عزب مآب جناب چیف جسٹس صاحب!
السلام علیکم !
سب سے پہلے میں آپ کو چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میری رائے میں آپ اس عہدے پر فائز ہونے کا بجاطور پر استحقاق رکھتے ہیں کیونکہ آپ نہ صرف اعلیٰ تعلیمی پس منظرکے ساتھ ساتھ قانونی و آئینی امورکا وسیع تجربہ رکھتے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اپنے کیرئیر میں بڑی بہادری اور جرأتمندی سے کئی ایسے اہم فیصلے تحریر کیے ہیں جن سے آپ کی ذات اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے تھے۔میرے خیال میں درحقیقت جرأت اور بہادری بشمول دیگر اوصاف اچھے جج کا طرۂ امتیاز ہوتے ہیں ۔اگرچہ میں عملی وکالت سے وابستہ نہیں ہوں لیکن پھر بھی ان خیالات کا مکمل طور پر پرجوش حامی ہوں جو اس خط کے ذریعے آپ تک پہنچائے جارہے ہیں۔
جناب چیف جسٹس!
میرے یہ خیالات نئے نہیں ہیں۔میں اپنے انہی خیالات کا اظہار 2016ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب “Neither a Hawk Nor a Dove” میں (صفحہ نمبر 453 سے 475تک) بھی کرچکا ہوں۔ یہ کتاب بنیادی طور پرخارجہ پالیسی سے متعلق ہے لیکن پاکستان آرمی کے حوالے سے لکھے گئے اس کتاب کے ایک باب میں میں نے صدر جنرل پرویزمشرف کی طرف سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری کے خلاف بھیجے جانے والے ریفرنس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ میں نے اس کتاب میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو بہرحال اپنا آئینی کردار تو ضرور ادا کرنا چاہیے لیکن سرگرم عدالتی مداخلت کو جواز فراہم کرکے اپنے آپ کو سسٹم کے حوالے سے Platonic Guardian سمجھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میں اس وقت چند ایسے حالیہ عدالتی اقدامات اور بیانات کی وجہ سے آپ کو یہ کھلا خط تحریر کرنے پر مجبور ہوا ہوں جو نہ صرف میرے لیے بلکہ عدلیہ کے کئی دوسرے خیرخواہوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنے ہیں۔
جناب چیف جسٹس!
میرا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جس کی تین نسلیں وکالت کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میرے مرحوم والد میاں محمود علی قصوری ایک بڑے پائے کے قانون دان تھے ۔انہیں پاکستان میں آئین و قانون کی علامت تصور کیا جاتا تھا۔ان کا شمار پاکستان میں انسانی حقوق کے بڑے اور ممتاز ترین رہنماؤں میں ہوتا تھا ۔بعض حلقوں میں میاں محمود علی قصوری کو قانون کے مختلف شعبوں میں ان کی مہارت اور تجربے کی وجہ سے ’’مسٹرلا‘‘ (Mr.Law) کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔میرے والد کی خواہش تھی کہ مجھے عملی وکالت سے منسلک ہونا چاہیے۔ اسی لیے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد انہوں نے مجھے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یونیورسٹی بجھوایا۔ جہاں سے میں نے قانون کی ڈگری حاصل کی، بعد میں میں نے لندن سے بار ایٹ لاء کیا۔مجھے خوشی ہے کہ آپ کے اور میرے تعلیمی پس منظر میں کم از کم یہ مماثلت تو پائی جاتی ہے ۔اگرچہ میں عملی وکالت سے منسلک تو نہیں ہوسکا لیکن ان دنوں عدلیہ یا وکالت کے پیشے سے وابستہ ہونے کو اس قدر اچھا اور باوقار سمجھا جاتا تھا کہ میں پاکستا ن کے ایک ممتاز قانون دان کا بیٹا ہونے پر فخر کیا کرتا تھا۔
میں اپنے آپ کو اپنے والد کی تربیت اور اس تربیت کے اثرات سے اس وقت بھی الگ نہیں کرسکا جب میں پاکستان کے وزیرخارجہ کے طور پر فرائض سرانجام دے رہا تھا۔ ان دنوں جب صدر پرویزمشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو میں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے بارے میں شدید تحفظات رکھنے کے باوجود اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا خط صدر پرویزمشرف کو بھیج دیا تھا۔ میں اپنے والد کی زبانی پاکستان کے کئی ایسے عظیم ججوں کی خوبیوں اور صفات کے تذکرے سنا کرتا تھا جن کا تعلق میرے والد سے بھی رہا تھا۔ ان عظیم ججوں کی فہرست میں پاکستان کے ممتاز ترین جج حضرات سر عبدالرشید ، اے آر کارنیلس، ایم آر کیانی اور معروف برطانوی جج لارڈ ڈپ لاک(Lord Diplock) سمیت کئی دیگر جج حضرات بھی شامل تھے۔مجھے اپنے والد کے گھر پر خود بھی ذاتی طور پر اس وقت کے مشہورو معروف وکلاء بشمول جناب حسین شہید سہروردی، جناب منظور قادر ، جناب اے کے بروہی اور جناب ایم انور سے ذاتی طور پر ملنے کا شرف حاصل ہوا اور میں دنیائے قانون کی ان ممتازہستیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
جناب چیف جسٹس!
یہ ہے وہ پس منظر جس کے باعث میں آپ سے مخاطب ہوں میں آپ کو یہ خط لکھنے پر اس لیے بھی مجبور ہوا ہوں کہ میں نے حال ہی میں کچھ ایسے عدالتی واقعات دیکھے ہیں جو ناصرف میرے لیے بلکہ عدلیہ کے دیگر خیرخواہوں کے لیے بھی تشویش کا باعث بنے ہیں۔
میںآپ کی خدمت میں درج ذیل معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جوڈیشل ایکٹوازم (Judicial Activism)
جناب چیف جسٹس!
میرے نزدیک انتظامیہ کی زیادتیوں کو روکنے کے لیے آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے عدالتی نظرثانی کا عمل یقینی طور پر انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہے لیکن حکومت کے دیگر شعبوں /اداروں کی قیمت پر عدالتی طاقت میں اضافے کے لیے اس کا مسلسل اور بے لگام استعمال نامناسب ہے۔
جناب والا!
ہماری طرح کے ملکوں میں جہاں آئین تحریری طور پر موجود ہے وہاں ججوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ قوانین کی تشریح و تعبیر ایک مستحکم اور قابلِ گمان انداز میں کریں۔لیکن یہ بات غیرمناسب ہوگی کہ وہ عملاً قانون سازی کرنے لگ جائیں یاایسا لگنے لگے کہ عدلیہ اپنے متعین اختیارات سے تجاوزکررہی ہے۔ میں آج بھی اپنے ان الفاظ اور خیالات پر قائم ہوں جن کا اظہار میں نے اپنی کتاب (صفحہ نمبر 453 سے 475تک) میں کیا تھا۔ میں نے اپنی کتاب میں جہاں ان جینوئن کیسز کا ذکر کیا ہے جہاں انتظامیہ اور مقننہ عوامی اہمیت کے نہایت اہم معاملات میں انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناکام رہے ہوں ۔ ایسے معاملات میں سپریم کورٹ کو آخری چارۂ کار کے طور پر منصفانہ طور پر آئین کے آرٹیکل 184/(3) کے تحت اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے۔سپریم کورٹ کی طرف سے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ازخود نوٹس کا بے دھڑک اور مسلسل استعمال نہ صرف آئین کے آرٹیکل 10 اے (Due Process) کی رو سے مطابقت نہیں رکھتا ہے بلکہ یہ عمل ماتحت عدالتوں کے دائرۂ کار کو محدود کردینے کا باعث بھی بنتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے کئی مرتبہ متاثرہ افراد اپیل کے حق سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
جناب چیف جسٹس!
سپریم کورٹ کی طرف سے کسی مسئلے پر صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرکے ازخود نوٹس لینے سے اگرچہ وقتی طور پر تو اس مسئلے کی اہمیت اجاگر ہوجاتی ہے لیکن یہ عمل مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات تو اس سے صورتحال اور بھی خراب ہوجاتی ہے کیونکہ جج صاحبان گورننس کے مختلف شعبوں کے ماہر نہیں ہوتے اور ان کی مہارت قانون کے شعبے میں ہوتی ہے ۔
جناب چیف جسٹس !
میں بڑے دکھ کے ساتھ آپ کے سامنے چند حقائق رکھنا چاہتا ہوں ۔ اگرچہ مجھے اس بات کا علم ہے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار قانونی قابلیت ، دیانت داری اور نیک نیتی کے حوالے سے اچھی شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ مناسب غوروخوض کے بغیر اورمعاملات کے تمام پہلوؤں کا باریک بینی سے جائزہ لیے بغیر، اگر جلدبازی میں فیصلے کیے جائیں تو ان کے نتائج تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے انسان کا سقراط یا بقراط ہونا ضروری نہیں کہ جو فیصلے جلدبازی میں اور بغیر مناسب سوچ بچار کے اضطراری کیفیت میں کیے جائیں وہ نہ تو زیادہ یاد رکھے جائیں گے اور نہ ہی زیادہ فعال ثابت ہوں گے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں سینئر سرکاری افسران کی طرف سے مسلسل ایسی شکایات ملتی رہی تھیں کہ ان افسران کے کاموں میں چیف جسٹس کی طرف سے مداخلت کی جارہی تھی یہی نہیں بلکہ ان کے دور میں جسٹس افتخار چودھری افسران کو طلب کرتے ، ان کو گھنٹوں انتظار کرواتے اور یوں ان کا وقت ضائع ہوتا۔جسٹس افتخار چودھری بڑے سرکاری افسران کو ان کے ماتحتوں کے سامنے تضحیک کا نشانہ بناتے جس سے ان افسران کی عزت نفس مجروح ہوتی۔ایسے سرکاری افسران جو اسلام آباد سے باہر تعینات تھے ان کی طرف سے اکثر یہ شکایت سامنے آتی کہ ان کا بہت سا وقت اسلام آباد آنے جانے میں صرف ہوجاتا ہے، یہ ایک ایسی صورتحال تھی جس کی نظیر جسٹس (ر) افتخار چودھری سے پہلے کسی اور چیف جسٹس کے دورمیں کم ہی دیکھنے میں آتی تھی۔
اس صورت حال کا نامناسب ترین پہلو یہ تھا کہ جسٹس افتخار چودھری اپنے ریمارکس میڈیا کی موجودگی میں دینے کا اہتمام کرتے تاکہ وہ عوام میں شہرت حاصل کرسکیں۔ درحقیقت وہ اہم مقدمات کی سماعت اس وقت تک کے لیے مؤخر رکھتے جب تک سپریم کورٹ آنے والے اخباری رپورٹرز اس کیس کی سماعت کی کوریج کو یقینی نہ بنا لیتے۔اس طرح ’’میڈیا ٹرائل‘‘ ان کے دورمیں مستقل طور پر ایک شکایت کی صورت میں سامنے آتا رہا۔
اسی طرح جسٹس ثاقب نثار بھی ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں خبروں کی سرخیوں میں رہتے۔ شاید یہ بات کہنا غلط نہ ہوگا کہ جسٹس ثاقب نثار کو ملنے والی کوریج پاکستان کے وزیراعظم کو ملنے والی کوریج سے بھی زیادہ تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے انتظامیہ اور پارلیمینٹ کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔ایسے لگتا تھا کہ اب حکومت مہمند ڈیم کے افتتاح کی تاریخ متعین کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتی یہ صورتحال کسی بھی آئینی جمہوریت کی رو کے منافی ہے۔
جسٹس افتخار محمد چودھری عام سائلین کے مسائل کے حل کے لیے بامقصد عدالتی اصلاحات کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے اپنے بیٹے کے خلاف بھی الزامات سامنے آئے اس ساری صورت حال کی وجہ سے ان کی اپنی ساکھ تو متاثر ہوئی ہی تھی لیکن بدقسمتی سے اس سے عدلیہ کے وقار کو بھی ٹھیس پہنچی۔
دوسری طرف اس صورتحال کا موازنہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سیاسی ،معاشی اور آئینی معاملات میں حد سے بڑھتی ہوئی فعالیت سے کیا جائے تو صورتحال کو سمجھنے کے لیے ان کا اپنا اعترافی بیان ہی کافی ہے۔ جس میں انہوں نے خود تسلیم کیا ہے کہ وہ مقدمات کے بروقت فیصلوں کو یقینی بنانے کے حوالے سے ’’اپنے ہی گھر کو ٹھیک کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ‘‘ کاش وہ اس مسئلے کے حل کے لیے بھی اتنے ہی متحرک ہوتے جتنا کہ وہ سیاسی، معاشی اور دیگر امور کی طرف متحرک تھے۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں ایک ایسا کیس بھی سامنے آیا جس میں چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک ایسے مسافر کے سامان سے ملنے والی شراب کی ایک بوتل پر بھی ازخود نوٹس لے لیا گیا جس کو صدرپرویزمشرف کا حامی خیال کیا جاتا تھا۔ جسٹس افتخار محمد چودھری کے دور میں صوابدیدی اختیارات کے لگاتار استعمال کے خلاف پیدا ہونے والے شدید منفی ردعمل نے ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ، چیف جسٹس ناصرالملک اور چیف جسٹس انور ظہیرجمالی کو مجبور کیا کہ وہ صورتحال کی درستگی کے لیے ازخود نوٹس کے استعمال میں احتیاط کریں اور اپنے آپ کو میڈیا کی روشنیوں سے ذرا فاصلے پر رکھیں۔
معاشی اثرات
جناب چیف جسٹس !
اب ذرا ایک نظرحالیہ دنوں میں معاشی اور مالی معاملات میں ہونے والی عدالتی مداخلت پر ڈال لی جائے مثال کے طور پراگرہم موبائل فون کارڈز پرٹیکس ہٹانے جیسے’’پاپولر‘‘ اقدام کو ہی لے لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس اقدام کا ایک نتیجہ حکومتی ریونیو میں کمی کی صورت میں سامنے آیاجس کا خمیازہ حکومت کو بھگتنا پڑا۔ عدالتی حکم پر دی جانے والی ٹیکس کی اس چھوٹ نے آئی ایم ایف اورقرضہ دینے والے دیگر اداروں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں پاکستانی حکومت کی پوزیشن کو کمزور کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے وزیراعظم معیشت کی بحالی کے لیے ملک میں کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے اور سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ،اقتصادی زمینی حقائق اور ریگولیٹری میکنیزم کے منافی اس طرح کے عدالتی اقدامات سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کا باعث بنے اور ان کا اعتماد مجروح ہوا۔ یہ بات بھی کافی مشہور ہوئی کہ ایک پاکستانی نژاد سرمایہ کار چیف جسٹس ثاقب نثارکے ساتھ ہونے والے ایک نامناسب ٹاکرے کے بعد پاکستان ہی چھوڑ کر باہر چلا گیا۔
اس صورت حال نے بیوروکریسی کو بھی منجمد سا کرکے رکھ دیا ہے۔عام طورپر سرکاری افسر آج کل جوڈیشل ایکٹوازم کے خوف سے کسی بڑے منصوبے کی فائل پر دستخط کرنے سے گریزاں ہیں ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے بار بار معاشی پالیسی سازی میں مداخلت سے ملک کوجن خطرات کا سامنا رہتا ہے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے ماضی کے معاشی بحران کا باعث بننے والے پاکستان اسٹیل مل ،ریکوڈک اور رینٹل پاور پراجیکٹ کے عدالتی فیصلوں سے بھی سبق نہیں سیکھا گیا۔پاکستان کے ممتاز قانون دان اور سابق وزیرقانون جناب خالدانور نے پاکستان سٹیل مل کی نجکاری کے خلاف 2006ء میں دیئے گئے عدالتی فیصلے کو ایک بُرا فیصلہ (A Bad Verdict)قرار دیا تھا۔ایک ایسے وقت میں جب میں بحیثیت وزیرخارجہ روس کی حکومت سے پاکستان سٹیل مل کی پیداواری صلاحیت تین گنا بڑھانے کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کررہا تھا اور میری روس کے وزیرخارجہ سرجی لیورو(Sergey Lavrov) کے ساتھ مفید بات چیت چل رہی تھی اور روسی حکومت سٹیل مل کی توسیع و بحالی میں گہری دلچسپی دکھا رہی تھی، عدالت کے پاکستان اسٹیل مل کے حوالے سے دیئے گئے فیصلے نے ہماری ان ساری کوششوں پر پانی پھیر دیا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ پاکستان اسٹیل مل کا خسارہ 200 ارب روپے تک جا پہنچا اور اس میں مسلسل مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح رینٹل پاور پلانٹس (RPP) اور ریکوڈک کیسز میں بھی عدالتی فیصلوں کو بین الاقوامی ثالثی اداروں کی طرف سے نظرانداز کردیا گیا۔رینٹل پاور پلانٹس (RPP) کے مقدمے میں بین الاقوامی ثالثی کے ادارے کی طرف سے پاکستان پر 700 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا اور ریکوڈک کیس میں بھی پاکستان کو ہونے والے جرمانے کی رقم بھی غیرمعمولی طور پر بہت بھاری بتائی جارہی ہے۔
اسی طرح کے کئی مقدمات میں چیف جسٹس افتخار محمدچودھری یہ کہتے پائے گئے کہ ’’اگر آسمان گرتا ہے تو گر جائے، انصاف ضرور کیا جائے گا۔‘‘ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس رومن قانونی مقولے کا مآخذ بھی مشتبہ ہے۔ اس کو کسی کلاسیکل سورس سے اخذنہیں کیا گیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدقسمتی سے آسمان گر ہی تو گیا ہے۔ لیکن یہ آسمان بے چاری غریب پاکستانی ریاست پر گرا جس کو بھاری مالی نقصان ہوا اور اسے ممکنہ طور پر ہوشربا ہرجانوں کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا۔
ججوں کے طرزعمل اور صفات کے بارے میں اسلامی اور مغربی نظریات
جناب چیف جسٹس!
آپ ایک اچھے جج کی خوبیوں کے بارے میں پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ حضرت علیؓ نے ایک مرتبہ اپنے ایک گورنر کولکھا تھا :
’’ایسے شخص کو جج کے عہدے پرلگانا جسے ڈرایا نہ جاسکے، جو خودغرض اور لالچی نہ ہو، وہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو تمام حقائق جانے بغیر فیصلے نہ کرے اور وہ معاملے کے تمام پہلوؤں کا بغورجائزہ لے کر واضح طور پر فیصلہ سنائے، جو وکلاء (موید/الدافع)کے دلائل کے سامنے ناگواری اور بے چینی کا اظہار نہ کرے۔ یہ ایسا شخص ہونا چاہیے جو نہایت احتیاط کے ساتھ حقائق تک پہنچنے کے لیے نئے انکشافات کا جائزہ لے، جو اپنے فیصلوں میں غیرجانبدار رہے ، جس کو خوشامد کرکے بہکایا نہ جا سکے اور جو عہدہ ملنے پر خوشی سے باغ باغ نہ ہوجائے۔‘‘
اسی طرح مغرب میں اٹھارہویں صدی میں روشن خیالی کے دور (Age of Enlightenment)میں مغربی لیگل تھیوری میں جج کے مزاج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے غصے سے پاک ہونا چاہیے کیونکہ غصہ سمجھ اور شعور پر پردہ ڈال دیتا ہے اور فیصلہ سازی پر منفی طورپر اثرانداز ہوتا ہے۔ انگلستان کے عظیم سیاسی اور قانونی فلسفی تھوماس ہوبس (Thomas Hobbes) نے لکھا ہے کہ ججوں کو ہر طرح کے غصے اور نفرت سے آزاد ہونا چاہیے۔ اسی طرح ممتاز امریکی قانونی سکالر اور جج رچرڈ اے پوسنر(Richard A.Posner) کا اصرار ہے کہ غصے والے جج سے بچ کے رہو۔
اس لیے ججوں کے لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور سائیلین اور وکلاء کے ساتھ اچھے رویئے کا مظاہرہ کریں تاکہ یہ بات نظر آئے کہ وہ اپنے فیصلے قانونی بنیادوں پر غیرجانبداری سے کررہے ہیں ناکہ خواہشات اور جذبات سے مغلوب ہوکر ۔
اوپر بیان کیے گئے حقائق کی روشنی میں خاص طور پر حضرت علیؓ کے دانش مندانہ خط کی روشنی میں مجھے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے پاکستان کے ممتاز وکلاء کو یہ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ آپ چوروں کی نمائندگی کیوں کررہے ہیں۔ (کیا کسی بھی شخص کو جرم ثابت ہونے سے پہلے یا فیصلے کے اعلان تک قانون کی نظر میں معصوم نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ )یہ وکلاء کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے مؤکل کا ہرممکن حد تک قانونی باریک بینی کے ساتھ دفاع کریں کیونکہ فیصلہ سناناتو بہرحال جج ہی کا کام ہے اور یہ بات ایک واضح اصول ہے ۔ جس کی وضاحت کے لیے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ مجھے صحافیوں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ کسی شک و شبہ سے پاک دیانت دارانہ کیرئیرکے حامل ایک انتہائی قابل احترام بزرگ صحافی حسین نقی کو عدالت میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے تضحیک آمیز انداز میں’’تم ‘‘کہہ کر بلایا گیا۔جناب حسین نقی نے اس طرزِتکلم پربجا طور پر اعتراض کیا۔ کئی آمروں کوللکارنے والے ایسے صحافی کے ساتھ روا رکھے گئے اس سلوک پر صحافی برداری ہی کی طرح میں خود بھی ہکابکا رہ گیا۔ چیف جسٹس صاحب کے مزاج میں اس وقت ہی نرمی آئی جب صحافی برادری نے متفقہ طور پر جناب حسین نقی کے خلاف ہونے والے اس نامناسب سلوک پر آواز اٹھائی۔
میڈیا میں رہنے کی خواہش
جناب چیف جسٹس!
انگلستان میں ججوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا گوشہ نشین ہونا ہی بہترہے۔ شاید اسی لیے برطانیہ میں ٹیلیفون ڈائریکٹر یوں میں ججوں کے نام نہیں ہوتے۔ہفتے کے ساتوں دنوں میں چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلوں کے زمانے میں خبروں میں رہنے کی خواہش رکھنے والوں کے برعکس وہاں یہ مشہور ہے کہ جج اپنے فیصلوں کے ذریعے بولتے ہیں۔
میں اس بات پر بھی بہت حیران ہوا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم عمران خان کو دعوت دی کہ وہ ان کے ساتھ آکر سٹیج شیئرکریں۔ اگرچہ یہ تقریب ایک فلاحی مقصد کے لیے ہی تھی۔کیا یہ مناسب تھا کہ حاضرسروس چیف جسٹس وقت کے وزیراعظم کے ساتھ سٹیج شیئر کریں۔
وزیراعظم عمران خان کی سٹار ویلیومستند ہے اور ان کا فلاحی مقاصد کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کا ریکارڈ ثابت شدہ ہے ۔ غالباً ان کے علاوہ پاکستان میں صرف بے نظیر بھٹو ہی وہ واحد سیاستدان تھیں جن کی عمران خان کی طرح سٹاراپیل تھی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیاپاکستان میں بے مثال سٹاراپیل رکھنے والے عمران خان خود سے فنڈز اکٹھے نہیں کرسکتے تھے ؟
یہ بات کافی مشہور ہے کہ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس سر عبدالرشید نے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ وہ محسوس کرتے تھے کہ یہ آزاد عدلیہ کے تقاضوں کے منافی ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ حکومتی اداروں کے اختیارات کی ثلاثی تقسیم کے بھی منافی ہوتا۔
قانونی پوزیشن کا واضح ہونا (Predictability of Law)
جناب چیف جسٹس !
ہمارا عدالتی نظام قانون کی ان عدالتوں پر مشتمل ہے جن کے ا ختیارات اور قانونی حیثیت کو آئین سے اخذ کیا گیا ہے۔ ہماری عدالتوں کو پرانے زمانے کے انگلستان کی کورٹس آف ایکویٹی (Courts of Equity) کی طرح کام کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
اس حوالے سے برطانوی آئینی قانون کا ایک مقولہ انتباہ کرتا ہے کہ ایکویٹی ایک خطرناک چیز ہے۔ قانون کے لیے ہمارے پاس تولنے کا پیمانہ ہوتا ہے ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کیا ہے جس پرہم اعتبار کرسکتے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ انگلستان کے پرانے دور میں ایکویٹی کے قانون کو چانسلر کے جوتے کے سائز کی مثال سے سمجھایا جاتا تھا ۔(Equity varies with the size of the Chancellor’s foot)جس طرح نیا چانسلر آیا کرتا تھا اسی طرح ایکویٹی کا قانون بھی بدل جاتا تھا۔مراد یہ ہے کہ چانسلر جس بات پر اطمینان محسوس کرتا تھا وہی قانون کا درجہ پا لیتی تھی۔ آج کے دور میں ایسا نہیں ہوناچاہیے۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک بہت معروف اور سینئر قانون دان نے مجھے یہ بات بتا کر حیرت زدہ کردیا کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران جب چیف جسٹس ثاقب نثار کو متعلقہ وکیل نے فیصلے سے کچھ دیر پہلے بتایا کہ چیف جسٹس جس رائے کا اظہار کررہے ہیں وہ قانون کے مطابق نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ’’قانون وہ ہے جو ہم کہتے ہیں! !‘ ‘
ہم امریکہ کی آئینی تاریخ سے بھی کچھ قیمتی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ امریکہ کے مشہور مقدمے Marbury v Madison(1803) میں جسٹس جان مارشل (John Marshall) نے وہ مشہور فیصلہ دیا تھا جس سے امریکہ میں پہلی مرتبہ عدالتوں کو نظرثانی کے اختیارات حاصل ہوئے تھے۔ امریکہ میں سپریم کورٹ نے اس اختیار کا استعمال بہت کم کیا ہے اوراس حوالے سے خود ہی اپنے اوپر ایک خودساختہ سی پابندی لگا رکھی ہے۔
توہین عدالت کا قانون
حالیہ دنوں میں ہم نے توہین عدالت کے نوٹسز کا سیلاب بھی دیکھا۔ کبھی توہین عدالت کے نوٹسز دیئے جانے کی دھمکیاں سنی گئیں اور کبھی سچ مچ یہ نوٹسز ملتے دیکھے گئے۔ ججوں کو اپنے اختیارات کی طاقت کی مثالوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ ان کا احترام ان کے فیصلوں کے اعلیٰ معیار اور عمدگی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہمارے کئی عظیم ججوں نے توہین عدالت کے قانون کے ضمن میں بہت احتیاط دکھائی ہے۔ مثال کے طورپر ہم میں سے بہت سے لوگوں نے قائداعظم (جوکہ ان دنوں مسٹرجناح کے طورپرجانے جاتے تھے)کا وہ واقعہ تو سنا ہوگا جس کے مطابق ایک مرتبہ جناح صاحب عدالت سے مخاطب تھے۔ قائداعظم جب بھی کوئی دلیل دیتے تو جج صاحب اس دلیل کے جواب میں کہتے ’’کچرا‘‘(Rubbish)۔کچھ دیر یہ سلسلہ چلتا رہا پھر قائداعظم نے جج صاحب کی طرف دیکھا اور کہا :’’جناب والا! آج عزت مآب کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔کیا آپ کی طبیعت ناساز تو نہیں ہے؟ آج آپ کے منہ سے صرف ’’کچرا‘‘(Rubbish) ہی نکل رہا ہے۔‘‘مجھے ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے جب میرے والد میاں محمود علی قصوری ایک دفعہ پاکستان کے ایک سینئر سیاستدان اصغرخان (جوکہ صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے تھے) کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے۔ میرے والد سپریم کورٹ کے بینچ میں تمام پنجابی ججوں کی شمولیت پرخوش نہ تھے۔ انہوں نے عدالت سے مخاطب ہوکرکہا:’’ جناب والا! کیا میں سپریم کورٹ کے بینچ سے مخاطب ہوں یا پنجاب کورٹ کے بنچ سے؟‘‘یہاں یہ کہہ دینا ہی کافی ہوگا کہ ان دونوں مقدمات میں ججز نے کافی صبر کا مظاہرہ کیا اور نہ قائداعظم کو اور نہ ہی میرے والد کو توہین عدالت کے نوٹسز ملے۔
عزت مآب ! آپ کی میراث
جناب چیف جسٹس!
پاکستانی عدلیہ کی ایک شاندار میراث آپ کی منتظرہے۔ آپ کی تعلیمی قابلیت اور عدلیہ میں آپ کے ٹریک ریکارڈ کے پیش نظر مجھے پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آپ آخرکار عدلیہ کے وقار کی بحالی کے لیے ایسی عدالتی اصلاحات ضرور کریں گے جو انصاف کی تیزترین فراہمی کو یقینی بنائیں اور آپ کیسز کے غیرمعمولی التوا ء کے مسئلے پر بھی توجہ دیں گے تاکہ کیسز کے فیصلے جلد ہوسکیں اور عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ پوری احتیاط سے اپنے عدالتی اور صوابدیدی اختیارات کواستعمال کریں گے اور عدلیہ میں درستگی کا عمل یقینی بناتے ہوئے ایک اچھی مثال قائم کریں گے۔آخر میں میں آپ کی کامیابی کے لیے دعاگو ہوں۔اللہ کرے کہ آپ پاکستانی عدلیہ میں ایک ایسی میراث چھوڑ کر جائیں جس میں وکلاء اور ججوں کی آنے والی نسلیں آپ کے فیصلوں پر فخر کرسکیں۔
یاد رہے ۔
وقت کی آزمائش میں صرف مضبوط فیصلے ہی باقی رہتے ہیں۔
والسلام
خورشید محمود قصوری
سابق وزیرخارجہ پاکستان
The post سابق وزیرخارجہ پاکستان خورشید محمود قصوری کانئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کے نام کھلا خط appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Mh3bkE
No comments:
Post a Comment