Sunday, January 21, 2018

نجیب- ایک خطرناک دہشت گرد

کلاشنکوف کی خوف ناک آواز نے خاموشی کا گلا گھونٹ دیا۔ صحن میں کھیلتی معصوم بچیاں سہم کر اپنی ماں سے جا چمٹیں۔ ان کی آنکھوں میں سوال تھا کہ یہ کیسا شور تھا۔  ماں جو اپنے حواس پر قابو پانے میں کامیاب ہو چکی تھی بچیوں کو اپنی آغوش میں لے کر  دلاسہ دینے لگی اور بتایا کہ ساتھ والی گلی میں شادی ہے۔ یہ لوگ اس لیے شور شرابا کر رہے ہیں۔ دل ہی دل میں مگر وہ اپنے شوہر کی سلامتی کے لیے بھی فکرمند تھی اور دعا کر رہی تھی کہ  وہ خیریت سے گھر لوٹ آئے۔ اس کا شوہر اپنے روزگار کے سلسلے میں کام پر تھا۔

کچھ دیر میں کلاشنکوف نے چیخنا بند کر دیا۔ ایک دم سناٹا چھا گیا۔ یوں جیسے ہر طرف ہو کا عالم ہو اور ایسے میں وہ ماں اپنے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کو سن رہی تھی۔ کچھ دیر گذری تو دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ دوڑی گئی  ۔ باہر اس کا شوہر ہی تھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا۔ بچیاں بھی باپ کو دیکھ کر دوڑی آئیں۔ بچے متجسس ہوتے ہیں اور تجربے میں آئی نئی باتیں والدین کو فوراً بتانا چاہتے ہیں۔ چناچہ  بڑی بچی نے بتایا کہ ساتھ والی گلی میں شادی ہو رہی ہے اور انہوں نے زور زور سے فائرنگ کی تھی جس سے ہم بہت ڈر گئے۔ باپ نے غور سے ان کی بات سنی اور اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ بیوی نے سر ہلا دیا جس کا مطلب تھا کہ بچیوں کو اسی طرح بہلایا گیا ہے۔ باپ نے اپنی دونوں بچیوں کوگود میں اٹھایا اور اندر کی جانب چلا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بچیوں سے کہتا رہا کہ جو لوگ پڑھائی نہیں کرتے وہ ایسے ہی گندے لوگ بن جاتے ہیں اور شور شرابا کر کے دوسروں کو ڈراتے رہتے ہیں۔ میری بیٹیاں تو بہت اچھی ہیں وہ پڑھائی کریں گی اور کسی کو نہیں ڈرائیں گی۔ چھوٹی بچی نے لقمہ دیا کہ وہ تو ڈاکٹر بنے گی اور جو بم دھماکے میں زخمی ہوں گے ان کا علاج کرے گی۔ ماں باپ دونوں یہ بات سن کر چونک گئے۔ ایک چار سال کی بچی بم دھماکے کی بات کر رہی تھی۔

یہ خاندان وزیرستان سے ہجرت کر کے کراچی پہنچا تھا ۔ ان کے آبائی گاؤں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی۔ کچھ برس قبل وہاں دہشت گردوں کا قبضہ تھا۔ اور انہوں نے ظلم کے بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ پھر ان کے خلاف کاروائی شروع ہو گئی۔ وہاں سے بہت سے لوگوں نے اچھے دنوں کی آس میں نقل مکانی کی تھی کہ جب حالات بہتر ہو جائیں گے تو وہ واپس آ جائیں گے۔ انہی لوگوں میں نجیب کا خاندان بھی تھا۔ جس خون خرابے اور آئے روز کی لڑائی جھگڑوں سے تنگ آ کر انہوں نے ہجرت کی تھی اس بلا نے ان کا پیچھا یہاں پر بھی نہیں چھوڑا تھا۔ یہاں بھی سیاسی جماعتوں کے آپس کے جھگڑوں ، بھتہ خوروں کے راج اور دہشت گردوں  کی کاروائیوں نے جان ہلکان کر رکھی تھی۔ نجیب اور اس کی بیوی آج والی فائرنگ کے بعد اپنی چھوٹی بیٹی کی باتوں سے گھبرا کر اسی سوچ میں پڑے ہوئے تھے کہ اب کیا کیا جائے۔

طویل مشورے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس ملک کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں بسا جائے تاکہ اپنی بچیوں  کے ذہن پر ممکنہ برے اثرات  سے بروقت بچاؤ ممکن ہو سکے۔ نیز ان بچیوں کے لیے اچھی تعلیم  کا حصول ہو سکے۔ نجیب کا ایک واقف کار یہ کام کرتا تھا۔ وہ بھاری معاوضے کے عوض لوگوں کو  براستہ ترکی اور یونان یورپ پہنچاتا تھا۔ اگلے دن نجیب نے اپنے اس واقف سے بات کی اور اس نے اس خاندان کو دس لاکھ روپے کے عوض یورپ پہنچانے کی حامی بھر لی۔ نجیب کے لیے دس لاکھ روپے ایک بہت بڑی رقم تھی مگر اس اپنی بچیوں کا مستقبل بھی عزیز تھا۔  اس نے اپنے گاؤں میں موجود زمین کا سودا کر دیا۔ کچھ رقم ہاتھ آئی تو انہوں نے سفر کا قصد کیا۔ ایجنٹ نے ان کے کاغذات بنوا دیئے تھے جن پر وہ پاکستان سے ایران میں داخل ہو سکتے تھے۔

ان کا سفر ایک قافلے کی شکل میں شروع ہوا۔ وہ تمام قافلہ زائرین  کی صورت ایران جا رہا تھا اور وہا ں سے ان کو خفیہ طور پر سرحد عبور کر کے ترکی پہنچنا تھا۔ یہ ایک طویل اور کٹھن سفر تھا۔ راستے کی مشکلات سے نبرد آزما وہ قافلہ کسی نہ کسی طرح ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہاں سے ان کو سیدھا سمندر پر لے جایا گیا۔ سفر کی تھکن سے نڈھال لوگوں کو آرام کرنے کی مہلت بھی نہیں دی گئی۔ مگر یورپ پہنچنے کی دھن میں کسی نے شکایت بھی نہ کی۔ ترکی سے یونان سمندری راستہ  خشکی کا راستہ نہیں ہے۔ انہیں سمندر عبور کرنا تھا۔ قافلے کے منتظمین نے یہ سمندر ربڑ کی ایک مضبوط کشتی کے ذریعے عبور کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ چناچہ منہ اندھیرے سمندر میں ربڑ کی کشتی اتار دی گئی۔ کشتی میں سولہ افراد کی گنجائش تھی مگر کشتی میں کل ملا کر تینتیس لوگوں کو لاد دیا گیا۔ اور پھر وہی ہوا۔ مقررہ حد سے زیادہ وزن کی بدولت کشتی الٹ گئی۔  نجیب اپنے بیوی بچوں کو سمیٹے بیٹھا تھا۔ کشتی الٹنے پر وہ بدحواس ہو گیا۔ اس کو تیرنا بھی نہیں آتا تھا۔ جلد ہی وہ ہوش و حواس سے بے گانہ ہو گیا۔

اس کو ہوش آیا تو اس کے سامنے بتیس لاشیں بچھی ہوئی تھیں۔ وہ واحد انسان اس کشتی میں سے زندہ بچا تھا ۔ اس کو بچانے والے ترکی کے کوسٹ گارڈز تھے جو گشت کے دوران اس طرف سے گذرے تو انہیں سمندر میں تیرتی لاشیں ملیں۔ نجیب کو بھی پہلے وہ مردہ ہی سمجھے تھے مگر  وہ زندہ تھا۔ اب اس سے پوچھ گچھ کا مرحلہ شروع ہوا۔  وہ کچھ نہ بتا سکا۔ بتاتا بھی کیا۔  وہ گم صم ترکی کے پولیس والوں کی شکلیں دیکھتا رہا۔ اس کی جیب سے پاکستانی پاسپورٹ ملا تھا۔ ان لوگوں نے کڑیاں ملا کر یہ اندازہ لگا لیا کہ یہ انسانی اسمگلنگ کا کیس ہے چناچہ انہوں نے نجیب کو واپس پاکستان بھیجنے کا فیصلہ کیا۔کراچی ائیرپورٹ پر اس کے بارے میں پہلے ہی اطلاع دی جا چکی تھی کہ ایک اسمگل شدہ بندہ واپس بھیجا جا رہا ہے۔ چناچہ ائیرپورٹ پر اترتے ہی اسے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔

کراچی میں بھتہ خوروں اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری تھا۔ دو دن بعد اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ایک خطرناک دہشت گرد پولیس کے ساتھ مقابلے میں مارا گیا۔ مزید حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اس کے پاس سے مہلک خودکار اسلحہ بھی برآمد کروا لیا گیا۔ عوام نے شکر ادا کیا کہ پاک دھرتی ایک خطرناک دہشت گرد کے بوجھ سے پاک ہوئی۔

 

The post نجیب- ایک خطرناک دہشت گرد appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2mZM4Zn

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny