Sunday, August 19, 2018

مجھے عمران سے اچھے دنوں کی اُمید کیوں؟

جمعہ کے مبارک روز قومی اسمبلی کےاجلاس میں ہمارے نو منتخب، نو آموز اور قدرے بھلکڑ وزیر اعظم کا باقاعدہ انتخاب عمل میں آچکا ہوگا۔ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں وہ واسکٹ گھر بھول آئے جبکہ دوسرے اجلاس میں جب نئے اسپیکر قومی اسمبلی کا انتخاب ہونا تھا وہ اپنا اسمبلی کارڈ گھر بھول آئے۔ لہذا ہم دعا گو کہ وہ اسمبلی میں اپنے وزیر اعظم کے باقاعدہ انتخاب کے دن نہ کوئی چیز یا بات بھول جائیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بار وفاقی کابینہ میں ایک عدد ‘ وزیر یاددہانی’ کا تقرر کرنا پڑے کیونکہ ہو سکتا ہے کل کلاں کو وہ یہ بھول جائیں کہ وہ وزیراعظم ہیں یا کہیں ایسا ہی نہ ہوکہ باقی سیاستدانوں کی طرح عوام سے کئے گئے وعدےہی بھول جائیں !۔

خیر یہ بات تو مزاح کی خاطر کی گئی ، اصل بات جو ہم کرنا چاہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ پاکستان کے لئے خوش آئندبات ہے کہ قیام پاکستان کے اولین دنوں کے سیاستدانوں کو چھوڑ کر شائد پہلی بار ایک غیر روایتی سیاستدان ملک کی باگ ڈور سنبھالنے جا رہے ہیں۔ جو ایک سابقہ کرکٹر اور پاکستانی قوم کے ہیرو بھی ہیں جنہوں نے 1992 میں پاکستان کی بظاہر کمزور کرکٹ ٹیم کی قیادت کرکے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بنوانے میں کامیاب رہے۔ اس وقت کی حکومت انکی مقبولیت سے خائف ہوگئی تھی لہذا ورلڈ کپ کی جیت کے مناظرجو کہ پی ٹی وی پر دکھائے جاتے تھےان سے عمران خان کی تصاویر غائب کروادیں گئیں ، لیکن عمران خان کو لوگوں کے دلوں سے کوئی نہ نکال سکا۔ اس جیت کےفوراً بعد عمران اپنے دیرینہ اور تشنہ خواب کی تکمیل کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور وہ تھا شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیر کا خواب۔ پاکستانی قوم نے عمران خان کی آواز پر لبیک کہا ، عورتوں نے اپنے زیورات اور بچوں نے اپنا جیب خرچ تک ان کی پکار پر ان پر نچھاور کر دیا اورعمران اپنا خواب پورا کرنے میں کامیاب رہے۔ یہ وہی دور تھاجب اس وقت کی حکومت نے قرض اتارو ملک سنوارو کا نعرہ لگا کر پاکستانیوں کی جیبیں الٹا لیں ۔قرض تو اور بھی بڑھ گئے پر ان حکمرانوں کی نسلیں ضرور سنور گئیں۔

عمران خان نے 1996 میں سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا، شروع میں ان کو کوئی خاص کامیابی نہیں ملی، تاہم وہ سیاست کے ساتھ ساتھ نمل یونیورسٹی اور 2005 میں ملک کے شمالی علاقوں میں آنے والے خوفناک زلزلے کے دوران عمران خان فاونڈیشن کے ذریعے سماجی کاموں میں اپنا حصہ بھی ڈالتے رہے۔ وہ دن بھی تھے جب پارٹی میں صرف سولہ یاسترہ باقاعدہ لوگ تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمیعت کے غنڈوں کے ہاتھوں بدسلوکی کا نشانہ بھی بنے۔ 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں جہاں ان کو ازدواجی زندگی کی نا ہمواری بلکہ ناکامی کا سامنا رہا وہیں سیاسی سفر بھی مشکلات کا شکاررہا مگر دھیرے دھیرے یہ آگے بھی بڑھتارہا ۔ پہلی قابل ذکر شخصیت شاہ محمود قریشی کی پارٹی میں شمولیت اور لاہور شہر میں 2011 میں ہونے والے جلسے سے پارٹی کی مقبولیت لوگوں میں بڑھنے لگی۔ اگلے سات سال میں پارٹی کو مقبول بنانے میں عمران خان صاحب کی کوششوں سے زیادہ قومی سیاسی افق پر موجود دونوں روایتی بڑی پارٹیوں کی نالائقی نے نہایت اہم کردار ادا کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون باری باری حکومتوں میں رہنے کے باوجود اپنے انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام رہیں۔ ملکی معیشیت کمزور ہوئی برآمدات بڑھنے کی بجائے گر گئیں۔ بلدیاتی ادارےتباہ کردیے گئے۔ عالمی سطح پر ملک کی سفارتی تنہائی میں اضافہ ہوا. نون لیگ کی حکومت نے تو وزیرخارجہ تک مقرر کرنے کا تکلف نہیں کیا. تعلیم صحت اور امن و امان کی صورتحال دگر گوں رہی، غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ کسان تباہ ہو گئے اور ملک پر بیرونی قرضے جو مشرف دور حکومت میں صرف 36 ارب ڈالرز تھے بڑھ کر 90 ارب ڈالرز ہوگئے۔

دونوں جماعتیں جمہوریت جمہوریت کھیلتی رہیں اور لوٹ مار کا وہ بازار گرم ہوا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ دونوں جماعتیں ڈیلیور کرنے میں ناکام رہیں۔ ان کی نالائقی سے جو خلا پیدا ہوا عمران خان صاحب نے بڑی خوبی سے اس کو پُر کیا ۔ لوگ نہ تو محترمہ بے نظیربھٹو صاحبہ اور آصف زرداری سے محبت کرتے تھے اور نہ ہی نواز شریف پر عاشق تھے۔ یہ تو صرف لوگوں کی توقعات تھیں جو باری باری ان کو ایک سے دوسرے در پر لے جاتی تھیں۔ لوگوں کی محرومیاں مگربڑھیں اور ان کی مایوسی اور بہتر مستقبل اور تبدیلی کی آس لوگوں کو عمران خان کے قریب لے آئی ۔ عمران خان نے انسانی وسائل کی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبہ جات کی اصلاح، پولیس کے نظام کی بہتری، بدعنوانی کا سد باب، ماحولیاتی بہتری کے لئے کوششوں میں تیزی اور روزگار کی فراہمی کے وعدے کیے ہیں۔ امید ہے وہ جو وعدے کر چکے ان کو پورا کرنے کے لئے خلوص دل سے کام بھی کریں گے۔ اصلی کام تو عام پاکستانی کی عزت نفس کی بحالی، سستے انصاف کی فراہمی اور خود مختار بلدیاتی نظام کے ذریعے عام لوگوں تک ترقیاتی کاموں کے ثمرات کو پہنچانا ہیں۔ عمران خان صاحب کے لئے چیلنجز بہت ہیں لیکن یاد رہے کہ عمران خان پہلے بھی بظاہر ناممکن سمجھے جانے والے کام بھی ممکن کر کے دکھا چکے ہیں.ان کی ذاتی شہرت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بہت مثبت ہے اور نئے پاکستان میں اچھے دنوں کی امید کی جا سکتی ہے ۔

The post مجھے عمران سے اچھے دنوں کی اُمید کیوں؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2vSc3pS

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny