Wednesday, February 20, 2019

مجھے اپنا سفیر سمجھیں….!

‘میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ملک میں کام کرنے والے 25 لاکھ پاکستانی جو کہ میرے دل کے بہت قریب ہیں اور مذہبی فریضے کی ادائیگی کی غرض سے جانے والے پاکستانی حجاج کرام کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں جیسے وہ آپ کے اپنے ہوں۔’

“‘آپ سعودی عرب میں مجھے اپنا سفیر سمجھیں”‘

یہ وہ تاریخی سوال و جواب ہیں جنکی سفارتکاری کی تاریخ میں کوئی نذیر نہیں ملتی۔موقعے کی مناسبت سے عمران خان کی سعودی ولی عہد سے کی گئی درخواست میں پورے پاکستان نے یہ محسوس کیا کہ ان کے وزیراعظم اپنے دل میں غربت سے پسی عوام کا کتنا درد بسائے بیٹھے ہیں، لیکن سعودی ولی عہد نے بھی اپنے جواب کے ذریعے جس اعلٰی ظرفی کا مظاہرہ کیا اس کی داد دیئے بغیر کوئی نہ رہ سکا۔ بے شک ان کی اس اعلٰی ظرفی نے پاکستانی عوام کے دل جیت لئے ہیں۔

سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد پر ان کا والہانہ استقبال اور دونوں طرف کی قیادت کی ملاقاتوں میں گرمجوشی دو طرفہ تعلقات کی مضبوطی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔سعودی عرب اُن چند اولین ممالک میں سے ہے جنھوں نے پاکستان کے وجود میں آتے ہی اسے تسلیم کیا۔1951ء میں دوستی کے پہلے معاہدے سے تعلقات کا لگایا جانے والا پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ 1960ء میں پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ کیا جس میں انکا پرتپاک استقبال کیا گیا اور یہی دورہ مضبوط تعلقات کی بنیاد بنا۔

قیام پاکستان سے اب تک ان دونوں ممالک کی دوستی 1969ء میں رباط میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس، 1974ء میں لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس، اسلامی ممالک پر مشتمل دولت مشترکہ اور فیصل مسجد کی تعمیر،مسلم ممالک کی ایک دوسرے کی منڈیوں میں رسائی ،مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں اور سعودی عرب کی طرف سے مشکل وقت میں مختلف بیل آوٹ پیکجز کی خوشگوار پگڈنڈیوں سمیت سعودی یمن جنگ، عراق کویت جنگ، 1965ء اور 1971ء کی پاک انڈیا جنگ،1973ء کی عرب اسرائیل جنگ اور نائن الیون کے بعد پاکستان کو درپیش حالت جنگ کے نشیب و فراز سے اور کٹھن فیصلہ سازی سے ہوتی ہوئی اب دنیا کیلئے مثال بن چکی ہے۔

1979ء میں خانہ کعبہ پر شدت پسندوں کے حملوں میں پاکستانی کمانڈوز کی بروقت کاروائی نے حرمین شریفین کے خلاف سازشی عناصر پر ہیبت طاری کر دی، جس کے بعد کوئی بھی خانہ کعبہ کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکا جس کی بدولت سعودی عوام اور حکومت سمیت پوری مسلم امہ پاکستانی کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ قدرتی آفات ہوں، سیاسی بحران ہو، معیشت کی بدحالی کے مسائل ہوں، کسی حربی ریاست کے جنگی جنون کا سامنا ہو یا سفارتکاری کے چیلنجز ہوں سعودی پاک تعلقات ہر آزمائش پر پورا اترے ہیں۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا حالیہ دورہ پاکستان سرمایہ کاری کے اعتبار سے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر اب تک کا سب سے بڑا دورہ ہے ۔ یہ نئی حکومت کی سفارتی محاذ پر سب سے بڑی کامیابی ہے۔ موجودہ سعودی ولی عہد کی ایسی فراخدلی کی مثال اور کسی غیر ملکی دورے میں نہیں ملتی۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے پاکستان کے جی ڈی پی گروتھ ریٹ کے اعداوشمار پر تجزیہ اورموجودہ منتخب سیاسی قیادت پر اعتماد کا اظہارسعودی حکومت کی پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاری میں دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔

سعودی عرب کی جانب سے آرامکو آئل ریفائنری میں 10 ارب ڈالر، ایل این جی پلانٹس میں 4 ارب ڈالر، ایکوا پاور قابل تجدید توانائی شعبے میں 2 ارب ڈالر، معدنی ترقیاتی سیکٹر میں 2 ارب ڈالر اورسعودی فنڈ برائے پاکستان، پیٹروکیمیکل منصوبوں سمیت خوراک و زراعت کے منصوبوں میں ایک ایک ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کی بدولت نہ صرف ملکی انڈسٹری کو فروغ ملے گا بلکہ روزگار کے بے پناہ مواقع پیدا ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور دو طرفہ معاہدوں سمیت سعودی عرب کی جانب سے سرمایہ کاری کے اعدادوشمار میں اضافے کا عندیہ خوش آئند ہے جو کہ بحرانوں سے گھری معیشت کیلئے ریلیف کا سبب بنے گا اور بلا شبہ یہ سرمایہ کاری فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں بھی اضافے کا سبب بنے گی۔

لیکن خوگر حمد یہاں تھوڑا سا گلہ کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس دورے کے مزید ثمرات بھی سمیٹے جا سکتے تھے جو کہ حکومت کی روائتی کم ظرفی کی نظر ہو گئے۔ بین الاقوامی تعلقات میں تمام سیاسی جماعتیں باہمی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں جیسا کہ بلاول بھٹو زرداری صاحب نے اپنے دورہ واشنگٹن میں 2018 کے انتخابات پر اپوزیشن کے تحفظات کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ “میں گھر کی لڑائی گھر چھوڑ کر آیا ہوں” لیکن حکومت ایسے ظرف کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو عشائیے اور ظہرانے میں مدعو نہ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ بعض حکومتی وزراء بھی اپنے اس فیصلے کا مضبوط دفاع نہ کر سکے اور عوامی محفلوں میں اس فیصلے سے متعلق سوالات سے راہ فرار اختیار کرتے نظر آئے۔ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس دورے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت دیگر تجزیہ نگار سعودی ولی عہد کے پارلیمنٹ سے خطاب کے خواہشمند بھی تھے۔

حکومت نے سعودی ولی عہد کی روانگی کے وقت اپوزیشن کے سینیٹرزکو ملاقات کی رسما ً دعوت دی جس میں صرف ن لیگ کے سینیٹرز نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کر کے اپنی پارٹی قیادت کا پیغام پہنچایا اور انہیں اگلے دورے پر پارلیمنٹ سے خطاب کی دعوت دی جو کہ انہوں نے خوشی سے قبول کر لی۔حکومتی فیصلے نے اپوزیشن جماعتوں میں پہلے سے موجود بداعتمادی کو مزید جلا بخشی ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اول تو اس دورے کی مخالفت کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں اور نہ ہی کوئی ایسا متنازعہ معاہدہ کیا جا رہا تھا کہ جس کی مخالفت کی جاتی، یعنی کہ کسی بھی طور نا خوشگوار واقعے کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن نو منتخب خوفزدہ حکومت نے اپنی حلف برداری کے بعد سے اب تک قومی یکجہتی اور مشترکہ بیانیے کا سب سے بڑا موقع ضائع کر دیا جو کہ ہندوستانی پراپیگنڈے کے جواب میں بھی موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔

بلاشبہ 17 فروری سیاسی، سفارتکاری اور معاشی بحرانوں میں گھرے پاکستان کیلئے بہت بڑا دن تھا۔ سپریم کوآرڈی نیشن کونسل کا قیام و مسئلہ کشمیر سمیت دیگر عالمی سفارتی بیانیوں میں اتفاق رائے بھی خوش آئند ہےجبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے 2107 قیدیوں کی فوری رہائی کا حکم پاکستان کیلئے کسی تحفے سے کم نہیں ۔ اس دورے سمیت پاکستان کیلئے دیگر خدمات کی بدولت انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز “نشان پاکستان” سے نوازا گیا۔اب حکومت خصوصاً وزارت خارجہ سمیت پوری سیاسی قیادت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ باہمی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایران سمیت خطے کے دیگر ممالک کو ساتھ لیکر چلتے ہوئے ان تعلقات میں مزید مضبوطی اور تسلسل پیدا کریں۔

The post مجھے اپنا سفیر سمجھیں….! appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2GyfDwv

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny