Tuesday, July 31, 2018
‘Lopping,’ ‘Tips’ and the ‘Z-List’: Bias Lawsuit Explores Harvard’s Admissions Secrets
By ANEMONA HARTOCOLLIS, AMY HARMON and MITCH SMITH from NYT U.S. https://ift.tt/2NTkTKx
Monday, July 30, 2018
جا بیٹا اللہ تمہیں پٹواری کر دے
یہ پٹواریوں کی بڑائی کی منہ بولتی دعا ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے واقعہ ذکر کیا ہے جس میں وہ کسی بڑھیا کے کام آئے تھے بطور ڈی سی اور مائی نے اُسے دعا دی تھی کہ بیٹا تم پٹواری لگ جاؤ۔
اگر قدرت اللہ شہاب بیورو کریٹ نہ ہوتے یقیناًمائی کی پر خلوص دعا سے پٹواری لگ جاتے اور پھر اُنہیں عملی طور پر معلوم ہو جاتا کہ پٹواری کیا ہے۔ اس لفظ پٹواری کے ماخذ کا علم تو کسی صاحبِ علم کو ہی ہو سکتا ہے البتہ ہمیں پٹواریوں کے پاس موجود دولت کے انباروں کے ماخذ کا بخوبی علم ہے۔
کوئی ایسا پٹواری ہو جس نے اپنے ماتحت نہ رکھے ہوں وہ سامنے آجائے۔ وہ ماتحت اُس کے حلقہ گرد اور کے سائز اور زمینداروں کی زمین کی وسعت کے لحاظ سے رکھے جاتے ہیں۔ اُنہیں جناب پٹواری خود ہی تنخواہ دیتے ہیں اور وہ کہاں سے یہ رقم لیتے ہیں، آپ پٹوار خانے جا کر دیکھ لیں خود معلوم ہو جائے گا۔
اصل پٹواری کو بعض مرتبہ اُس حلقے کا قانون گو بھی نہیں پہچان پاتا اور تحصیل دار صاحب نے تو خیر کیا ہی پہچاننا ہوتا ہے۔ کبھی کسی قانونی آفیسر کے دفتر میں اکٹھے ہو جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ میں جس شخص کو علاقے کا عوامی نمائندہ سمجھ رہا تھا وہ تو میرا ماتحت پٹواری ہے۔
منتحصلی بھی عموماً پٹواری صاحب کا معتمد خاص ہی پہنچا دیتا ہے اور اُسی کو اصل پٹواری سمجھ لیا جاتا ہے۔ چند ایک ایسے پٹواری ہو گزرے ہیں جو کہ قانون کی نظروں میں آئے صرف اسی وجہ سے کہ انہوں نے زیادہ لالچ کیا اور حق داروں کو اُن کا حصہ نہیں دیا اور کُھڈے لائن لگ گئے۔ جو پٹواری ہیں سرکاری مشینری کے پیٹرول کے پیسے ادا کرتا رہتا ہے وہ جتنی مرضی لوٹ مار کرلے کبھی نہیں پکڑا جاتا۔ ہاں اگر کسی بڑے افسر کی گاڑی سے پیٹرول ختم ہو جائے یا اُس کی جیب سے رقم تو پٹواری کو وہاں جا کر اُس کی مدد ضروری کرنا پڑتی ہے۔
پٹواری کی ذمہ داریاں اور فرائض تھوڑے سے ہی نظر سے گزرتے تھے کہ ہمارے اوپر چودہ طبق روشن ہو گئے اور ہم بھی پٹواری کے طرفدار ہوگئے کہ اُسے اپنے ہاتھوں ہی سے کام چلانا چاہئیے۔ ذمہ داریاں اور فرائض پورے ہوں یا نہ ہوں پٹواری کے اختیارات کو اعلیٰ عدالتیں بھی ماننے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
گورنر امیر محمد خاں کو ’ڈھڑلے‘ والا گورنر کہا جاتا ہے۔ اُن کی زندگی کا ایک واقعہ نطروں سے گزرا تو پٹواریوں کی عظمت کا اندازہ ہوا کہ یہ بغیر مہر کے افسر کس قدر طاقت ور ہے۔ گورنر صاحب مذکور نے پٹواری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی زمینوں کا کوئی مسئلہ یا تنازعہ حل کروانا چاہا۔ کیس اعلیٰ عدالت تک گیا اور اعلیٰ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ پٹواری حلقہ مذکور رپورٹ کرے۔
اب اس پٹواری سے گورنر صاحب کو پر خاش تھی یا وہ اپنی گورنری کے رعب میں تھے۔ اُنہوں نے اُس پٹواری کو کچھ نہ جانا۔ کیس از سر نو چلا۔ عدالت نے پھر یہ فیصلہ دیا کہ پٹواری رپورٹ کرے۔
علیٰ ہذالقیاس گورنر صاحب کے کسی دوست نے پٹواری کو 500 روپے دئیے اور رپورٹ کروائی۔ اُس وقت گورنر صاحب کو بھی غالباً وہ مائی یاد ضرور آئی ہو گی جس نے ڈی سی کو کہا تھا کہ بیٹا تم پٹواری لگ جاؤ۔
آج ہم کتابیں کھنگالتے ہیں اور ہمیں لفظی خزانوں کے سوا کچھ نہیں ملتا مگر پٹواری صاحب صرف کتاب کھولتے ہیں اور اصلی خزانے مل جاتے ہیں۔ ہم بھی کسی ایسی مائی کی تلاش میں ہیں جو ہمیں بھی دعا دے کہ جا بیٹا اللہ تجھے پٹواری لگا دے۔
The post جا بیٹا اللہ تمہیں پٹواری کر دے appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2NRZJN6
طیفا ان ٹربل۔ ۔ ہیں جی؟ ہاں جی۔ ۔
فلم “طیفا ان ٹربل” میں صرف تین چیزیں ہیں ایک علی ظفر، دوسرا لاہور اور تیسری جگتیں۔ اگر آپ کو لاہور سے محبت ہے تو “طیفا ان ٹربل” آپ کو بہت پسند آئے گی۔ بھاٹی کاایک محلہ بلکہ صرف ایک گلی، فوڈ اسٹریٹ اور شاہی قلعہ کے عقبی دروازے کے ساتھ چلتا ہوا روڈ صرف انہی تین مناظر میں پورا لاہور اور اس کا عکس دکھایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کو لاہور کا کچھ نظر نہیں آئے گا۔ البتہ فلم کے اختتام پر کیمرہ لاہور ریلوے اسٹیشن تک ضرور پہنچ جائے گا۔ کئی مناظر پولینڈ میں فلمائے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی فلم لاہور کی محبت اور لاہوری ڈائیلاگ سے بھری پڑی ہے۔
پاکستانی فلم تکنیکی لحاظ سے بہت بہتر ہوچکی ہے اور طیفا ان ٹربل نے یہ بات کسی حد تک ثابت بھی کردی۔ فلم دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ علی ظفر اور احسن رحیم نے گرافکس کا بہترین استعمال کیا ہے۔ گرافکس اتنے شاندار تھے کہ ایک سین میں ہیرو ہیروئین ٹرین سے چھلانگ لگاتے ہیں اور سیدھے دریا میں گرتے ہیں جس کا پانی مٹیالا ہونے کے بجائے اتنا شفاف اور نیلا ہوتا ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ چھلانگ کسی پاکستانی نہیں بلکہ پولینڈ کے دریا میں لگائی گئی ہے۔
فلم کی ایک اور انفرادیت لینڈ اسکیپ کا نیا ہونا ہے۔ فلم میں لاہور کا تو کچھ ہی حصہ دکھایا گیا لیکن اس کے بعد پولینڈ کے حسین اور دلکش مناظر دل جیت لیتے ہیں۔ فلم کی لوکیشنز، کاسٹیومز، سینماٹوگرافی اور کیمرہ ورک اتنا شاندار ہے کہ سکرین سے نظر ہٹائے نہ ہٹے۔ ایک اچھی بات یہ کہ فلم میں موجود انگریزی جملوں کی سب ٹائٹلنگ بھی کی گئی ہے جس سے مجھ جیسے فلم بینوں کو بڑا فائدہ ہوا۔
کہانی بہت ڈھیلی ڈھالی ہے جس کی وجہ سے فلم پہلے ہاف میں اتنی تیز چلتی ہے کہ آپ پکڑ ہی نہیں پاتے کہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ آگے کیا ہوگا اور آخر ہونا کیا چاہئے وغیرہ وغیرہ لیکن اس بے یقینی کی صورتحال میں بھی فلم میں موجود ٹھیٹ لاہوری زبان اور جگتیں آپ کو بور نہیں ہونے دیتیں۔ جس طرح لاہوری لوگوں کے “ر” اور”ڑ” کو پیش کیا گیا ہے وہ بھی شاندار ہے۔ اگر فلم میں بہترین لوکیشنز اور کیمرہ ورک کے علاوہ کچھ ہے تو وہ جاندار ڈائیلاگ ہیں۔ فلم میں کہانی سے کہیں زیادہ ڈائیلاگ پر فوکس کیا گیا ہے۔
ہدایات احسن رحیم نے دی ہیں۔ احسن رحیم آج کل اشتہارات بنا رہے ہیں اور جیسے وہ اشتہار بنا رہے ہیں بالکل اسی طرح انھوں نے فلم کی ڈائریکشن دی ہیں۔ اگر آپ نے فواد خان کا چپس والا اشتہار دیکھا ہے تو آپ کو لاہور میں فلمائے گئے مناظر سے اندازہ ہو جائے گا کہ ہدایات احسن رحیم نے ہی دی ہیں۔
اگر اداکاری کی بات کی جائے تو علی ظفر نے اپنا کردار بخوبی نبھایا لیکن ہیروئن مایا علی بہترین تاثر چھوڑنے میں ناکام رہیں۔ کئی بار تو ایسا ہی لگا جیسے وہ فلم میں نہیں ڈارمے میں کام کر رہی ہیں۔ جاوید شیخ نے بھی اچھا کام کیا لیکن یہ ایسا ہی تھا جیسا وہ ہمیشہ کرتے ہیں، نیا کچھ بھی نہیں تھا۔ فلم کا زیادہ تر فوکس علی ظفر ہی تھے لیکن اس کے باوجود فیصل قریشی نے اپنی شاندار اداکاری سے ناظرین کی تمام تر توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔
اگر بات موسیقی کی جائے تو علی ظفر نے اس میں بھی کمال کر دیا۔ فلم میں موجود چھ کے چھ گانے علی ظفر نے گائے ہیں، ان کے علاوہ آئمہ بیگ نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ کئی گانوں کو تو شاندار پذیرائی بھی ملی۔ بیگ گراونڈ موسیقی میں شانی ارشد نے شاندار مہارت کا مظاہرہ کیا۔ اگر کہیں بھی کچھ کمی تھی تو وہ تھی گانوں کی شاعری، جس نے سامعین کو کچھ محظوظ نہیں کیا۔ ظاہر ہے جب آپ فلم سازی بھی کریں، کہانی بھی لکھیں اور موسیقی کے ساتھ ساتھ شاعری بھی خود ہی کریں تو آپ سب کہیں نہ کہیں مار کھا جائیں گے۔ علی ظفر اور دانیال ظفر نے مل کر شاعری کی اور اپنا منفی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نظر آئے۔
علی ظفر نے اپنی چارمنگ لک سے بالی ووڈ میں جو جادو جگایا ہے وہ طیفا ان ٹربل میں نہیں جگا سکے اور اس کی بڑی وجہ علی ظفر کا میک اپ یا گیٹ اپ ہے۔ طیفا ان ٹربل میں آپ علی ظفر کی چارمنگ لک کہیں نہیں ملے گی سوائے ایک گانے میں موجود چند مناظر کے۔ فلم میں علی ظفر نے ایکشن کو بھی بہترین انداز میں فلمایا اور احساس دلایا کہ یہ پاکستانی فلم جلد ایک نئے رخ پر چلے گی۔
فلم میں ایک ڈائیلاگ ہے کہ” لڑکی میں مصالحے پورے ہیں” بالکل اسی طرح فلم میں بھی مصالحے پورے ہیں۔ فلم بہترین بزنس بھی کرے گی بلکہ ایک نیا ٹرینڈ بھی بنے گی۔ ” ہیں جی؟ ہاں جی”
The post طیفا ان ٹربل۔ ۔ ہیں جی؟ ہاں جی۔ ۔ appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2LLptNK
California wildfires claim more lives; crews make progress
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2M0eRY6
Trump kicks off Sunday with flurry of tweets
|
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2vcC7eh
GOP Faces Another Midterm Threat as Trump Plays the Shutdown Card
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2NRyX7y
Ginsburg suggests she has at least five more years on the Supreme Court
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2uWMqny
TSA surveillance program criticized for tracking American citizens
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2LO832T
Second firefighter dies in Ferguson Fire; some Yosemite businesses face 'sad' reality
|
from More Top Stories - Google News https://ift.tt/2Anrues
May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus
By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny
-
پشاور: وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری کا کہنا ہے کہ صاحب استطاعت لوگ ہی حج کرتے ہیں اور جس کے پاس پیسے ہوں وہ حج کے لیے جائے گا۔...
-
In an interview, the White House press secretary says Donald Trump had divine support. from BBC News - World https://bbc.in/2Bm9a3B
-
Consumer Reports reveals its Top 10 picks for the best vehicles of 2019. It's an influential annual list that serves as a guide for many...