حکومت کی بہت سی کوشش کے باوجود حکیم اور عطائی پاکستانی معاشرے سے ختم نہیں کئے جا سکے۔ حکیم اگر ہمارے ہاں کا ہو تو اُس کے ساتھ نیم لگانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کہ پاکستان کےسارے حکیموں سے ہی جان کا خطرہ ہوتا ہے اور عطائی کے بارے میں آپ مجھ سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔
عطائی اور حکیم صاحب وہ ہوتے ہیں جو حکمت بے جا سے بھرپور ہوتے ہیں اور خالی برتن زیادہ آواز سے بجتا ہے۔ اسکا ثبوت ہمارے حکیموں کے اور اُن کے دواخانوں کے اشتہارات ہیں۔ کوئی بھی دکان ہو اُس کا نام بڑے جلی حروف میں لکھا جاتا ہے۔ اور پڑھنے والا جان لیتا ہے کہ اس دکان سے کیا ملتا ہے۔ مثلاً کلاتھ ہاؤس۔ شوسٹور، جنرل سٹور، کریانہ سٹور وغیرہ۔ لیکن ہمارے حکیم صاحب کی دکان کا نام کم واضح ہوتا ہے اور اُس سے ملنے والی بیماریوں کا نام زیادہ واضح ہوتا ہے۔ دکان کے سامنے سے گزریں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ ساری گھمبیر قسم کی بیماریاں اسی دکان پر بکتی ہیں کیونکہ عموماً بیماریوں کے نام ہی لکھے جاتے ہیں اُ ن کے علاج کے بارے میں حکیم صاحب خود بتاتے ہیں۔ ان کے باہر “پوشیدہ امراض” کو سب سے زیادہ واضح کر کے لکھا جاتا ہے۔ پوشیدہ کو اتنا بڑا کر کے لکھا جاتا ہے کہ اس میں راز یا پوشیدہ ہونے کی بات ختم سی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح حکیم صاحب کی دکان کی بناوٹ بھی باقی دکانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ جس طرح حکماء کی مختلف قسمیں ہیں اسی طرح ان کی ادویاء کی بھی مختلف قسمیں ہیں۔ چونکہ مریض امراض مخصوصہ کا علاج کرتے ہیں لیکن آفاقہ کم اور بیماری زیادہ ہوتی ہے۔ بہرحال علاج ضرور کرتے ہیں اور بیشتر مریض تو مکمل طور پر صحت مند ہو جاتے ہیں اور باقی پوری عمر بہت ہی آرام اور سکون سے قبر میں گزارتے ہیں۔
بات کر رہے تھے بیماریوں کے علاج کیلئے استعمال ہونے والی ادویاء۔ تو جس طرح حکیم صاحب نے ہر مرض کو خاص بنایا ہوتا ہے اسی طرح انہوں نے دوائیوں کے نام بھی مخصوص رکھے ہوتے ہیں۔ ہمارے حکیم صاحب نے بھی اسی طرح کی دوائیاں تیار کر رکھی ہیں۔ جن کو اُنہوں نے پولیس کے عہدوں یا سرکاری عہدوں سے اور عالمی سیاست سے جوڑ رکھا ہے۔ جیسے ان کی ایک دوائی کا نام ہے ڈی آئی جی، دوسری کا نام سپر پاور ہے۔ یہ نام بقول حکیم صاحب اسم مسمی ہیں۔
حکیم صاحب کسی سے بھی مل لیں تمام ایک دوسرے سے اعلیٰ درجے کے حکیم ہوتے ہیں۔ فٹ پاتھ پر بیٹھا لچھے باز جو سانپ دکھانے سے اپنی حکمت شروع کرتا ہے اور پھر جالنویس کا بھی باپ ثابت ہوتا ہے اپنے فن میں ایکتا ہوتا ہے۔ اسی طرح کوئی حکیم بیٹری سے چلنے والی بطخیں اور بندر دکھا کر اپنا دھندا شروع کرتا ہے۔ ان کی باتیں سننے پر انسان کو اپنی بہت سی “کمزوریوں” اور توانائیوں کا پتہ چلتا ہے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ لنگور سلاجیت کھاتا ہے اور ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ پر جب چھلانگ لگائے تو اُس کا جی چاہے تو واپس پہلے پہاڑ پر مڑ کے آجاتا ہے۔ یہ ساری طاقت اُسے سلاجیت کھانے سے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اپنی کہانی کچھ اسی طاقت و توانائی سے شروع کرتا ہے اور انجام کار طاقت کی گولیاں فروخت کرتا ہے۔ وہ بھی یہی بات کہتا ہے کہ یہ اُسکا وراثتی نسخہ ہے کہ وراثتی نسخے یا صدری نسخے کی ہی جسے افواہ سازی کی زبان میں سینہ گزٹ بھی کہا جاتا ہے بہت ہی اہمیت ہوتی ہے۔ ویسے حکماء کا یہ وطیرہ رہا ہے بقول زندہ حکماء کہ جب وہ مرتے ہیں تو اپنی حکمت بھی ساتھ ہی لے جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی حکمت یا طب پر کوئی اثر نہیں پڑا کہ اُن بیچاروں کے پاس تھا ہی کیا جو وہ ساتھ لے گئے۔
بات ہو رہی تھی حکماء کی اہمیت کی تو تھڑے پر جو اُس نے خود بنایا ہوتا ہے سے لے کر ائیر کنڈیشنڈ مکان تک ان حکماء کے “مطلب” یعنی مطب ہوتے ہیں۔ تھڑے والا وہی دوا دس پانچ روپے کی دے گا اور ائرکنڈیشنڈ مطب والا وہی دس سو یا دس ہزار میں دے گا کہ وہ ماہر امراض مخصوصہ ہوتا ہے۔ جس طرح کُتّا کُتّےکا بیری ہوتا ہے اسی طرح حکیم بھی حکیم کا دشمن ہوتا ہے ہر دوسرے حکیم کا نام سن کر وہ ناک بھوں چڑھاتا ہے اور اُس کا کچا چھٹا سب بیان کر دیتا ہے۔
حکیم ایک دوسرے کو تو کچھ نہیں بتاتے مگرتیسرا شخص اُن سے سب نسخے جو صدری اور بے ہتک مجرب بھی ہو پوچھ سکتا ہے۔ دوسرے حکیم کو ذرا اچھا کہا اور اُلٹا سیدھا نسخہ بیان کیا،حکیم صاحب ’جلال‘ میں آ جاتے ہیں اور اُس مرض کے تمام سینہ گزٹ سنا دیتے ہیں۔ حکیم صاحب کی شکل یعنی حلیہ مبارک بھی اُن کے امراض کی طرح مخصوص ہوتا ہے۔ سر پہ ٹوپی کا ہونا بہت ہی لازمی جز گنا جاتا ہے اور خاص قسم کی داڑھی کا ہونا جس سے شخصیت پیچیدہ پیچیدہ سی نظر آئے پیچیدہ مرض کی طرح۔ عام طور پر واسکٹ با شیروانی بھی لباس کا لازمی جُز سمجھا جاتا ہے اور حکیم صاحب عموماً گاؤ تکیہ لگا کر تشریف رکھ رہے ہوتے ہیں اُونچے تھڑے پر کہ غالباً یہ تھڑے سے دکان تک کی واحد یاد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بہت ہی قابل حکماء پیدا ہوتے ہیں۔ جس حکیم نے آج دھندا حکمت شروع کیا وہ بھی اپنے ساتھ ’المشہور‘ لکھے گا۔
ایک بہت ہی عام خصوصیت یہ ہے کہ یہ انگریزی طریقہ علاج کی سخت مخالفت فرمائیں گے۔ خواہ خود انگریزی دوائی کو دیسی کا لبادہ اوڑھ کر دے رہے ہوں۔ چونکہ ان اطباء سے آپریشن وغیرہ نہیں ہو سکتے یہ بات اور ہے کہ کچھ اِس کوشش میں مریض کو جاں بحق بھی کر دیتے ہیں۔ اسی لئے وہ ان آپریشنز یعنی سرجری کو چیر پھاڑ کا نام دیتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ ماہرِ طب و جراحت کی دُم لگا لیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ جراحت جو یہ جانتے ہیں وہ ہے نوک نشتر سے چھوٹی موٹی پھنسی کو چھیڑنا۔ اسی کا نام ماہرِ جراحی رکھ لیا جاتا ہے کہ جراحت کا عنصر اس میں آ تو جاتا ہی ہے۔
The post تھڑے سے دکان تک appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2ukkSrE
No comments:
Post a Comment