Sunday, March 4, 2018

ایک بھارتی صحافی چین میں

اکشیت راٹھی(Akshat Rathi)سائنسی وتکنیکی موضوعات پر مضامین لکھنے والے معروف بھارتی صحافی ہیں۔فی الوقت برطانیہ میں مقیم ہیں۔ان کے مضامین عالمی شہرت یافتہ علمی جرائد واخبارات مثلاً نیچر،اکنامسٹ،گارڈین،کیمسٹری ورلڈ،دی ہندو وغیرہ میں شائع ہو چکے۔حال ہی میں وہ چین گئے تھے۔اس دورے سے متعلق اکشیت کے سبق آموز تاثرات ومشاہدات پہ مبنی مضمون پیش خدمت ہے۔

یہ دو ہفتے قبل کی بات ہے، ایک سائنس کانفرنس میں شرکت کرنے چین کے دارالحکومت، بیجنگ جانا ہوا۔ میں پہلی بار چین جارہا تھا مگر کتب و رسائل میں اس ملک کی بابت کا فی مواد پڑھ چکا تھا۔ لہٰذا چین کی تاریخ اور تہذیب و تمدن سے شناسا ضرور تھا۔ سرکاری طور پر چین ایک ترقی پذیر ملک ہے یعنی وہ مغربی ملکوں کی طرح ترقی یافتہ مملکت نہیں کہلاتا۔

میں بھارت میں پیدا ہوا اور وہیں کالج تک تعلیم پائی۔ پھر والدین کے ساتھ ہجرت کرکے برطانیہ آگیا تاہم مجھے علم ہے کہ چین اور بھارت کے مابین ہر شعبے میں مقابلہ جاری ہے۔ میں اس مقابلے کے مختلف پہلوؤں سے بہت دلچسپی رکھتا ہوں۔ اسی لیے چین کو پہلی بار دیکھنے کی تمنا میرے دل میں مچل رہی تھی۔

اعدادو شمار دیکھے جائیں، تو چین ترقی یافتہ ممالک کے بجائے ترقی پذیر ممالک کی صف میں ہی کھڑا نظر آتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک چینی کی سالانہ آمدن 15,535 ڈالر ہے جبکہ برطانیہ کا ایک شہری سال میں 42609 ڈالر تک کمالیتا ہے۔ گویا ایک برطانوی شہری کی آمدن چینی شہریوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ البتہ ایک بھارتی شہری کی سالانہ فی کس آمدن 6572 ڈالر ہے۔ گویا چین میں شہریوں کی آمدن بھارتی شہریوں کی آمدن سے بس ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔مگر چینیوں کی فی کس آمدن اس لیے کم ہے کہ چین میں آبادی بہت زیادہ ہے۔

مجھے توقع تھی کہ چین میں ریل اور بسوں کا نظام بھارت سے بہتر ہوگا لیکن یہ گمان بھی تھا کہ چینی ریلوں اور بسوں میں بھی دھکم پیل ہوتی ہوگی اور ہر جگہ مسافروں کا جم غفیر میرا استقبال کرے گا۔ اسی طرح مختلف سرکاری اور نجی اداروں میں کسٹمر سروس والوں کا رویّہ زیادہ مہذب ہوگا مگر ان کی بھی کوشش ہوگی کہ مہمان کو جلد از جلد بھگتا دیا جائے۔غرض میرے ذہن میں یہی خیال پنپ رہا تھا کہ شاید چین بعض اعتبار سے بھارت کی نسبت بہتر ثابت ہو، لیکن بیشتر مواقع پر مجھے ایک ترقی پذیر ملک سے وابستہ خرابیاں ہی ہر جگہ نظر آئیں گی۔

چین پہنچ کر منکشف ہوا کہ میری سوچ سراسر غلط تھی۔ میں نے چین میں جو دو ہفتے گزارے، انہوں نے افشا کردیا کہ یہ ملک ترقی پذیر نہیں رہا بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی صف میں پہنچ چکا ہے۔ وہاں دولت اور آسائشات کی فراوانی ہے اور کم از کم شہروں میں غربت و جہالت کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔

میں اب بھارت اور برطانیہ میں مقیم اپنے دوست احباب کو بتا رہا ہوں کہ وہ چین کے متعلق اپنے خیالات تبدیل کرلیں… یہ ملک اب افیونوں، سست الوجود لوگوں اور سائیکل سواروں کا دیس نہیں رہا بلکہ ایک نئے انداز کی مملکت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ میں نے خاص طور پر چین کی معاشی ترقی کے بارے میں بہت غلط اندازے لگائے تھے۔ چین پہنچ کر تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں جب میں نے بیجنگ میں ہر جگہ صاف و شفاف سڑکیں دیکھیں۔ کہیں بھی مجھے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر نظر نہیں آئے۔ ممبئی حتیٰ کہ دہلی میں بھی یہ ڈھیر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔

بیجنگ اور دیگر چینی شہروں میں ریل کا جدید و مربوط نظام بچھا ہوا ہے۔ ریل شہریوں کی آمدورفت کا بنیادی ذریعہ ہے۔ ریل اور بسوں کے کئی اسٹیشن زیر زمین واقع ہیں۔ وہ سبھی نہایت جدید اور ایئرکنڈیشنڈ ہیں۔ ان کی گزرگاہوں میں آکسیجن اور تازہ ہوا کی فراہمی کا معقول انتظام ہے۔چین میں انٹرنیٹ کی رفتار بہت تیز ہے۔ موبائل 4 جی نیٹ زیر زمین اسٹیشنوں اور تیز رفتار ریلوں میں بھی بھاگتا دوڑتا ہے۔ ٹیکسیاں ہر جگہ مل جاتی ہیں اور ان کے کرائے بھی معقول ہیں۔ البتہ اکثر ٹیکسیوں میں تمباکو کو بدبو رچی بسی ملی۔

چینی شہروں میں ایسے ’’کنوینس‘‘ اسٹور عام ہیں جہاں سے روزمرہ زندگی میں کام آنے والی ہر شے مل جاتی ہے۔ راستہ تلاش کرنے میں گوگل اور ایپل میپس خوب کام آتے ہیں۔ چین میں راستوں کے تمام اشارے اپنی جگہ نصب پائے۔ بھارت میں ایسا نہیں، اسی لیے وہاں راستہ تلاش کرتے ہوئے بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ بعض اشارے چینی زبان میں تھے، چناں چہ انہیں سمجھنے میں کچھ مشکل ہوئی۔

بیجنگ میں گھومتے پھرتے مجھے احساس ہوا کہ ریستورانوں، مالز اور ریل و بس کے اسٹیشنوں میں زیادہ تر عملہ مسلسل کام کرنے کی وجہ سے تھکا تھکا لگتا ہے۔ اس کے باوجود بھارتی عملے کی طرح غصیلا اور چڑچڑا نہیں تھا، وہ نرم لہجے اور دوستانہ انداز میں پیش آیا۔مجھے چین میں یہ بات بھی پسند آئی کہ وہاں سبھی اسٹوروں اور دکانوں میں دستیاب ہر شے پر قیمت لکھی ہے۔ لہٰذا مول تول کرنے کے بکھیڑے سے پالا نہیں پڑتا۔ بھارت میں تو تقریباً ہر جگہ چیزیں خریدتے ہوئے منہ ماری کرنا پڑتی ہے۔

غرض میں نے اپنے دماغ میں چین کے ترقی پذیر اور خرابیوں سے بھرے ہوئے دیس ہونے کا جو تصّور سوچ رکھا تھا، وہ چینی شہروں میں گھومنے پھرنے کے بعد ہوا میں کافور ہوگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ ایک باخبر صحافی ہوتے ہوئے بھی میں چین کے متعلق مغالطے رکھتا ہوں، تو عام بھارتی یہی سوچتے ہوں گے کہ پڑوسی مملکت میں بھی سرکاری دفاتر میں خوب رشوت چلتی ہوگی۔ وہاں بھی سڑکوں پر گہرے گڑھے ہوں گے اور جابجا کوڑا دکھائی دیتا ہوگا۔سائنس کانفرنس میں شریک ایک برطانوی سائنس داں، جوناتھن ووٹزل میرا دوست بن گیا۔ وہ پچھلے پانچ برس سے بیجنگ میں مقیم ہے۔

ٹیکنالوجی سے متعلق ایک چینی کمپنی میں کام کرتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ امریکا، برطانیہ حتیٰ کہ بھارت کے سرکاری و نجی ادارے دانستہ چین کے خلاف غلط خبریں پھیلاتے ہیں تاکہ اپنے عوام کو گمراہ کرسکیں۔ چین کی ترقی سے خوفزدہ یہ ممالک اپنے عوام کو چین سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، بہت سے عام امریکی، برطانوی اور یورپی و ایشیائی یہی سمجھتے ہیں کہ چین میں آمرانہ ماحول ہے اور وہاں لوگ ’’بگ باس‘‘ کی زیر نگرانی ڈرے سہمے انداز میں زندگیاں بسر کررہے ہیں۔

مجھے کم از کم تین چینی شہروں میں ایسا آمرانہ ماحول کہیں دکھائی نہیں دیا۔چین میں قیام کے دوران میں بیجنگ، شنگھائی اور گوانگ زو میں سیرو سیاحت کرتا رہا۔ درست کہ میرا مشاہدہ انہی شہروں تک محدود رہا لیکن ان کا انفراسٹرکچر کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہر سے کمتر نہیں تھا۔ مزید براں مجھے چین میں قانون کی حکمرانی نظر آئی اور یہ بھی احساس ہوا کہ لوگوں کو انصاف ملتا ہے۔ بھارت میں بیشتر تعلیم یافتہ اور ہنر مند اس لیے مغربی ممالک ہجرت کرجاتے ہیں کہ وہاں نظام زندگی بہت اچھا ہے۔ عام طور پر جو جتنی محنت کرے، اسے اس کا اتنا ہی پھل مل جاتا ہے لیکن بھارت میں الٹا حساب ہے… جو جتنا زیادہ قانون شکن ہو ،وہ اتنی ہی زیادہ ترقی کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور برطانیہ میں زمین آسمان جیسا فرق ہے۔ برطانیہ میں ہر کام وقت پر ہوتا ہے۔ بس ہو یا ریل، وہ ہمیشہ بروقت منزل پر پہنچتی ہے۔ ڈرائیور ٹریفک کے تمام قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ اگر کوئی شہری پولیس اسٹیشن جائے، تو وہاں اس سے درخواست لکھانے کے لیے بھی رشوت نہیں مانگی جاتی۔برطانیہ میں عموماً موسم خراب رہتا ہے۔ پھر وہاں کے یورپی کھانے بھی بھارتیوں کو پسند نہیں آتے لیکن برطانیہ میں بھارت کی نسبت روزمرہ زندگی گزارنا کہیں زیادہ آسان ہے۔ چین پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ وہاں کا طرز زندگی بھی برطانیہ جیسا ہوچکا ہے۔ گویا یہ ملک بھارت میں رائج تمام خرابیوں سے نجات پاکر ایک ترقی یافتہ مملکت کی صورت ڈھل  رہا ہے۔

چین کی زبردست معاشی و معاشرتی ترقی دیکھ کر اب میں سوچتا ہوں کہ آخر بین الاقوامی میڈیا میں چین کو ’’ترقی پذیر‘‘ ملک کیوں کہا جاتا ہے؟ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ چین اپنی معیشت کو پابندیوں سے کامل طور پر آزاد نہیں کرسکا، اسی لیے وہ ترقی پذیر کہلاتا ہے۔ تاہم بیشتر ماہرین اسے مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ چین کو ترقی یافتہ مملکت قرار دیں یا ترقی پذیر!

جرمنی میں ’’مرکاسٹر انسٹیٹیوٹ فار چائنا اسٹڈیز‘‘ واقع ہے۔ یہ ادارہ چین کی معیشت و سیاست پر تحقیقی رپورٹیں مرتب کرتا ہے۔ اس کے نائب صدر، بوجوان کو نارڈ کا کہنا ہے ’’میں سمجھتا ہوں کہ مشرقی چین اس وقت ترقی یافتہ خطے کا روپ دھار چکا۔ اس علاقے میں چمکتے دمکتے اور دولت سے مالا مال ساحلی شہر واقع ہیں۔ لیکن مغربی چین اب بھی ترقی پذیر خطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں کئی علاقوں میں غربت کا دور دورہ ہے۔‘‘

بوجوان کونارڈ ایک اور لحاظ سے بھی چین کا تناقص واضح کرتے ہیں: ’’اگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر اور کھانے پینے کے غیرملکی وملکی مراکز دیکھے جائیں اور شرح خواندگی کا جائزہ لیا جائے، تو چین ترقی یافتہ ملک ہے۔ مگر یہ دیکھا جائے کہ کتنے چینیوں کے لیے ایک ڈاکٹر ہے یا زراعت سے کتنے فیصدی آبادی وابستہ ہے، تو چین ترقی پذیر مملکت دکھائی دیتا ہے۔‘‘

سبھی ممالک کی طرح چین سے بھی مختلف مسائل چمٹے ہوئے ہیں۔ بے شک چینی شہر آرام و آسائش کا مرقع بن چکے مگر اب وہاں کے کچھ شہریوں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کے ساتھ آمرانہ رویہ رکھتی ہے۔ اسی طرح ہزارہا کارخانوں اور لاکھوں گاڑیوں سے نکلتے دھوئیں نے چینی شہروں کی فضا بہت آلودہ کردی ہے۔ کبھی کبھی تو وہاں سانس لینا تک دوبھر ہوجاتا ہے۔

لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مغربی ممالک اور چینیوں سے حسد کرنے والی حکومتوں کا میڈیا عموماً چین کے خلاف منفی رپورٹیں تیار کرتا ہے۔ اسی لیے امریکا اور یورپی ممالک میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ چین میں عام لوگ مختلف پابندیوں کا شکار ہیں۔ ان کی زندگیوں میں آرام و سکون نہیں اور وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔ چین میں پندرہ روزہ قیام کے دوران میں نے اس تصّور کو باطل اور جھوٹ پر مبنی پایا۔

خاص طور پر ایک بھارتی صحافی کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھارت اور چین کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ بھارتی نوجوان اکثر بڑے جوش و خروش سے بھارت کو چین سے زیادہ خوشحال اور ترقی پذیر ثابت کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ لیکن انہیں جان لینا چاہیے کہ چین ترقی پذیر ملک نہیں رہا بلکہ کم از کم اس کی شہری زندگی تمام جدید سہولیات سے آراستہ پیراستہ ہوکر ترقی یافتہ بن چکی ہے۔ اب بھارتیوں کو بھارت اور چین کا موازنہ کرنے کی لت کو خیرباد کہہ دینا چاہیے۔

چین کی ترقی کا راز
مغرب کا مشہور دانشور،مارٹن ژاک(Martin Jacques)چین کی تاریخ وسیاست پر گہری نظر رکھتا ہے۔2009ء میں اس نے اپنی ممتاز کتاب’’ When China Rules the World: The End of the Western World and the Birth of a New Global Order ‘‘پیش گوئی کی تھی کہ چین مستقبل کی سپر پاور ہے۔مارٹن کہتا ہے کہ چین کی ترقی کو سمجھنے کے لیے تین نکات ذہن میں رکھنے ضروری ہیں:

٭اول یہ کہ چین قومی ریاست(nation state)نہیں بلکہ ایک تہذیبی ریاست( civilisation state)ہے۔پچھلے دو ہزار برس کے دوران اس کی تعمیر وپرداخت ہوئی ہے۔بنیادی طور پر چین کی ثقافت مشترکہ ہے مگر اندرونی تنوع کی وجہ سے مختلف چینی علاقوں میں جداگانہ انداز ِحکومت رائج رہا۔

٭دوم چین میں نسل ( race)کا نظریہ مختلف ہے۔92 فیصد چینی ہان نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔اسی لیے وہاں نسلی اختلافات بہت کم ہیں۔

٭سوم چین میں ریاست اور معاشرے کے مابین تعلقات بہت خوشگوار ہیں۔چینی ریاست جمہوری خدوخال نہیں رکھتی مگر عام لوگ اس کی حاکمیت تسلیم کرتے اور حکمرانوں کے احکامات پہ عمل کرتے ہیں۔کئی مغربی ریاستیں جمہوری ہونے کے باوجود عوام میں اتنی پذیرائی نہیں رکھتیں۔جبکہ چینی عوام ریاست کو اپنی تہذیبی وثقافتی اقدار کی محافظ سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے،پچھلے ایک ہزار سال کے دوران چینی عوام نے کبھی اپنی ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا۔

The post ایک بھارتی صحافی چین میں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2FPRFtc

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny