اس قوم کا المیہ ہے کہ ہر چیز کے پیچھے یہ قوم کوئی نہ کوئی یہودی سازش تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے اور یہودیوں کو اس سازش کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ ہماری قوم اس سچ کو کبھی تسلیم نہیں کرتی جو کہ آنکھوں کے سامنے چل پھر رہا ہوتا ہےکیونکہ شاید اس قوم نے حق کے لباس کو جہالت کے صندوقوں میں قید کر دیا ہےاور نفرت پسندی کے چولے زیب تن کر لئے ہیں۔
بقول فریحہ نقوی،
یہ جو حق پر ڈٹی ہوئی ہوں میں
غاصبوں کو لڑی ہوئی ہوں میں
چھ برس بعد سوات کی گل مکئی وطن واپس آئیں ، ان کی آمد کی خبر باخبر حلقوں کو پہلے سے تھی لیکن سیکیورٹی حالات کے پیشِ نظر اس کو صیغہءِ راز میں رکھا گیا تھا۔ ملالہ کے آنے کی دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر غُل مچ گیا۔ بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے خوش آمدید کہا، جبکہ چند گنے چنے ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنی بھڑاس اور نفرت کا اظہار کیا۔ ان کی نفرت کی وجہ صرف یہ ہی تھی کہ ملالہ آج اس مقام پر ہے جس کے وہ خواب دیکھا کرتے تھے یا شاید یہ کہ ملالہ طالبان کے اس حملے میں بچ گئی اور غدار بن گئی۔
وہ ملالہ جس کو ظالموں نے تعلیم حاصل کرنے سے روکا تو اس نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان سب کے بعد بھی ملالہ نہیں ہٹی۔ ملالہ، وہ محاذ جسے تعلیم کہتے ہیں ، پر ڈٹی رہی اور غاصبوں کے ساتھ لڑتی رہی۔
خیر جس دیس میں، مولانا عبد العلیٰ مودودی کو غدار کہا جاتا ہو، سر ظفر اللّٰہ خان کو ان کے عقیدے کی وجہ سے غدار کہا جاتا ہو، محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا جاتا ہو، باچا خان کو غدار کہا جاتا ہو، جس ملک میں وہ مجیب الرحمان جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا اسے غدار کہا جاتا ہو، اس ملک میں غدار کہلانا تہمت نہیں اعزاز ہوا کرتا ہے۔
وہ وقت جب طالبان کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے تمام بہادر لوگوں کی زبانیں کانپ جاتی تھیں، اس وقت ملالہ نے پندرہ سال کی عمر میں بی بی سی کے لئے ڈائری لکھی۔ جس کی پاداش میں اسے اسکول سے واپسی پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی آواز روکنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ آواز سوات سے نکل کر دنیا بھر میں گونجنے لگی۔ ملالہ پر ہونے والے حملے تک کو فراڈ کہا گیا لیکن ملالہ کسی لوہے کی مانند ڈٹی رہی، اس نے اپنی توانائی لوگوں کو جواب دینے میں صرف نہیں کی۔ وہ چند ناکام حلقے تنقید ہی کرتے رہے اور ملالہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔
اس ملالہ نے وہ سکھروو پرائز بھی حاصل کیا جو کہ نیلسلن منڈیلا نے حاصل کیا تھا۔ اس بہادر لڑکی کا سفر یہاں ہی نہیں رکا، اس نے 2014ء میں نوبل امن انعام بھی حاصل کیا اور اس انعام کے ساتھ ملنے والی رقم، سوات میں ایک اسکول بنانے میں صرف کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ 2013ء میں اس ملالہ نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ اسی برس ستمبر میں ملالہ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی خطاب کیا۔ اکتوبر میں ملالہ نے باراک اوباما سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں ملالہ نے ڈرون حملوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دسمبر میں ملالہ نے اکسفورڈ یونین سے خطاب کیا۔ 2014ء میں ملالہ نے ورلڈ چلڈرن پرائس جیتا اور 50،000 ڈالر غزہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کر دئیے۔ وہ ملالہ جس نے جب ٹویٹر جوائن کیا تو دنیا کے امیر ترین آدمی بل گیٹس جو کہ خود نجانے کتنے لوگوں کے لئے انسپائریشن ہے اس نے ملالہ کو اپنی انسپائریشن کہا۔ 2013ء، 2014ء اور 2015ء تک ملالہ کو ٹائم میگزین نے دنیا کی پر اثرترین لوگوں کی فہرست میں رکھا۔ 12 جولائی 2015ء کو ملالہ نے اپنی اٹھارویں سالگرہ پر لبنان شامی بارڈر کے قریب، سام کے پناہ گزینوں کے لئے ایک اسکول کا آغاز کیا۔
ملالہ نے ملالہ فنڈ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم کے لئے کام کرنا ہے، جو کہ ہر سال ایک کروڑ ڈالر خواتین کی تعلیم کے لئے لگا رہی ہے۔ تنقید کرنے والے ملالہ کا موازنہ ولید خان سے تو کرتے ہیں جو کہ اے۔ پی۔ ایس۔ حملے میں زخمی ہوا تھا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہی ولید خان جب لندن علاج کے لئے گیا تھا، تب ملالہ اور اس کے گھر والوں نے ہی اس کا خیال رکھا تھا۔
ملالہ نے کل وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب سے خطاب کیا اور وہ یہ الفاظ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں، “یہ میرا خواب تھا کہ میں اپنے ملک واپس جاؤں اور امن کے ساتھ بناء کسی خوف کے رہوں۔ میرے والد مجھے کہتے تھے کہ فرض کرو تم کراچی میں ہو، فرض کرو تم اسلام آباد میں ڈرائیو کر رہی ہو۔” یہ جملے عکاسی تھے اس اذیت کے جو ملالہ نے چھ سال اپنے ملک سے دور رہتے ہوئے اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہوئے برداشت کی۔ تقریر کے دوران ملالہ رو پڑیں تب انہوں نے کہا کہ، “میں زیادہ روتی نہیں ہوں۔” ملالہ کا یہ جملہ صادق لگتا ہے کیوں کہ ملالہ نے اتنا تحمل اور برداشت ان جھوٹے الزامات کی طرف دکھائی دیا جو شاءد اس کا حوصلہ توڑنے کو کافی تھے ۔
ملالہ سے نفرت کرنے والے سطحی لوگ شاید نہیں جانتے کہ وہ ملالہ جسے طالبان کی گولیاں بھی چپ نہیں کروا سکیں اسے طالبانوں کے چاہنے والوں کے لایعنی فقرے کیسے چپ کروا لیں گے؟ ملالہ اس نظریے کا نام ہے جو کسی بھی ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے، اس سوچ کا نام ہے جس پر تالے ڈالنا ناممکن ہوتا ہے، اس روشنی کا نام ہے جو دوسروں کے لئے منور ہوتی ہے، اس عزم کا نام ہے جو حق اور باطل کی تفریق کر سکے۔
شاید کہ وہ دن کبھی ہماری تاریخ میں آئے کہ ہم اپنے تعصب اور نظریاتی فرق سے بالاتر ہو کر لوگوں کو دیکھنا شروع کریں، شاید کسی روز ہم وہ نفرت کا راستہ جو ضیاء کی میراث ہے اس سے آگے کچھ سوچیں۔ شاید وہ دن آئے! شاید!
(ملالہ پر حملے کے بعد لکھی گئی ایک نظم)
ملالہ سچ کی شہزادی
ملالہ جہل کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی
ترے ماتھے کا جھومر ہے
سنا ہے جب تجھے گولی لگی تو تیرے ہاتھوں میں قلم تھا
قلم کب تھا
علم تھا
بے ریا سچائی کا اونچا علم
ہم جس کے سائے میں اکھٹے ہیں
ملالہ سب زبانیں گنگ تھیں
کچھ مصلحت کچھ خوف کے دھاگے سے لب سلوائے بیٹھے تھے
وہی جو اپنا سینہ ٹھونک کر کہتے تھے حق ہم ہیں
انہی ہونٹوں پہ تالے تھے
زبانیں خشک آوازیں حلق میں کھو گئیں تھیں
جھوٹ کے سارے پیامبر خوف کے غاروں میں دبکے تھے
خدا کے نام لیوا جبر کی تعظیم کو سجدے میں تھے
جب تیری پیشانی سے ٹپکے خون کے قطروں نے للکارا
اٹھو کیا دیکھتے ہو
کہو کہہ دو
کہ ہم اس جھوٹ سے بیزار ہیں
اس جبر کا انکار کرتے ہیں
ہمیں سچ سے محبت ہے
تمہارا دین کیا حیوانیت ہے، بربریت ہے
یہ گالی اور گولی کا چلن کیا ہے؟
شریعت ہے؟
ملالہ جاگ جائو، یہ علم تھامو
تمہاری ایک پیشانی تھی جس نے جبر کو سجدہ روا رکھا نہیں تھا
ہمیں اس کی ضرورت ہے۔۔۔
(سلمان حیدر)
The post مُنافقین بھلا کیا سمجھ سکیں گے مجھے! appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2uyPOY0
No comments:
Post a Comment