Sunday, January 21, 2018

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کا جواب مضبوط پالیسی سازی

امریکی صدر کے حالیہ بیان پر بڑے سیاسی رہنماﺅں نے اپنے اپنے تناظر میں جواب دیا، قومی سلامتی کی میٹنگ میں بھی امریکی صدر کے بیان پر مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے لیکن کو ئی مضبوط اور واضع پیغام نہیں آیا کہ اگر امریکہ ڈرون حملے کرتا ہے یا کسی بھی قسم کی جارحیت کرتا ہے تو اس ضمن میں پاکستان کا ردِعمل کیا ہو گا ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان جلد بازی میں کچھ نہیں کہے گا۔ امریکہ جیسے ملک کی براہ راست دھمکیوں پر ہمارا رد عمل انتہائی مبہم ہے، قومی سلامتی کی میٹنگ کی انتہائی اہم اور ہنگامی ملاقات میں اہم اور با مقصد جواب نہیں دیا گیا۔ ریاست کو بتانا چاہیے تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 2001 سے لے کر اب تک امریکہ نے کتنی امداد دی اور ہمارا نقصان کتنا ہوا۔ لیکن اس کے برعکس صرف ایک پریس ریلیز جاری کر کے خاموشی اختیار کر لی گئی اور شاید اب ٹرمپ کے اگلے ٹویٹ کا انتظار کیا رہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات اور امریکہ کی افغان پالیسی پر ایک موثر اور مضبوط پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، محض بیانات سے کام نہیں چلے گا، خارجہ پالیسی اور عالمی سطح پر بدلتی صورتحال اور امریکہ کی واضع دھمکیوں کو قومی بحث کا حصہ بنانا ہو گا، بصورت دیگر ہمارے بیانات کی زیادہ وقعت نہیں ہو گی۔ کچھ وقت کے لیے سیاست کو ہم نے اپنی ترجیحات میں سے نکالنا ہو گا اور انتظار کرنا ہوگا کہ نئے انتخابات ہوں، پھر کون حکومت میں آتا ہے یہ عوام کا فیصلہ ہو گا۔ سیاست ہمارا واحد قومی اور متفقہ ایشو ہے جس پر ہر خاص و عام تجزیہ اور تبصرہ کر سکتا ہے، ہماری سیاست میں بھی الزامات زیادہ اور حقیقی سیاست کم کی جاتی ہے، ہمارا کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جس پر ملک دشمنی کے الزامات نہ لگتے ہوں۔ بقول سیاستدانوں کے ہمارا ہر سیاستدان کرپٹ جھوٹا دھوکے باز اور فراڈیا ہے، یہ الفاظ مہذب معاشروں میں توہین سمجھے جاتے ہیں لیکن ہماری سیاست میں یہ الفاظ اب تکیہ کلام بن چکے ہیں۔

ایشوز کبھی بھی ہماری سیاست اور ریاستی پالیسی کا مرکز نہیں رہے، جس ملک میں صحت، تعلیم اور پینے کے صاف پانی تک رسائی عام آدمی کے لیے مشکل ہو اس ملک میں سیاست صرف الزامات، گالم گلوچ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے تک محدود ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کا کام پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی ترجیحات، خارجہ پالیسی، اندرونی طور پر ملک کو کیسے چلانا ہے یہ کام سیاستدانوں کا ہوتا ہے۔ لیکن ہم چونکہ دنیا کے سب سے معتبر لوگ ہیں، ہماری سیاست اور جمہوریت میں اتنی آزادی ہے کہ ہم گالم گلوچ سے لے کر کردار کشی تک ہر وہ چیز کر سکتے ہیں جو کسی بھی دوسرے جمہوری ملک میں نہیں ہوتی لیکن ہم قومی پالیسی اور ترجیحات نہیں بنا سکتے کیونکہ ہم اہل ہی نہیں اور نہ ایشوز کی سیاست ہمارا مقصد ہے، ہمارا مقصد محض اقتدار کی سیاست ہے، وہ جیسے تیسے بھی ہو لیکن منزل وہی ہوتی ہے۔

موجودہ وقت کا تقاضا ہے کہ خود کو بدلا جائے اور اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کیا جائے۔ دنیا میں اتحاد کے نئے بلاکس بن رہے ہیں۔ دنیا معاشی طور پر آگے نکلنے کی جنگ میں داخل ہو گئی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے ہر کوئی کسی بھی حد تک جانے میں لگا ہوا ہے۔ امریکہ کی پالیسیاں افغانستان اور پاکستان کے حوالے سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال بھی کچھ اچھی نہیں ہے، شمالی کوریا اور امریکہ کی بھی لفظی جنگ جاری ہے۔ ان حالات میں اگر ہم نے اپنی پالیسیوں اور ترجیحات کا از سر نو جائزہ نہ لیا تو مستقبل میں ہمارے لیے مزید مشکلات ہو سکتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو محض ایک پاگل شخص کی دھمکی سمجھ کر ہم اگنور نہیں کر سکتے، ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان امریکہ کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، ان حالات میں ہمیں سیاسی جنگ کو چھوڑ کر بہترین سفارت کاری کی طرف جانا ہو گا۔ اندرونی طور پر اختلافات کو محض اختلافات کی حد تک رکھنا ہو گا۔ ہماری ایک دوسرے کے ساتھ اقتدار کی دشمنی ملک کے لیے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ قومی قیادت کو مل بیٹھ کر ایک جامع پالیسی بنانی ہو گی بصورت دیگر کل ہمیں بنگلہ دیش، اور افغانستان بھی دھمکیاں دے رہے ہونگے اور ہم محض افسوس ہی کر سکیں گے۔

The post ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کا جواب مضبوط پالیسی سازی appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2mZWF6t

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny