جنوب ایشیائی ممالک میں جوہری طاقت کی دوڑ شدت اختیار کر رہی ہے،اور اس کی بنیادی وجہ نئی دہلی میں جنم پانے والا یہ خوف ہے کہ بھارت عسکری طور پر چین سے پیچھے کھڑا ہے۔ یہاں یہ خدشہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کیا بھارت کا حقیقی حدف چین ہی ہے یہ پھر پاکستان؟ اور یہ بات بھی غور طلب ہے کہ آیا بھارت کے لئے جوہری ہتھیاروں کا مقصد ڈیٹرینس کے ذریعے امن کا قیام ہے یا کچھ اور؟
ایشیائی ممالک میں بھارت چین اور پا کستان کے بڑھتے تضاد نہایت خطرناک ثا بت ہو سکتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ بھارت کی جا نب سے ہونے والے وقناً فوقتاً میزائل تجربے ، جوہری معاہدے اور چائنہ، پاکستان کا اس دوڑ میں برابر کھڑا ہونا شامل ہے۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران، جنوبی ایشیاء کے خطے پربھارت کی جانب سے روائیتی جنگ چھیڑے جانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے اور اس کے جوہری ہتھیاروں سے متعلق عزائم بھی امن کے لئے شدید خطرہ ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کے ہوش ربا عسکری اخراجات اس کے جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں آگے نکل جانے کے مذموم مقصد کا عندیہ دیتے ہیں۔
ستمبر 2009ء میں فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ نئی دہلی کے سینئر اٹامک حکام کے دعوے کے مطابق بھارت کی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تباہ کن پیداواری صلاحیت اب دنیا کی بڑی جوہری طاقتوں کے ہم پلہ آ چکی ہے۔ جبکہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا خواہاں نہیں بلکہ جنوب ایشیائی ممالک کے درمیان جوہری طاقت کے معیار کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ جس کا اندازہ آپ پاکستان کے عسکری اخراجات لگا سکتے ہیں۔
حال ہی میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کا اپنے جوہری ہتھیاروں پر تکیہ کرنا اور مستقبل میں اپنے ایٹمی پروگرام کو وسعت دینا اس کے ممکنہ جارحانہ عزائم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کچھ اخبارات کے مطابق اس توجہ کی وجہ چین ہے جبکہ دفاعی تجزیہ کار زیکری کیک کے مطابق بھارت کا جوہری پروگرام محض ایک ناکامی کے طور پر ہی یاد رکھا جائے گا کیونکہ یہ اب تک اپنے اصل مقصد، یعنی کہ چین کو جنگی میدان میں باز رکھنے میں ناکام رہا ہے جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ چین کی جانب سے بھارت اور چین کے مشترکہ متنازعہ بارڈر پر کم شدت کے حملے متواتر جاری رہتے ہیں۔
اگر ہم جنوبی ایشاء میں جوہری پروگرام کی تاریخ اور اثرات پر نظر دوڑائیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ غیر یقینی حد تک تباہ کن ہے ، مگر ایسا کیوں ہے، آیئے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
برگیڈیئر نعیم سالک اپنی نئی کتاب میں بھارت کے جوہری پروگرام کی بنیاد اور اس کے دوغلے معیار کا پول کھولتے ہیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیاء میں جوہری توانائی کے پھیلائو سے متعلق مختلف پہلووں کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور بھارت کی ایٹمی پروگرام کے بانی کہلائے جانے والے ڈاکٹر ہومی بھابا جوہری توانائی کو ہی بھارت کے لئے فائدہ مند سمجھتے تھے۔
موجودہ حالات میں یہ بھی کسی المیے سے کم نہیں کہ بھارت اپنے جوہری پروگرام کو رفتہ رفتہ مگر مسلسل ترویج دے رہا ہے اور اس ضمن میں اسے عالمی طاقتوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ 1990ء کی دہائی میں ظاہر کردہ جوہری ہتھیاروں کے تجربے اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارت خفیہ طور پر اساسوں میں اضافہ کرتا رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری کا اسے مکمل آشیرباد بھی حاصل ہے جسے مختلف سفارتی اقدامات سے تقویت بخشی جاتی رہتی ہے اوراس کی ایک مثال بھارت امریکہ جوہری معاہدہ ہے جواجاگر کرتا ہے کہ باہمی تعلقات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں نسبتاً سکیورٹی معاملات کے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی بھارت کے ڈیپارٹمنٹ آف آٹامک انرجی کا کلپاکم کے مقام پر اپنے ایک تیز رفتار بریڈر ری ایکٹر پر تیزی سے کام کرنے اور اسے اپنے جوہری اثاثوں کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہیں، قطع نظر اس بات کے اس ریکٹر سے متعلق سکیورٹی خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے یا نہیں ۔ بھارت کا اپنے ایٹمی مفادات کو بالادستی بنیادوں پر جاری رکھنا اس کے جارحانہ عزائم کا واضح ثبوت ہے اور اس سلسلے میں عالمی برادری کے تعاون کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے یہ خیر خواہ اس حقیقت سے بلکل نا بلد ہیں کہ بھارت نے اپنی روز بروز بڑھتی جوہری طاقت کو کس مفید انداز سے دنیا عالم سے چھپا رکھا ہے۔
مزید برآں بھارت کا مختلف ممالک کے ساتھ مسلسل لا محدود اور بغیر کسی مستقل نگرانی کے جوہری معاہدے طے کرتے جانا نہایت تشویش ناک ہے، یہ اب تک 16 ایسے معاہدے طے کر چکا ہے اور اس اقدام پر دنیا عالم میں امن کے پرچار، جوہری طاقت محدود کرنے کے حامیوں کی جانب سے نہ صرف مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے بلکہ اسے ان مذموم مقاصد میں کسی قسم کی روک ٹوک ، حتیٰ کہ پوچھ گچھ کا بھی سامنا نہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے ایٹمی طاقت کی توسیع مخصوص اور پرجوش ہے ۔ جوہری توانائی کے عدم پھیلائو کے معاہدے پر بھارت کی جانب سے دستخط نہ کرنا اور حال ہی میں آسٹریلیا کے ساتھ طے پائے جانے والے یورینیم معاہدے نے بھارت میں غیر ملکی یورینیم کے استعمال سے متعلق کئی سوال اُٹھا دیے ہیں۔2016ء تک بھارت نے ارجنٹینا، آسٹریلیا، کینیڈا، جمہوریہ چیک، فرانس، جاپان، کزاکستان، منگولیا، نمیبیا، روس، جنوبی کوریا، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ جوہری تعاون کے معاہدے طے کئے ہیں۔
اس سب کے باوجود بھارت اپنے جوہری اثاثوں کے اضافے کے ماضی کو مٹانے سے قاصر ہے۔ایسے حالات میں بھارت کو نیوکلیئر سپلائی گروپ کا رکن بنانے پر عالمی طاقتوں کی باہمی مشاورت بھی کسی اچھنبے سے کم نہیں۔ یہ بات نہایت دلچسپی کی حامل ہے کہ کس طرح سے بھارت نے عالمی برادری کی نظروں میں خود کو ایک معمول کی، قوانین کی پابند جوہری طاقت کے طور پر اجاگر کرنے اور اس گروپ کی رکنیت حاصل کرنے کے لئے اپنے حق میں پلیٹ فارم بنایا جبکہ ایک ایسا ملک جو کہ ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے کے خلاف ورزی کا مرتکب ہو ، اس کی اس گروپ میں شمولیت نہایت غیر یقینی اور پر خطر اثرات مرتب کرے گی۔ بھارت کی اس گروپ میں شمولیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان جیسے رکن ممالک کو ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہونا پڑے گا جن کا مقصد لامحالہ بھارت کے سکیورٹی خدشات کو تحفظ دینا ہوگا جبکہ دوسری جانب یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ بھارت خفیہ طور پرباقائدہ ایک” نیوکلیر سٹی” کی تعمیر کر رہا ہے، اس لیے عالمی برادری کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور نیوکلیئر سپلائی گروپ کے ممبران کو بھی اپنے ہی تشکیل کردہ اصولوں اور قوائد سے انحراف نہیں کرنا چاہئےاور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کو اس گروپ کی رکنیت دینے سے جنوبی ایشیاء کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
بھارت کا اپنے سے طاقتور پڑوسی سے دفاع کرنے کے لئے صرف اور صرف جوہری ہتھیاروں پر ہی اکتفا کرنے کی پالیسی نے خطے میں ایک ایٹمی جنگ چھڑنے کےمواقع بڑھا دیے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ اور ثبوت حال ہی میں بھارت کی جانب سے کئے جانے والے جوہری ہتھیاروں ICBM کا تجربہ ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی کوئی نئی تو نہیں مگر خطے میں ایسی ایٹمی طاقتوں کا موجود ہونا جو تاریخی لحاظ سےایک دوجے کے لئے تلخ تجربات رکھتی ہوں، کسی خطرے سے خالی نہیں۔
بلا شبہ بھارت کے جوہری طاقت سے متعلق رویے کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کی سلامتی اور امن کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
The post جوہری ہتھیاروں کی ترویج اور بھارت کے مذموم عزائم appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2I56WGL
No comments:
Post a Comment