردی، گر دیا، ایکسڈینٹ ہوگیا یا پھر دو گھنٹے سے نہیں مل رہا سنتے ہی ہواس باختہ ہوجاتی ہے اور پھر بغیر کوئی چیز خاطر میں لائے بغیر اُسی حالت میں اٹھ پر باہر بھاگتی ہے تاکہ اپنے کلیجے کو سکون پہنچا سکے اور لختِ جگر کو گلے لگائے۔

ماں کی قدرتی اور فطری محبت کا کوئی ثانی نہیں بلکہ اللہ نے بھی اس محبت کو بندے سے اپنی محبت کی تشبیہہ میں بیان کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی بتایا کہ یہ جذبہ تو کچھ بھی نہیں “میں 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہوں”۔

آج جب یہ کالم لکھ رہا ہوں تو زینب کے سانحے کو گزرے 10 روز گزر چکے مگر کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی، کمیٹیاں بنیں، نوٹس ہوئے، یقین دہانی کروائی گئی، سپہ سالار نے بھی گرفتاری کے لیے فوجی جوانوں کو سویلین کی مدد کرنے کا حکم بجا فرمایا مگر نہ کوئی پیشرفت اور نہ ہی کوئی سراغ، البتہ ہر دوسرے روز نئی سی سی ٹی وی کامیابی سے جاری کی گئی۔

جہاں زینب کے قتل کو 10 روز بیت چکے وہیں اس ملک کی سرزمین پر گزشتہ اتوار یعنی 14 جنوری کو ایک ایسے شخص کی پراسرار موت ہوئی جس نے 30 برس تک علم کی شمع تقسیم کی، دیارِ غیر میں تعلیم حاصل کرنے گیا مگر وطن کی محبت واپس لے آئی، طالب علموں کو حقیقت پسندی سکھانے کے چکر میں اُس شخص کے ازدواجی تعلقات تک خراب ہوئے مگر نواسے اور پوتوں کی محبت کے باعث میل ملاپ جاری رہا۔

اتوار کی صبح ابھی آنکھ ہی کھلی تھی کہ ایک میسج آیا “پروفیسر حسن ظفر عارف کی لاش ملی ہے”، میرے لیے یہ پیغام کسی بڑی قیامت سے کم نہ تھا مگر قانونِ قدرت “ہرنفس کو موت کا مزا ضرور چکھنا ہے”۔

استادِ محترم کے ساتھ گزارے لمحات، اُن سے کی جانے والی باتیں کسی فلم کی طرح چلنے لگئیں اور آنکھوں کے سامنے پروجیکٹر بن گیا جس پر یہ تمام مناظر باری باری نشر ہورہے تھے، بہت کوشش کی اس کیفیت سے باہر آیا جائے تاکہ دفتر جانے کی تیاری کروں مگر دماغ تھا کہ ایک ہی جگہ پر لگا ہوا تھا۔

صحافی دوستوں کے واٹس ایپ گروپس میں جب پروفیسر کی تصاویر دیکھیں تو جس خبر پر ابھی تک یقین نہیں کیا تھا اُس کا یقین کرنا پڑ گیا، ٹی وی چینلز پر خبریں آنی شروع ہوئیں، لاش وصول ہوتے ہی پولیس نے اُسے طبعی موت قرار دیا جبکہ ابھی جسد خاکی ایمبولینس میں ہی تھا کہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے نام سے ایک بیان چلا جس میں وجہ موت طبعی بتانے کی کوشش کی گئی۔

پروفیسر کی پراسرار موت پر کئی سوالات اٹھے اور اٹھتے رہیں گے کیونکہ حسن ظفر عارف جیسے لوگ اور استاد مردہ معاشرے میں ایسی خدمات سرانجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے ضمیر جبر کے حالات سے پیچھے نہیں ہٹتے اور وہ مسلسل چبھتے ہوئے سوالات کرنے لگتے ہیں حتیٰ کہ انہیں بھی اپنے انجام کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔

تیس برس تک علم تقسیم کرنے والے شخص کا جسد خاکی جناح اسپتال پروٹوکول میں پہنچا، ایمبولینس کے آگے پیچھے سائرن بجاتے ہوئے تیز دوڑتی گاڑیاں، گویا کسی شہزادے کی آمد ہے۔

لاش پہنچنے سے پہلے ہی یہ طے کیا جاچکا تھا کہ اس موت کو طبعی قرار دیا جائے گا اور پھر بیٹی نے بھی اس کی تصدیق کردی مگر کچھ اہل زبان مردار معاشرے میں زندہ رہنے والے لوگوں نے ایسے سوالات اٹھائے جنہیں عام طور پر ریاست مخالف قرار دیا جاتا ہے، جیسے قبر کا انتظام پہلے سے کس نے کیا، سیمی جمالی کے دفتر پر پہلے سے موجود لوگ کون تھے، غسل کے دوران چھیپا سرد خانے پر بڑی تعداد میں جو گاڑیاں تھیں اور جنازے میں شرکت کی پابندی وغیرہ۔۔

خیر پروفیسر کی تدفین ہوگئی بیٹی کو لگتا ہے کہ والد کو قتل نہیں کیا گیا بلکہ اُن کی فوٹو شاپ تصاویر میڈیا پر کسی خاص مقصد کے لیے شیئر کی جارہی ہیں مگر دوسری طرف پوسٹ مارٹم رپورٹ اور کیمیائی تجزیے کے لیے حاصل کیے جانے والے نمونوں کو کچھ نہیں بنا، اُس کی معیاد ختم ہوگئی اور کچھ لوگ سمجھے پروفیسر کا سفر ختم ہوا مگر دراصل ایسا نہیں ہوا وہ مرے نہیں امر ہوئے۔

یہ ساری باتیں تو آپ کے علم میں ہوں گی ؟ چلیں آئیے اب زینب کی طرف کہ جس کا خط آیا ہے۔

زینب نے بتایا کہ اُس کے پہنچنے کے دو روز بعد ہی ایک طویل القامت شخص مسکراتا ہوا سوجے جسم کے ساتھ برزخ میں داخل ہوا، قصور کی ننھی کو دیکھ کر پہنچان گیا اور بتایا کہ تمھارے اور میرے قاتل کبھی نہیں ملیں گے، اسی دوران فرشتے آئے اور دونوں کو جنت میں لے گئے جہاں پہلے سے اور بھی لوگ موجود تھے۔

پاکستان سے آنے والے نئے مہمانوں کے لیے ایک شام رکھی گئی جس میں جناح سے لے کر حسن ظفر عارف تک سارے ہی بچے شریک ہوئے، سب نے باری باری ملک کے حالات پوچھنے کی کوشش کی، جناح کچھ نادم تھے زینب سے آنکھیں نہ ملا سکے پروفیسر نے اپنے لمبے قد کی وجہ سے جناح کو بیٹھے دیکھ لیا تھا، وہ زینب کو گود میں لے کر قائد اعظم کے پاس پہنچے اور پھر تینوں گلے لگ کر روتے رہے۔

فاطمہ جناح بھی آگئیں، رئیس امروہی، حکیم محمد سعید، امجد صابری، سبط جعفر، سبین محمود،  ڈاکٹر شکیل اوج، وحید الرحمان وغیر سب کے سب جمع ہوگئے زینب کو خوش آمدید کہا گیا۔ مادرِ ملت نے بتایا کہ “بیٹا کوئی بات نہیں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا، تم بچی ہو میں تمھارے سامنے الزامات نہیں دہرا سکتی”۔

امجد صابری جذباتی انداز میں زینب اور پروفیسر کے قریب آئے اور گلے لگا کر پوچھا میرے لہو کا کچھ انصاف ہوا؟ جناح سے یہ سوال برداشت نہ ہوا اور پھر یہ تقریب شام غریباں کا منظر پیش کرنے لگی۔

سب کی زبان سے ایک ہی جملہ ادا ہوا “قاتل آج تک نہیں پکڑے گئے” مگر تقریب میں جناح اور لیاقت علی خان نے اس بات پر مسرت کا بھی اظہار کیا کہ “پروفیسر کی جدوجہد ہماری تحریک کی کڑی تھی جس میں وہ کامیاب رہے۔

The post سرخرو پروفیسر اور ننھی زینب کے لیے جنت میں تقریب appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2F1OCMU

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny