Sunday, April 1, 2018

اپریل فول ایک برائی ہے اور ہمیں اس سے بچنا ہوگا

ہر ملک، مذہب اور قومیتوں کے اپنے روائیتی تہوار اور ثقافت ہوتی ہے، بعض مذاہب اور قوموں کے تہوار ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ  فرق پھر بھی ہوتا ہی ہے۔ مگر چند دہائیوں سے کچھ ایسے تہوار منظرِ عام پر آئے ہیں جن کے پیچھے کوئی ٹھوس وجہ یا تاریخ موجود نہیں مگر پھر بھی دنیا بھر کے لوگ ان تہواروں کو منانے میں دلچسپی لیتے ہیں، جیسے کہ ہیلووین، ویلنٹائن ڈے اور اپریل فول ڈے۔ ان تہواروں کو منانے کا رجحان پاکستان میں بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر سال لوگ اس طرح کے بے تکے اور یورپیین/ایسٹرن تہواروں کو مناتے جا رہے ہیں۔

ویسے تو اپریل فول کی تاریخ بہت پرانی ہے مگر اس کے بارے میں کئی مفروضے مشہور ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ماضی میں اس روز یورپ کے عیسائیوں نے سبز باغ دکھا کر لاکھوں مسلمانوں کی جان لی تھی۔ اپنی اس کامیابی کو منانے کے لیے وہ ہر سال یکم اپریل کو اپریل فول ڈے منانے لگے۔

کچھ کا گمان ہے کہ رومی، بہار کی آمد پر یکم اپریل کو شراب کے نشے میں الٹ پٹانگ حرکتیں کرتے تھے اور لوگوں کو بیوقوف بناتے تھے۔ وہاں سے یکم اپریل کو لوگوں کو بیوقوف بنانے کی رسم چل پڑی۔

اس دوڑ میں آج کل سب ہی شامل ہیں۔ کئی اخبار تو اس دن کی مناسبت سے کوئی جھوٹی، سنسنی خیز خبر بھی شائع کردیتے ہیں اور آخر میں اپریل فول لکھ دیتے ہیں یا پھر اگلے روز ایک معذرتی خبر شائع کر دیتے ہیں۔

میں بھی جب بچہ تھا تو ایک بار گلاب کے پھول میں سرخ مرچیں رکھ کر اپنی استانی کو دے کر انہیں اپریل فول بنایا۔ جب استانی نے پھول سونگھنے کے لیے ناک کے قریب کیا تو سرخ مرچوں کی حدت اور تیکھے پن سے ان کو چھینکیں آنے لگیں۔ انہیں تکلیف میں دیکھ کر میں بہت خوش ہوا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ احساس ہوا کہ میرا وہ قدم کتنا غلط تھا۔ آج بھی میں اپنی ان استانی صاحبہ سے معذرت کرتا ہوں۔ اس دن کے بعد میں نے آج تک اپریل فول نہیں منایا۔

ہم پاکستانیوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا تاکہ آزادی سے اس ملک میں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں اور آج ہم یہاں یہودیوں کے تہواروں کو بڑے شوق سے مناتے ہیں۔

یکم اپریل کو ہم لوگوں کو بیوقوف بنا کر ہنستے ہیں۔ اس دن ہم خصوصی طور پر لوگوں کو بیوقوف بنا نے کی پلاننگ کرتے ہیں، بہت سے معصوموں کو اپنے مزاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ایک بار بھی یہ نہیں سوچتے کہ اگلے شخص پر کیا بیت رہی ہوگی۔ بس ایک عجیب سا تہوار بنا ہے اس پر عمل کیے جارہے ہیں۔

یاد رکھیں کہ  نبی آخرالزماں ﷺ کا ارشاد ہے کہ اس شخص کے لیے بربادی ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے۔

جھوٹ کے بارے میں حضرت علی کا ارشاد ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے عظیم خطا جھوٹی زبان ہے۔

اس سے اندازہ لگائیں کہ جھوٹ کتنی بڑی برائی ہے اور سوچیں کہ آپ کے شغل میلے میں آپ اپنی آخرت کا کیا سامان کررہے ہیں۔ مت بھولیے خدا کی نظر میں سب سے بڑا گناہ بھی وہی ہوتا جس کو کرنے کے بعد ابن آدم توبہ کی بجائے اکڑتا ہے اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ ہم اتنے بے شرم تو نہ تھے کبھی، نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔

بہرحال اپریل فول سیدھے لفظوں میں جھوٹ، دھوکے اور فریب کا نام ہے۔ جھوٹ ساری برائیوں کی جڑ ہے اور جھوٹ بولنے والو! سن لو قرآن میں اللہ پاک نے تم لوگوں کے لیے لعنت کا لفظ استعمال کیا ہے۔

آئیں آج مل کر ایک عہد کریں کہ ہر وہ کام ترک کردیں گے جو اللہ کی نافرمانی کا باعث ہو، چاہے اس کام میں لذت کیوں نہ ہو۔ زرا سوچیں اس چار دن کی دنیا میں معمولی سی خوشی کے لیے نہ ختم ہونے والی آخرت کیوں خراب کریں؟ اپریل فول ایک برائی ہے اور ہمیں اس سے بچنا ہوگا، وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ!

 

The post اپریل فول ایک برائی ہے اور ہمیں اس سے بچنا ہوگا appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2pTjIBw

مُنافقین بھلا کیا سمجھ سکیں گے مجھے!

اس قوم کا المیہ ہے کہ  ہر چیز کے پیچھے یہ قوم کوئی نہ کوئی یہودی سازش  تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتی ہے اور یہودیوں کو  اس سازش کا سرے سے علم ہی نہیں ہوتا۔ ہماری قوم  اس سچ کو کبھی تسلیم نہیں کرتی جو کہ آنکھوں کے سامنے چل پھر رہا ہوتا ہےکیونکہ شاید اس قوم نے حق کے لباس کو جہالت کے صندوقوں میں قید کر دیا ہےاور نفرت پسندی  کے چولے زیب تن کر لئے ہیں۔

بقول فریحہ نقوی،

یہ جو حق پر ڈٹی ہوئی ہوں میں
غاصبوں کو لڑی ہوئی ہوں میں

چھ برس بعد سوات کی گل مکئی وطن واپس آئیں ، ان کی آمد کی خبر باخبر حلقوں کو پہلے سے تھی لیکن سیکیورٹی حالات کے پیشِ نظر اس کو صیغہءِ راز میں رکھا گیا تھا۔ ملالہ کے آنے کی  دیر تھی کہ سوشل میڈیا پر غُل مچ گیا۔  بہت سے لوگ ایسے تھے جنہوں نے اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور اسے خوش آمدید کہا، جبکہ چند گنے چنے ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنی بھڑاس اور نفرت کا اظہار کیا۔ ان کی نفرت  کی وجہ صرف یہ ہی تھی کہ ملالہ آج اس مقام پر ہے جس کے وہ خواب دیکھا کرتے تھے یا شاید یہ کہ ملالہ طالبان کے اس حملے میں بچ گئی اور غدار بن گئی۔

وہ ملالہ جس کو ظالموں نے تعلیم حاصل کرنے سے روکا تو اس نے جھکنے سے انکار کر دیا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ ان سب کے بعد بھی ملالہ نہیں ہٹی۔  ملالہ، وہ محاذ جسے تعلیم کہتے ہیں ، پر ڈٹی رہی اور غاصبوں کے ساتھ لڑتی رہی۔

خیر جس دیس میں، مولانا عبد العلیٰ مودودی کو غدار کہا جاتا ہو، سر ظفر اللّٰہ خان کو ان کے عقیدے کی وجہ سے غدار کہا جاتا ہو، محترمہ فاطمہ جناح کو غدار کہا جاتا ہو، باچا خان کو غدار کہا جاتا ہو، جس ملک میں وہ مجیب الرحمان جو پاکستان بنانے والوں میں شامل تھا اسے غدار کہا جاتا ہو، اس ملک میں  غدار کہلانا تہمت نہیں اعزاز ہوا کرتا ہے۔

وہ وقت جب طالبان کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے تمام بہادر لوگوں کی زبانیں کانپ جاتی تھیں، اس وقت ملالہ نے پندرہ سال کی عمر میں بی بی سی کے لئے ڈائری لکھی۔ جس کی پاداش میں اسے اسکول سے واپسی پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس کی آواز روکنے کی کوشش کی گئی  لیکن وہ آواز سوات سے نکل کر دنیا بھر میں گونجنے لگی۔ ملالہ پر ہونے والے حملے تک کو فراڈ کہا گیا لیکن ملالہ کسی لوہے کی مانند ڈٹی رہی، اس نے اپنی توانائی لوگوں کو جواب دینے میں صرف نہیں کی۔ وہ چند ناکام حلقے تنقید ہی کرتے رہے اور ملالہ کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی چلی گئی۔

اس ملالہ نے  وہ سکھروو پرائز بھی حاصل کیا جو کہ نیلسلن منڈیلا نے حاصل کیا تھا۔ اس بہادر لڑکی کا سفر یہاں ہی نہیں رکا، اس نے 2014ء میں نوبل امن انعام بھی حاصل کیا اور اس انعام کے ساتھ ملنے والی رقم، سوات میں ایک اسکول بنانے میں صرف کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔ 2013ء میں اس ملالہ نے اقوام متحدہ میں خطاب کیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔ اسی برس ستمبر میں ملالہ نے ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی  خطاب کیا۔ اکتوبر میں ملالہ نے باراک اوباما سے ملاقات کی اور اس ملاقات میں ملالہ نے ڈرون حملوں کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دسمبر میں ملالہ نے اکسفورڈ یونین سے خطاب کیا۔ 2014ء میں ملالہ نے ورلڈ چلڈرن پرائس جیتا اور 50،000 ڈالر غزہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے عطیہ کر دئیے۔ وہ ملالہ جس نے جب ٹویٹر جوائن کیا تو دنیا کے امیر ترین آدمی بل گیٹس جو کہ خود نجانے کتنے لوگوں کے لئے انسپائریشن ہے اس نے ملالہ کو اپنی انسپائریشن کہا۔ 2013ء، 2014ء اور 2015ء تک ملالہ کو ٹائم میگزین نے دنیا کی پر اثرترین لوگوں کی فہرست میں رکھا۔ 12 جولائی 2015ء کو ملالہ نے اپنی اٹھارویں سالگرہ پر لبنان شامی بارڈر کے قریب، سام کے پناہ گزینوں کے لئے ایک اسکول کا آغاز کیا۔

ملالہ نے ملالہ فنڈ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا جس کا مقصد دنیا بھر میں خواتین کی تعلیم کے لئے کام کرنا ہے، جو کہ ہر سال ایک کروڑ ڈالر خواتین کی تعلیم کے لئے لگا رہی ہے۔ تنقید کرنے والے ملالہ کا موازنہ ولید خان سے تو کرتے ہیں جو کہ اے۔ پی۔ ایس۔ حملے میں زخمی ہوا تھا لیکن یہ نہیں بتاتے کہ وہی ولید خان جب لندن علاج کے لئے گیا تھا، تب ملالہ اور اس کے گھر والوں نے ہی اس کا خیال رکھا تھا۔

ملالہ نے کل وزیر اعظم ہاؤس میں تقریب سے خطاب کیا اور وہ یہ الفاظ کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں، “یہ میرا خواب تھا کہ میں اپنے ملک واپس جاؤں اور امن کے ساتھ بناء کسی خوف کے رہوں۔ میرے والد مجھے کہتے تھے کہ  فرض کرو تم کراچی میں ہو، فرض کرو تم اسلام آباد میں ڈرائیو کر رہی ہو۔” یہ جملے عکاسی تھے اس اذیت کے جو ملالہ نے چھ سال اپنے ملک سے دور رہتے ہوئے اپنے ملک کے لئے کام کرتے ہوئے برداشت کی۔ تقریر کے دوران ملالہ رو پڑیں تب انہوں نے کہا کہ، “میں زیادہ روتی نہیں ہوں۔” ملالہ کا یہ جملہ صادق لگتا ہے کیوں کہ ملالہ نے اتنا تحمل اور برداشت ان جھوٹے الزامات کی طرف دکھائی  دیا جو شاءد اس کا حوصلہ توڑنے کو کافی تھے ۔

ملالہ سے نفرت کرنے والے سطحی لوگ شاید نہیں جانتے کہ وہ ملالہ جسے طالبان کی گولیاں بھی چپ نہیں کروا سکیں اسے طالبانوں کے چاہنے والوں کے لایعنی فقرے کیسے چپ کروا لیں گے؟ ملالہ اس نظریے کا نام ہے جو کسی بھی ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کر دیتا ہے، اس سوچ کا نام ہے جس پر تالے ڈالنا ناممکن ہوتا ہے، اس روشنی کا نام ہے جو دوسروں کے لئے منور ہوتی ہے، اس عزم کا نام ہے جو حق اور باطل کی تفریق کر سکے۔

شاید کہ وہ دن کبھی ہماری تاریخ میں آئے کہ ہم اپنے تعصب اور نظریاتی فرق سے بالاتر ہو کر لوگوں کو دیکھنا شروع کریں، شاید کسی روز ہم وہ نفرت کا راستہ جو ضیاء کی میراث ہے اس سے آگے کچھ سوچیں۔ شاید وہ دن آئے! شاید!

(ملالہ پر حملے کے بعد لکھی گئی ایک نظم)

ملالہ سچ کی شہزادی

ملالہ جہل کی بندوق سے نکلی ہوئی گولی
ترے ماتھے کا جھومر ہے
سنا ہے جب تجھے گولی لگی تو تیرے ہاتھوں میں قلم تھا
قلم کب تھا
علم تھا
بے ریا سچائی کا اونچا علم
ہم جس کے سائے میں اکھٹے ہیں
ملالہ سب زبانیں گنگ تھیں
کچھ مصلحت کچھ خوف کے دھاگے سے لب سلوائے بیٹھے تھے
وہی جو اپنا سینہ ٹھونک کر کہتے تھے حق ہم ہیں
انہی ہونٹوں پہ تالے تھے
زبانیں خشک آوازیں حلق میں کھو گئیں تھیں
جھوٹ کے سارے پیامبر خوف کے غاروں میں دبکے تھے
خدا کے نام لیوا جبر کی تعظیم کو سجدے میں تھے
جب تیری پیشانی سے ٹپکے خون کے قطروں نے للکارا
اٹھو کیا دیکھتے ہو
کہو کہہ دو
کہ ہم اس جھوٹ سے بیزار ہیں
اس جبر کا انکار کرتے ہیں
ہمیں سچ سے محبت ہے
تمہارا دین کیا حیوانیت ہے،  بربریت ہے
یہ گالی اور گولی کا چلن کیا ہے؟
شریعت ہے؟
ملالہ جاگ جائو،  یہ علم تھامو
تمہاری ایک پیشانی تھی جس نے جبر کو سجدہ روا رکھا نہیں تھا
ہمیں اس کی ضرورت ہے۔۔۔

(سلمان حیدر)

 

The post مُنافقین بھلا کیا سمجھ سکیں گے مجھے! appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2uyPOY0

یہ پیسہ کیا چیز ہے، کھلے نہ اس کا بھید

یہ پیسہ کیا چیز ہے؟

پیسہ ہماری ضرورت ہے، اس کے بغیر زندگی کا پہیہ نہیں چلتا۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، زندگی کی آسائشیں موبائل، گاڑی، بجلی، گیس غرضیکہ سب کچھ پیسے سے ہی خریدنا پڑتا ہے اور اس کیلئے پیسہ کمانا بہت ضروری ہے لیکن ان آسائشوں کے پیچھے بھاگ کر صرف پیسہ ہی کمایا جائے گا تو باقی زندگی کہیں گم ہوجائے گی،

؎ سب سے پہلے دل کے خالی پن کو بھرنا
پیسہ ساری عمر کمایا جاسکتا ہے

بنیادی ضروریات کیلئے پیسہ ساری عمر کمایا جا سکتا ہے، لیکن ایک وقت آئے گا جب عمر اور صحت جواب دے جائیں گی، پوری تندہی کے ساتھ کوئی کام کرنا مشکل ہو جائے گا، بڑھاپے میں آنے والی نسل کو بہتر مستقبل کے بجائے پھر پیسہ کمانے کی بھٹی میں جھونکنا پڑے گا۔ اس لیے بچت بہتر ہے جو مجبوری، حادثہ، یا کسی کی مدد کیلئے استعمال ہوسکے۔

عوام میں انفرادی سطح پر بچت کرنا اور اِس بچت کو منافع بخش اسکیموں میں لگانے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی سطح پر 31 اکتوبر کو یومِ بچت منایا جاتا ہے۔

انفرادی حیثیت میں پیسہ کمانا اور بچانا اس وقت مشکل ہوجاتا ہے جب ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہو۔

پیسہ کسی کی زندگی ، تعلیم و تربیت پر کیسے اثر کرتا ہے ؟پیسہ کیسے لوگوں اور ملکوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے؟ روزگار کے حصول میں یہ کیسے مددگار ہے؟ اور کیسے کتنے پیسوں میں کوئی آجر یا تاجر بن سکتا ہے۔

ان سب سے آگہی فراہم کرنے کیلئے ہر سال مارچ کے مہینے میں global money week بھی منایاجاتا ہے، اس سال ویک کی تھیم تھی۔ ۔ ٹرپل ایم۔ ۔ Money Matters Matter، یعنی پیسوں کے معاملات اہمیت رکھتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ پیسے کی بھی قدر وقیمت ہے۔

اس لیے زندگی، اپنے اردگرد بسنے والوں کی اور آسائشیں فراہم کرنے کے بنیادی عنصر ’پیسہ‘ کی قدر کی جائے۔

؎ کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو

اس سال 137 ملکوں کے 78 لاکھ بچوں اور نوجوانوں نےیہ ہفتہ منایا، 2013ء میں 10 لاکھ نوجوانوں اور بچوں نے گلوبل منی ویک منانے کا آغاز کیا تھا۔

جہاں بچوں کو پیسے کی قدر کرنا، اس کے استعمال اور سیونگ کے طریقے بتائے جا رہے ہیں، وہیں کئی ملک امداد، تعاون اور قرض کے نام پر غریب اور مجبور ملکوں کو ایک خاص شرح سود پر ایک خاص مدت کیلئے پیسہ فراہم کرتے ہیں۔ کچھ شرائط عائد کی جاتی ہیں، دباؤ بڑھایا جاتا ہے، آہستہ آہستہ مجبور ملک کی خطے میں ساکھ متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے، کرنسی ڈی ویلیو ہوجاتی ہے۔

کرنسی کیا ہے؟

کرنسی سے مراد ایسی چیز ہے جس کے بدلے دوسری چیزیں خریدی یا بیچی جا سکیں۔ ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی۔ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں ہر ملک کی اپنی کرنسی اور نام ہے۔

ڈالر

ڈالر کا ماخذ ”جواشمز دالر(Joachimsthaler) ہے۔ یہ اس وادی کا نام ہے جہاں سے چاندی نکال کر سکے بنائے جاتے تھے، بعد میں جواشمز حذف ہو گیا اور صرف ڈالر کہلانے لگا۔

روپیہ

روپیہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی چاندی ہیں۔ پہلی بار 1866ء میں برطانوی سامراج کے دوران یہ نام ہندوستان کی کرنسی کے طور پر متعارف کرایا گیا۔

پاؤنڈ

پاؤنڈ قدیم روم کے وزن کے پیمانے لبرا(Libra) کا انگریزی ترجمہ ہے، اسےمختصراً lb بھی لکھا جاتا ہے۔ یہ برطانیہ میں کرنسی کے نام اور وزن کے پیمانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

جب دوملک آپس میں اشیاء یا خدمات کی خرید و فروخت کرتے ہیں تو ایک دوسرے کی کرنسی کو دنیا میں اس کی قدر سے پہچانتے ہیں، اس کی جانچ پڑتال کے لیے بھی مالیاتی ادارے کام کر رہے ہیں، اور ان کو گلوبل فنانشل مارکیٹس کہاجاتا ہے،

کسی بھی ملک کی کرنسی میں شرحِ مبادلہ کا تعین مقامی مارکیٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں شرحِ مبادلہ طے کرنے کے لیے 2 مارکیٹس ہیں، ایک انٹر بینک مارکیٹ اور دوسری اوپن مارکیٹ۔ انٹر بینک مارکیٹ میں بینکس ڈالر کا آپس میں لین دین کرتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا پاکستانی کرنسی کی سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں بڑی قدر تھی، ایک پاکستانی روپے کا سوا سعودی ریال ملتا تھا اور خلیجی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ درہم ملتے تھے۔ آجکل ہر طرف ڈالر کا رَولا ہے۔ ماضی میں پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ کی طرح قابلِ قدر تھا۔

لیکن پھر!

؎ لائی بے قدراں نال یاری کہ ٹٹ گئی تڑک کرکے

آمر آئے یا جمہوری حکومتیں سب نے روپے کی قدر میں کمی کی اور ڈالر کی قدر بڑھتی ہی چلی گئی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972ء میں پہلی بار روپے کی قیمت کم کردی اور ایک ڈالر 11 روپے کا ہو گیا۔ 1999ء تک ڈالر 51.75 روپے کا تھا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ڈالر 62 روپے تک ٹریڈ کرتا رہا۔ آصف زرداری کی 5 سالہ دورِ حکومت میں ڈالر 98 روپے تک پہنچ گیا۔

جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا، نوازشریف کی حکومت آئی، انہوں نے اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ بنا دیا، امید کی جا رہی تھی، روپےکی قدر مستحکم ہوگی۔ لیکن انہوں نے بیرونی قرضے لے لے کر ڈالر کی مانگ میں اضافہ کیا اور اب عالم یہ ہے کہ امریکی ڈالر پاکستانی روپے کے مقابلے میں اپنی قدر بے پناہ بڑھا چکا ہے۔

گزشتہ دنوں پاکستان کی معیشت کو زبردست دھچکا اس وقت لگا جب صرف ایک دن میں پاکستانی روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں ساڑھے 5 روپے گر گئی۔ ڈالر117 پر پہنچ گیا جب کہ ریال، درہم اور برطانوی پاؤنڈ میں بھی اضافہ ہوا۔

فاریکس ایسوسی ایشن کے صدرکے مطابق اوپن مارکیٹ میں یورو 143 روپے اور برطانوی پاؤنڈ 163 روپے پر آگیا۔ سعودی ریال اور اماراتی درہم 31 روپے کے ہوگئے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے بیرونی قرض بڑھ گیا ہے جبکہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ کا شکار ہیں۔ ایک روپیہ ڈی ویلیو ایشن سے غیر ملکی قرض میں 90 ارب روپے کا اضافہ ہوتا ہے۔ اس طرح پاکستان کے بیرونی قرضوں کے حجم میں 594 ارب روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔

اب تو پاکستانی روپیہ بھی دہائیاں دے رہا ہے، کچھ قدر کرلو!

؎ بے قدر ہیں ظالم کہ تری قدر نہ سمجھے۔ !

روپے کی قدر میں کمی سے سونے کی قیمت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا۔ پاکستان میں سونا سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔

5 سال کے دوران سونے کی فی تولہ قیمت پہلی بار 58 ہزار روپے سے بڑھ گئی ہے۔ ا گر روپے کی قدر میں کمی جاری رہی تو سونے کی قیمت 60 ہزار روپے تولہ سے بھی بڑھ سکتی ہے۔

پاکستان میں موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال سے لگتا ہے کہ ذاتی مفادات کیلئےملکی مفادات کی بلی چڑھائی جا رہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں روپے کو ڈی ویلیو کرنے سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کے رکھے گئے اثاثوں کی مالیت بڑھ گئی ہے اور اگر وہ یہ اثاثے پاکستان میں ظاہر کرتے ہیں تو انہیں فائدہ ہوگا۔

The post یہ پیسہ کیا چیز ہے، کھلے نہ اس کا بھید appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2pUsNtz

India's Gorakhpur hospital: The night the children died

Did lack of oxygen really cause the deaths of 30 children in one night at an Indian hospital?

from BBC News - World https://ift.tt/2GqsdOI

Vermont Legislature Passes Gun-Control Bill

  1. Vermont Legislature Passes Gun-Control Bill  Wall Street Journal
  2. Vermont Legislature Passes Sweeping Gun Restrictions  New York Times
  3. Candidates face the loaded question of gun control  Greensboro News & Record
  4. While Parkland students fight mass shootings, don't forget everyday gun reforms: Bo Dietl  USA TODAY
  5. I've Supported the Second Amendment My Whole Life. It's Time for Reasonable Gun Control  TIMEFull coverage


from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2GmIfcm

Wikipedia article of the day for April 1, 2018

The Wikipedia article of the day for April 1, 2018 is RAF Uxbridge.
RAF Uxbridge (1 April 1918 – 31 March 2010) was a Royal Air Force station in the London Borough of Hillingdon. In the Second World War, it was the headquarters of No. 11 Group RAF, responsible for the aerial defence of London and south-east England during the Battle of Britain. Hillingdon House served as the group's headquarters. What is now called the Battle of Britain Bunker was built nearby to house the 11 Group Operations Room, which was also responsible for air support during the evacuation of Dunkirk in 1940 and the D-Day landings in 1944. It was here that Winston Churchill first said, "Never in the history of mankind has so much been owed by so many to so few", repeating the sentiment to Parliament in a speech four days later. When the Uxbridge station closed in 2010, many of its units moved to nearby RAF Northolt. Much of the land around the River Pinn has been designated as green belt. All listed buildings on the property were retained after redevelopment, including the bunker, which is now a museum.

Saturday, March 31, 2018

Arnold Schwarzenegger 'stable' after heart surgery

The 70-year-old film star has an operation to replace a pulmonary valve at a Los Angeles hospital.

from BBC News - World https://ift.tt/2uxTkSt

Vatican: Pope did not say there is no hell

A top Italian daily did not accurately quote Pope Francis, the Vatican says.

from BBC News - World https://ift.tt/2IgMJh6

Kosovo security chiefs sacked after six Turks deported

There is fury in Kosovo after six alleged opponents of the Turkish president were sent back.

from BBC News - World https://ift.tt/2Gpppgs

Noor Salman: Pulse nightclub shooter's widow not guilty

Noor Salman sobs as a jury clears her of helping her husband kill 49 people at the Pulse venue.

from BBC News - World https://ift.tt/2E3X1Pb

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny