Saturday, March 3, 2018

قبر کی مٹی

یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے ایک مانوس سی آواز نے اسے روک لیا، وہ اس کی کلاس فیلو جنت تھی۔ تمھارا گھر کہاں ہے؟ اس نے پوچھا اور ساتھ ہی لفٹ کی آفر کر دی۔ علی نے ایک لمحے اسے دیکھا اور بولا، نہیں نہیں شکریہ؛ میں چلا جاؤں گا۔ وین میں بیٹھ کر وہ یہی سوچ رہا تھا کہ اس کے گھر کے بارے میں پوچھنا اس کےلیے چبھتا ہوا سوال کیوں ھے؟ جواب صا ف ظاہر تھا، اس کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، گھرانہ بھی کیا صرف ایک باپ جو پیشے کے لحاظ سے گورکن تھا اور اس کی ماں فوت ہو گئی تھی، جب وہ چھوٹا سا تھا۔ بہترین گریڈز اور پڑھائی کی لگن نے اسے اسکالرشب کے ذریعے یونیورسٹی تک پہنچا دیا تھا۔

وین کچی بستی کے اسٹاپ پر رکی، وہ اترا اور گھر کی جانب چل دیا۔ اس کے دماغ میں ایک ہی چیز تھی اور وہ تھی جنت۔ وہ چاہ کر بھی اسے ذہن سے ہٹا نہیں پا رہا تھا۔ یونیورسٹی میں گزارے کچھ عرصے میں وہ کسی سے بھی زیادہ مانوس نہیں ہوا تھا، جنت واحد اسٹوڈنٹ تھی جو اس میں دلچسپی لیتی تھی؛ اور اب وہ اسے زیادہ نظرانداز نہیں کر پا رہا تھا۔ ایک بات اس کے دماغ کے کونے میں ضرور کھٹکتی تھی کہ وہ امیر وکبیر خاندان سے ہے، بھلا میری طرف کیوں مائل ہو گی۔ یہی سوچ کر ہمیشہ وہ پہلو تہی کر جاتا تھا۔

انہی سوچوں میں گم وہ گھر پہنچ گیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کے باپ نے اس کی طرف طماینت بھری نگاہوں سے دیکھا، کھانا اس کے سامنے رکھا اور باہر نکل گیا۔ برسوں سے اس کا یہی معمول تھا، وہ بولتا نہیں تھا، صرف علی سے نہیں بلکہ بستی میں کسی سے بھی بات نہیں کرتا تھا۔ علی کھانا کھا کر باہر نکلا، اس کا باپ ہمیشہ کی طرح اپنی بیوی کی قبر کے پاس گم سم بیٹھا ہوا تھا۔ جب سے اس نے ہوش سمبھالا، اپنے باپ کو اسی طرح پایا تھا۔ وہ اس کا بہت خیال رکھتا تھا، کھانا پینا، کپڑے دھونا اور اس کے تمام اخراجات پورے کرتا تھا۔ اس کے بعد یا تو قبریں کھودتا یا پھر اپنی بیوی کی قبر کے پاس بیٹھا رہتا۔

اسے معلوم تھا کہ یہ اس کی ماں کی قبر ہے، وہ کبھی کھبی دعا کےلیے جاتا بھی تھا۔ لیکن وہ سوچتا ضرور تھا کہ ہر وقت قبر کے پاس بیٹھنے سے ماں واپس نہیں آ جائے گی۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس کے باپ کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ اس سے بات کرنے لگا: ارے شکیل بھائی! کیا اب بھی نہیں بولے گا، اتنے برسوں بعد آیا ہوں؟ پر جواب ندارد۔

وہ خود ہی بڑبڑانے لگا: مجھے معلوم ہے تو نہیں بولے گا، سکینہ کی موت سے پہلے جتنا تو نے بولنا تھا بول لیا۔ اس شخص نے قبر پر فاتحہ پڑھی اور چل دیا۔ وہ جب علی کے قریب سے گزرا تو کہنے لگا: توشکیل بھائی کا بیٹا ہے ناں؟ جی۔ علی نے جواب دیا۔ واہ… بڑا گبھرو جوان نکلا ہے۔ اس نے علی کا ہاتھ پکڑا اور چلتے چلتے بتانے لگا: میرا نام خیر دین ہے، برسوں پہلے میں بستی چھوڑ کر دوسرے شہر چلا گیا تھا۔ بڑا یارانہ تھا تیرے باپ کے ساتھ، بستی کا سوہنا جوان تھا، شادی بھی مرضی کی کی تھی، شہر میں نوکری کرتا تھا۔ پر جب تیری ماں فوت ہوئی تو صدمہ سہہ نہیں سکا، قبر کے پاس سے اٹھتا ہی نہیں تھا۔ پھر ادھر ہی قبریں کھودنا شروع کر دی، تجھے پالنا جو تھا۔ پھر بستی والوں نے قبرستان والا گھر اسے دے دیا۔

میں نے سوچا تھا کہ اب تو وہ ٹھیک ہو گیا ہو گا۔ تو بھی اب جوان ہو گیا ہے، پر اسے تو بس سکینہ کے پاس ہی رہنا ہے۔ ہم سے نہیں بولتا، اور نا ہی اپنے پتر سے؛ بس تیری ماں سے بولتا ہے جو ہم کو سنائی نہیں دیتا۔ دیکھ پتر علی! تو اپنی زندگی نا خراب کرنا۔ تیرا باپ یہاں سے نہیں جانے والا، تو شہر جا اور آرام سے رہ، بستی کی زندگی کوئی زندگی نہیں۔

خیر دین جا چکا تھا پر علی کے ذہن میں اس کی باتیں چل رہی تھیں۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا، میرا باپ ساری زندگی ایسے ہی رھے گا، اگر میں پڑھ لکھ کر اچھی نوکری کرنے لگ جاؤں تو بھی ابا یہاں سے نہیں جائیں گے۔

آج یونیورسٹی میں وہ جنت سے کھل کر باتیں کر رہا تھا۔ آہستہ آہستہ کچھ ہی دنوں میں بات مزید بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ جنت نے یہ بھی طے کر لیا کہ شادی کے بعد علی اس کے پاپا کی فرم میں جاب کرے گا۔

ایک آرام دہ زندگی اس کی منتظر تھی۔ اس نے ابھی اپنے گھر اور والد کے بارے میں جنت کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ شاید وہ طے کر چکا تھا کہ وہ اس بات کو چھپا کر شہر چلا آئے گا۔ خلاف توقع وہ اپنی ماں کی قبر پر کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کاش ماں زندہ ہوتی تو میں ایسے چھوڑ کر نا جاتا۔ وہ اپنے باپ سے بات کرنے کےلیے بڑھا جو ابھی ابھی قبر کھود کر بیٹھا اپنی سانسیں بحال کر رہا تھا۔ وہ باپ کے پاس ہی بیٹھ گیا جو مٹی کو ہاتھ میں لے کر بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شاید وہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہی وہ مٹی ہے جس کی آغوش میں برسوں پہلے وہ اپنی بیوی کو سونپ چکا تھا۔ علی بھی مٹی کو غور سے دیکھ رہا تھا، وہ بات کرنا بھول گیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

کچھ ہی دیر کے بعد بستی میں ایک کار آ کر رکی، جنت گاڑی سے اتری اور علی سے پوچھا کہ تم نے مجھے یہاں اس جگہ کیوں بلایا؟ کچھ نہیں، بس وہ تمہیں اپنا گھر دکھانا ہے، چلو میرے ساتھ۔ اس نے جنت کو ساتھ لیا اور قبرستان کی طرف چل دیا۔ علی مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو؟ سامنے قبرستان ہے۔ وہ چلتا رہا، چلتا رہا۔  جیسے ہی وہ گیٹ سے اندر داخل ہونے لگا تو جنت نے اسے روک لیا اور قدرے چلا کر بولی: علی کیا تم پاگل ہوگئے ہو، کہاں لے جا رہے ہو مجھے؟ اس پر علی نے تحمل کے ساتھ کہا: وہ سامنے دیکھ رہی ہو ناں، علی نے قبرستان کے وسط میں موجود گھر کی طرف اشارہ کیا۔ وہ میرا گھر ہے، اور ھاتھ میں کدال پکڑے جو شخص کھڑا ہے وہ میرا باپ ہے۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔ اس نے جنت کو اپنی طرف بلایا، وہ قبرستان میں داخل ہو چکا تھا۔

جنت حواس باختہ ہو چکی تھی۔ علی اس کو اندر بلا رھا تھا، وہ اندر داخل ہوتا جا رہا تھا اور جنت واپس پلٹ رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ گاڑی تک پہنچ گئی اور تیز رفتاری سے دھول اڑاتی ہوئی وہاں سے واپس نکل گئی۔

جنت کا راستہ قبرستان اور قبر کی مٹی سے ہو کر گزرتا ہے، پر یہ کیسی جنت تھی جو قبرستان سے ڈر گئی۔ علی سوچتے ھوئے اپنے والد کے پاس پہنچا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ماں کی قبر کی طرف چل پڑا۔ اس کا باپ مٹی سے وفا نبھا رہا تھا، کیوں کہ اس کی شریکِ حیات اس مٹی میں دفن تھی۔ اور علی اس لیے لوٹ آیا تھا کیوں کہ وہ جان چکا تھا اگر وہ اپنے پاب کو چھوڑے گا تو اس کی قبر کی مٹی کبھی اسے معاف نہیں کرے گی۔ اور اگر قبر کی مٹی خلاف ھو جائے تو پھر جنت نہیں ملا کرتی۔

پاکستان کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔ یہ وطن ہر حالت میں ہمارا حق ادا کرتا ہے، ہمیں پالتا ہے، محفوظ رکھتا ہے؛ اور بدلے میں کچھ مانگتا ہے تو بس وفا۔

جو لوگ ملک کو کچی بستی سمجھتے ہیں اور اس کو چھوڑ کر کہیں اور سکون تلاش کرتے ہیں، ان کو یہ بات سمجھ لینی چاہئیے کہ جو لوگ مٹی سے وفا نہیں کرتے، ان کو قبر کی مٹی کبھی معاف نہیں کرتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post قبر کی مٹی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2Fji8Bu

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny