حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لیے حج کرے اور اس میں بُری باتیں اور بُرے کام نہ کرے، تو وہ حج کرکے اسی طرح لوٹتا ہے گویا کہ آج اس کی ماں نے اسے جنا۔‘‘ (متفق علیہ)
حج کی حقیقت ہی یہی ہے کہ خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے نازل ہونے کی جگہ میں حاضری دینا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ جیسی برگزیدہ بندوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم و رضا، فرماں برداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا۔ اور اس بندگی کے طریقے کو اسی طرح بجا لانا جس طرح وہ ہزاروں برس پہلے بجا لائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے، یہی ملت ابراہیمی اور یہی حقیقی اسلام ہے، یہی روح اور یہی باطنی احساس ہے جس کو حاجی حضرات ان برگزیدہ بندوں کے مقدس اعمال کو اپنے جسم پر سجا کر ظاہر کرتے ہیں۔
اسی ابتدائی دور کی طرح بغیر سلے ہوئے کپڑے پہنتے ہیں، اپنے بدن اور سر کے بال نہ منڈواتے ہیں، نہ کٹواتے ہیں، نہ خوش بُو لگاتے ہیں، نہ رنگین کپڑے پہنتے ہیں‘ نہ سر ڈھانپتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ میں حاضر ہوکر پکارا۔
’’ میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ سب خوبیاں اور سب نعمتیں تیری ہی ہیں اور سلطنت تیری ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
آج ان تمام حاجیوں کے زبان پر وہی کلمات جاری ہوجاتے ہیں۔ یہ توحید کی صدا ان تمام مقامات اور بلند گھاٹیوں میں بلند کرتے ہیں، جہاں ان دونوں نیک بندوں کے نقش قدم زمین پر پڑے۔ پھر اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ محترمہ ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان چکر لگائے، آج حاجی وہاں سعی کرتے ہیں، چلتے ہیں اور مخصوص جگہ میں دوڑتے ہیں، دعا کرتے ہیں گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں۔ عرفات کے بڑے میدان میں جمع ہوکر اپنی گذشتہ عمر کے گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی چاہتے ہیں‘ خدا کے حضور گڑگڑاتے روتے ہیں، اپنے قصور معاف کرواتے ہیں، اور وہاں وعدہ کرتے ہیں آئندہ زندگی میں اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کا عہد کرتے ہیں۔
اسی وقوف عرفات کو حج کا بنیادی رکن کہتے ہیں یہ تاریخی میدان دعا کے مقامات، لاکھوں بندگان خدا کا ایک وحدت کے رنگ میں ایک لباس، ایک ہی جذبے سے سرشار ، ایک بے آب و گیاہ، خشک میدان، پہاڑوں کے درمیان دعا و مغفرت کی پکار، گزشتہ عمر کی کوتاہیوں اور بربادیوں پر آہ وزاری، اپنی بدکاریوں کا اعتراف، بڑے بڑے شقی القلب لوگوں کے دل موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں۔ پھر اس پاکیزگی کے بعد یہ احساس کہ یہی وہ مقام ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بہت سے انبیاء اسی حالت اور اسی صورت میں اسی جگہ کھڑے ہوئے تھے۔ ایسا روحانی منظر، ایسا کیف، ایسا اثر، ایسا گداز، ایسی تاثیر پیدا کرتا ہے جس کی مٹھاس روح اور جسم کے ہر تار نفس میں رچ بس جاتی ہے۔ پھر حاجی قربانی کرتے ہیں۔ ارشاد نبوی کے مطابق اپنے باپ ابراہیم کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔
اور پھر یہ کہتے ہیں: ’’ میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں‘‘ (الانعام)
پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے۔
’’ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرماں برداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (الانعام)
حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کر لانے والا یقینا ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا ہو۔اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حج بیت اللہ کرنے کی سعادت اور پھر اس کی برکات سے مستفیض فرمائے۔ آمین
مولانا حافظ اسعد عبید الازھری
The post حج بیت اللہ کے اثرات appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2vRtuH7
No comments:
Post a Comment