گذشتہ روز پاکستانیوں نے ایک سیاسی سنڈے خوب انجوائے کیا اور کچھ حضرات اس کی وجہ سے سخت ذلیل و خوار بھی ہوئے کیوں کہ ٹریفک پلان جاری کرنے کی زحمت اس چند روزہ مہمان حکومت نے ذرا نہیں کی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ایم۔ کیو۔ ایم کے گڑھ میں اپنی بساط کے مطابق ایک اچھا جلسہ کیا تو دوسری جانب عمران خان صاحب نے نواز لیگ کے گھر میں ڈیرا جمایا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ایک انفرادیت رکھتے ہیں اور لوگ انہیں سننے اور دیکھنے آتے تھے، آتے ہیں اور آتے رہیں گے۔ مجمع اکٹھا کرنا عمران خان کے لئے کوئی مسئلہ اب رہا ہی نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سپورٹران میں اور ووٹران میں فرق ہوتا ہے۔ اقتدار تک ووٹرز پہنچاتے ہیں، سڑکوں پر البتہ سپورٹر آتے ہیں۔ ایک امر قابلِ غور ہے کہ جلسے ایک الیوژن ضرور بناتے ہیں لیکن انتخابات کی حقیقت میں ان کا کردار بہت کم ہوتا ہے۔
عمران خان جلسوں کو لئے تو عوام کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لے آتے ہیں مگر انتخابات میں عوام کو نکالتے کامیاب ہوتے نظر نہیں آتے۔ ایک حلقے کا الیکشن جیتنے کے لئے، امیدوار کی اس حلقے میں جڑیں مضبوط ہونا اور حلقے کی عوام میں ایک امیج رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جماعت ایک کردار رکھتی ہے مگر امیدوار کا چناؤ سب سے اہم نقطہ ہوتا ہے۔
جب احسن اقبال جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کے مقابلے پر ابرارالحق کو کھڑا کیا جائے گا تو یقیناً نتائج شکستِ فاش کی صورت میں نکلیں گے۔ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عابد شیر علی اور رانا ثناء اللّٰہ جیسے بدمعاش اور بداخلاق لوگ کیسے ووٹ حاصل کر لیتے ہیں؟ طاقت کا کہیں نہ کہیں عنصر ضرورت ہوتا ہے مگر درحقیقت ان کی جیت کی وجہ ان کا حلقے میں وہ اسٹیک ہوتا ہے جو کہ ایک ناتجربہ کار سیاستدان کا نہیں ہوتا، ووٹ کے لئے نعرے نہیں، گراؤنڈ پر کام درکار ہوتا ہے۔
الیکشن ٹویٹر، فیسبک اور جلسوں سے نہیں جیتے جاتے اس کے لئے ایک ریاضت درکار ہوتی ہے۔ جس کے لئے پانچ سال کافی معقول عرصہ تھا۔ وہ چاہتے تو اپنی پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بہتر کر سکتے تھے، چاہتے تو ہر حلقے سے ایک مناسب امیدوار ڈھونڈ سکتے تھے یا بنا سکتے تھے ۔ لیکن بدقسمتی سے خان صاحب امپائر کی انگلی کی امید پر سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے ایک سنہری موقعہ گنوا دیا۔
الیکشن جیتنے کے لئے الیکٹورل درکار ہوتا ہے ۔ جماعت کے پاس دو انتخاب ہوتے ہیں یا تو وہ خود کوئی الیکٹورل حلقے میں پیدا کرے یا پھر استعمال شدہ الیکٹورل کے سہارے فتح سے ہمکنار ہو۔ پی۔ ٹی۔ آئی۔ وہ امیدواران پیدا تو نہیں کر سکی لیکن پارلیمنٹ کے وہ اراکین جو کہ فصلی بٹیروں کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، جو دراصل چڑھتے سورج کو سلام کرنے کے عادی ہیں، ان بٹیروں کو راغب کرنے کی خاطر یہ جلسہ اسٹیج کیا گیا تھا، جس کا اعتراف جلسے سے ایک روز قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے خود بھی کیا۔ کیونکہ عمران خان انتخابات کی شطرنج کی چالیں کچھ کچھ سمجھنے لگے ہیں۔
تحریک انصاف کی ایک خامی یہ بھی ہے کہ سستی اور کاہلی اس جماعت کی جان نہیں چھوڑتی، حرکت سے اس جماعت کی جان جاتی ہے۔ سندھ میں تحریک انصاف اگر ایک منظم اور بہتر کمپین کرتی تو یقیناً وہ سندھ میں قابلِ ذکر سیٹیں حاصل کرسکتی تھی مگر بنی گالہ سے نکلنے پر کوئی راضی ہو تو تب ہی کچھ کرے۔ پی۔ ٹی۔ آئی سندھ کے قائدین کو سوشل میڈیا کی جنگ سے فرصت ملے تو میدان میں نکل کر کچھ کام کرے۔
ایک شاندار جلسہ تو جب چاہے تحریک انصاف کوئٹہ میں بھی کر سکتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچستان سے پی۔ ٹی۔ آئی کی کوئی سیٹ بھی نہیں ہے۔ ایک منظم اور مؤثر جماعت بنانے کے لئے اس کے اراکین کی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحریک انصاف میں یہ کمی بہت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
ایک طرف تو لاہور کی گرمی تو دوسری جانب تحریک انصاف کے لیڈران کی صبر کا امتحان دینے والی لمبی تقاریر۔ انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جلسے میں لوگ عمران خان کو سننے آتے ہیں نہ کہ انہیں۔ ہمارے ہاں جماعتیں ایک واحد شخصیت کی بناء پر شہرت پاتی ہیں، گو کہ ایک اچھی بات نہیں ہے لیکن ایک حقیقت ہے۔ جس کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تحریک انصاف کا کراؤڈ ان کا ساتھ بہت پہلے ہی اپنی انرجی ضائع کر دیتا اگر عمران خان کی آمد اختتام کے قریب نہ ہو۔ کیونکہ ایک آگ ہجوم میں لگی رہتی ہے کہ خان صاحب نے ابھی آنا ہے، جو کہ کارکنان کی انرجی سیو کر لیتی ہے۔ دانا کہتے ہیں، بہتر ہے کہ خاموش رہو لیکن اگر بولنا ضروری ہو۔ تو کم سے کم الفاظ لیکن مؤثر لب و لہجے میں بولو۔ لیکن خان صاحب کو کون سمجھائے؟ اپنی تقریر کے پہلے ایک گھنٹے میں انہوں نے جی بھر کر اپنے کارکنان کا امتحان لیا اور جب لوگ جانا شروع ہو گئے تو انہیں 11 نکات پیش کرنے کا خیال آیا۔ اس پر ایک لمبی بحث کی جا سکتی ہے کہ پختونخوا میں گورننس بہت اچھی ہوئی یا اچھی ہوئی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں انتظامی معاملات میں بہت بہتری آئی ہے۔ پولیس ٹھیک ہوئی ہے، تعلیم کا نظام بہتر ہوا ہے اور پٹواری کی بے جا اجارہ داری ختم کر دی ہے۔ابھی بہت سے مسائل ہیں، سب سے بڑا مسئلہ تو خود پرویز خٹک ہیں اور ان کے حواریوں کی کرپشن۔ ساتھ ہی چیف جسٹس ثاقب نثار کے وہ ریمارکس جو انہوں نے پشاور میں دئیے، ان دونوں چیزوں کو کیش آؤٹ کروایا جا سکتا تھا اور بہت سیاسی فائدہ بھی حاصل کیا جا سکتا تھا مگر انہوں نے نہیں کیا۔ دراصل یہ سب چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہی بڑے نقصان کا باعث بنتی ہیں۔
اس جلسے میں ایک اور چیز جو کہ پی۔ ٹی۔ آئی کے نظریے کے لئے غیر مناسب تھی، وہ تھی جہانگیر ترین کا اس جلسے میں اسٹیج پر موجود ہونا اور ان کا خطاب کرنا۔ کیوں کہ سوال یہ بھی جنم لیتا ہے نوازشریف کو جس عدالت نے نااہل قرار دیا، اسی عدالت نے جہانگیر خان ترین کو کاذب اور خائن بھی کہا۔ کیا یہ ان کے نظریے میں کھلا تضاد نہیں؟ نعیم بخاری نے ایک درست اور مخلصانہ مشورہ عمران خان کو دیا تھا کہ عمران خان کو فیصلے کے بعد جہانگیر ترین سے فاصلہ اختیار کر لینا چاہئے تھا، کیونکہ در حقیقت یہ ایک اخلاقی ضرورت تھی۔
ان سب غلطیوں کے باوجود تحریک انصاف کل ایک بہت تگڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی، ان کے سیاسی مخالفین کی صفوں میں ایک بےقراری تو نظر آتی ہے لیکن یہ بے قراری پریشانی میں صرف اسی وقت بدلے گی جب فصلی بٹیرے پی۔ ٹی۔ آئی کا رخ کریں گے۔ رابطوں میں تیزی ضرور آئی ہے۔ لیکن ایسا ہوگا یا نہیں ، امکانات تو قوی نظر آتے ہیں مگر حتمی طور پر تاحال کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
پنجاب حکومت پر اعتراض یہ بھی اٹھیں گے کہ جلسے کی اجازت پشتون تحفظ موومنٹ کو نہیں دی گئی تھی اور ان کے ورکرز کے اوپر ایک سخت قسم کا کریک ڈاؤن کیا گیا تھا۔ وہ جو نوازشریف صاحب اوپر سے آرڈر لینے کی بات کرتے ہیں، کہیں ان کے بھائی وہیں سے تو نہیں لے رہے؟ کل ہی کے روز سوات میں پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک جلسہ کیا لیکن میڈیا نے اس جلسے کو مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا۔ البتہ کچھ چینل اس کے خلاف کمپین ضرور چلاتے رہے۔ خدشات و خطرات موجود ہیں۔ ان کو توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ ضرورت ہے کہ ان کی آواز کو سنا جائے۔ تاکہ مین سٹریم میں سب لوگ مل کر اپنا کردار ادا کر سکیں۔
The post بصارت نے منظر کی حد ماپ لی! appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2HAA0d7
No comments:
Post a Comment