روس کے میدانوں میں دنیائے کھیل کی عظیم ترین جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس معرکے میں بتیس ممالک کے دستے شریک ہیں۔
ہر دستے میں شامل ’سپاہی‘ زندگی کے نشیب و وفراز سے گزرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہیں جہاں انھیں اپنے ملک کی جانب سے ’لڑنے‘ کا اعزاز حاصل ہوا۔ تاہم اس معرکے میں شامل کچھ ’سپاہی‘ ایسے ہیں جنھیں اپنی زندگی میں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا رہا، مالی مشکلات ، غربت، گھریلو مسائل، اور بے سروسامانی نے ان کا خوب خوب امتحان لیا۔ وہ فٹ پاتھ پر راتیں گزارنے اور گزر اوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور ہوئے، کچھ کو والدین کے باہمی جھگڑوں نے جذباتی دھچکے پہنچائے۔ تاہم اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کا انھوں نے پامردی سے مقابلہ کیا اور بالآخر اپنے خوابوں کو تعبیر دینے میں کام یاب ہوگئے۔ ذیل کی سطور میں کچھ ایسے ہی باہمت ’سپاہیوں‘ کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
1 ۔ جیکب بلاشٹی کوفسکی (پولینڈ)
جیکب دس برس کا تھا جب ایک شب اسے اپنی زندگی کے بھیانک ترین واقعے کا شاہد بننا پڑا۔ اس کے والدین کے درمیان لڑائی جھگڑا معمول بن چکا تھا۔ آئے دن کی چخ چخ اور مارکٹائی اس کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔ پھر جب ایک رات اس نے اپنے باپ کو ماں پر خنجر سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ جیکب کی ماں کے قتل کے جُرم میں اس کے باپ کو پندرہ سال کی جیل ہوگئی، یوں وہ ماں کی ممتا کے ساتھ ساتھ شفقت پدری سے بھی محروم ہوگیا۔
ان واقعات کے بعد جیکب اور اس کے بڑے بھائی کو ان کی دادی نے کفالت میں لے لیا۔ یہاں خوش قسمتی سے جیکب کو اپنے چچا کا ساتھ میسر آگیا جو پولینڈ کی قومی فٹبال ٹیم کے کپتان تھے۔ فٹبال کھیلنے کا شوق جیکب کو شروع ہی سے تھا۔ چچا نے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تمام تلخ یادیں فراموش کرکے صرف اپنے کھیل پر توجہ دے۔ چچا کی حوصلہ افزا باتوں نے جیکب کے اندر نئی روح پھونک دی۔ اس نے فٹبال کی تربیت لینی شروع کی، ساتھ ہی ساتھ خود کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے اور تلخ ماضی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ماہرنفسیات سے بھی رجوع کیا۔ یہاں سے اس کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اور کئی برس بعد ان دنوں وہ ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔
2 ۔ روبرٹو فرمینو (برازیل)
برازیلی دستے میں مڈفیلڈر کی پوزیشن پر کھیلنے والے فرمینو کی اس کھیل میں آمد معجزے سے کم نہیں تھی، کیوں کہ اس کا خاندان اسے فٹبال کے میدان کے بجائے پڑھائی میں مصروف دیکھنے کا متمنی تھا۔ تازہ انٹرویو میں فرمینو نے انکشاف کیا ہے کہ ’’میرے والدین نہیں چاہتے تھے کہ میں کھیل کود میں وقت ضایع کروں، ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ میں تعلیم حاصل کرکے بڑا آدمی بنوں، جب کہ مجھے فٹبال کھیلنے کا جنون تھا۔ تنگ آکر کبھی کبھی وہ مجھے کمرے میں بند کرکے باہر سے تالا لگادیتے تھے مگر میں پھر بھی باز نہیں آتا تھا۔ ہمارے گھریلو حالات بے حد خراب تھے۔ گزربسر کے لیے والدین ناریل کا پانی فروخت کرتے تھے۔ اس کام میں، میں بھی ان کا ہاتھ بٹادیا کرتا تھا، مگر فٹبال سے دوری مجھے پھر بھی گوارا نہیں تھی۔‘‘
بالآخر قسمت روبرٹو پر مارسیلس پورٹیلا کی صورت میں مہربان ہوئی۔ وہ ڈینٹسٹ تھا۔ اس نے مقامی کلبوں کے درمیان ایک میچ میں روبرٹو کو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ فٹبال کا رسیا مارسیلس بھانپ گیا کہ اس لڑکے میں ایک اچھا کھلاڑی بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ مارسیلس نے روبرٹو کو اس کا ایجنٹ بننے کی پیش کش کردی۔ مختلف کلبوں کی جانب سے کھیلتے ہوئے آخرکار وہ قومی ٹیم کا حصہ بننے میں کام یاب ہوگیا۔
3 ۔ گیبریل جیسس (برازیل)
2014ء کا ورلڈ کپ برازیل میں منعقد ہوا تھا۔ مانچسٹر سٹی کا یہ اسٹار اس وقت کلب کی ٹیم کا حصہ ضرور تھا مگر فرسٹ ڈویژن کے مقابلوں میں اس کی آمد نہیں ہوئی تھی۔ کلب کی طرف سے اسے برائے نام معاوضہ ملتا تھا جس سے گزراوقات ممکن نہیں تھی۔ چناں چہ گیبریل روزی روٹی کے لیے محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ ورلڈکپ کے دوران اسے ساؤ پالو میں اسٹیڈیم کے اطراف کے راستوں پر پینٹ کرنے کی عارضی ملازمت مل گئی تھی۔
اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ چپل ہی خرید سکتا، چناں چہ وہ برہنہ پا ساؤ پالو کی سڑکوں پر برش اور رنگ کا ڈبّا ہاتھ میں لیے صبح سے رات گئے تک کام میں مصروف رہتا تھا۔ اس وقت گیبریل سترہ سال کا تھا۔ باپ نے بہت پہلے گیبیرل اور اس کی ماں سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ گیبریل کی پرورش اس کی ماں نے کی تھی۔ چار سال میں گیبیرل کی زندگی بدل چکی ہے۔ 2014ء کے ورلڈ کپ میں وہ اسٹیڈیمز کے باہر ننگے پاؤں اطراف کے راستوں کو رنگا کرتا تھا، اب اس کے پاؤں میں ہزاروں یورو مالیت کے جوتے نظر آتے ہیں اور وہ اسٹیڈیم کے اندر اپنے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔
4 ۔ علی رضا بیران وند (ایران)
علی رضا گول کیپر ہیں۔ ورلڈ کپ تک ان کی رسائی کے پس پردہ طویل جدوجہد ہے۔ علی رضا کی پیدائش خانہ بدوشوں کے گھر میں ہوئی تھی جن کی گزراوقات کا ذریعہ مال مویشی تھا۔ علی رضا کا بچپن اور لڑکپن مویشی چَراتے ہوئے گزرا تھا۔ اسے فٹبال کھیلنے کا شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے اس نے بڑی قربانیاں دیں۔ اہل خانہ سے دوری اختیار کی، کئی برس اس نے خانہ بدوشی کی حالت میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر شب بسری کرتے ہوئے گزارے۔ والد اسے فٹبال کھیلنے سے روکتے تھے، چناں چہ اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے وہ گھر سے بھاگ کر تہران آگیا۔ یہاں اس نے ریستورانوں میں بیراگیری سے لے کر، گاڑیاں دھونے تک بے شمار چھوٹے موٹے کام کیا۔ اس دوران اس کی راتیں فٹ پاتھ پر گزرتی تھیں۔ دن میں وہ مقامی کلب کی جانب سے کھیلتا تھا۔ آخرکار علی رضا کی جدوجہد رنگ لانے لگی اور وہ تہران کے ایک بڑے فٹبال کلب نفت نوین کی ٹیم میں شامل ہوگیا۔ اور آج وہ اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے روس میں موجود ہے۔
5 ۔ ڈیلے ایلی (انگلستان)
ڈیلے ایلی کا بچپن پیچیدہ حالات میں گزرا۔ ڈیلے کا باپ ایک نائجیرین قبیلے کا متمول شہزادہ تھا۔ بیٹے کی پیدائش سے ایک ہفتہ قبل وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ ڈیلے کی پرورش ماں نے کی، مگر ماں بھی مے نوشی کی عادی تھی چناں چہ ڈیلے کو صحیح توجہ نہ مل سکی۔ وہ آواراہ لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا جو منشیات کا استعمال اور جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ بری صحبت کے باوجود ڈیلے کو فٹبال کھیلنے سے دل چسپی تھی۔ ڈیلے کا کہنا ہے کہ فٹبال کا کھیل اسے سایہ دار شجر کے مانند محسوس ہوتا تھا جس کی چھاؤں میں پہنچ کو وہ گردش دوراں کی دھوپ سے پناہ حاصل کرلیتا تھا۔ آج وہ ایک معروف کھلاڑی اور قومی ٹیم کا رکن ہے۔
6 ۔ جوآن گلرمو کواڈراڈو (کولمبیا)
یہ 1992ء کی بات ہے جب کولمبیا میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ اس وقت جوآن گلرمو چار سال کا تھا۔ ایک روز ان کے قصبے پر مسلح افراد کے ایک گروپ نے دھاوا بول دیا۔ ان کی اندھادھند فائرنگ کی زد میں جوآن کا باپ بھی آگیا۔ جوآن نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے زخمی باپ کو موت کے بے رحم جبڑوں میں جاتے ہوئے دیکھا۔ اس حملے میں دیگر دیہاتیوں کے ساتھ جوآن اور اس کی ماں بھی بچ گئے تھے۔ ماں اسے ساتھ لے کر قصبے سے فرار ہوگئی۔ اس نے اپنے بیٹے کی پرورش کے لیے محنت مزدوری شروع کردی۔ لڑکپن کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد جوآن بھی ماں کا سہارا بن گیا۔ محنت مزدوری کے ساتھ وہ فٹبال بھی کھیلنے لگا تھا۔ زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے آج وہ اپنے عروج پر ہے۔
7 ۔ وکٹر موسس (نائجیریا)
وکٹر کے والد پادری اور ماں گھریلو خاتون تھیں۔ ملک میں جاری خانہ جنگی کی لہر وکٹر کو یتیم و مسکین کرگئی۔ 2002ء میں حملہ آوروں نے گھر میں گُھس کر پادری اور اس کی بیوی کو قتل کردیا تھا۔ ان لمحات میں ان کا گیارہ سالہ بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں فٹبال کھیل رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد وکٹر نے کئی برس بے سر و سامانی کے عالم میں گزارے اور پھر انگلینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کردی۔ بدترین حالات میں بھی فٹبال سے اس کا ناتا نہیں ٹوٹا جس کے صلے میں آج وہ فٹبال کے عالمی مقابلوں میں اپنے آبائی وطن کی نمائندگی کررہا ہے۔
8 ۔ لوکا موڈرک (کروشیا)
کروشیا میں جنگ کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا۔ چار سال جاری رہنے والی جنگ 1995ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس وقت لوکا کی عمر محض پانچ سال تھی۔ لوکا کا باپ کروشین فوج میں سپاہی تھا۔ لوکا کا باپ اور داد اس جنگ کی نذر ہوگیا اور ماں اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ زدہ شہر سے ہجرت کرگئی۔ وہ کئی برس تک پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہے جہاں لوکا نے فٹبال کھیلنے کا آغاز کیا۔ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کیمپ کے کچے راستوں پر فٹبال کھیلتا تھا۔ لوکا کا کہنا ہے کہ ماضی کی یہ یادیں اس کے لیے بے حد تکلیف دہ ہیں اور وہ انھیں دہرانا نہیں چاہتا۔
9 ۔ جیمی ورڈے (انگلستان)
سولہ سالہ جیمی کو قد چھوٹا ہونے کی بنا پر شیفلڈ وینزڈے نامی کلب نے اپنی ٹیم کا حصہ بنانے سے انکار کردیا تھا۔ اس انکار سے جیمی کو شدید دھچکا لگا تھا، کیوں کہ اسے قوی امید تھی کہ اس کی درخواست منظور کرلی جائے گی اور اسے گزراوقات کا معقول ذریعہ میسر آجائے گا، تاہم یہ امید ٹوٹ گئی۔ وہ ایک بار پھر چھوٹی ٹیموں میں شامل ہوکر فٹبال کھیلنے اور ریستورانوں اور فیکٹریوں میں عارضی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس دوران وہ لڑائی جھگڑوں میں بھی ملوث ہوگیا۔ اسے تھانے جانا پڑا جہاں اسے تنبیہہ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ جیمی کی قسمت اس وقت بدلی جب اسے ایک بڑے کلب لیشسٹر کی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔ یہاں جیمی کا غیرمعمولی ٹیلنٹ کُھل کر سامنے آیا، اور آج وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کررہا ہے۔
10 ۔ کارلوس باکا (کولمبیا)
کارلوس اپنی کہانی اپنی زبانی اس طرح بیان کرتے ہیں،’’میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ بیس سال کی عمر میں میں اپنے قصبے پورٹو کولمبیا میں ایک بس پر کنڈکٹری کرتا تھا۔ اس سے پہلے بہت سے چھوٹے موٹے کرتا رہا تھا۔ بعد میں بس ڈرائیور ہوگیا۔ مالی مشکلات کے باعث فٹبال سے کئی برس پہلے دور ہونا پڑا تھا، ڈرائیوری ملنے کے بعد کچھ حالات بہتر ہوئے تو یہ پرانی محبت دوبارہ سر اٹھانے لگی۔ میں نے کھیلنا شروع کیا۔ جونیئر سطح کی فٹبال کے لیے ٹیسٹ دیے اور کام یاب رہا۔ پھر خدا کی مہربانی سے آگے بڑھتا چلا گیا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔‘‘
The post حالات کی ٹھوکروں سے ’’کِک‘‘ لگانے تک appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2tSKbjK
No comments:
Post a Comment