Friday, May 24, 2019

سمندروں میں پلاسٹک کے ٹکڑے اب آلودگی کے گڑھ بن رہے ہیں

برازیل: پانچ ملی میٹر سے کم جسامت کے پلاسٹک کے باریک ٹکڑے اس وقت ساحلوں اور سمندروں میں کروڑوں اربوں کی تعداد میں موجود ہیں اور اب وہ گرد، آلودگی اور بیماری پیدا کرنے والے اجزا کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاکر انسانوں اور سمندری جانداروں کے لیے شدید خطرہ بن چکے ہیں۔

برازیل کی یونیورسٹی آف ساؤ پالو میں واقع اوشیانوگرافک انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر الیگزینڈر ٹیورا کہتے ہیں کہ پلاسٹک کے باریک ٹکڑے اب گردوغبار، نامیاتی مرکبات اور دیگر مضر کیمیکل کے لیے ایک فوم بن چکے ہیں جن میں یہ جذٓب ہوکر لہروں کے دوش پر دور دور تک جارہے ہیں اور یوں بحری حیات کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔

پلاسٹک کے یہ ٹکڑے پرانے کپڑوں، سمندری جالوں، پلاسٹک بیگ، ٹائروں اور ساحلوں پر پھینکے جانے والے کوڑا کرکٹ سے وجود میں آتے ہیں۔ سمندر میں باہمی ٹکراؤ سے یہ باریک ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے رہتے ہیں اور اب خبر یہ ہے کہ ان سے مضر کیمیکل اور مرکبات چپک کر دور دور تک پھیل رہے ہیں۔

برازیلی ماہرین نے جنوبی برازیل میں ساحل سے 39 کلومیٹر کی دوری تک مائیکروپلاسٹک جمع کیا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ اس پلاسٹک سے نامیاتی مرکبات بھی چپکے ہوئے ہیں جن میں پولی کلورنیٹیڈ بائی فینائلز (پی سی بی) اور پولی سائیکلک ایئرومیٹک ہائیڈروکاربنز (پی اے ایچ) بھی شامل تھے۔ یہ آلودگی سمندروں میں تیل نکالنے اور اس کی نقل و حمل سے پیدا ہوئی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ آلودگی خود انسانوں اور جانوروں کے جسمانی، اعصابی اور ہارمون نظام کو شدید متاثر کرسکتی ہے۔ اس طرح اب پلاسٹک کے ٹکڑے تیرتے ہوئے اسفنج بن چکے ہیں جو سمندری حیات کو شدید متاثر کرسکتےہیں۔ خطرناک بات یہ ہےکہ اگر جاندار انہیں نگل لے تو یہ ان کی غذائی زنجیر کا حصہ بن کر ایک جانور سے دوسرے میں منتقل ہوتے رہتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیوں اور جھینگوں کے ذریعے انسانوں میں بھی منتقل ہوسکتے ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ہر سال سمندروں میں 80 لاکھ ٹن پلاسٹک پھینکا جارہا ہے۔ یہ پلاسٹک دنیا کے 10 بڑے دریاؤں سے سمندروں میں جارہا ہے۔

The post سمندروں میں پلاسٹک کے ٹکڑے اب آلودگی کے گڑھ بن رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Woofgy

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny