Sunday, January 28, 2018

ساری توپوں کے دہانے انتہا پسندی کے خلاف کمشنر سارہ خان کی سمت

برطانیہ میں انتہا پسندی پر قابو پانے کے لئے قائم کمیشن کی سربراہ کی حیثیت سے، انسانی حقوق کی کارکن، سارہ خان کے تقرر پر زبردست ہنگامہ برپا ہوگیا ہے۔ ایک طرف مسلم دشمن تنظیموں نے سارہ خان کی تقرری کی شدید مخالفت کی ہے تو دوسری جانب ایک سو سے زیادہ مسلم تنظیموں اور اسکالرز نے بھی اس تقرری پر شدید اعتراض کیا ہے اور فی الفور ان کی برطرفی کا مطالبہ کیا ہے۔ مسلم دشمن تنظیموں کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ وہ اس عہدہ پر ایک مسلم خاتوں کی تقرری کو کمیشن کے مقصد کے بر خلاف سمجھتی ہیں لیکن مسلم تنظیمیں ان کی تقرری کے کیوں خلاف ہیں؟

مسلم تنظیمیں سارہ خان کے اس بناء پر خلاف ہیں کہ ان کے نزدیک سارہ خان کے ہوم آفس سے گہرے اور خفیہ تعلقات ہیں۔ سارہ خان ملک میں دھشت گردی کے خلاف حکومت کی متنازعہ اسکیم کی پر زور حامی ہیں۔ مسلم تنظیموں کو شکایت ہے کہ نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحان پر قابو پانے کے لئے یہ اسکیم مسلم بچوں پر جاسوسی کے لئے استعمال کی جارہی ہے۔ اسکولوں کے اساتذہ اور منتظمین کو اس اسکیم کے تحت ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں اور جس بچے پر شدت پسندی کے رجحان کا شبہ ہو اس کی اطلاع فی الفور مقامی حکام اور پولس کو دی جائے۔ جس کے بعد پولس اس بچے سے ایسے پوچھ گچھ کرتی ہے کہ جیسے یہ دھشت گرد ہے ۔ پھر اگر ایک بار پولس کسی بچے سے انتہا پسندی کے رجحان کے بارے میں پوچھ گچھ کرتی ہے تو اس بچے پر ہمیشہ کے لئے انتہا پسندی کا دھبہ لگ جاتا ہے اوراس کا نام مشتبہ بچوں کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے جو ہمیشہ اس کے ریکارڈ کا انمٹ حصہ بن جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم تنظیمیں حکومت کی Preventاسکیم کے سخت خلاف ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس اسکیم کا اب تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے اور مسلم برادری کے نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رجحان کم نہیں ہوا ہے۔ مسلم رہنمائوں کا کہنا ہے کہ جب تک انتہا پسندی اور شدت پسندی کی وجوہات کا صحیح طور پر تجزیہ نہیں کیا جائے گا اور برطانیہ کی ان پالیسیوں پر غور نہیں کیا جائے گا جن کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی کی آگ بھڑکتی ہے اس وقت تک اس مسئلہ پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ مسلم نوجوان جب یہ دیکھتے ہیں کہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم وستم کے باوجود برطانوی حکومت اسرائیل کی ہر ہر قدم پر حمایت کرتی ہے اور اس پالیسی کے خلاف ان کا احتجاج اور مظاہرے بے سود و بے اثر ثابت ہوتے ہیں تو لازمی طور پر ان میں بے بسی اور بے کسی کااحساس بڑھتا ہے اور شدت پسندی جنم لیتی ہے۔

ٹوری پارٹی کی سابق نائب صدر اور کابینہ میں پہلی مسلم وزیر، سعیدہ وارثی نے سارہ خان کی تقرری کی سخت مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سارہ خان کی تقرری کا فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ اس تقرری سے انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔ سعیدہ وارثی نے کہا ہے کہ سارہ خان کے ہوم آفس کے ساتھ دیرینہ روابط پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ سعیدہ وارثی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے سدباب کے کمیشن کے سربراہ کے لئے لازمی ہے کہ یہ آزاد فکر کا حامل ہو، جس کا برطانیہ کے مسلمانوں کے تمام طبقات سے روابط ہوں اور اسے ان تمام کا احترام حاصل ہو۔

بریڈ فورڈ سے لیبر پارٹی کی ممبر پارلیمنٹ ناز شاہ نے بھی سارہ خان کو انتہا پسندی کے انسداد کی کمیشن کی سربراہ مقرر کیے جانے کی مخالفت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے سارہ خان غیر جانبدار نہیں ہیں ۔ وہ ہوم آفس کی ترجمان سمجھی جاتی ہیں ۔

برطانیہ کی مسلم تنظیموں کے اتحاد، مسلم کائونسل آف برٹن او ر ایک سو سے زیادہ مسلم تنظیموں اور اسکالرز نے بھی سارہ خان کی تقرری پر گہری تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ وہ ہوم آفس کے بہت قریب ہیں جس کی وجہ سے ان کو غیر جانبدار نہیں کہا جا سکتا۔ مسلمانوں کی تنظیم MEND کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد امین نے کہا ہے کہ انتہا پسندی کے خلاف کمشنر کی تقرری کا کوئی جواز نہیں جب کہ دھشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف قوانین ہیں اور متعد د ادارے کام کر رہے ہیں۔

سارہ خان جن کا تعلق بریڈ فورڈ سے ہے، خواتیں کے حقوق کی تنظیم Inspire قائم کرنے سے پہلے فارمسسٹ تھیں۔ ان کے والد 1963‌ء میں پاکستان سے برطانیہ آکر آباد ہوئے تھے۔ شادی ان کی ایک مسلم بیرسٹر سے ہوئی ہے۔ سارہ خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیرہ سال کی عمر سے شادی تک حجاب پہنا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے تشخص کے تین پہلوئوں، مسلم ہونے، برطانوی ہونے اور پاکستانی ہونے پرفخر ہے۔

The post ساری توپوں کے دہانے انتہا پسندی کے خلاف کمشنر سارہ خان کی سمت appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2EiJtRm

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny