فلم “طیفا ان ٹربل” میں صرف تین چیزیں ہیں ایک علی ظفر، دوسرا لاہور اور تیسری جگتیں۔ اگر آپ کو لاہور سے محبت ہے تو “طیفا ان ٹربل” آپ کو بہت پسند آئے گی۔ بھاٹی کاایک محلہ بلکہ صرف ایک گلی، فوڈ اسٹریٹ اور شاہی قلعہ کے عقبی دروازے کے ساتھ چلتا ہوا روڈ صرف انہی تین مناظر میں پورا لاہور اور اس کا عکس دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو لاہور کا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ فلم کے اختتام پر کیمرہ لاہور ریلوے اسٹیشن تک ضرور پہنچ جائے گا۔ کئی مناظر پولینڈ میں فلمائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی فلم لاہور کی محبت اور لاہوری ڈائیلاگ سے بھری پڑی ہے۔
پاکستانی فلم تکنیکی لحاظ سے بہت بہتر ہوچکی ہے اور طیفا ان ٹربل نے یہ بات کسی حد تک ثابت بھی کردی۔ فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ علی ظفر اور احسن رحیم نے گرافکس کا بہترین استعمال کیا ہے۔ گرافکس اتنے شاندار تھے کہ ایک سین میں ہیرو ہیروئین ٹرین سے چھلانگ لگاتے ہیں اور سیدھے دریا میں گرتے ہیں جس کا پانی مٹیالا ہونے کے بجائے اتنا شفاف اور نیلا ہوتا ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ چھلانگ کسی پاکستانی نہیں بلکہ پولینڈ کے دریا میں لگائی گئی ہے۔
فلم کی ایک اور انفرادیت لینڈ اسکیپ کا نیا ہونا ہے۔ فلم میں لاہور کا تو کچھ ہی حصہ دکھایا گیا لیکن اس کے بعد پولینڈ کے حسین اور دلکش مناظر دل جیت لیتے ہیں۔ فلم کی لوکیشنز، کاسٹیومز، سینماٹوگرافی اور کیمرہ ورک اتنا شاندار ہے کہ سکرین سے نظر ہٹائے نہ ہٹے۔ ایک اچھی بات یہ کہ فلم میں موجود انگریزی جملوں کی سب ٹائٹلنگ بھی کی گئی ہے جس سے مجھ جیسے فلم بینوں کو بڑا فائدہ ہوا۔
کہانی بہت ڈھیلی ڈھالی ہے جس کی وجہ سے فلم پہلے ہاف میں اتنی تیز چلتی ہے کہ آپ پکڑ ہی نہیں پاتے کہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ آگے کیا ہوگا اور آخر ہونا کیا چاہئے وغیرہ وغیرہ لیکن اس بے یقینی کی صورتحال میں بھی فلم میں موجود ٹھیٹ لاہوری زبان اور جگتیں آپ کو بور نہیں ہونے دیتیں۔ جس طرح لاہوری لوگوں کے “ر” اور”ڑ” کو پیش کیا گیا ہے وہ بھی شاندار ہے۔ اگر فلم میں بہترین لوکیشنز اور کیمرہ ورک کے علاوہ کچھ ہے تو وہ جاندار ڈائیلاگ ہیں۔ فلم میں کہانی سے کہیں زیادہ ڈائیلاگ پر فوکس کیا گیا ہے۔
ہدایات احسن رحیم نے دی ہیں۔ احسن رحیم آج کل اشتہارات بنا رہے ہیں اور جیسے وہ اشتہار بنا رہے ہیں بالکل اسی طرح انھوں نے فلم کی ڈائریکشن دی ہیں۔ اگر آپ نے فواد خان کا چپس والا اشتہار دیکھا ہے تو آپ کو لاہور میں فلمائے گئے مناظر سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہدایات احسن رحیم نے ہی دی ہیں۔
اگر اداکاری کی بات کی جائے تو علی ظفر نے اپنا کردار بخوبی نبھایا لیکن ہیروئن مایا علی بہترین تاثر چھوڑنے میں ناکام رہیں۔ کئی بار تو ایسا ہی لگا جیسے وہ فلم میں نہیں ڈارمے میں کام کر رہی ہیں۔ جاوید شیخ نے بھی اچھا کام کیا لیکن یہ ایسا ہی تھا جیسا وہ ہمیشہ کرتے ہیں، نیا کچھ بھی نہیں تھا۔ فلم کا زیادہ تر فوکس علی ظفر ہی تھے لیکن اس کے باوجود فیصل قریشی نے اپنی شاندار اداکاری سے ناظرین کی تمام تر توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔
اگر بات موسیقی کی جائے تو علی ظفر نے اس میں بھی کمال کر دیا۔ فلم میں موجود چھ کے چھ گانے علی ظفر نے گائے ہیں، ان کے علاوہ آئمہ بیگ نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ کئی گانوں کو تو شاندار پذیرائی بھی ملی۔ بیگ گراونڈ موسیقی میں شانی ارشد نے شاندار مہارت کا مظاہرہ کیا۔ اگر کہیں بھی کچھ کمی تھی تو وہ تھی گانوں کی شاعری، جس نے سامعین کو کچھ محظوظ نہیں کیا۔ ظاہر ہے جب آپ فلم سازی بھی کریں، کہانی بھی لکھیں اور موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی خود ہی کریں تو آپ سب کہیں نہ کہیں مار کھا جائیں گے۔ علی ظفر اور دانیال ظفر نے مل کر شاعری کی اور اپنا منفی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نظر آئے۔
علی ظفر نے اپنی چارمنگ لک سے بالی ووڈ میں جو جادو جگایا ہے وہ طیفا ان ٹربل میں نہیں جگا سکے اور اس کی بڑی وجہ علی ظفر کا میک اپ یا گیٹ اپ ہے۔ طیفا ان ٹربل میں آپ علی ظفر کی چارمنگ لک کہیں نہیں ملے گی سوائے ایک گانے میں موجود چند مناظر کے۔ فلم میں علی ظفر نے ایکشن کو بھی بہترین انداز میں فلمایا اور احساس دلایا کہ یہ پاکستانی فلم جلد ایک نئے رخ پر چلے گی۔
فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے کہ” لڑکی میں مصالحے پورے ہیں” بالکل اسی طرح فلم میں بھی مصالحے پورے ہیں۔ فلم بہترین بزنس بھی کرے گی بلکہ ایک نیا ٹرینڈ بھی بنے گی۔ ” ہیں جی؟ ہاں جی”
The post طیفا ان ٹربل۔ ۔ ہیں جی؟ ہاں جی۔ ۔ appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2LLptNK
No comments:
Post a Comment