’’بس ناظمہ تمہیں کیا بتاؤں؟ تمہارے بہنوئی روز مجھ پر ایک طرح کا تشدد کرتے ہیں، میں تو ذہنی اذیت میں بھی مبتلا ہوں۔ بچوں کے ساتھ ان کا رویہ الگ خراب رہتا ہے، ہر وقت کی لڑائی اور مارپیٹ، محلے والے ہیں تو وہ پریشان، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی سکون کا لمحہ ہی نہیں میری زندگی میں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں کس طرح اس کانٹوں بھری زندگی سے نجات حاصل کروں؟ بس میری قسمت ہی خراب تھی کہ ماں باپ نے اس بے قدرے انسان سے بیاہ دیا۔‘‘
ناظمہ بے چاری کیا کہتی۔ اس نے اپنی بڑی باجی نعیمہ کے اس دکھڑے کے جواب میں محض اتنا کہا ’’اب کیا ہوسکتا ہے آپی! گزارا کریں، بچوں کی خاطر برداشت کریں، یا تو اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیں یا پھر بھائی جان سے علیحدگی اختیار کرلیں۔‘‘
بس اتنا کہنا تھا کہ باجی نعیمہ نے ناظمہ ہی کو بے نقط سنانا شروع کردیں: ’’بی بنّو! تم تو نہ ہی بولو میاں بیوی کے معاملے میں! تم آخر سمجھتی کیا ہو خود کو؟ تم کو حق کس نے دیا ہے یہ کہ کنواری ہو کر ہمارے معاملات میں بولو؟ کیا یہ قابل شرم نہیں کہ تم اپنی بہن کےلیے طلاق کا سوچ رہی ہو؟ مگر تمھارا بھی قصور نہیں، دفتروں میں آج کل یہی سکھایا جاتا ہے کہ نہ صرف یہاں زبان چلاؤ بلکہ گھر جا کر بھی قینچی کا استعمال کرو۔‘‘
اب یہاں کوئی ان باجی نعیمہ سے پوچھے تو کہ آپ کو جب اپنا آپ ہی عقل کل نظر آتا ہے اور آپ سمجھتی ہیں کہ کنوارے بندے کا وہ مقام نہیں کہ وہ آپ کے مسائل سمجھ سکے تو آپ نے اس کے سامنے ایسی بات ہی کیوں کی؟ ہوا تو یہی کہ پہلے سب بتا کر چھوٹے بہن بھائیوں کی بے عزتی کر دی اور بعد میں میاں بیوی خوش باش۔
بالکل یہ صورتحال ہمیں دفاتر میں بھی نظر آتی ہے جہاں کئی مرد حضرات اپنی بیگمات کی کاہلی، سستی، نافرمانی اور بچوں کو نہ سبنھالنے پر ساری فرسٹریشن ساتھی کولیگز پر نکال دیتے ہیں۔ نہ صرف مرد بلکہ کئی خواتین بھی اس فن میں ماہر ہوتی ہیں۔ گویا انڈیا پاکستان کے تعلقات کی خرابی کی اطلاع سب کو دینا لازم ہو لیکن سمجھوتہ ایکسپریس چلنے کے بعد بڑی بڑی باتیں بھول جاتی ہیں اور بس ’’میں ہوں پریم دیوانی‘‘ فلم چلنے لگتی ہے۔
میرا اس موضوع پر لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ بھی ایک معاشرتی مسئلہ ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔ میاں بیوی کے درمیان آنے والا تیسرا بندہ کوئی بھی ہو، ان کے درمیان رنجشیں بڑھانے کا سبب بن جاتا ہے اور گھر بسنے کے بجائے اجڑنے لگتے ہیں۔ بہت سے خانگی مسائل کی جڑ یہی ہوتی ہے کہ ہم دوسروں پر اپنے فیصلے صادر کرنا ضروری سمجھنے لگتے ہیں۔ خواہ ہم اگلے بندے کی ہمدردی میں ہی کیوں نہ ہوں لیکن اس صورتحال کو اچھے معنوں میں نہیں لیا جاتا۔
ہر بندے کی ذہنی سطح اور سوچ مختلف ہے۔ لہذا مشورے دینے کے بجائے وہی ’’کِیپ کام‘‘ (Keep Calm) اور کام سے کام کا نظریہ اپنائیے۔ میاں بیوی تو کیا آپ کسی کو بھی خوشی فراہم کرنے کے ذمہ دار نہیں۔ میاں بیوی کے درمیان کبھی ثالث نہ بنیں کیونکہ وہ خود ہی عدالت اور خود ہی وکیل ہوتے ہیں؛ اور بہتر سے خود کو سمجھتے ہیں۔
زندگی چند روزہ ہے اس دوران کوشش کیجیے کہ دانستہ کسی کی دل آزاری نہ کریں۔ لیکن یہ بھی نہیں کرنا چاہیے کہ دوسروں کی دل شکنی کی پروا کرتے ہوئے دکھوں سے اپنا دامن تار تار کرلیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post میاں بیوی راضی appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://bit.ly/2Uwn61N