مجھے کیوں لوٹا ؟
خدا کے نام پر اپنا مفاد چاہتے ہو۔ ۔ ۔
تم اپنے جھوٹے قصیدہ پر داد چاہتے ہو ۔ ۔ ۔
خدا سے پوچھو کسی روز استخارہ کرو ۔ ۔ ۔
تم اس زمین پر کتنا فساد چاہتے ہو ؟
ناموس رسالت ﷺکے نام پر پورے ملک میں احتجاج کیا گیا۔ مشتعل دھرنا ہوا، شہر شہر مظاہرے ہوئے، گاڑیاں اور املاک نظرِآتش ہوئیں۔ ایسا ہی انسانیت سے گرا مظاہرہ لاہور کی اک سڑک پر دیکھنے میں آیا جہاں مظاہرین نے ایک غریب بچے کا روزگار ہی لوٹ لیا ۔یہ پھل فروش بچہ اپنی گدھا ریڑی پر کیلے سجائے مظاہرین کے پاس سے گر رہا تھا کہ اچانک مظاہرین ریڑی پہ سجے کیلو ں پر ٹوٹ پڑے، ایسا لگ رہا تھا کہ مظاہرین فتح کا جشن منا رہے ہیں اور مال غنیمت کی تقسیم ہو رہی ہے۔ پھل فروش بچے کا تمام مال ایک لمحے میں لوٹ لیا گیا۔ اپنے اہل خانہ کے لئے روزی کمانے والا یہ بچہ ایک لمحے میں خالی ہاتھ ہو گیا۔ یہ منظر دیکھ کرمیں سوچ میں پڑ گئی کہ ہمارا معاشرہ کس طرف جا رہا ہے ؟ افسوس ایک مقدس مشن کا نام لے کر یہ سب کیا جا رہا ہے۔ جب حالات ایسے ہوں توعلماءکرام کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ انہیں اپنے پیروکاروں کو اپنے اسلاف کی تعلیم کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ محض ٹویٹ کر دینے سے یا صرف میڈیا پہ بیان دینے سے مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا۔
اس بچے کے لٹنے جیسے سینکڑوں واقعات ملک بھر میں وقوع پذیر آتے ہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ جو معصوم بچے اپنے خاندانوں کی کفالت کے لیے روزگار کی تلاش میں نکلتے ہیں اور خاص کر ایسے حالات میں جب وہ جانتے ہیں کہ ملکی حالات سازگار نہیں، امن امان کی صورت حال مخدوش ہے، آپ سوچئے کہ اس کے گھر والے کس کرب میں ہوتے ہونگے۔ نہ جانے کتنے دن کا فاقہ ہو گا، ممکن ہے ان کی بھوک مٹانے کا وسیلہ ان کے بچوں کا روزگار ہی ہو ۔ اس وقت اس معصوم کے دل پر نہ جانے کیا گزر رہی ہوگی کہ جب مظاہرین اس کا اثاثہ لوٹ کر لے جا رہے ہوں گے ۔ نہایت بد قسمتی کی بات ہے معاشرے کے مذہبی طبقے کے لوگ جن سے ہم توقع کرتے ہیں کہ وہ زیادہ انسانیت پسند، زیادہ دیانت دار،اور زیادہ ایمان دار ہوں گے، ایک دوسرے کا زیادہ احساس کرنے والے اورخیال کرنے والے ہونگے۔ بدقسمتی سے وہی لوگ ایک معصوم بچے کے کیلے لوٹنے والوں میں شامل تھے۔ بے شک ان سب واقعات سے ہم اس قوم کے ایمان کی حالت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ ہم عدالتوں کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کو نبی کریم ﷺکی بچوں سے شفقت کا نہیں معلوم ؟ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جس مذہب کے ماننے والے ہیں اس کا بنیادی فلسفہ ہے”بےشک اللہ تعالی حکم دیتا ہے عدل اور احسان کا” ۔
احتجاج اگرچہ ہمارا آئینی حق ہے تاہم دوسروں کے راستے بند کرنا اور املاک لوٹنا نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ غیر اسلامی بھی۔ لیکن ہمارے ہاں۔۔۔ ان دھرنوں اور ایسے حالات کی وجہ سے جہاں پورا ملک بند پڑ جاتا ہےبچے سکول نہیں جا پاتے ،یونیورسٹیز میں امتحانات نہیں ہوپاتے ، لوگوں کا روزگار نہیں چل پاتا، غریب عوام فاقوں پر مجبور ہوجاتی ہے ۔ جن بسوں کو جلایا جاتا ہے، جن گاڑیوں کو نذرآتش کیا جاتا ہے ان میں نہ جانے کتنے بچے، کتنی فیملیز ہوتی ہوگی۔ اگرایک لمحے کے لئے تصور کیا جائے کہ آپ اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جا رہے ہو ں اور آپ کو روک کر آپ کے سامنے آپ کی گاڑی کو آگ لگا دی جائے تو کیسی حالت ہوگی؟ ایسے میں بس یہی سوال ذہن کے پردے سے ٹکرائےگا کہ یہ کیسی خدمت ہے دین کی ؟؟ یہ ممکن ہے کہ جن بسوں کوآگ کی نظر کر دیا جاتا ہے ان میں سوار لوگ آپ کے حامی ہوں ،ممکن ہے وہ اپنی منزل پر پہنچ کر آپ ہی کے کسی دھرنے میں شامل ہونے جا رہے ہومگر یہ لوٹ مار کی اجازت کس نے دی ہے ؟
علماء کرام جن کی جانب ہم رہنمائی کیلئے دیکھتے ہیں۔ جن کا کام شرعی علم سے عوام کو بہرہ مند کرنا ہے انھیں ہی اس مسئلے میں اپنے پیروکاروں کو بتانا چاہیے کہ حلال اور حرام کا تصور کیا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ امن امان کو بحال رکھے اور لوگوں کو تحفظ دے۔ اگر معصوم بچوں کا روزگار یونہی لوٹا جائے گا، توڑ پھوڑ کی جائے گی تو یہ ملک ترقی اور یہ قوم کبھی بھی بہتری کی جانب نہیں جا سکتی۔ ملک کے غریب دکانداروں کی دکانوں کو آگ لگا کر، اپنی قوم کے بچوں کو لوٹ کر ،خواتین کی گاڑیوں کو نذرآتش کرکے اورایک دہشت کا ماحول پیدا کر کے ہم اسلام کی کونسی خدمت کر رہے ہیں؟ ہمیں سوچنا چاہیے کہ پاکستان چائلڈ لیبر ریسرچ کے مطابق تقریبا 3۔3 ملین بچے جن کی عمر 14 سال سے کم ہے چائلڈ لیبر میں ملوث ہیں ۔ جن میں سے 73ف یصد فیصد لڑکے اور 27 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ ان بچوں کو ملک کا مفید شہری بنانے کے لیے ہم کیا کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ تکلیف دیتی ہے وہ ہے نا انصافی۔
The post مجھے کیوں لوٹا ؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2D5uagp
No comments:
Post a Comment