Saturday, July 7, 2018

گھوڑا بدک گیا تو کپتان گر بھی سکتے ہیں

انتخابات 2018ء کا بگل چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم بھی شروع ہو چکی ہے لیکن مطلع ابھی ابر آلود ہے۔ بے شمار وسوسے اور واہمے ہیں جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے بلکہ بڑھتے جا رہے ہیں۔ سیاسی طوطے حسب طبع فالیں نکال رہے ہیں۔ کوئی الیکشن کے التواء کی ڈگڈگی بجا رہا ہے تو کوئی معلق پارلیمان کی آمد کی خبر سنا رہا ہے اور کوئی ایک جماعت کے کلین سویپ کا منجن بیچنے میں لگا ہے۔

ن لیگ کے ملتان کے صوبائی امیدوار اقبال سراج کی دو ویڈیوز سوشل میڈیا پر نمودار ہوئیں۔ پہلی ویڈیو میں اقبال سراج نے الزام لگایا کہ ایک ادارے کے اہلکاروں نے ان پر تشدد کیا اور ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن نہ لڑنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ انہوں نے اپنے تھپڑوں سے سرخ گال بھی کیمرے کی نذر کیے۔ دوسری تردیدی ویڈیو تھی جس میں وہ گھبرائے ہوئے عرض گزار تھے کہ ان کی طلبی ’محکمہ زراعت‘ کے ’افسروں ‘نے کی تھی اور غلط فہمی میں وہ کسی اور کا نام لے بیٹھے۔ جن کا نام لیا ’ان کا اس معاملے سے تعلق نہ ہے‘۔ اس ویڈیو کا سامنے آنا تھا کہ میاں نواز شریف نے جھٹ سے سارا الزام ایک ادارے پر دھر دیا بلکہ وہ تو کسی کانام بھی لینا چاہ رہے تھے لیکن مجمع میں سے کسی ہمدرد نے کہنی سے ٹہوکا دیا کہ کنٹرول میاں صاحب کنٹرول۔ بقول میاں نواز شریف ہمارے بندے توڑ کر انہیں پیڈ شیڈ پہنا کر ’بلے‘ پکڑا کر سیاسی پچ پر اُتارا جا رہا ہے۔ جنہیں کرکٹ میں دلچسپی نہیں اُنہیں جیپ پر سوار کروا کر چولستان جیپ ریلی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے اور یہ کام کوئی اور نہیں محکمہ زراعت کر رہا ہے۔ جیپ سے یاد آیا کرین بھی ویسے بڑی کارآمد مشین ہے، جب چاہا جس کو چاہا ایک ہی جھٹکے میں اکھاڑ پھینکا۔

نواز شریف شائد زمانے کے نباض نہیں رہے، ان کے لیے مشکل وقت ضرور چل رہا ہے، لیکن ناجانے کیوں انہیں ہر واقعے کے پیچھے محکمہ زراعت کا ہاتھ سجھائی دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ مشکل وقت میں سجن، یار، بیلی سب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں، نواز شریف کے ساتھ بھی شائد وہی ہوا ہے۔ نثار جو کبھی یارِ غار تھا اب جیپ پر چڑھا پھولا نہیں سماتا۔ ویسے نثار کو بڑی محفوظ سواری ملی ہے۔ جنگل میں گھومتے گھامتے کہیں کسی درندے سے سامنا ہو جائے تو شیشے چڑھا کر آسانی سے جان بچائی جا سکتی ہے۔ اور تو اور جیپ پہاڑی راستوں میں آسانی سے چل سکتی ہے۔

لیکن نواز شریف اپنے یاروں کی بے وفائی کو خوامخواہ ’محکمہ زراعت‘ کے سر تھوپ رہے ہیں۔ ہم تو بچپن سے ہی مطالعہ پاکستان میں پڑھتے آ رہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری اکثریتی آبادی کھیتی کرکے ہی اپنا اور باقی ملک کا پیٹ پالتی ہے۔ اب اگرمحکمہ زراعت نے پرانے پاکستان کی بلکتی عوام کی بھوک کا مداوہ کرنے کے لیے نئے پاکستان کے منصوبے کے تحت عاجزانہ کوششیں شروع کی ہیں تو بجائے انہیں سراہنے کے الٹا طنزیہ جملے بازی کی جا رہی ہے۔ پچھلے پانچ سال جس فصل کی آبیاری کے لیے خون پسینہ ایک کیا گیا ہے، اس کی 25 جولائی کو کٹائی کا موسم ہے۔ ظاہر ہے اگر محکمہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے تو فصل کا تو ستیاناس ہو جائے گا۔ نواز شریف صاحب کو ان مجبوریوں کو سمجھنا چاہئیے۔

سیاسی بساط پر مہروں کو مسلسل آگے پیچھے کرنے کے عمل کے نتیجے میں بادشاہ جو بھی بنے، اصل بادشاہ تو بادشاہ گر ہی رہے گا۔ زمانے کے اندازو اطور بدل گئے ہیں لیکن نہیں بدلے تو بادشاہ گری کے انداز نہیں بدلے۔ بادشاہ گری کا یہ کھیل اس ملک کی بنیاد رکھے جانے کے دن سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ اتفاق سے ہمارے بادشاہ گروں کا پسندیدہ کھیل بھی شطرنج ہے اور وہ اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

سوشل میڈیائی زمانے میں جمہوری نظام کو کنٹرول کرنے کے اکثر اندازے اور تدبیریں الٹی ہو رہی ہیں اورسارے ہتھکنڈے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ کنٹرولڈ ڈیموکریسی شائد اب کی بار نہ چل سکے۔ سینیٹ میں ’کنٹرولڈ سیٹ اپ‘ کامیابی سے لے آیا تو گیا لیکن لانے والوں کی سبکی ہوتے زمانے نے دیکھی۔ اب ووٹر پہلے کے مقابلے میں کافی باشعور ہو چکا ہے۔ آج وہ پانچ سال قبل ووٹ لیکر جانے والوں کا گریبان پکڑ کر اپنے ووٹ کی عزت اور حقوق کا حساب مانگ رہا ہے۔ ووٹر یہ بھی جان چکا ہے کہ کون کس کی چھتری تلے آ رہا ہے اور کس کی لگام کس کے ہاتھ میں ہے۔ ایسے پیرا شوٹیوں کو اس الیکشن میں تو شائد کچھ حصہ مل جائے لیکن مستقبل ان کا کچھ نہیں۔

یہ بات سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی کی ضرورت نہیں کہ جمہوریت عوام کی حکومت کا نام ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت سے چاہیں تو کسی گنگو تیلی کو اپنا وزیر اعظم بنا لیں، چاہیں تو کوئی شیخ چلی منتخب کرلیں۔ لیکن ہمارے یہاں کا باوا آدم اس لیے نرالا ہے کہ یہاں خود منتخب نمائندوں کو اپنی عوامی طاقت کا بھروسہ نہیں ہوتا اور وہ ہمہ وقت خود ہی پیراشوٹ کی تلاش میں رہتے ہیں اور پھر ان کا کام تو قانون سازی کرنا ہوتا ہے لیکن انہیں سڑکیں اور نالیاں پکی کرنے اورفیتے کاٹنے تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ معاشی، دفاعی اور خارجہ امور سے متعلق پالیسی سازی ان کے لیے شجر ممنوعہ تصور کی جاتی ہے کہ اس دیوارِپُرخار کو ہاتھ لگایا تو ہاتھ چھلنی اور انگلیاں فگار ہو جائیں گی۔

تبدیلی کے علمبردار عمران خان کی کوئی تقریر مغربی جمہوریتوں کے ثمرات گنوائے بغیر مکمل نہیں ہوتی اور وہ پاکستان میں بھی ’اصلی ‘ جمہوریت لانے کے خواہشمند ہیں۔ کے پی کی پانچ سالہ تجربہ گاہ میں کوئی بڑا کارنامہ سرانجام نہیں دے سکے۔ البتہ اگلے پانچ سال میں پورے ملک پر اپنی تبدیلی کا تجربہ ضرور کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف تجربہ کار اور گھاگ قسم کے سائنسدانوں کی پوری ایک ٹیم اکٹھی کی ہے۔ بلکہ کئی سائنسدان تو اب بھی ان کی ٹیم میں شامل ہونے کے لیے ہاتھ باندھے قطار میں لگے کھڑے ہیں۔ عمران خان کو بنی گالا کے کسی پرسکون گوشے میں بیٹھ کر سوچنا چاہئیے کہ ان کی جماعت 22 سال میرٹ کی بنیاد پر جدوجہد کے بعد 22 ایسے رہنماء کیوں پیدا نہیں کرسکی جو 22 نشستیں جیت سکتے۔ اگر ایسا نہیں ہو سکا تو وہ 22 کروڑ کے پرانے پاکستان کو نیا کیسے بنائیں گے؟ مجبوراً کپتان کو چلے ہوئے کارتوسوں سے ہی مسلح ہونا پڑا۔ کیا یہ پیرا شوٹیے نئے پاکستان کی بنیادیں اٹھانے میں کپتان کو اینٹ گارا فراہم کریں گے؟ یا انہیں ہی بنیادوں میں چن دیں گے؟ عمران خان کا یہ دعویٰ بھی بجا ہے کہ ہوا اُن کے موافق چل رہی ہے لیکن خدشہ یہ ہے کہ جس ٹیم کے ساتھ وہ نئے پاکستان کا تجربہ کرنا چاہتے ہیں کہیں اس کے بیشتر کھلاڑی مستقبل قریب میں کسی اور ٹیم کا حصہ نہ بن جائیں۔ موجودہ سیاسی بساط اور کنٹرولڈ جمہوری نظام کے ذریعے عمران خان کبھی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ جس ہوا کے گھوڑے پر وہ سوار ہیں، ہوا کے رخ بدلنے پر وہ گھوڑا ان کے نیچے بدک کر انہیں گرا بھی سکتا ہے۔

The post گھوڑا بدک گیا تو کپتان گر بھی سکتے ہیں appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2tZiAho

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny