اٹھارویں ترمیم شیخ مجیب کے چھ نکات جیسی ہے ، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام معیشت پر بوجھ ہے، چیف جسٹس جوڈیشل مارشل لاء لگا دیں۔
شیخ رشید اور ان کے سر پرستوں نے نظریہ پیش کرکے اپنا ایجنڈا عیاں کر دیا،23 مارچ کا دن آتا ہے تو قراردار لاہورکی یاد تازہ ہو جاتی ہے ۔ قرار داد میں مسلمان اکثریتی ریاستوں کی کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی گئی، مسلم لیگ نے 1906 سے 1947 تک چھوٹے صوبوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی تھی، محمد علی جناح ساری زندگی جمہوری ریاست کے لیے کوشاں رہے ، انھوں نے عوامی ووٹوں کی جدوجہد سے نیا ملک حاصل کیا۔ 11 اگست 1947 کو آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن ایک جدید جمہوری ریاست کا تصور اجاگرکیا، ایسی ریاست جس کے شہریوں کے درمیان مذہب ، نسل ، ذات ، جنس کی بنیاد پر امتیاز نہیں ہوگا ۔
مارچ 1948 کو قائداعظم نے اپنے خطاب میں فوجی افسروں اور جوانوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اپنے حلف کے مطابق فوجیوں کا فرض ہے کہ منتخب حکومت کے احکامات کی پیروی کریں ۔‘‘
قرارداد لاہورکو محض اس کے نام تک محدود کر دیا گیا، اکثریتی صوبے مشرقی پاکستان کو حق حکمرانی محروم کیا گیا، چھوٹے صوبوں، سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو اہمیت ہی نہیں دی گئی ۔ تیسرے گورنر جنرل غلام محمد کا تعلق برطانوی ہند حکومت کے آڈٹ ڈیپارٹمنٹ سے تھا اور اپنی ملازمت کا ایک حصہ انگریز وائسرائے کے ماتحت وزارت خزانہ میں گزارا تھا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے منتخب وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کیا گیا ، آئین ساز اسمبلی کو توڑ گیا ، لندن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی آصف جیلانی جو پچاس کی دہائی میں کراچی سے شایع ہونے والے ترقی پسند روزنامہ امروز کے رپورٹر تھے۔
انھوں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ جب کراچی میں چیف کورٹ میں آئین ساز اسمبلی توڑنے کے خلاف مولوی تمیز الدین کی عرضداشت کی سماعت ہو رہی تھی تو عدالت کی کینٹین میں ایک بنگالی رہنما نے رپورٹر سے بات چیت میں کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی یہ پالیسی برقرار رہی تو پھر ملک ٹوٹ جائے گا ۔ اس کے بعد ون یونٹ قائم کرکے مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے دونوں صوبوں میں برابری کا اصول نافذکیا ، مشرقی پاکستان میں 1954 میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کی مخالف جماعتیں جگتو فرنٹ میں متحد ہوئی اور جگتوفرنٹ نے انتخابات میں 90 فیصد نشستیں حاصل کرلیں یہ پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کی پہلی شکست تھی مگر اس حکومت کو چھ ماہ بعد توڑ دیا گیا۔ جب 1956 کے آئین کے تحت 1958 میں انتخابات ہونے والے تھے اور اس بات کے صد فیصد امکانات تھے کہ جگتو فرنٹ کی طر ح پھر عوامی لیگ ، نیشنل عوامی پارٹی وغیرہ مشرقی پاکستان سندھ ، سرحد اور بلوچستان سے کامیابی حاصل کریں گی ۔
صدر اسکندر مرزا نے مارشل لاء نافذ کردیا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا ۔ ایوب خان نے پہلے اسکندر مرزا کو رخصت کیا پھر 1962 کا آئین بنایا ، اس آئین میں سارے اختیارات صدرکے عہدے کے گرد گھومتے تھے، ایک مرتبہ پھر مشرقی پاکستان کی اکثریت کو ختم کیا گیا، جب بانی پاکستان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تومشرقی پاکستان کے عوام نے فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کی، مگر ایوب خان دھاندلی سے انتخاب جیت گیا، اس طرح مشرقی پاکستان کی عوام کے لیے اپنے بنائے ہوئے ملک پر حکومت کرنے کے تما م راستے بند کردیے گئے ، اسلام آباد چند سالوں میں دنیا کے جدید دارالحکومتوں میں شامل ہوگیا۔
مشرقی پاکستان میں غربت کی سطح بڑھ گئی، سیلابوں اور طوفانوں میں امدادی کاموں کا فریضہ غیر ملکی فوجوں کے سپرد کردیا گیا ، ایسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ، بنگالی رہنما مجیب الرحمان نے جو پہلی دفعہ تحریک پاکستان کے دوران گرفتارہوئے تھے کہا تھا کہ اسلام آباد کی سڑکوں سے مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی خوشبو آتی ہے ۔ ڈھاکا یونیورسٹی کے دانشور اساتذہ نے 6 نکات تیارکیے جس کا سارا مقصد مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان کے استحصال سے نجات دلانا تھا ۔ مشرقی پاکستان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو وہیں پر خرچ کو یقینی بنانا تھا ، مگر طالع آزما قوتوں نے چھ نکات کے پیچھے چھپی ہوئی محرومیوں کو سمجھنے کے بجائے اس کے خلاف منفی پروپیگنڈا شروع کردیا، عوامی لیگ نے ان چھ نکات کو اپنا منشور بنایا اور اس کی پوری قیادت کو اسیرکر دیا گیا ۔
شیخ مجیب الرحمان کئی سالوں سے جیل میں بند تھے ۔ انھیں اگرتلہ سازش کیس میں ملوث کیاگیا جب ایوب خان 1968 میں شروع ہونے والی عوامی تحریک کے نرغہ میں آ گئے تو انھوں نے تمام سیاستدانوں کوگول میزکانفرنس میں مدعو کیا۔ ولی خان ، نوابزاد ہ نصراللہ خان اور دوسرے رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ شیخ مجیب الرحمان کو رہا کر کے اسلام آباد لایاجائے تو وہ کانفرنس میں شرکت کریں گے ۔ ایوب خان نے اگرتلہ سازش کیس واپس لے لیا ، شیخ مجیب الرحمان کو رہا کردیا گیا اور یہ حقیقت سامنے آگئی کہ اس سازش کیس کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔
1971 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کیا گیا ، ملک تقسیم ہوگیا ، خانہ جنگی میں کئی لاکھ افراد برباد ہوئے مشرقی پاکستان میں 1947 کے بعد سے آباد ہونے والے بہاری مسلمانوں کی کئی نسلیں تباہ ہوگئیں ، 1973 کا آئین بنانے والے ذوالفقارعلی بھٹو، ولی خان ، پروفیسر غفور، مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی جیسے جید سیاستدانوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ صوبائی خود مختاری کے بغیر اس ملک کا برقرار رہنا ممکن نہیں،آئین میں دو ایوانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ سینیٹ کے اراکین کا انتخاب صوبائی اسمبلی کے اراکین کے ووٹوں سے مشروط کیاگیا ، آئین میں وفاق اور صوبوں کے اختیارات کی تین فہرستیں شامل کی گئیں ، تیسری مشترکہ فہرست میں وہ نکات شامل کیے جن پر وفاق اور صوبے دونوں قانون سازی کرسکتے تھے ، اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میرغوث بخش بزنجو سے وعدہ کیا تھا کہ دس سال بعد مشترکہ فہرست میں درج نکا ت صوبوں کو منتقل کردیے جائیں گے مگر 2010 یہ وعدہ عملی شکل اختیار نہیں کرسکا ۔ بلوچستان میں 1950 میں گیس دریافت ہوئی۔
سوئی سے نکلنے والی یہ گیس کراچی ، اسلام آباد ، مر ی اور پشاور تک پہنچ گئی مگر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے شہریوں کو 1985 میں یہ گیس ملی اور آج بھی پورے بلوچستان میں گیس دستیاب نہیں ہے ،گزشتہ اٹھارہ سالوں سے حالات اتنے خراب ہیں کہ صوبائی حکومت کی عملداری صرف کوئٹہ کی حدود تک محدود ہے، بلوچ لاپتہ افراد کامعاملہ بین الاقوامی ایجنڈا بن گیا ہے۔
1988 سے 1999 تک محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی دو دفعہ حکومتیں اقتدارمیں آئیں ، ان دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی حکومتوں کو الٹنے کے لیے مقتدرہ کی مدد لی ۔ جنرل پرویز مشرف کی دس سالہ حکومت کا تحفہ ملا ، بے نظیر بھٹو، نوازشریف اور ان کے ساتھیوں نے ماضی کے تجربات سے سیکھنے کا طریقہ اختیارکیا تو 2005 میں میثاق جمہوریت پر اتفاق ہوا۔ اس میثاق جمہوریت کی پاسداری صدر آصف زرداری اور میاں نواز شریف دونوں نے کی۔
2010 میں آئین میں اٹھارویں ترمیم ہوئی ۔ اس ترمیم میں قرارداد پاکستان کی بنیاد پر صوبوں کو خود مختاری دی گئی، قومی مالیاتی ایوارڈ کی تشکیل نو ہوئی ۔ اب ایوارڈ کے نئے فارمولے کے تحت آبادی رقبہ اور پسماندگی کے فارمولے کو بنیاد بنایا گیا ، اس فارمولے کے تحت زیادہ رقم بلوچستان کو ملنی چاہیے تھی، بد قسمتی سے زرداری حکومت اور پھر میاں نوازشریف حکومت نے اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد کی ، راہ میں حائل مشکلات کا حل تلاش کرنے کی نہیں کی گئی ۔ اس ضمن میں نئے قوانین بنانے اور این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی آمدنی کو شفاف طریقوں سے ترقی کے لیے خرچ کرنے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا گیا ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور ڈرگ پرائس کنٹرول اتھارٹی جیسے اہم معاملات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی گئی مگر میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار ایک ہی کارنامہ ہے کہ وفاقی بجٹ میں ترجیحات کے لیے انھوں نے مقتدرہ کے دباؤکو قبول نہیں کیا ۔
مولانا فضل الرحمن نے تجویز پیش کی ہے کہ سیاستدان مل کر غوروفکرکریں اور پارلیمنٹ کی سالمیت کو درپیش خطرات کے تدارک کے لیے نیا میثاق تیار کریں، اٹھارویں ترمیم پر تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہے اب تو مضبوط مرکزکی حامی جماعت اسلامی بھی صوبائی خود مختاری کی حامی ہے ۔ جسٹس ثاقب نثار نے یوم پاکستان کے موقعے پر اپنے خطاب میں جوڈیشل مارشل لاء سمیت ہر قسم کے غیرآئینی اقدامات کو مسترد کیا ہے، اس غیر یقینی سیاسی صورتحال میں چیف جسٹس کا بیان خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے، مجموعی طور پر سویلین کے لیے راہیں محدود کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کو اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے کہ نواز شریف کو قومی سیاست سے نکالا جا رہا ہے، انھیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ پارلیمنٹ کی حیثیت کو محض نمائشی بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔
The post قرارداد لاہور اوراٹھارویں ترمیم appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2GicNYK
No comments:
Post a Comment