امیدیں تب ہی پنپتی ہیں جب کوئی نہ کوئی کرن پھوٹتی نظر آرہی ہو۔ اس روشن کرن کے پھوٹنے کی خبر بھی تب ہی ملتی ہے جب اس کا خوب چرچا ہو یا چرچا کیا جائے کہ امید رکھیے روشنی ہو گی، اجالا ہو گا اور دکھوں کا مداوا بھی کیا جائے گیا ۔ اسی وجہ سے ریاست پاکستان کی عوام بھی امیدیں باندھ لیا کرتی ہے ۔ کوئی نہ کوئی سیاسی قیادت یاحکومت ہمیشہ ہی امیدوں پر پورا نہ اتر سکی لیکن کچھ نہ کچھ بہتری ضرور ہوتی رہی ۔ اب کی بار بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی تھی. کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا بائیس سال کی جدوجہد کا نام ہے، الغرض طویل فوجی اور دو سول حکومتوں کے بعد یہ تبدیلی آئی. نئی حکومت کو آئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے ۔ اس عرصہ میں نئی حکومت نے پرانے عوام کے ساتھ سو روز میں کارکردگی دکھانے کا وعدہ کیا،جس کے تحت ملک کے مختلف اداروں کو اور ان کے ذیلی محکموں کا نظام وانتظام درست کرنے سمیت عوام دوست حکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
حکمران جماعت کی جانب سے اس وعدے کی تکمیل کے لئے فوری طور پر اقدامات بھی اٹھائے جانے لگے ہیں اور یوں ابھی تک دیے گئے سو دنوں میں سے سینتیس دن گزر گئے اور کچھ نہ کچھ تبدیل ہوتا نظر بھی آنے لگا۔ نئی حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے جو اقدام کرنے کی ٹھانی وہ ملک کے اندر مختلف اداروں میں غیر ضروری اخراجات کو کم کر کے خزانے کو محفوط کرنا اور بیرونی دنیا سے لیے گئے قرض کی ادائیگی کے لئے اقدامات کرناشامل ہے ۔
عوام ہمیشہ ہی سے نئی حکومت سے اپنے لیے خوب امیدیں وابسطہ کر لیتے ہیں۔ اس بار بھی یہ ہی ہوا مگر نئی حکومت کو آزمانے کے لیے ابھی سو دن کا وقت باقی ہے جس میں سے کچھ دن گزر چکے ہیں۔ عوامی مسائل مگرجوں کے توں کی ڈگر پر ہی چل رہے ہیں ۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سو دن کی مہلت دی جائے اور اس کے بعد جتنی مرضی تنقید کی جائے، سو ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا لیکن پھر بھی خوب شکوہ کرنے کو دل کرتا ہے. گزشتہ دو ہفتوں کے دوران گھریلو استعما ل کی گیس کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا جس کے باعث گھریلو صارفین خوب پریشان ہوئے اور حکومت سے اس پر قابو پانے کے لئے اقدامات کرنے پر بھی زور دیا۔ یہی نہیں چند روز قبل معلوم ہوا ہے کہ اکتوبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ں میں بھی اضافہ ہونے جا رہا ہے جس کے کے بعد عوامی حلقوں میں کافی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سو دن ہونے تک ناجانے باقی اشیائے ضرورت کے نرخ کیا صورتحال اختیار کیے ہوں گے ،جس کے بعد عوام تنقید کرنے کی پوزیشن میں ہونگے بھی یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ ابھی تک کی صورتحال پریشان کن ہے جس پر اہل اقتدار کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتحال کے تدارک کے لئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ عوامی حلقوں میں تشویش کی بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان ہے ،جس کے بعد اشیائے خورد و نوش سمیت اس سے جڑی ہر چیز کو پر لگ جائیں گے اور یوں شہریوں کا جینا دو بھر ہو جائے گا۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن ابھی تک تبدیلی کے حامی شہری سو دن کے وعدے کے پیش نظر چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔ان کا یہ ماننا ہے کہ تین ماہ کے وقت بعد ہم تنقید بھی کریں گے اور پھر سہی معنوں میں تبدیلی کا عمل شروع ہو گا ۔ بحر حال نئی حکومت نے آتے ہی کئی سرکاری مقامات کو عوامی مقامات میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ وزیر اعظم ہاؤس کو اعلی میعار کی یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا تو ساتھ ہی ساتھ صوبائی سطح پر بھی ایسے ہی اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں۔ پنجاب کے دارلحکومت لاہور کا گورنر ہاوس اک روز عوام کے لئے کھولا گیا تو اس شام گورنر ہاوس کا مختلف ہی منظر دیکھنے کو ملا ۔
تبدیلی کے اثرات براہ راست دیکھنے ہوں تو آج کل کسی بھی سرکاری تقریب یا پریس کانفرنس میں تشریف لائیے جہاں کبھی کھانوں سے تواضع ہوا کرتی تھی آج صرف چائے سے مہمان نوازی کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر اقدامات دیکھنے کو ملے ہیں جنھیں سادگی مہم سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ابھی تک کے کئے گئے اقدامات میں اچھی اور بری دونوں طرح کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ عوامی حلقوں میں سے بعض تین مہینوں کا انتظار کیے بغیر ہی تنقید کی آغوش میں جا بیٹھے ہیں ۔ سو دن کا وعدہ اپنی جگہ لیکن اہل اقتدار کو عوام دوست اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کے ساتھ ساتھ قومی اثاثوں کو محفوظ بھی رکھنا ہو گا نہ کہ عوام کے رحم و کرم پر کھلا چھوڑ دیا جائے۔
The post نیا پاکستان، نئی امیدیں اور پرانی روایات appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2xMIpTX
No comments:
Post a Comment