Tuesday, June 11, 2019

آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑتا ہے؟

سرمایہ داری اندر سے کھوکھلاکردیتی ہے، اوپر سے پینٹ شرٹ اور ٹائی لگا ہوا بابو نظرآتا ہے اور پیٹ خالی ہوتا ہے۔اس نے جب اجارہ دا ری قائم کی تو سرمایہ چند ہاتھوں میں مرکوز ہوا اور دوسری جانب بھوکے ننگے لوگوں کا ہجوم، پھرعالمی اور علاقائی انجمنیں قائم کی گئیں جس میں مل کر لوٹیں اور پھر بانٹ لیں۔

1944کے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے بنائے گئے۔ان کا مقصد بین الاقوامی تجارت ، مالیاتی امور اور اقتصادی معاملات میں سامراجی ممالک کی اجارہ داری کو بر قرار رکھنا اور مربوط کرنا تھا۔ 1971میں پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد پاکستان کا قرضہ 30ارب روپے تھا۔1977میں بھٹو حکومت ختم ہوئی تو قرضہ 97 ارب روپے تک جا پہنچا۔ جنرل ضیاالحق کے دس سالہ دور حکومت میں یہ قرضہ 523 ارب روپے ہوگیا۔ 1989سے لے کر 1999تک جمہوری حکومتوں میں کل قرضہ 2945ارب روپے ہوگیا۔

جنرل مشرف نے 2008 میں حکومت چھوڑی تو یہ عدد 6126ارب روپے ہوگئی۔ 2008 سے 2018 تک پی پی پی اور ایم ایل ن حکومت تھی، جب ختم ہوئی تو پا کستان 31000 ارب روپے سے زیادہ رقم کا مقروض ہوچکا تھا۔

اسٹیٹ بینک کے تازہ بیان کے مطابق پاکستان پرکل قرضوں کی رقم 35OOOایک سو ارب رو پے تک پہنچ چکی۔ جاری مالی سال کے پہلے صرف نو مہینوں میں بجٹ خسارہ مجموعی داخلی پیداوار (جی ڈی پی ) کے 4.2 فیصد تک پہنچ چکا ہے، جو 1600ارب روپے سے زیادہ ہے۔ یہ خسارہ پچھلے مالی سال (نواز حکومت کا آخری سال تھا) جس میں انھوں نے  بجٹ پیش کیا کہ پہلے نو مہینے سے بھی 10فیصد یا 140ارب روپے زیادہ ہے۔اس وقت روز14ارب روپے کے قرضے لیے جا رہے ہیں۔

دوسری طرف سرکا ری اسپتالوں میں مفت ٹیسٹوں اورادویات کے سہولیات ختم کردی گئی ہیں۔ سرکاری شعبے میں بڑے پیمانے پر پنشن اور مستقل روزگارکے خاتمے، نجکاری اور چھانٹیوں کے پروگرام پہ عمل درآمدکیا جارہا ہے جس سے لا کھوں لوگ بے روزگار ہونگے۔ یہ شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ایک حاضر سروس ملازم کو خصوصی طور پر باہر سے منگوا کر اسٹیٹ بینک کاگورنر لگا دیا گیا ہے۔ یعنی کرنسی نوٹ جو چھاپنے کا اختیارکسی ریاست کا سب سے کلیدی حق تصورکیا جا تا ہے، اب آئی ایم ایف کے ایک ملازم کے دستخطوں سے قانونی سند حاصل کریں گے۔

پاکستان کے ترقی پسند معیشت دان ڈاکٹر قیصر بنگالی اپنے مضمون  میں لکھتے ہیں کہ ’’حفیظ شیخ جوگھاگ نیلام کنندہ ہے اور رضا باقر جو عالمی سرمائے کی پہلی صف کے جنرل ہے،اس عملے کی قیادت کریں گے‘‘ جب کہ پاکستان کا بیرونی قرضہ اس وقت 100ارب ڈالرکی تشویش ناک سطح چھو رہا ہے۔ عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی سکت کے لحاظ سے پاکستان کل 137ممالک کی فہرست میں 115ویں نمبر پر آتا ہے۔آئی ایم ایف نے اپنے تازہ اعدادوشمار میں ظاہرکیا ہے کہ اگلے دو سالوں میں پا کستان کو27ارب ڈالرکے بیرونی قرضے وا پس کرنا ہونگے۔اس عرصے کے دوران یہ پورے خطے میں سب سے زیادہ واجب الادا رقم ہے۔

سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے بڑے فخر سے کہا تھا کہ ’’ آئی ایم ایف کی شرائط ہم نے ان کے حکم سے پہلے ہی پوری کردی ہیں‘‘ یہ اس ملک کے حکمران طبقات اور سرکاری اشرافیہ کی کاسہ لیسی کا حال ہے۔گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران ہونے والے دوطرفہ مذاکرات میں آئی ایم ایف نے بہت سخت شرائط سا منے رکھی ہیں جنھیں رد کرنے کی آپشن اس کٹھ پتلی حکومت کے پاس نہیں ہے ۔ مثلاًبجلی کی قیمت میں مزید 25فیصد اضافے  کا حکم جاری کیا گیا ہے، اس میں بتدریج اضافہ ہوگا ۔ جس کا آغاز یکم جولائی سے ہونے کا امکان ہے اور اگلے  ڈیڑھ سال تک مسلسل قیمت بڑھتی رہے گی۔ مجموعی طور پہ بجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافے کے صارفین پر 340 ارب روپے کا بوجھ اگلے تین سا لوں میں پڑے گا۔ آنے والے بجٹ میں مجموعی طور پر 750ارب رو پے  کے لیے ٹیکس لگائے جائیں گے جس سے ہر چیزکی قیمت میں اضافہ ہوگا۔

حال ہی میں حکومت ٹیکسٹائل کی صنعتکاروں کو دی گئی رعایتیں واپس لے لی ہیں، بقول مزدور رہنما کرامت علی کے’’ اس سے فوری طور پہ 15لاکھ ٹیکسٹائل کے مزدور بے روزگار ہونگے اور برآمدات میں کمی ہوگی ‘‘ بڑے پیمانے پر یہاں نجکاری کی تیاری کرلی گئی ہے جس سے بے روزگاروں کا ایک جم غفیر پیدا ہوگا ، پھر وہ اسٹریٹ کرائم میں لگ جائیں گے، جب کہ سرمایہ دار مزید بڑا سرمایہ دار بن جائے گا۔اس کے لیے محنت کشوں، پیداواری قوتوںاور شہریوں کو متحدہ جدوجہد ، یہاں تک کہ ہڑتالوں کی حد تک جانا ہوگا۔ اسمبلی کا گھیراؤ کرنا ہوگا ،تب جاکر شاید ایک حد تک نجکاری، مہنگائی اور بے روزگاری روکی جا سکتی ہے۔ یہ ساری کوشش اورکاوش دنیا بھر میں ہو رہی ہیں۔کہیں کچھ رکوانے میں کامیابی ملی ہیں اورکہیں ناکام بھی ہوئے ہیں۔

اس وقت زیادہ تحریکیں یورپ، لاطینی امریکا ، مغربی افریقہ اور مشرق بعید میں نظر آرہی ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ کیا اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اصلاحات یا جزوی حاصلات سے عوام کی زندگی بدل سکتی ہے یا نہیں؟ سرمایہ کاری ہو تی ہے منافعے کے لیے نہ کہ عوام کی بھلائی کے لیے۔ پیداوری قوتوں کو اتنی دال، روٹی دے دی جاتی ہے کہ دوسرے دن مشین پرکھڑے ہوکرکام کرنے کے قابل رہے اور سرمایہ داروں کے منافعے میں اضافہ کرتی رہے۔ اس لیے سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کیے بغیرعوام کے مسائل مکمل طور پہ حل ہوسکتے ہیں اور نہ وہ خوشحال ہوسکتے ہیں ہاں مگر خوشحالی جس طبقے میں آنی ہے ان میں آرہی ہے۔

وہ کروڑ پتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں، جب کہ نوے فیصد عوام بھوک ، غذائی قلت، علاج معالجے اور رہائشی سہولتوں کے فقدان سے تڑپ رہے ہیں ۔ان مصیبتوں سے ایک حد تک نکلنے کے لیے پیداواری قوتیں اپنے اپنے اداروں میں احتجاج اورہڑتالیں کریں۔

پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کروانے کے لیے آئی ایم ایف کے حاضر سروس نمایندوں کو دیس نکالا کرنے کے لیے تحریک چلانی ہوگی یہ کام دائیں اور بائیں بازو سے بالاتر ہوکر صرف مسائل پر سڑکوں پہ آنا ہونگے ۔ جس طرح علی وزیر اور محسن داوڑ کو اسمبلی میں پیش کر نے کے لیے اور ان کا بھی موقف سننے کے لیے اپوزیشن تحریک کا آ غازکررہی ہے، اس تحریک کو سڑکوں  پہ لانا ضروری ہے۔  ججزکے خلاف  ریفرنس دائر کرنے کے خلاف وکلاء حضرات جس جرات مندی ،اصولی اور بہادری سے ڈٹ گئے ہیں اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ ان تحریکوں میں تمام عوام دوست، انارکسٹ، کمیونسٹ، سوشلسٹ اور انقلابیوں کو بھرپور شرکت کرنے کی ضرورت ہے اور وہ اس تحریک میں مزدوروں کی بے روزگاری اور مہنگائی پر اپنی بھرپور آواز اٹھائیں ۔یہی آج کا فوری اقدام ہوگا۔

The post آئی ایم ایف کے پاس کیوں جانا پڑتا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2WzPsOl

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny