پوری دنیا میں صحافی اور میڈیا کے کارکنوں کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مختلف خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کام سچائی اور حقائق کو عوام تک لانا ہوتا ہے۔ بعض اوقات سچائی اور حقائق کو سامنے لاتے ہوئے ان کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ مشکل صورتحال میں رپورٹنگ کی تربیت کا نا ہونا بھی صحافی کیلئے جان کا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
پی پی ایف کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2002 سے 2019 تک یعنی گزشتہ 17 برسوں میں 48 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ جبکہ 24 کوکام کے دوران قتل کیا گیا، 171 کوشدید جبکہ 77 کومعمولی زخمی کیا گیا۔2002 سے لیکر 2019 تک ٹوٹل 699 تشدد کے واقعات ریکارڈ کئے گئے۔
آن ریکارڈ اخبار کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک لاہور کے امن پر متعدد بار شب خون مارا جا چکا ہے۔ جیسے کہ 15 مارچ 2018 کو رائے ونڈ میں ہونے والے دھماکے میں پولیس اہلکاروں سمیت 7 افراد ہلاک ہوئے۔ 8 اگست 2017 کو سگیاں پل پر پھلوں سے لدے ایک ٹرک میں زور دار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 20 افراد زخمی ہوئے تھے۔
27 مارچ 2016 کو گلشن اقبال پارک میں خودکش دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں 60 افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اعداد و شمار بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ان حالات میں وہاں صحافی بھی موجود تھے جو رپورٹنگ تو کر رہے تھے لیکن بے سر و سامانی اور بغیر تربیت کے اور تمام ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ان سے کام لیا جا رہا تھا۔صحافیوں کو لاحق خطرات کے پیش نظر اپریل 2017 میں جرنلسٹ ویلفیر اینڈ پروٹیکشن بل پیش کیا گیا۔جس میں اہم بات یہ شامل تھی کہ قانون کے مطابق میڈیا مالک سال میں کم از کم ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کروانے کے پابند ہوں گے۔ لیکن اداروں میں تربیتی ورکشاپس کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔
صحافیوں کے لئے تربیت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئےلاہور سے تعلق رکھنے والے سینئیر صحافی مبشر بخاری نے کہا کہ صحافیوں کی تربیت کی ذمہ داری متعلقہ اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے بتایا جب انہوں نے رائٹرز (Reuters) میں شمولیت اختیار کی تو ان کی ادارے کی جانب سے تربیت کروائی گئی کہ کشیدہ حالات میں چیزوں کو کیسے کور کرنا ہے۔
انہوں نے کہا لیبر ڈیپارٹمنٹ انڈسٹری کو این او سی یا لائسنس تب جاری کرتا ہے جب سکیورٹی انتظامات کا جائزہ مکمل کر لے۔ لیکن میڈیا انڈسٹری کو لائسنس آنکھیں بند کر کے جاری کر دیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا جب سے اداروں میں ایڈیٹوریل بورڈ کمزور ہوا ہے پیشہ وارانہ صلاحیت بھی کم ہو گئی ہے۔2007 میں الحمرہ آرٹ کونسل میں کریکر دھماکے ہوئے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہیں ذرائع نے بتایا کہ وہ کہیں محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔ مزید دھماکے ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو محفوظ مقام پر جانے کا کہا لیکن اسی دوران ان کے دفتر سے کال آ گئی کہ ادارے کے لئے خبر اہم ہے ،آپ ٹیم کو کام کرنے دیں ،اسی دوران پھر تین دھماکے ہو گئے۔
دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا بین الاقوامی اداروں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ خراب صورتحال میں رپورٹنگ کیسے کرنی ہے ۔
رائٹرز(Routers) کی ٹریننگ میں ان کو بتایا گیا کہ پولیس کے آگے کھڑے ہو کر کوریج نہیں کرنی، جلوس کے درمیان میں کھڑے نہیں ہونا، بم بلاسٹ والی جگہ سے دور رہ کر کام کرنا ہے۔ مشتعل ہجوم میں رپورٹنگ کرتے ہوئے کوئی ایسی بات نہیں کرنی جو ان کے خلاف ہو۔ فرسٹ ایڈ بکس کیسے استعمال کرنا ہے، بلڈ کو کیسے روکنا ہے، سی پی آر کیسے کرنا ہے۔رائٹرز ایس او پی کے مطابق اگر رپورٹر شہر سے باہر گیا ہو تو اس کو دن کی روشنی میں واپس لوٹنا چاہئیے۔اگر آپ کا دوست زخمی ہے تو آپ فورا اس کو نہیں اٹھائیں گے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس کو اٹھا کر محفوظ جگہ لے جائیں۔کشیدہ حالات میں انتہائی دائیں یا بائیں رہ کر کوریج کریں۔لیکن یہ چیزیں پاکستان کے میڈیا ہاؤسز میں نہیں بتائی جاتیں۔
اسلام آباد کے صحافی فیض پراچہ کے مطابق 2001 کے بعد دہشتگردی پروان چڑھی خصوصا 2006 سے لیکر 2015 تک بہت سے صحافی، کیمرہ مین اور دیگر میڈیا ورکرز موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔
2007 میں لال مسجد کا واقع پیش آیا جس میں سی این بی سی کے سینئیر کیمرہ مین اسرار احمد گولی لگنے سے پوری زندگی کے لئے مفلوج ہو گئے۔ علاوہ ازیں ایک کیمرہ مین کی موت واقع ہوئی اورایک فوٹو گرافر گولی لگنے سے زخمی ہوا۔انہوں نے کہا صحافی کا کام خبر دینا ہوتا ہے خبر بننا نہیں۔ لیکن ریٹنگ کی دوڑ میں ان کے میڈیا مینیجر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جائے وقوعہ سے اندر کی چیزیں منظر عام پر لائی جائیں۔
دنیا نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میری ایٹ ہوٹل پر حملے کی کوریج انہوں نے خود کی،” مجھے میرے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ اندر جا کر ساری صورتحال سکرین پر دکھاؤ حالانکہ اس وقت اندر جانا خطرے سے کم نہیں تھا۔
لاہور کے پروڈیوسرعبدالاحدکہتے ہیں جب رپورٹر کو ناخوش گوار صورتحال پر جانے کے لئے کہا جاتا ہے تو ادارہ اور رپورٹر دونوں جلدی میں ہوتے ہیں۔ حادثے والی جگہ پر کیا ہوا ہے، وہاں کیا ہوگا اس بات کا کسی کو علم نہیں ہوتا لہٰذا تمام حالات سے آگاہی کے لئے ہمیں رپورٹر سے ایسے سوالات کرنے پڑتے ہیں تاکہ ابتدائی معلومات منظر عام پر آ سکے۔مزید بر آںہمیں نقصان سے بھی آگاہی حاصل کرنا ہوتی ہے۔ مثال کے طور پردھماکے والی جگہ اور اس کے مضافات میں کیا نقصان ہوا ہے اس کی جان کاری لینا بھی لازمی ہوتی ہے۔
عبدالاحد کے مطابق، ادارے کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی جان کا تحفظ لازمی کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ایسے حالات میں میڈیا ورکرز کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی لیکن بعض اوقات رپورٹر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ادارے کو ایسی خبر دے جو کسی چینل نے نا چلائی ہو۔اس چیز کا کریڈٹ لینے کے لئے رپورٹر اپنے ذاتی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کی جان کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔دوسری جانب انہوں نے اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ سپاٹ پر رپورٹنگ کرنے کے دوران ان کے پاس بلٹ پروف جیکٹ سمیت دیگر ایسا سامان نہیں ہوتا جو جان کا تحفظ کر سکے۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا جائے وقوعہ پر ٹیم بھیجنے سے پہلے ڈائریکٹر نیوز اور دیگر لوگ میٹنگ کرتے ہیں؟ اس پر انہوں نے بتایا اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بیٹھ کر پالیسی بنا لی جائے ٹیم کو جلد از جلد موقع پر پہنچنے کی ہدایت ہوتی ہے۔
بلال چودھری لاہور نیوز سے بطور رپورٹر وابستہ ہیں وہ کہتے ہیں 10 فروری 2017 کو لاہور میں سانحہ مال روڈ ہوا جس میں سی ٹی او لاہور کیپٹن (ر) مبین شہید ہوئے۔ بلال نے بتایا دھماکہ ہونے سے قبل وہ لائیو بیپر دے رہا تھا کہ اچانک دھماکہ ہو گیا۔ وہ منظر کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کر لیا۔ ان کا بتانا ہے اس سانحے میں وہ محفوظ رہے۔ دھماکہ اچانک ہوا تھا مگراس وقت ان کے پاس کوئی ایسا سامان نہ تھا جس کوپہن کر وہ محفوظ ہو سکتے۔
ہم نے متعدد سینئیر صحافیوں جن میںرائیٹرز کے نمائندے مبشر بخاری، دن نیوز سے فیض پراچہ، دنیا نیوز کے سینئیر رپوٹر و کالم نگار سہیل قیصر اور بلال چودھری سے اس معاملے پر رائے لی ہے۔
1۔ سہیل قیصر کے مطابق صحافی کو جائے وقوعہ پر جانے سے پہلے ادارہ ساز و سامان مہیا کرے جس کے استعمال سے وہ محفوظ ہو۔ مثلا بلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹ، ماسک جو ڈی ایس این جی میں ہی موجود ہونا چاہئیے تاکہ حادثے والی جگہ پر پہنچنے سے پہلے وہ تیار ہو۔ دوران رپورٹنگ اس کا رابطہ وقتا فوقتا نیوز روم، پولیس اور دیگر سہولت کار اداروں سے رہے۔
سینئیر ایڈیٹر کاظم جعفری کے بقول ادارہ میڈیا ورکرز کو بھرتی کرتے ہوئے ان کی ٹریننگ کروائے تاکہ کشیدہ صورتحال میں انہوں نے کتنے فاصلے سے اپنا کام کرنا ہے اور کن کن پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے، اسے معلوم ہو۔انہوں نے کہا کہ ادارے کو آگاہی سیمینار اور ورکشاپ کا انعقاد کروا کر رپورٹرز کی تربیت کرنی چاہئیے تاکہ نا خوشگوار حالات میں انہوںنے کن الفاظ کا استعمال کیسے کرنا ہے۔ اس بات کا تعین بھی کرنا لازمی ہے کہ حساس اداروں کے متعلق معلومات کس طرح دینی ہے۔تربیت کے دوران اس بات پر بھی زور دیا جائے کہ وہ اپنا کارڈ لگائے رکھے تاکہ وہ اشتعال انگیز عناصر سے محفوظ رہے۔
بلال کا کہنا ہے دھماکے والے واقعات رپورٹ کرتے ہوئے صحافی کو فاصلے کا تعین کرنے کی تلقین کی جائے تاکہ وہ اندھی گولی یا دانستہ طور پر کسی کے حملے سے محفوظ رہ سکے۔ اداروں کو سالانہ تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کروانا چاہئیے، جس میں ان لوگوں کو بلایا جائے جو مہارت رکھتے ہوں اور ایسے واقعات کو کور کر چکے ہوں۔ تاکہ وہ نا تجربہ کار صحافیوں کو بتا سکیں کہ وہ کس طرح محفوظ رہ کر اپنا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔
پی ایف یو سی کے جنرل سیکرٹری رانا علی کہتے ہیں تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ تنظیموں کا کام صحافی برادری کی آواز اٹھانا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث وہ ورکشاپس نہیں کروا سکتے۔
وزیر اطلاعات و نشریات پنجاب صمصام بخاری کا دنیا نیوز کو بتانا ہے کہ پاکستان میں صحافتی تربیت کا فقدان ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ایسے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت صحافیوں کی تربیت ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ان منصوبوں پر عمل در آمد نہیں ہوتا ان کے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
The post صحافی کیسے محفوظ رہ سکتا ہے! appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://bit.ly/2Q95XdK
No comments:
Post a Comment