متحدہ عرب امارات نے یکم مارچ کو ابو ظہبی میں منعقد ہونے والی اسلامی تعاون کی تنظیم OIC کے وزرائے خارجہ کے افتتاحی اجلاس میں ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج کو مہمان خصوصی کی حیثیت سےشرکت کی دعوت دی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے ہندوستان کو شرکت کی دعوت دینے کا فیصلہ پلواما کے حملہ سے بہت پہلے ۴ فروری کو کیا تھا لیکن اس کا اعلان ۲۳ فروری کو بیک وقت دلی اور دبئی سے کیا گیا ہے۔
اب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے لئے کڑی آزمائش ہے کہ آیا وہ پلواما کے حملہ کے بعد ہندوستان میں کشمیریوں اور مسلمانوں پر حملوں اورہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم و ستم اورکشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک اور حریت اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی بڑے پیمانہ پر گرفتاریوں کے بعد اپنے وزیر خارجہ کو اس اجلاس میں شرکت کے لئے بھیجیں گے؟ اور ہندوستان کی طرف سے پاکستان کو جنگ کی دھمکیوں کے خطرناک ماحول میں پاکستان کے وزیر خارجہ کو ہندوستان کی وزیر خارجہ ششما سوراج کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دیں گے؟ واضح رہے کہ OICکے پچھلے اجلاسوں میں کشمیر یوں پر ظلم وستم کے خلاف احتجاج کیا جاتا رہا ہے اور قراردادیں منظور کی گئی ہیں۔ کیا ابو ظہبی کے اس اجلاس میں ہندوستان کی وزیر خارجہ کی موجودگی میں کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھائی جائے گی؟
اسلامی کانفرنس کے وزارئے خارجہ کے اجلاس میں ہندوستان کی وزیر خارجہ کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے دعوت دینے کے فیصلہ کے بارے میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان باخبر تھے ، معلوم نہیں وزیر اعظم عمران خان سے بات چیت کے دوران انہوں نے اس بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا تھا یا نہیں؟
بہت سے مبصرین یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ متحدہ عرب امارات سے مطالبہ کرے کہ وہ اس اجلاس میں حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں کو بھی شرکت کی دعوت دے اور اگر وہ یہ مطالبہ تسلیم نہ کرے تو پاکستان کو چاہیےکہ وہ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے اپنے وفد میں حریت کانفرنس کے کشمیری رہنماؤں کو شامل کرے۔
پچاس سال قبل مسجد اقصی میں آتش زدگی کی کوشش کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں جو پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس بلائی گئی تھی اس میں بعض عرب ممالک کی تجویز پر ہندوستان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ہندوستان کے مسلمانوں نے خلافت کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا ہے ۔اس کانفرنس میں شرکت کے لیے ہندوستان کے وزیر فخر الدین علی احمد رباط پہنچ گئے تھے۔ لیکن پاکستان کے سخت احتجاج اور بائیکاٹ کے فیصلہ کے بعد ہندوستان کی شرکت کا دعوت نامہ واپس لے لیاگیا تھا۔
میں ستمبر ۱۹۶۹میں یہ کانفرنس کور کرنے کے لئے رباط میں تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پاکستان نے سربراہوں کے ابتدائی اجلاس میں ہندوستان کی شرکت کے فیصلہ سے اتفاق کیا تھا۔ اسی روز احمد آباد میں خونریز مسلم کُش فسادات بھڑک اٹھے تھے۔ پاکستانی صحافیوں نے جب صدر یحی خان کو ان حالات میں کانفرنس میں ہندوستان کی شرکت کے خلاف پاکستان کے عوام کی ممکنہ ناراضگی اور اس کے سنگین نتائج کی طرف توجہ دلائی تو انہوں نے سربراہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شاہ فیصل، مراکش کے شاہ حسن ، اردن کے شاہ حسین ، مصری صدر سادات اور دوسرے عرب رہنماوں نے یکے بعد دیگرےصدر یحی خان سے ملاقاتیں کیں اور ان پر زور ڈالا کہ وہ بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لیں لیکن یحی خان سیاسی مضمرات کے پیش نظر اپنے فیصلہ پراٹل رہے اور آخر کار عرب سربراہوں نے گھٹنے ٹیک دئیے اور یہ طے کیا کہ ہندوستان کے وفد کی کانفرنس میں شرکت کے بجائے مراکش میں ہندوستان کے سفیر گربچن سنگھ کو مبصر کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی جائے۔ اس فیصلہ کے بعد ہندوستان نے کئی عرب ممالک سے احتجاجا ًاپنے سفیر واپس بلالئے تھے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں اورگذشتہ پانچ برس میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے مشرق وسطی کے تابڑ توڑ دوروں میں بیشتر عرب ممالک پر اقتصادی مفادات کا جادو کر دیا ہے اور عرب ، ہندوستان کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ اس کا مظہرپچھلے سال دبئی میں مودی کے دورہ کے موقع پر متحدہ عرب امارات کی طرف سے ہندو مندر کی تعمیر کے لئے ایک وسیع زمین عطیہ میں دینے کا اقدام ہے۔
The post عرب ہندوستان کے جال میں پھنس گئے؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2TdA4EU
No comments:
Post a Comment