Wednesday, October 31, 2018

Uber appeals against drivers' rights to pay and holiday

The taxi-hailing app appeals against a ruling its drivers should be treated as workers, not self employed.

from BBC News - Technology https://ift.tt/2CPpTh9

Budget 2018: Tech giants face digital services tax

Chancellor Philip Hammond plans to tax the sales that digital giants generate in the UK.

from BBC News - Technology https://ift.tt/2z9Szht

Dad creates VR world to help daughter

Craig Chaytor's 360° videos were inspired by his daughter's learning difficulties.

from BBC News - Technology https://ift.tt/2JrGeKl

شہباز شریف کے راہداری ریمانڈ میں 6 نومبر تک توسیع

اسلام آباد: احتساب عدالت نے شہبازشریف کے 9 نومبرتک راہداری ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کے راہداری ریمانڈ میں 6 نومبر تک توسیع کردی۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کو احتساب عدالت کی جانب سے دیا گیا راہداری ریمانڈ ختم ہونے پر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا، قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کیا، جج محمد بشیر نے استفسار کیا کہ آپ کو یہاں کیوں پیش کیا گیا ہے جس پر شہباز شریف نے کہا کہ مجھے نیب والے لے کر آئے ہیں۔

شہباز شریف نے عدالت سے استدعا کی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 9 نومبر تک چلے گا اور اس دوران مجھے لاہور لے جاکر واپس لایا جائے گا، مجھے کمر درد کا مسئلہ ہے لہذا مجھے ایک ہی بار 9 نومبر تک راہداری ریمانڈ دیا جائے۔

نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے ہیں اور جسمانی ریمانڈ میں صرف متعلقہ احتساب عدالت ہی توسیع کرسکتی ہے۔ عدالت نے شہباز شریف کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ان کے راہداری ریمانڈ میں 6 نومبر تک توسیع کردی۔

The post شہباز شریف کے راہداری ریمانڈ میں 6 نومبر تک توسیع appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2yGPZQq

مصباح الحق پی ایس ایل فور سے آؤٹ

لاہور: اسلام آباد یونائٹیڈ کو دوبار چیمپئن بنانے والے سابق کپتان مصباح الحق پاکستان سپر لیگ میں اس بار بطور بلے باز ایکشن میں نہیں ہوں گے ان کی جگہ نیا کپتان مقرر کیا جائے گا۔

پی ایس ایل فور کے لئے دو بار کی چیمپئن اسلام آباد یونائٹیڈ نے کافی حد تک اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، تاہم سابق کپتان مصباح الحق اس بار پی ایس ایل فور میں بطور بلے باز ایکشن میں نہیں ہوں گے ان کی جگہ نیا کپتان مقرر کیا جائے گا۔ اسلام آباد یونائٹیڈ نے کوچ توصیف احمد کی خدمات لینے سے بھی معذرت کرلی ہے۔

سابق کپتان مصباح الحق نے پی ایس ایل کے تین ایڈیشنز میں اسلام آباد  یونائٹیڈ کی نمائندگی کی، مصباح کی نمائندگی میں  پی ایس ایل کے دو ایڈیشنز میں فرنچائز نے ٹائٹل اپنے نام کیا۔ چوتھے ایڈیشن میں مصباح الحق اسکواڈ میں شامل نہیں ہوں گے مصباح الحق اورفرنچائز کے درمیان کوئی اور عہدہ دینے کے لئے بات چیت جاری ہے۔

ذرائع کے مطابق مصباح الحق کو  فرنچائز مینٹور کی حیثیت سے ساتھ رکھنا چاہتی ہے، مالی معاملات طے ہونے کے بعد عہدے کا اعلان کیا جائے گا۔ چوتھے ایڈیشن میں توصیف احمد بھی کوچنگ اسٹاف میں شامل نہیں ہوں گے۔ سابق آف اسپنر سعید اجمل کوچنگ اسٹاف کا حصہ ہوں گے۔ فرنچائز توصیف احمد کی خدمات سے دستبردار ہو گئی ہے اس حوالے سے باقاعدہ اعلان چند روز میں متوقع ہے۔

The post مصباح الحق پی ایس ایل فور سے آؤٹ appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2DdRLwu

آئی جی تبادلہ کیس؛ چیف جسٹس نے فواد چوہدری کے بیان کا نوٹس لے لیا

 اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آئی جی تبادلہ کیس سے متعلق فواد چوہدری کے بیان پرنوٹس لے لیا۔

ایکسپریس نیوزکے مطابق  چیف جسٹس ثاقب نثارنے گزشتہ روزوفاقی وزیربرائے اطلاعات ونشریات فواد چوہدری کے آئی جی کے تبادلے سے متعلق بیان پر نوٹس لیتے ہوئے انہیں فوری طورپرطلب کرلیا ہے۔

چیس جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری نے گزشتہ روزغیرذمہ دارانہ بیان دیا، انہوں نے زومعنی بات کی جب کہ فواد چوہدری کا بیان عدالتی کارروائی کا حوالے سے تھا، فواد چوہدری نے کہا کہ الیکشن کرانے کی کیا ضرورت ہے انہیں بلائیں میں بتاتا ہوں کہ کیا ضرورت ہے۔

اس خبرکوبھی پڑھیں: وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو الیکشن کا کیا فائدہ، وزیراطلاعات

چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری کو جن باتوں کا علم نہیں نہ کیا کریں، انہوں نے شاید عدالت کونشانہ بنایا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو وضاحت کے لیے بلایا جائے، دیکھیں گے پردے کے پیچھے کون ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ریاست کا ترجمان ایسا ہوتا ہے، فواد چوہدری نے عدلیہ کی تضحیک کی، اعلی ترین انتظامی عہدے کوبھی کوئی لامحدود اختیار نہیں، وزیراعظم اورکابینہ کو انتظامی فیصلوں کا مکمل اختیار ہے لیکن خلاف قانون اقدامات پر سوال پوچھیں گے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس میں کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی نہیں کہ نکال دو یا ہتھکڑیاں لگا دو۔

دوسری جانب سپریم کورٹ نے وفاقی وزیرسائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کو بھی طلب کرلیا اورکہا کہ اعظم سواتی ٹی وی پر کہتے پھرتے ہیں کہ عدالت کو وضاحت دوں گا تو وہ آج عدالت کیوں نہیں آئے۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ کیا چیف جسٹس وفاقی وزراء کے فون اٹھانے کے پابند ہیں، ایسے وزیر کو کیوں نہ جیل بھیج دیا جائے، بھینس کا قصہ بنا کرآئی جی کو تبدیل کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ فواد چوہدری نے گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر وزیراعظم آئی جی کو بھی معطل نہیں کرسکتا تو پھر وزیراعظم منتخب کرنے اورالیکشن کرانے کا کیا فائدہ ہے، بیورو کریٹس کے ذریعے ہی حکومت چلالیتے۔

The post آئی جی تبادلہ کیس؛ چیف جسٹس نے فواد چوہدری کے بیان کا نوٹس لے لیا appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2PBHzUo

ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے

کیمبرج شہر میں تیسرا یا چوتھا دن تھا جب یونیورسٹی کے قدیم ترین کیمپس ’’ہارورڈ یارڈ‘‘ میں موجود لائبریری میں جانا ہوا۔ مطلوبہ کتاب تک پہنچانے کےلیے ایک نوجوان لائبریرین میرے ساتھ لائبریری کی بیسمنٹ تک گئی۔ حسب عادت لفٹ میں اس سے کچھ ذاتی بات چیت ہوئی اور اس نے بتایا کہ وہ خود بھی ہارورڈ کی اسٹوڈنٹ ہے اور اس نے ہارورڈ اس لیے جوائن کی ہے کہ وہ ٹیچر بننا چاہتی ہے۔ میں نے اپنے پورے پروفیشنل کیریئر میں سب سے زیادہ جو کام کیا ہے، وہ ٹیچنگ ہے۔ اور اب بھی الحمدللہ کسی نہ کسی شکل میں تدریس کر رہی ہوں۔ اس کے باوجود میرے لیے یہ امر تعجب کا باعث تھا کہ کہ کوئی ہارورڈ جیسی یونیورسٹی میں محض ٹیچر بننے کےلیے پڑھنا چاہے گا۔

کیمپس میں ایک ہفتہ گزرنے کے بعد 22 جون کو کلاسز شروع ہوئیں تو فیچر رائٹنگ کی کلاس میں پہلا اسائنمنٹ اپنے کسی کلاس فیلو کا انٹرویو کرنا تھا جسے ایڈٹ کرنے کے بعد جمع کروانا تھا۔ کلاس میں میرے نزدیک شرلے بیٹھی تھی جس کی چپٹی ناک سے اس کی چینی قومیت کا پتا چلتا تھا۔ ہم نے طے کیا کہ ہم ایک دوسرے کا انٹرویو کریں گے۔ 33 سالہ شرلے سے طے شدہ وقت پر ہارورڈ یارڈ ہی میں ایک مقام پر ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اس کے ماں باپ نے تائیوان سے نقل مکانی کی تو اس کی عمر 13 سال تھی۔ شرلے نے کیلیفورنیا یونیورسٹی سے کمپیریٹیو لٹریچر (تقابلی ادب) میں ماسٹرز کیا اور پھر ایک سال آکسفورڈ یونیورسٹی میں گزارا جہاں اس نے بیسویں صدی کا انگلش لٹریچر پڑھا۔ شرلے کا کہنا تھا کہ اس نے دوسرا ماسٹرز ہارورڈ سے ایجوکیشن میں اس لیے کیا کہ وہ ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ شرلے کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ دوسرا ماسٹرز کرکے فارغ ہوئی، گورنمنٹ نے تعلیم کے بجٹ میں کچھ کمی کر رکھی تھی اور ٹیچرز کےلیے مواقع کم تھے اس لیے اس نے یونیورسٹی کے ایک ادارے میں ملازمت اختیار کی جو غالباً چین سے متعلق معاملات پر ریسرچ کرتا ہے۔ درمیان میں اس نے نسل پرستی کے خلاف لکھنے والے ایک معروف مصنف کی پرسنل ایڈیٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ لیکن اس کا کہنا تھا کہ اس کی آئیڈیل ملازمت ٹیچنگ ہی ہے۔ یہ دوسرا شاک تھا جو مجھے لگا۔

گزشتہ دنوں جب سرگودھا یونیورسٹی کے پروفیسر اور یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی گرفتاری کی خبریں اور تصویر سامنے آنا شروع ہوئیں تو مجھ سے رہا نہ گیا اور اس موضوع پر زندگی کے تجربات و مشاہدات کو قرطاس پر رقم کرنے کی خواہش ہوئی۔ میرے والد کا پورا پروفیشنل کیریئر ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہوئے گزرا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تقریباً دس سال تک اسی یونیورسٹی میں تدریس کرتے رہے۔ ہم نے گھر میں بھی ہمیشہ انہیں کتابیں پڑھتے ہی دیکھا۔ لیکن میں نے اپنی انجینئرنگ کی تعلیم سے فارغ ہو کر تدریس سے وابستہ ہونا چاہا تو ابّو نے ہی مجھے اس سے روکا۔ بعد ازاں میرا شوق دیکھتے ہوئے اجازت دے دی۔

مجھے یاد ہے سرسید یونیورسٹی آف انجینرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کینپ کراچی، سینٹر فار نیوکلیر اسٹڈیز اسلام آباد، یہ تین آپشن میرے پاس تھے جن میں سے میرا انتخاب سرسید میں تدریس تھا کہ میرا دل صرف اور صرف ٹیچنگ میں تھا جو آج بھی ہے۔ سرسید میں تدریس کے دوران کیا تجربات ہوئے، ان پر ان شاللہ کبھی تفصیل سے لکھوں گی۔ لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیلینٹڈ پڑھنے اور پڑھانے کے شوقین نوجوان جو دوسری مراعات والی ملازمتیں ٹھکرا کر تدریس کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے ساتھ معاشرے کا اور خود یونیورسٹی کی انتظامیہ کا کیا رویہ ہے؟ اس کا تجربہ مجھے بہت جلد ہوگیا۔

گو کہ گزشتہ چند دہائیوں میں سرکاری شعبوں کے علاوہ پرائیویٹ سیکٹر میں بھی ٹیچرز کو دی جانے والی مالی مراعات میں بہت اضافہ ہوا ہے لیکن ٹیچرز کے ساتھ حوصلہ شکن رویہ ان اسباب میں سے ایک ہے کہ جن کی وجہ سے ہمارے ذہین ترین باصلاحیت بچے (جنہیں میں ’’اے کلاس‘‘ کہوں گی) امریکا کے طلبہ کی طرح تدریس کے شعبے میں جانا نہیں چاہتے بلکہ ڈاکٹر، انجینئر، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ یا بینکر بن کر قوم کی خدمات کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیچنگ کےلیے ہمارے پاس وہ افرادی قوت بچتی ہے جسے ان شعبوں میں داخلہ نہ مل سکا ہو اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جو فیکٹریز ہمارا مستقبل مینوفیکچر کر رہی ہیں، اس کی مشینری 99 فیصد زنگ زدہ اور انتہائی ناقص ہے۔ قسمت سے کوئی پڑھنے لکھنے کا شوقین اس شعبے میں آجائے تو خیر، ورنہ عمومی صورت حال یہی ہے۔

اور اس کا لازمی نتیجہ پی ایچ ڈی تک کے طلبہ کی استعداد دیکھ کر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ایک مضمون روزنامہ جنگ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہوں نے بیرون ملک زمانۂ طالب علمی کے ایک واقعے کا تذکرہ کیا جس کے مطابق پاکستان کی ایک بہت اچھی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل انجینئر کو اپنے شعبے کے کسی معمولی پروسیس کا عملی تجربہ نہ تھا۔ ڈاکٹر قدیر کا کہنا تھا کہ اس میں اس انجینئر کا کوئی قصور نہیں تھا۔ میں ڈاکٹر قدیر سے پوری طرح متفق ہوں۔

خود مجھے کراچی آئی بی اے میں پی ایچ ڈی کورس ورک کے دوران اندازہ ہوا کہ ریاضی سے متعلق بہت سے بنیادی تصورات میرے اپنے ذہن میں واضح نہیں تھے۔ میں نے پی ایچ ڈی کورس ورک کے دوران آئی بی اے میں اپنے اساتذہ کی مدد سے اسکولوں کے نصاب کو از سر نو پڑھ کر اپنی اصلاح کی۔ آج میں جائزہ لیتی ہوں تو پورے اسکول کی تعلیم کے دوران چند ایک کے علاوہ کسی استاد نے بھی ریاضی پڑھانے کی کوشش نہیں کی؛ کیونکہ خود ٹیچرز کے اپنے تصورات درست نہیں ہوتے تھے کہ وہ بھی اسی سسٹم کے ستائے ہوئے تھے۔ بیشتر اساتذہ بورڈ پر سوالات اتار کر مطمئن ہوجاتے ہیں جبکہ بچوں کے والدین یا ٹیوٹر انہیں رٹا لگوا کر اور ان کے اچھے نمبر دیکھ کر۔ اب شاید اشرافیہ کے بچوں کے اسکولوں میں کچھ تبدیلی آئی ہے مگر ایک عام پاکستانی بچے کےلیے عمومی حالات اس سے زیادہ بد تر ہیں۔

مستثنیات بالکل موجود ہیں لیکن اکثریت کا حال یہی ہے۔ ہمارے پاس اپنی قوم کا مستقبل مینوفیکچر کرنے کےلیے ناقص مشینری کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں۔

اور ٹھہریئے! کسی استاد کو ہتھکڑیاں لگانے میں صرف پولیس یا حکومت کا قصور نہیں، اس معاشرتی مائنڈسیٹ کا بھی ہے جس میں عزت کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کتنا کماتے ہیں؟ آپ کا گھر کس علاقے میں ہے؟ آپ کے پاس کونسی گاڑی ہے؟ آپ کے بچے کس اسکول میں جاتے ہیں؟ اس معاشرے میں کسی فرد کو صرف اسی وقت عزت مل سکتی ہے جب اس کے پاس یہ سب کچھ ہو۔ ڈراموں کا ہیرو ہمیشہ بزنس مین ہوتا ہے یا کسی انڈسٹری کا مالک یا زمیندار۔ ہم نے کتنے ڈرامے یا فلمیں ایسی دیکھی ہیں جن کا ہیرو ٹیچر ہوتا ہے؟ عمیرہ احمد اور فرحت اشتیاق کے کتنے ناولوں کے مرکزی کردار تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں؟ افسانوی ادب معاشرے کی سوچ کا عکاس بھی ہوتا ہے۔ اور سوچ بناتا بھی ہے۔ پھر کیوں ہمارے بچے ٹیچر بننا چاہیں گے؟ اور معاشرہ کیوں ٹیچر کی عزت کرے گا؟ پولیس کو بھی گالیاں دے لیجیے لیکن تھوڑی سی گالیاں خود ہمارے اپنے معاشرتی مائنڈسیٹ کا بھی حق بنتی ہیں۔

ہم سب شاہد ہیں کہ ہماری آپس کی بات چیت بالعموم صرف اس نکتے پر مرکوز رہتی ہے کہ فلاں شعبے میں اسکوپ ہے، بھاری مشاہرے اور مراعات پر اندرون ملک یا بیرون ملک ملازمت ملنے کے مواقع بہت زیادہ ہیں، اس لیے صرف اسی شعبے میں جانا چاہیے۔ اسی مائنڈسیٹ کے تحت تدریس کی طرح سوشل سائنسز کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے جو کسی بھی ملک کو چلانے اور مستقبل کی پلاننگ کےلیے انتہائی اہم ہے اور جس میں اعلیٰ ترین دماغوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسروں کو کیا کہوں، راقمہ خود نوجوانی میں اسی بھیڑ چال کا شکار رہی۔

میڈیکل اور انجینئرنگ تو، بقول امریکی مبلغ نعمان علی خان، اسکلڈ لیبر ہے جو کوئی بھی متوسط درجے کا دماغ انجام دے سکتا ہے۔ لیکن اس قوم کے مسائل کو سمجھ کر ان کا حل تلاش کرنے کےلیے اعلیٰ ترین دماغوں کی تدریس اور سوشل سائنسز یعنی سماجی علوم میں تربیت کی ضرورت ہے… اس طرف ہم کب دھیان دیں گے؟

سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاسی لیڈران، یونیورسٹیز کے استاد، معروف اینکرز، کون ہے جو اپنے بچوں کو خوشی سے سوشل سائنسز یا تدریس کے شعبوں میں بھیجنا چاہے گا؟ اس سے بھی بڑھ کر اسلام اور پاکستان سے مخلص دینی احیاء کی تنظیمیں، جن کا کوئی بھی پروگرام ’’امت کی فلاح‘‘ کے تصور کے بغیر مکمل نہیں ہوتا، ان کے قائدین میں سے کتنے ہیں جو اپنے باصلاحیت بچوں کو تدریس یا سوشل سائنسز کے شعبے کےلیے تیار کرتے ہیں کہ احیائے دین کےلیے ذہن سازی اس کے بغیر ممکن نہیں؟

اور یہ سب اس لیے ہے کہ مال کی محبت میرے نبیﷺ کی امت کو کھا گئی ہے۔ سورۂ انفال کی 28 ویں آیت مبارکہ میں ارشادِ باری تعالی ہے: (ترجمہ) ’’اور جان لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔‘‘

میرے سرکارﷺ ارشاد ہے: ’’مال کی محبت میری امت کا فتنہ ہے۔‘‘ ترمذی، حدیث نمبر 2336

آج کشمیر میں، افغانستان میں، چین میں، برما میں، فلپائن میں، خود اسلامی ملکوں میں بھی مسلمان جس اذیت کا شکار ہیں وہ علم، تحقیق، اور تدریس کا راستہ چھوڑ کر مال کی محبت میں بھاگنے کا نتیجہ ہے۔ پوری مسلم دنیا جس بے بسی کا شکار ہے، اس کے ڈانڈے دراصل اسی مسئلے سے ملتے ہیں کہ ہم عزت صرف مال کی کرتے ہیں اور انفرادی طور پر اسے پانے کی جدوجہد میں ہمیں اس سے آگے کوئی اجتماعی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارا علمی و مذہبی اشرافیہ بھی ہمیں اس کی طرف متوجہ نہیں کرتا۔ قرآن میں کائنات کے نظام پر غوروفکر، زمین کی سیر کرنا، تاریخ سے سبق حاصل کرنا دراصل کائنات کے راز تسخیر کرنے کےلیے ریسرچ کی طرف اشارے ہیں لیکن ان سب احکامات کو دنیاوی ترقی کے خواہش مندوں کی طرح دینی طبقات بھی بری طرح نظرانداز کرتے ہیں۔ ہم صرف کشمیر، برما، فلسطین کے حق میں ریلیاں کر کے جذباتی تقریریں کرنے اور سننے کے بعد انہیں بھول جانے والے لوگ ہیں۔ کسی طویل مدتی پلاننگ کا ہمارے دینی اور لبرل قائدین کی تقریروں میں تذکرہ نہیں ملتا۔ کوئی ایسا وِژن نظر نہیں آتا جو اپنے ماننے والوں کو مسائل کے حل کےلیے تحقیق پر آمادہ کرے۔

قرآن جس صبر کو کامیابی کی گارنٹی قرار دیتا ہے، وہ دراصل سنسنی کے پیچھے بھاگنے کے بجائے، اسی طرح کچھووں کی طرح غوروفکر کائنات اور سماجی اور سیاسی زندگی کے رازوں کی تسخیر ہے جیسے مغرب چار صدیوں سے کر رہا ہے۔ مگر ہم سنسنی کے پیچھے بھاگنے والے، ریلیاں نکال کر جس مغرب کو گالیاں دیتے ہیں، اسی مغرب سے آنگ سان سو کی سے نوبل پرائز کا مطالبہ کرکے لمبی تان کر سوتے ہیں کہ اپنا فرض ادا کر دیا۔

پھر اگر ہماری دس بارہ یا اس سے کچھ زیادہ جماعتیں پاس پولیس کو ایک وائس چانسلر کو گرفتار کرنے کا پروٹوکول نہیں معلوم اور وہ ایک استاد سے زیادہ عزت ایان علی جیسی ماڈلوں اور راؤ انوار جیسے قاتل مگر اثر رسوخ والے ملزم کو دیتی ہے تو تعجب کیسا؟ آخر میں سرکارﷺ کے کلمات یاد کر لیتے ہیں: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘ مشکواۃ، حدیث 255

جن کا دیں پیرویٴ کِذب و ریا ہے اُن کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

The post ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2Q2C0eq

پیاز سے صرف دوہفتوں میں بال دوبارہ اگائیے

موجودہ دور میں بالوں کا جھڑنا بڑی عمر کے افراد کے ساتھ ساتھ نوجوانوں میں بھی عام ہوگیا ہے تاہم کچن میں موجود پیاز کے ذریعے نہ صرف گرتے بالوں کو روکا جاسکتا ہے بلکہ انہیں وقت سے پہلے سفید ہونے سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔

امریکن اکیڈمی آف ڈرمیٹولوجی کے مطابق بالوں کا جھڑنا موروثی بیماری بھی ہوسکتی ہے جسے اینڈروجینیٹک ایلو پیشیا کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہارمون کے تبدیل ہونے اورمختلف دوائیوں کے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) کی وجہ سے بھی بال جھڑتے ہیں، تاہم پیاز کے رس سے بال جھڑنے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔

تحقیقی جریدے ’’جرنل آف ڈرمیٹولوجی‘‘ میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق پیاز کے رس کو بالوں کی جڑوں پر لگائیے، یہ رس بالوں کو دوبارہ اگانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ تحقیق کے مطابق اگر  پیاز کا رس دن میں دوبار لگایا جائے تو دوہفتوں کے اندر اندر بال دوبارہ اگنا شروع ہوجاتے ہیں۔

نوٹ

جن لوگوں کو پیاز سے الرجی ہے وہ اپنے سر پر بالوں کا رس نہ لگائیں۔

اگر پیاز کی بو بہت زیادہ محسوس ہو تو اس میں تھوڑا سا لیموں کا رس اور عرق گلاب ڈال لیجیے۔

The post پیاز سے صرف دوہفتوں میں بال دوبارہ اگائیے appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2CUNFsf

آدھے شہر میں پانی کا بدترین بحران

کراچی: ادارہ فراہمی و نکاسی آب کراچی کی ناقص منصوبہ بندی اور غیر منصفانہ تقسیم آب کے باعث نارتھ کراچی سمیت آدھے شہر میں پانی کا بدترین بحران شروع ہوگیا ہے۔

نارتھ کراچی میں پا نی کا بدترین بحران جاری ہے علاقے میں 17 دن کے بعد پانی کھولا جاتا ہے اتنے طویل عرصے کے لیے پانی کی مطلوبہ مقدار ذخیرہ کرنا ناممکن ہے مکینوں کے مطابق پانی کا یہ بحران واٹر ٹینکر مافیا کی کمائی کے لیے پیدا کیا جارہا ہے جس میں واٹر بورڈ کے افسران اور لائن مینوںکا بھی حصہ ہوتا ہے واٹر ٹینکر مافیا یہ کام واٹر بورڈ افسران کی مدد کے بغیر کر ہی نہیں سکتے۔

مکینوں کے مطابق پہلے اس علاقے میں روزانہ پانی کی فر اہمی معمول پر تھی اور اب 17 دن بعد پانی آتا ہے آخری دنوں میں پانی ختم ہونے پر مکین فلٹر پلانٹ سے پانی لاکر پیتے ہیں، واٹر بورڈ کے افسران پر اس کاکوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ اپنی کمائی کی دھن میں مگن ہیں، پانی کے بڑھتے بحران سے لائن مینوں کی چاندی ہوگئی ہے عام ملازمت پیشہ مکین 5 ہزار کا واٹر ٹینکر خریدنے کی سکت نہیں رکھتے اسی لیے وہ فلٹر پلانٹ سے پانی خریدرہے ہیں۔

نارتھ کراچی کے علاقوں سیکٹر الیون سی ون لطیف نگر، سرسید ٹائون، الیون بی، سیکٹر نائن ، سیکٹر 10 ، سیکٹر الیون ای مسلم ٹائون ، سیون ڈی ون، ٹو اور تھری سمیت ملحقہ علاقوں شادمان ٹائون، بفرزون ، نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی، آئی اور بلاک جے میں بھی پانی کے بدترین بحران نے مکینوں کو اعصاب شکن صورتحال سے دوچار کردیا ہے نارتھ کراچی میں 15 روز کے بعد پانی کی فراہمی نے مکینوں کو مہنگے داموں واٹر ٹینکر خریدنے پر مجبور کردیا ہے۔

نارتھ کراچی کے مختلف علاقوں میں دن رات واٹر ٹینکروں کی آمد جاری رہتی ہے، نارتھ کراچی کے مکینوں نے ایم ڈی واٹر بورڈ خالد شیخ سے اپیل کی ہے کہ وہ پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائیں اور افسران سے باز پرس کریں کہ نارتھ کراچی کو 15 دن کے بعد پانی فراہم کرنے کی کیا وجہ ہے؟

ذرائع کے مطابق واٹر بورڈ کے افسران کی مبینہ ملی بھگت سے نارتھ کراچی سمیت شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے ٹینکر مافیا کی چاندی کرائی جارہی ہے تاکہ شہری مہنگے داموں واٹر ٹینکر خریدنے پر مجبور ہوجائیں اور واٹر ٹینکر مافیا کو مالی فائدہ پہنچا کر اپنا بھی فائدہ حاصل کیا جاسکے شہر میں پانی کے بدترین بحران کی وجہ سے مختلف علاقوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اتوار کو نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی کے مکینوں نے پانی کی عدم فراہمی پر فائیو اسٹار چورنگی پر احتجاج کرکے ٹریفک معطل کردیا تھا۔

 

The post آدھے شہر میں پانی کا بدترین بحران appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2ADgiZr

ملیر کی 256 ایکڑ اراضی غیرقانونی الاٹ کرنیوالے 12افسران کیخلاف ریفرنس دائر

کراچی: قومی احتساب بیورو(نیب) کراچی نے درجنوں افسران اور ملازمین کے خلاف ملیر کی 256 ایکڑ اراضی غیرقانونی طور پر الاٹ کرنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔

قومی احتساب بیورو(نیب) کراچی نے سابق سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن سندھ غلام مصطفی پھل، سابق ایڈمنسٹریٹر فضل الرحمن، سابق کمشنر روشن علی شیخ، سابق ڈپٹی کمشنرشوکت حسین جوکھیو سمیت درجنوں افسران اور ملازمین کے خلاف ملیر کی 256 ایکڑ اراضی غیرقانونی طور پر الاٹ کرنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔

ریفرنس میں بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 2 ڈائریکٹرز لینڈ، 5 ڈپٹی ڈائریکٹرز لینڈ اور 3 اکائونٹنٹ کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے، ریفرنس میں نامزد ملزمان میں محمد شعیب، سابق ڈائریکٹر لینڈ سیف عباس اورڈپٹی کمشنر شوکت حسین جوکھیو جیوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

نیب کراچی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق ملزمان نے وول واشنگ ٹینریز کیلیے مختص زمین کو غیرقانونی طور پر صنعتی پلاٹس کے نام پر لیز کی اور 2007 سے کے بعد سے 276 لیز جاری کی گئیں جبکہ اس کے کمشنر کراچی، ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی فضل الرحمان اور سیکرٹری لینڈ یوٹیلائزیشن غلام مصطفی پھل نے نیلامی کے بغیر لیز کی جانے والی زمینوں کی ریگولرائزیشن میں اپنا کردار ادا کیا۔

 

The post ملیر کی 256 ایکڑ اراضی غیرقانونی الاٹ کرنیوالے 12افسران کیخلاف ریفرنس دائر appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2qm7a5q

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny