مقننہ ریاست کا بنیادی ستون ہے اور منتخب ایوان نمائندگان اس اہم ستون کے بنیادی اجزاء ہیں جنہیں پاکستان کی بائیس کروڑ عوام اپنے بنیادی حق، حق رائے دہی کے تحت اپنے خداداد سیاسی شعور کے مطابق ان کے انتخابی نشان پر یقین کی مہر ثبت کر کے انہیں اسمبلی کی زینت بناتے ہیں۔بلاشبہ عام انتخابات جیسی سیاسی سرگرمی پربجٹ کی ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہےاور عام آدمی اپنی دیگر سرگرمیاں تقریبا معطل کر کے اس سیاسی پریکٹس سے نہ صرف معاشی طور پر متاثر ہوتا ہے بلکہ اس میں بھرپور حصہ لے کر ووٹ کی پرچی کے ذریعے اپنے مستقبل کے اگلے پانچ سال ان منتخب نمائندوں کے ہاتھ سونپ دیتا ہے۔ اقوام متحدہ، انٹرنیشنل میڈیا کے ساتھ عالمی تنظیموں کے مبصرین بھی پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور انتخابی عمل کا بغور جائزہ لیتے اور رپورٹ کرتے ہیں جسکی بدولت پاکستان کا شمار دنیا کے جمہوریت پسند ممالک کی فہرست میں ہوتا ہے۔
اس تمہید کا مقصد صرف اراکین اسمبلی کی تکریم، ان کے وقار کی تائید،حلف کی پاسداری اورانہیں عوامی اعتماد پر پورا اترنے کی یاد دہانی کرانا ہے جسے شاید وہ اسمبلی پہنچ کر بھول جاتے ہیں۔اراکین اسمبلی چاہے ان کا تعلق حکومتی بینچوں سے ہو یا اپوزیشن بینچوں سے وہ اپنے حلقے کی عوام کی آواز اور ان کی امیدوں کا محور ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بدقسمتی سےاسکا احساس انہیں دوبارہ انتخاب کی صورت میں واپس عوام کے پاس جاتے وقت ہی ہوتا ہے۔
موجودہ ایوان زیریں کی صورتحال دیکھ کر کسی طور نہیں لگتا کہ یہ انہی اراکین اسمبلی کا حامل ایوان ہے جو اسے سیاسی قبلہ سمجھتے ہیں اور دیگر ریاستی اداروں پر اس کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پارلیمنٹ ہی سپریم ادارہ ہے اس کا اقرار عوام الناس کے ساتھ دیگر ادارے بھی کرتے ہیں لیکن پارلیمنٹ کو بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔ اراکین اسمبلی کو عوامی مسائل کی ترجمانی کرتے ہوئے موثر قانون سازی کرنا ہو گی اور داخلہ و خارجہ محاذ پرایسی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی جس سے بحرانوں میں گھری عوام کو ریلیف میسر ہو سکے ۔
منی بجٹ کا سیشن کسی صورت بھی ووٹرز کی توقعات کا عکاس نہیں کہا جا سکتا۔ اسمبلی کی کاروائی دیکھ کر یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ دیگر چھوٹی سیاسی جماعتوں کے چیئرمین بھی اسی ایوان کے رکن ہیں۔روایت یہی ہے کہ پوائنٹ آف نو ریٹرن کی صورت میں ہمیشہ حکومت جھکتی اور رستہ نکالتی ہے لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اپوزیشن اپنے جمہوری کردار سے بالکل بری الذمہ ہے اور ہر بحث میں ڈیڈلاک کو اپنا وطیرہ بنا لے۔مذکورہ سیشن میں اپوزیشن کا طے شدہ ایجنڈے سے انحراف کرنا دانستہ غلطی تھی جس سے اپوزیشن سمیت کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔بلاشبہ وزیراعظم کے ترجمان نعیم الحق صاحب کی طرف سے پروڈکشن آرڈر کو لےکر کچھ غیر ضروری ٹویٹس کئے گئے جس پر اپوزیشن کا موقف کہ “وزیراعظم کے غیر منتخب ترجمان نے منتخب اپوزیشن لیڈر کے متعلق دھمکی آمیز الفاظ کا استعمال کیا اور سپیکر اسمبلی کا استحقاق مجروح کیا” اپنی جگہ درست ہے لیکن اپوزیشن بھی اپنے طرزسیاست کی بدولت ملک کے سپریم ادارے کا وقار مجروح کر رہی ہے۔
ایوان زیریں کے دونوں بینچوں کو تنقید کرنے کے ساتھ تنقید سننے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا ہو گا، سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کواسمبلی کا ماحول سازگار بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اپوزیشن کو چاہیے تھا کہ وزیر خزانہ کی تقریر میں رکاوٹ نہ ڈالتی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی معاشی امور کے ماہر اور وسیع تجربہ کے حامل اراکین کی جماعتیں ہیں۔ اپوزیشن کی تنقید ضروری تھی لیکن انہیں اپنی پوری ورکنگ کے ساتھ منی بجٹ میں اصلاحات کیلئے تجاویز بھی دینی چاہیے تھیں۔ اپوزیشن اگر ہنگامے کی بجائے حکومت سے بینکنگ ٹرانزیکشنز پر ودہولڈنگ ٹیکس کے خاتمے، زرعی قرضوں اور ایس ایم ایز کےٹیکسز میں ٪19 فیصد کی کمی اور دیگر ٹیکس ریٹ میں کمی کی صورت میں ممکنہ معاشی خسارے کے متبادل لائحہ عمل کے بارے میں سوال کرتی، اگر جی ڈٖی پی گروتھ ریٹ، برآمدات، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ، ٹیکس محصولات میں اضافے، افراط زر ، بیروزگاری، درآمدات، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، بجٹ خسارے، اندرونی و بیرونی قرضوں میں کمی اور ڈالر ایکسچینج ریٹ میں کمی اور اس کی قیمت میں تسلسل کیلئے حکومتی اقدامات کے بارے میں سوال کرتی تو معیشت کی بہتری کیلئے شاید بہتر اور جامع پلان بن سکتا تھا ۔ صاف ظاہر ہے کہ چارٹر آف اکانومی کی متمنی اپوزیشن نے اپنا متوقع اور عملی کردار ادا کرنے کی بجائے یہ موقع سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی نذرکر دیا۔
حکومتی وزراء کو بھی چاہیے کہ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین پر بے جا تنقید سے گریز کریں، وزراء کی طرف سے وفاقی کابینہ میں اپوزیشن لیڈر کی بطور چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی منظوری اور پریس کانفرنسز میں اپنے ہی فیصلے پر تنقید اور سپریم کورٹ جانے کے عندیے دے کر وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے والا رویہ مناسب نہیں۔
البتہ اس بحرانی کیفیت میں قومی اسمبلی کا ماحول قانون سازی کیلئے سازگار رکھنے کیلئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام اور قائمہ کمیٹیوں کی تقسیم کار کیلئے حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے خوش آئند ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پارلیمنٹ کے بنیادی کردار قانون سازی میں طویل ڈیڈلاک کا خاتمہ ہو گا اور پارلیمان موثر قانون سازی کے ذریعے عوام کیلئے ریلیف کا سبب بنے گی۔
The post اک نظر ادھر بھی ۔۔! appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2DIbJhJ
No comments:
Post a Comment