Saturday, July 7, 2018

مظلوم کی آہ سے بچو

ملک وال: یوں تو ہری پور گاؤں اپنے نام کی طرح ہرا بھرا اور خوب صورت تھا، لیکن اس کے امن و امان کو کسی کی نظر لگ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کا امن و سکون تباہ ہو کر رہ گیا تھا۔

کافی عرصہ پہلے اس گاؤں میں اسلم نام کا ایک ماہر چور گھس آیا تھا جو اتنا ماہر تھا کہ آنکھوں کے سامنے جرم کرنے کے باوجود ہر بار قانون کی گرفت سے بچ جاتا تھا،  سب گاؤں والے اس سے تنگ آچکے تھے، مگر انہیں کبھی اس کے خلاف ثبوت نہیں ملتا تھا، اس لیے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔

چوریوں کے بعد وہ قتل وغارت بھی کرنے لگا،  اس کی ماں اسے بہت سمجھاتی مگر  وہ اپنی من مانی کرتا تھا۔ ایک بار وہ قتل کر کے فرار ہونا ہی چاہتا تھا کہ موقع پر گرفتار ہو گیا  جس کے بعد عدالت نے اسے پھانسی کی سزا سنا دی اور اسے کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ اس کی ماں بہت پریشان ہوئی، کیوں کہ وہی اس کے بڑھاپے کا آخری سہارا تھا، اس کی اور کوئی اولاد نہ تھی۔

اس نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس کا بیٹا رہا ہو جائے، لیکن کسی نے بھی اس کی بات نہ مانی، کیوں کہ اب اسلم محض ایک چور نہیں رہا تھا بلکہ وہ ایک قاتل بھی بن چکا تھا اور بڑی مشکلوں کے بعد گرفتار ہوا تھا۔ جب اس کی ماں ہر طرف سے مایوس ہو گئی تو رونے دھونے بیٹھ گئی۔ اس گاؤں کی ایک بڑھیا کو اس پہ ترس آ گیا اور اس نے اسے بتایا کہ فلاں گاؤں میں ایک درویش رہتا ہے جو بڑا پہنچا ہوا ہے، اگر تم اس سے دعا کرواؤ تو تمہارا بیٹا رہا ہوسکتا ہے۔

اسلم کی ماں تو پہلے ہی ہر طرف سے مایوس ہو چکی تھی، اس لیے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کے مصداق وہ فوراً درویش کے پاس پہنچی، اسے پوری بات بتائی  اور  پھر دعا کی درخواست کی۔ سب کچھ سننے کے بعد درویش  مراقبے میں چلے گئے  اور کافی دیر بعد جب انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں تو وہ خونِ کی طرح سرخ ہورہی تھیں۔

پھر انہوں نے کہا:’’جا اپنے بیٹے سے کہہ کہ تجھے بھینس معاف نہیں کرتی۔‘‘

اسلم کی ماں یہ سن کر روتی دھوتی واپس آ گئی اور پھر اسلم سے ملنے حوالات پہنچی۔  وہ اسلم کے لیے دیسی گھی کی چوری اور گڑ کا حلوہ بھی ساتھ لے گئی تھی، کیوں کہ یہ اس کی پسندیدہ غذا تھی۔  پھر اسلم کی ماں نے اس سے  کہا:’’یہ بھینس کا کیا معاملہ ہے؟‘‘

’’بھینس؟ کون سی بھینس؟‘‘ اسلم چونک کر بولا۔

جواب میں ماں نے اسلم کو درویش کی پوری بات بتائی کہ انہوں نے کہا ہے کہ تمہارے بیٹے کو بھینس معاف نہیں کررہی۔  تب اسلم کو  یاد آیا کہ اس نے کیا کیا تھا جو معافی نہیں مل رہی۔

اس کی آنکھوں کے سامنے وہ منظر گھوم گیا اور آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

وہ ایک تاریک رات تھی۔ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے، کسی بھی وقت بارش ہو سکتی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں دبکے ہوئے تھے،  اسلم نے موقع غنیمت جانا اور نورے کے باڑے کے باہر پہنچا, نورے کی بھینس اس گاؤں کی سب سے اچھی بھینس تھی، اسلم جانتا تھا کہ وہ اس وقت سورہا ہو گا، صرف وہ کیا پورا گاؤں سورہا تھا،  اگر کوئی جاگ رہا تھا تو وہ اسلم تھا۔ چناں چہ وہ  آسانی سے باڑے کی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہو گیا اور بھینس کھول کر دروازے سے نکل گیا۔ اس کا ایک چھوٹا سا بچھڑا بھی تھا جو اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

اسلم خوش ہوا کہ چلو ایک تیر سے دو شکار ہو رہے ہیں، لیکن تھوڑا سا چلنے کے بعد ہی بچھڑے نے شور مچا دیا،  شاید اسے پتا چل گیا تھا کہ اس کی ماں کو کھول کر لے جانے والا اس کا مالک نہیں بلکہ کوئی چور ہے۔ اس کا شور سن کر کچھ گاؤں  والے جاگ گئے اور بھاگو پکڑو کی آوازیں آنے لگیں۔ اسلم نے بندوق نکالی اور بچھڑے کو گولی مار دی۔ بچھڑے کی چیخ سن کر بھینس نے بہتی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور اس کے منہ سے ایک سرد آہ نکلی جسے اس وقت تو اسلم نے محسوس نہیں کیا، لیکن اب اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اسے اسی مظلوم بھینس کی آہ لگی ہے۔

اس نے تمام واقعہ اپنی ماں کو سناکر کہا:’’اب مجھے پھانسی سے کوئی نہیں بچا سکتا ماں! یہ اسی بھینس کی بد دعا ہے۔‘‘پھر کچھ دن بعد اسے پھانسی ہوگئی۔

چناں چہ اس آہ کے بدلے اسلم کو پھانسی ہوئی، مظلوم کی آہ عرش کو بھی ہلا دیتی ہے۔

The post مظلوم کی آہ سے بچو appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Nw6rZy

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny