یورپ آنے سے قبل بڑی باتیں سنیں، ایسا لگا سب کچھ یورپ میں ہے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ میں جب یورپ میں آیا اور مختلف یورپی ممالک گیا تو جو بڑی بڑی باتیں سنی تھیں وہ مجھے غیر اخلاقی محسوس ہوئیں۔ دیکھنے میں کچھ پانے میں کچھ ’’دور کے ڈھول سہانے۔‘‘
پاکستان سے جو لوگ آئے کسی نے یہاں کی خاتون سے شادی کرلی اس کو یہاں کی مکمل رہائش مل گئی، پانچ سال بعد پاسپورٹ بھی وہاں کا بن جاتا ہے۔ بہت خوش ہوتے ہیں فخریہ انداز میں کہتے ہیں اب تو میں یہاں کا رہائشی ہوں، اولادیں جب بڑی ہوتی ہیں اور جو عمل ان اولادوں کا ہوتا ہے تب ان کو احساس ہوتا ہے ہائے ہم نے یہ کیا کیا؟ یہاں کی عورت سے شادی کرکے، ساری تربیت بچوں کو وہاں کی ملتی ہے وہ کیا جانے والدین کی خدمت ان کی زندگی میں یہ الفاظ نہیں۔ البتہ اگر کسی نے اپنے ملک سے شادی کی ہے تو ماں کی بدولت بچے مشرقی تہذیب کو سمجھیں گے اور اپنے ملک (پاکستان) آتے جاتے رہیں گے۔
لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا ہے وہ اولاد جوان ہوتی ہے تو اس نے وہیں شادی کرلی تو اب سمجھ لیں آپ کی نسل ختم ہوگئی۔ کوئی ایسی تدبیر نہیں کہ نسل کو برقرار رکھ سکیں۔ نسل برقرار اس وقت رہتی ہے اگر اپنی نسل میں شادی ہو تاکہ اپنی زبان بھی برقرار رہے۔ چند لوگوں نے ایسا کیا ہے لیکن مجھے اکثر لوگ ملے جن کو پاکستان پہنچے 20 سال کسی کو 30 سال بیت گئے اس لیے کہ انھوں نے وہاں جس عورت سے شادی کی ہے وہ اس کو نہیں چھوڑتی اور نہ ہی وہ خود پاکستان آنا چاہتی ہے۔ اس کے لیے تو پاکستان ’’بیک ورڈ کنٹری‘‘ ہے۔ بڑے افسوس کی باتیں کیا کریں جو لوگ یورپ سے پاکستان آتے ہیں کبھی سچائی نہیں بتاتے شاید اس لیے نہیں بتاتے ان کی پوزیشن خراب نہ ہوجائے۔
میں ایک صاحب سے مخاطب ہوا یہ مجھے پاکستان سے جانتے ہیں ان کو یورپ میں 20 سال ہوگئے ہیں۔ شادی یورپی عورت سے کی ہے۔ جب سے شادی کی واپس اپنے ملک نہ گئے ماں باپ ان کو یاد کرتے کرتے تڑپتے ہیں۔ شاید تڑپتے تڑپتے ایک دن اس دار فانی کو کوچ کرجائیں، لیکن اکلوتے بیٹے کو نہ دیکھ سکیں۔ میرے ذہن میں جو باتیں ہیں بلا تکلف میں نے ان سے کیں بلکہ ان کے والدین کے بارے میں بھی کہا۔ بولے کیا کروں یہاں جو کماتا ہوں سارا خرچ ہوجاتا ہے۔ بیوی کام کرتی ہے وہ خرچ ہوجاتا ہے دو بچے ہیں ان کو انگلش کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں آتی۔ جب بیوی بچوں کو پاکستان جانے کا کہوں تو وہ صاف طور سے منع کردیتے ہیں۔
پھر میں بھی سوچتا ہوں اگر ان کو پاکستان اپنے رشتے داروں میں لے گیا تو شرمندگی ہوگی اس لیے کہ بیوی بچوں کو اردو آتی نہیں اور نہ آئے گی۔ میں نے کہا اب یہ بچے بڑے ہوں گے ظاہر ہے شادی یہاں اپنی نسل میں کریں گے سمجھنے لگے بالکل صحیح کہہ رہے ہیں ابھی سے کہتے ہیں ہم یہاں پیدا ہوئے ہماری ماں یہاں کی تو شادی بھی ہم یہاں کریں گے۔ آپ کی طرح بے وقوف نہیں کہ اپنے ملک سے دوسرے ملک میں شادی کی۔ بچوں سے یہ جملہ سن کر شرمندہ ہوا اب احساس ہوتا ہے میں نے غلط کیا لیکن وقت گزر گیا میری نسل برباد ہوگئی کس طرح والدین کو اپنا چہرہ دکھاؤں۔
اہل یورپ نے بڑی عقلمندی ہوشیاری کا کام کیا اس لیے کہ جب یہاں آپس میں شادیاں ہو رہی تھیں تو وہی بیماری پھیلتی جا رہی تھی۔ ڈاکٹرز کا کہنا تھا خون تبدیل کریں اگر ایشیائی ملکوں سے نوجوان لڑکوں کو یورپ میں بلاکر لڑکیاں شادی کرلیں تو آیندہ کے لیے خون تبدیل ہوگا اور نسل بھی اچھی ہوگی۔ لہٰذا یورپ نے پہلے بہانہ بنا کر نوجوان لڑکوں کے لیے کہ 25 سال سے زیادہ عمر نہ ہو تعلیم کے لیے آ جائیں۔ اس سلسلے میں پاکستان میں ایجنٹ کی چاندی ہوگئی دفاتر کھل گئے، لڑکے اپنا اچھا مستقبل بنانے کے لیے یورپ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ان ایجنٹ کے دفاتر کے چکر لگانے لگے۔
ایجنٹ کی فیس اور کالج کی ایک سال کی فیس جہاز کا کرایہ لازمی کرنا تھا باقی ایجنٹ نے کہا فکر نہ کریں وہاں پاسپورٹ پر روزانہ 4 گھنٹے ملازمت کی مہر ثبت کردی جائے گی آپ چار گھنٹوں میں اپنے کالج کی فیس اپنے کھانے، رہائش کا سارا خرچ نکال سکتے ہو۔ بہت لڑکے تیار ہوگئے کسی کے والدین نے قرض لیا کسی کی ماں نے اپنا زیور فروخت کیا یہ سب غریب یا درمیانی طبقے کے لڑکے تھے امیر امرا کی بات نہیں۔ جو لڑکے اپنی جدوجہد کرکے یورپ آئے اپنے کالج پہنچے وہاں لڑکیاں بھی ملیں۔ چونکہ آزاد ملک ہے ساری آزادی ہے بوائے فرینڈز بنانے میں دیر نہیں لگاتیں۔ جو لڑکے اپنا مستقبل روشن کرنے گئے تھے کسی چھوٹی موٹی دکان پر یا کوئی معمولی کام پر لگے ہاں اتنی رقم ملی جو کالج کی فیس ان کی رہائش اور کھانے کے لیے بہت تھی۔ ہمارے ملک میں اتنی آزادی کہاں جہاں چاہیں لڑکی کو لے کر چلے جائیں اس لیے کہ یورپ میں اس پر کوئی پابندی نہیں۔ زیادہ لڑکے ایسے نکلے جنھوں نے ان گرل فرینڈز سے شادیاں کرنا شروع کردیں۔
لیکن ان لڑکوں کو ملازمت کوئی بڑی یا سرکاری نہیں ملی سب کسی اسٹور، ڈپارٹمنٹ اسٹور، بار، چھوٹے ہوٹل میں بیرے وغیرہ مطلب چھوٹی چھوٹی ملازمتیں ملیں لیکن آمدنی اس قدر تھی جس میں وہ آرام و عیش کے ساتھ گزر اوقات کرلیتے۔ اس عیش و عشرت کی زندگی میں وہ لڑکے سب کچھ بھول گئے اس لیے کہ وہاں کی لڑکی سے شادی کرنے پر وہیں کی نیشنلٹی مل جاتی ہے۔ اب اولادیں بھی فربہ، تگڑی پیدا ہوئیں یورپ اپنی کوشش میں کامیاب ہوگیا ہمارے لڑکے یورپ کے ہاتھوں ایسے چڑھے اپنا ملک تو چھوڑا بلکہ والدین اور رشتے داروں بہن بھائیوں کو بھی بھول گئے۔
میں نے پورے یورپ میں حالات خود اپنی نظر سے دیکھے کسی کی سنی سنائی بات نہیں سوائے افسوس کے اور کچھ میرے پاس نہیں لیکن آج بھی پاکستان سے بے شمار لڑکے یورپ آنے کے لیے تیار ہیں اس لیے کہ ہمارے ملک میں غربت اور بیروزگاری اس قدر ہے یہ بھی نوجوانوں کی بڑی مجبوری ہے کیا کریں یورپ میں تو مزدوری کرلیں گے لیکن اپنے ملک میں مزدوری نہیں کریں گے وہاں تو بڑے عہدے کی تلاش ہوگی۔
تقریباً 90 فیصد پاکستانی لڑکوں نے وہاں شادیاں کیں لیکن انڈین لڑکے مشکل سے دو سو میں صرف ایک لڑکا ہوگا جس نے یورپی لڑکی سے شادی کی ہو۔ زیادہ ہوتا ہے انھوں نے تعلیم مکمل کی ڈگری حاصل کی اور واپس اپنے ملک لیکن ہمارے پاکستانی لڑکے اس طرح نہیں کرتے ان کا مزاج الگ ہے کہتے ہیں یہ عیش عشرت ہمیں کہاں ملے گا یورپ پھر یورپ ہے۔ میں نے ایسے پاکستانی دیکھے جو مزدوری، دکانوں پر سامان اٹھانے کے کام میں بس کوئی ہوگا جو سپلائی میں ہو ورنہ تقریباً سارے ان چھوٹے کاموں میں لگے ہیں چونکہ فی گھنٹہ اچھی رقم ملتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ بہت ہے پھر گوری لڑکی مل جاتی ہے اور کیا چاہیے۔
کیا کیا جائے ہمارے ملک کے عہدے داروں نے کچھ نہ کیا اتنا بڑا ملک اگر یہ ملک و قوم کے لیے کچھ کرتے تو آج یورپ ہمارا محتاج ہوتا ہم اس کے محتاج نہ ہوتے۔ ہم نے تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے اب دوسروں کو کیا کہیں۔ ہاں ایک بات ضرور کہوں گا یاد رکھیں اپنے ملک اپنوں میں آپ کو سوکھی روٹی یا چٹنی سے روٹی مل جائے وہ اچھا ہے۔ اس لیے کہ آپ اپنی تہذیب رسم و رواج پر ہیں۔ ایک دن آئے گا آپ چٹنی روٹی کے بجائے اچھا کھانا کھائیں گے۔
The post دور کے ڈھول سہانے appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2E06wio
No comments:
Post a Comment