Tuesday, January 30, 2018

ہمارے بچوں کو ان کے والدین اور اساتذہ سے کون بچاۓ گا؟

قصور میں ہونے والے پے درپے واقعات نے جہاں ہمارے معاشرے کے اخلاقی زوال کو برہنہ کر دیا وہاں سوسائٹی میں بچوں کو جنسی ہراسمنٹ کے بارے میں شعور دینے کی بحث شروع ہو گئی ہے۔ یہ بحث بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ کی طرف پہلا مثبت قدم ہے۔ اس سلسلے میں بچوں کو ٹریننگ دینے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں لیکن ہم بھول رہے ہیں کہ اس ٹریننگ کی بچوں سے زیادہ ان کے والدین اوراساتذہ کو ضرورت ہے۔ انہیں سیکھنے کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت کس طرح کرنی ہے۔

زینب اور اس جیسی بچیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کا اس لیے پتہ چل جاتا ہے کے یہ جنسی جنونی زیادتی کے بعد انہیں مار دیتے ہیں لیکن ہزاروں بچے ایسے ہیں جنھیں اسکولوں، مدرسوں ، گھروں اور دکانوں پر زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ بچے ڈر، شرم یا لالچ کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور یوں انکا جنسی استحصال ہوتا رہتا ہے۔ جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو اس گھناؤنے کھیل کو دہراتے ہیں۔

مذہب نے اسکے لیے واضح ہدایات دی ہیں بلکہ سخت سزائیں بھی مقرر کی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان واقعات کا زیادہ ظہور مدارس میں ہوتا ہے جہاں یہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے اس لیے سزائیں بھی نہیں ہوتی۔ ہماری معاشرتی اقدار بھی اس طرح کے قبیح افعال کی اجازت نہیں دیتی لیکن پھر بھی ہوس کا یہ ننگا ناچ ہمارے کھیتوں، اسکولوں، بند کمروں اور مدرسوں میں جاری رہتا ہے۔

اس صورت حال میں ہم اپنے بچوں کو کس طرح بچائیں؟ ویسے تو ایک مہذب معاشرے کا ارتقاء ایک با تدریج عمل ہے۔ ہمیں شاید کئی سو سال چاہئیے اس مقام تک پہنچنے کے لیے جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر لوگ اپنے ارادے اور مرضی سے عمل کرتے ہیں لیکن اس وقت ہم بطور قوم جس انحطاط کا شکار ہیں، اس میں بہت سخت اور بہت تیز اقدامات کی ضرورت ہے ۔

سب سے پہلے حکومت کو اس طرح کے مجرموں کو سخت اور فوری سزائیں دینے کی ضرورت ہے۔

اساتذہ اور والدین کی ٹریننگ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ انہیں چاہئیے کہ وہ اپنے بچوں کونہ صرف جنسی ہراسمنٹ کا شعور دیں بلکہ بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر بھی رکھیں۔

میں اس وقت ڈنمارک میں بچوں کی تدریس کی ٹریننگ پروگرام کا حصہ ہوں۔ اس ٹریننگ میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کیا چیزیں ہراسمنٹ ہیں۔ اور وہ کیا نشانیاں ہے جس سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کے بچے کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے یا اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اگر آپ کا بچہ یا طالب علم بہت زیادہ خاموش ہو گیا ہے، کسی سے بات نہیں کر پاتا یا کرنا نہیں چاہتا یا اس میں اعتماد کی کمی ہو گئی ہے، یا اس کے نمبرز کم آنے لگے ہیں یا اسے بہت غصّہ آنے لگا ہے اور وہ بہت زیادہ لڑنے لگا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے جسمانی ،نفسیاتی یا جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سے بات کریں۔ اس پر اعتماد کا اظہار کریں تاکہ وہ آپ کو اپنے ساتھ ہونے والا ظلم بتاۓ۔

زیادہ تر بچے اس لیے کسی کو کچھ نہیں بتاتے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جاۓ گا- کچھ کو لگتا ہے کہ یہ انکی اپنی غلطی ہے اسی لیے انکے ساتھ یہ سب ہوا یا پھر ان بچوں کو ڈرایا جاتا ہے کہ ہم تمہیں یا تمہارے گھر والوں کو مار دینگے۔

بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں۔ والدین بننا ایک فل ٹائم جاب ہے۔ بچے تو جانور بھی پیدا کرتے ہیں اور انھیں کھانا بھی دیتے ہیں۔ ہم انسانوں پر الله نے بھاری ذمےداری دی ہے۔ ہمیں ان گوشت کے لوتھڑوں کو انسان بنانا ہے، ایک اچھا انسان اور جب تک یہ اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہو جائیں انکی حفاظت کرنی ہے۔ ہمیں بچوں کی ذہنی ،نفسیاتی جسمانی ساری ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔ استاد کا رتبہ تو والدین سے بھی زیادہ ہوتا ہے، اس لیے انکی ذمے داری بھی اتنی ہی ہوتی ہے جتنی ماں باپ کی۔ اپنی ذمے داریوں کو پورا کریں تاکہ ہمیں کل کسی اور زینب پر ماتم نہ کرنا پڑے۔

اس طرح کے چند اقدامات سے شاید ہم اپنے بچوں کو کسی حد تک جنسی طور پر ہراساں ہونے یا جنسی تشدد سے بچا لیں مگر اجازت ہو تو یہ کہنے کی جسارت کروں کہ ان بچوں پر جو نفسیاتی اور جسمانی تشدد ماں باپ اور اساتذہ کرتے ہیں، اس تشدد سے انہیں کون بچاۓ گا؟

یورپی ممالک میں اگر والدین اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو ریاست ان سے بچے لے لیتی ہے اور انھیں خود پالتی ہے اور اگر اساتذہ اپنی ذمےداری پوری نہ کریں تو انہیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اگر کوئی فرد چاہے وہ والدین ہوں یا اساتذہ، بچوں پر کسی قسم کے نفسیاتی، جسمانی یا جنسی تشدد میں ملوث پایا جاتا ہے تو ریاست حرکت میں آتی ہے اور اسے قرار واقعی سزا ملتی ہے لیکن ہماری ریاست اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے؟ ایسے بچے جو یتیم خانوں یا فلاحی اداروں میں پل رہے ہیں کیا وہ محفوظ ہیں؟ اگر کسی بچے یا بچی کو اپنے والدین کی طرف سے کسی جنسی ہراسمنٹ کا سامنا ہو تو کیا وہ سرکاری اداروں میں محفوظ ہو گا؟

بچوں پر جنسی تشدد نہ بھی ہو تو ان پر بد ترین جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، اتنا تشدد کہ یا تو انکے ہاتھ پاؤں توڑ دیے جاتے ہیں یا پھر جان سے ہی مار دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال کراچی کے ایک مدرسے میں ایک بچے کی اپنے استاد کے ہاتھوں ہلاکت ہے۔ ان کو سزائیں کون دے گا؟ کون اس معاشرے کو بچوں کے لیے محفوظ معاشرہ بنائے گا؟

کون والدین کو یہ بتاۓ گا کہ بچے کو پیدا کرنے سے آپ کو ان پر جسمانی یا نفسیاتی تشدد کرنے کا حق حاصل نہیں ہو جاتا۔ ان مولویوں کو کون بتاۓ گا کہ قوم لوط کیوں تباہ کی گئی تھی ہمارے بچوں کو ان کے والدین، استادوں، مولویوں اور محلے داروں سے کون بچاۓ گا؟

The post ہمارے بچوں کو ان کے والدین اور اساتذہ سے کون بچاۓ گا؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2nqHDWN

سانپ کے ڈسے

پانامہ ایشو کے بعد وزیراعظم کی نااہلی نے نئی صف بندی کر دی ہے۔ لوگ کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ عوام کے طرفدار بھی اور عوام کے دشمنوں کے طرفدار بھی۔ نقاب اتر چکے ہیں، طبل جنگ بج چکا ہے اور فائنل راؤنڈ جاری ہے۔ سماج کے دیگر طبقات کے ساتھ صحافیوں میں بھی تقسیم واضح ہو چکی ہے۔ کچھ صحافی ملک و ملت کا قرض چکا رہے ہیں اور کچھ اپنے آقاؤں کا حقِ نمک ادا کر رہے ہیں۔ اس معرکے کے اختتام تک کچھ اپنا نام تاریخ میں امر کر چکے ہوں گے جبکہ کچھ کو تاریخ بھلا چکی ہوگی۔

کچھ لوگوں نے تو انتہائی سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو عوام کے مخالف صف آراء کیا ہوا ہے اور وہ یقیناً اس کی قیمت بھی وصول کر رہے ہوں گے مگر چند احباب ایسے بھی ہیں جوصرف اور صرف جمہوریت کے نام پر دھوکا کھا رہے ہیں۔ انہیں اندازے کی شدید غلطی نے شاید غلط فہمی میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ عوام مخالف کیمپ سے ہمدردی کر رہے ہیں۔

ان احباب کا المیہ یہ ہے کہ وہ پانامہ کیس کو بھی ماضی کی طرح اداروں کی اندرونی چپقلش اور تصادم کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پانامہ ایشو نہ عدلیہ نے اٹھایا ہے اورنہ ہی فوج کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ پرویز مشرف کے بعد جس طرح فوج نے خود کو سیاسی معاملات سے الگ رکھنا شروع کیا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ راحیل شریف کے دور میں سیاست سے علیحدگی کا عمل عروج پہ تھا۔ اب جبکہ باجوہ صاحب آرمی چیف بن چکے ہیں، جو بقول شخصے حکومت کے خاص آدمی ہیں اور انہوں نے آتے ساتھ ہی ادارے میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں اور تقرریاں کی تھیں جو بادی النظر میں حکومت کے ایما پر کی گئی تھیں۔ اس صورتِ حال میں ایسی کسی بھی مداخلت کا امکان ناممکنات میں سے ہے۔

پانامہ ایشو سیدھا سادا ملکی وسائل کو لوٹ کر بیرونِ ملک ذاتی جائیدادیں بنانے کا کیس ہے جس میں عدلیہ نے شریف فیملی کو اپنی صفائی دینے کا مکمل موقع فراہم کیا مگر وہ دولت کی بیرون ملک منتقلی کا کوئی بھی ثبوت نہ دے سکی اور جو ثبوت دیے گئے وہ بوگس، من گھڑت اور خود ساختہ تھے جن پر سپریم کورٹ برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ عدلیہ نے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے شفاف تحقیقات کروائیں اور ملزمان کو بار بار مواقع دیے تا کہ وہ اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں مگر شریف فیملی خود پر لگے الزامات کا دفاع کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے میں عدلیہ پر سازش کا الزام بدنیتی کے سوا کچھ بھی نہیں۔

حقیقت یہ ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور سانپ کا ڈسا رسی سے بھی خوف کھاتا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا میں نصرت جاوید اور سوشل میڈیا پہ فرنود عالم ان لکھاریوں میں شامل ہیں جنہوں نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھ کر پانامہ ایشو کے بارے میں رائے قائم کی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ جمہور اور جمہوریت کی خدمت یہ نہیں کہ آپ مجرموں کی ڈوبتی ناؤ کو سہارا دیں۔ جمہوریت تو یہ سکھاتی ہے کہ افراد کو قانون کی چھلنی میں سے گزار کر پرکھا جائے۔ آپ اپنے سیاسی نظریات کو بھلے سنبھال کر رکھیں۔ آپ بھلے عمران خان کو سیاسی طور پہ سپورٹ نہ کریں مگر کم از کم جمہوریت کے نام پر ایک خاندان کی لوٹ مار کی حمایت تو نہ کریں ۔ آپ میں اتنی اخلاقی جراءت تو ہونی چاہیے کہ آپ جمہوریت کے نام پہ لوٹ مار کرنے والوں سے سوال کر سکیں کہ حضور! عوام نے آپ کو حکومت کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے، لوٹ مار کا نہیں۔ خدارا ملکی وسائل کو لوٹ کر اس مینڈیٹ کی توہین تو نہ کریں۔ کیا آپ کے نزدیک جمہوریت کے نام پر ہر اٹھائی گیرے کی بے جا اور غیر مشروط حمایت ہی جمہوریت کا حسن ہے ؟

The post سانپ کے ڈسے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2DMjXr0

داعش  افغانستان میں

کچھ دن پہلے ایک تصویر دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں کچھ گاڑیاں داعش کا پرچم لہراتی افغانستان کے مختلف شہروں میں نظر آئیں تو افغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی کا الجزیرۃ ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو یاد آگیا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کی سرپرستی کر رہا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ داعش کا افغانستان میں وجود امریکی انٹیلی جنس کی موجودگی میں ہوا۔ امریکی حکومت کو ہمارے سوالات کا جواب دینا ہوگا۔حامد کرزئی نے کہا کہ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے ارکان زیادہ تھے لیکن اب داعش سے تعلق رکھنے والے افراد سب سے زیادہ ہیں، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے کہ انتہا پسندی کو کیسے قابو کیا جاسکتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمیں حق پہنچتا ہے کہ ہم امریکا سے سوال پوچھیں کہ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی کڑی نگرانی اور موجودگی کے باوجود داعش نے کس طرح افغانستان میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔امریکا کو اس کا جواب لازمی دینا چاہیے کیوں اس کا جواب افغانستان کے پاس نہیں بلکہ امریکا کے پاس ہے۔حامد کرزئی نے کہا کہ انہیں شک سے بھی زیادہ یقین ہے کہ داعش کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اسلحہ پہنچایا جاتا ہے اور یہ صرف ملک کے ایک حصے میں نہیں بلکہ کئی حصوں میں ہو رہا ہے۔ داعش کو اسلحہ کی فراہمی کی خبریں افغان شہری ہی نہیں بلکہ حکومت میں موجود افراد اور دیہات میں رہنے والے لوگ بھی دے رہے ہیں۔

سابق افغان صدر کا کہنا تھا  کہ امریکا افغانستان میں شدت پسندی کوشکست دینے آیا تھا لیکن اس کی نگرانی میں ملک میں شدت پسندی کیسے بڑھ گئی؟ اسے آپ محض اتفاق سمجھیں یا کچھ اور، جن دنوں افغانستان کے سابقہ صدر حامد کرزئی کا یہ انٹرویو سامنے آیا تقریبا انہی دنوں بی بی سی کی ایک رپورٹ بھی منظر عام پر آئی  تھی ۔ اس رپورٹ کے مطابق داعش کے حمایتیوں کو شام کے شہر رقع میں شکست کے بعد نکلنے کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا گیا تھا اور یہ راستہ کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ اور اس کے حمایتی گروپ شام ڈیموکریٹک گروپ نے فراہم کیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق تقریبا ڈھائی سو دہشت  گردوں اور ان کے خاندانوں کے تقریبا پینتیس سو افراد کو ایک معاہدے کے تحت رقع سے شام، ترکی اور عراق کے مختلف علاقوں میں جانے کی اجازت دی گئی۔ اس خبر کی کسی نے تردید نہیں کی۔

افغانستاں میں داعش کی سرگرمیاں سب سے پہلے صوبہ ننگہار میں نظر آئیں۔ اس کے بعد یہ اس کے ہمسائے صوبے کنڑ میں منظرعام پر آئے۔
افغانستان میں داعش کے علاقوں کی شناخت کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ 2 محوروں میں آپریشن کر رہے ہیں.

مغربی حصہ: جس میں صوبہ ننگرہار، خوست اور کونڑ و غیرہ شامل ہیں۔
شمال مغربی حصہ: جس میں صوبہ فاریاب اور جوزجان اور سرپل شامل ہیں۔

داعش افغانستان کے شمال میں بھی درزآب، قوش جوزجان، بلچراغ،فاریاب، شہر صیاد، سرپل میں سرگرم ہے۔ اور شیعہ نشین علاقہ میرزاولنگ بھی اس علاقے کے نزدیک ہے۔ آخر داعش کے لوگ افغانستان کے شمالی علاقے میں کیوں اکٹھے اور منظم ہو رہے ہیں؟ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق اس کا مقصد روس کو نقصان پہنچانا ہے۔ داعش کو روس کی وجہ سے داعش کو شام میں ہزیمت اٹھانا پڑی اور وہ اب روس سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔ لیکن افغانستان اور روس کے درمیان کافی فاصلہ ہے اور اس کے علاوہ ان دونوں ملکوں کے درمیان کئی اور ممالک موجود ہیں۔اس لئے اس مفروضے میں اتنی جان نظر نہیں آتی۔

افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کا ایک اور مقصد خراسان پر قابض ہونا ہے، جس کا تعلق آخرالزمان کے عقیدے سے ہے۔
افغانستان میں سر گرمیوں کا ایک مقصد اس ملک کے شیعہ اور پاکستان اور ایران کو نشانہ بنانا ہے۔خصوصا پاکستان کے صوبہ بلوچستان اس کا خاص ٹارگٹ ہو سکتا ہے۔

داعش کی افغانستان کے شمالی علاقے میں موجودگی کی ایک اور وجہ جو سمجھ میں آتی ہے وہ ان علاقوں میں چھپے زیرزمین نایاب خزانے ہیں ۔ یہ علاقے مہنگی دھاتوں سے مالامال ہیں اور یہ بات محض اتفاق نہیں کہ عراق اور شام میں داعش نے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہ تیل کی دولت سے مالامال تھے۔ داعش ان علاقوں سے تیل نکالتی تھی اور عالمی منڈی میں فروخت کرتی تھی شام اور عراق میں دستیاب وسائل کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اب اس نے افغانستان کا چنائو کیا ہے۔

افغانستان میں داعش کا  رسوخ، معاشی بحران، قومی اختلافات، مغربی  خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ داعش کے ازبکستان، تاجکستان، قرقیزستان، پاکستان، عراق اور قزاقستان میں سرگرم افراد بھی اب افغانستان پہنچ گئے ہیں اور حزب اسلامی ازبکستان جو پاکستان میں بھی سرگرم تھی داعش سے مل گئی ہے۔داعش، افغانستان میں بھی شام اور عراق کی طرز پر جنگ کر رہی ہے، وہ مختلف افراد کو جذب کرنے کے لیے جہاد النکاح کو بھی رواج دے رہے ہیں۔

افغانستان کے شمالی علاقوں میں ان جنگجوئوں کا مقابلہ آسانی سے کیا جا سکتا تھا۔ان علاقوں میں رشیددوستم کا کافی اثرورسوخ ہے اور اس نے ماضی میں ان علاقوں میں طالبان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن آج کل وہ خود کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔زنا کے ایک معاملے میں ملوث ہونے پر اسے افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔ آج کل وہ ترکی میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے کیونکہ وطن واپسی پر اسے گرفتاری کا ڈر ہے۔

اگرچہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے حمایت یافتہ نیٹو کے ہزاروں فوجی موجود ہیں لیکن وہ داعش کے اس چھوٹے سے گروہ کے خلاف کوئی  بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ شاید وہ اس اثاثے(داعش) کو کسی اور جگہ استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

داعش افغانستان میں کیا کرتی ہے ۔ ؟روس کو نقصان پہنچاتی ہے یا ایران اور پاکستان اس کے نشانے پر ہیں؟ ایک بات البتہ طے ہے کہ فی الحال امریکہ افغانستان سے جانے والا نہیں۔ وہ افغانستان میں رہے گا۔ کبھی القائدہ اور طالبان کے نام پر تو کبھی داعش کے نام پر۔

The post داعش  افغانستان میں appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2nrehaz

پاکستان مسائل کا شکار کیوں؟

اگر آپ کا خیال ہے کہ مسائل کا گڑھ صرف ہمارا ملک ہے تو آپ کی سوچ غلط ہے، کیونکہ ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اچھے لوگ ہمیشہ اپنے معاشروں کو خوب سے خوب تر بنانے میں لگے ہوتے ہیں اور دوسری طرف برے لوگ اپنی لاعلمی یا جاہلیت کی وجہ سے آس پاس کے ماحول کو گندہ کررہے ہوتے ہیں۔

اپنے ملک کا یہ حال دیکھتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ ایسا بگاڑ ترقی یافتہ ممالک میں کیوں نہیں ہے؟ حالانکہ وہاں بھی یہ سب ہو رہا ہوتا ہے لیکن وہ سب مل کر اپنے حکمرانوں و عوامی دلچسپی کے ساتھ معاشرے میں گندگی کی وجہ بننے والے اسباب کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کرتے ہیں اور یوں ان کا  معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔

کیا کبھی آپ نے یہ بھی سوچا کہ پاکستان دن بدن مسائل کا شکار کیوں بنتا چلا جارہا ہے؟ ہم وہ پڑھی لکھی جاہل قوم ہیں جسے صفائی کے بورڈ پڑھنا تو آتا ہے مگر گلی کوچوں اور سڑکوں پر  گندگی نہ پھینکنے کاعمل نہیں آتا،  ہمیں درختوں کے سائے تلے بیٹھنا تو آتا ہے مگر ان کی حفاظت کرنا نہیں آتا، ہمیں مجرموں کا تحفظ کرنا تو آتا ہے مگر ان کو انہی کے جرم کی سزا دلوانا نہیں آتا، ہمیں بچے پیدا کرنا تو آتا ہے مگر ان کی اچھی تربیت کرنا نہیں آتا۔

اس سب کی وجہ یہ ہے کہ ہم خود پرست قوم ہیں اور جو لوگ صرف اپنا فائدہ سوچتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ کیسے اپنے  معاشرے کو بہترین معاشرہ بنا سکتے ہیں جو جھوٹی غیرت کے نام پر اپنی جگر گوشوں کی بے رحمی سے جان لے لیتے ہوں اور پھر ڈھنڈورا یہ پیٹتے ہوں کہ پسند کی شادی بے حیائی ہے۔

ایک دفعہ اللہ تعالی کی طرف سے وحی آئی کہ: اے امت مسلمہ کے سردار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اپنی بیٹی کا نکاح حضرت علی رضہ سے کر۔ جب وقتِ نکاح آیا تو آپﷺ مبارک قدموں سے  چل کر اپنی عزیز بیٹی کے پاس گئے اور پوچھا کہ اے بیٹی میں تمھارا نکاح  حضرت علی رضہ کےساتھ کردوں؟ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ  آپ ﷺ نے اپنی امت کوپیغام دینا تھا کہ شادی کے سلسلے میں اپنی اولاد پر زبردستی نہ کرو۔ یہی ہماری ناکامی ہے کہ اللہ اور اسکے رسول کو تو مانتے ہیں مگر ان کی ایک نہیں مانتے۔

اس حوالے سے دینی تعلیمات عام کرنے کے دعویدار بھی بھی کسی سے کم نہیں کیونکہ وہ مذہب کو چھوڑ کر مسلک کے چکر میں پڑ گئے ہیں۔ اس طرح ہماری ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں اور کالجوں کا نظام تعلیم بہتر نہیں ہوا کیونکہ وہ اب دین اسلام کوچھوڑ چھاڑ کر ڈانس کلاسز اور فحاشی پھیلانے کے اڈے بنتے چلے جارہے ہیں۔ اگر معاشرہ بہتر بنانا مقصود ہو اور پاکستان کو مسائل کے بجائے امن سلامتی کا گہوارہ بنانا ہے تو پہلے ہمیں خود کو انفرادی طور پر بہترین انسان بننا ہوگا اور اسکے بعد معاشرے کی بھلائی کا سوچنا ہوگا۔

ایک استاد کا قصہ مشہور ہے جس نے اپنے ایک شاگرد کو دنیا کا نقشہ دیا۔ یہ نقشہ مختلف ٹکڑوں میں پھٹا ہوا تھا۔ استاد نے شاکرد کو حکم دیا کہ اسے صحیح سے جوڑ دو۔ اب شاگرد پریشان ہو گیا کہ وہ کیسے اس نقشے کو بالکل ٹھیک جوڑ سکتا ہے؟ اتنے میں اچانک اس کی نظر نقشے کے ٹکڑوں کے ڈھیر میں ایک انسانی آنکھ پر پڑی۔ دراصل نقشے کے دوسری طرف انسانی آنکھ چھپی تھی۔ پس اس نے ٹکڑوں میں نقش انسانی جسم کے اعضاء  تلاش کرنا شروع کیے، جب اعضاء ٹھیک جگہ رکھ دیے تو سارا نقشہ اپنی اصل شکل میں جڑ گیا۔ جب وہ اپنے استاد کو نقشہ دکھانے گیا تو انہوں نے پوچکا کہ یہ تم نے کیسے جوڑا تو اس نے پوری کہانی تفصیل سے سنا دی۔

استاد نے شاگرد کو شاباش دی اور ساتھ ہی یہ کہا کہ میں تمھیں درحقیقت یہی سمجھانا چاہتا تھا کہ جب انسان بگڑتا ہے تو معاشرہ بھی بگڑ جاتا ہے اور جب معاشرے بگڑ جائیں تو قوموں کی قومیں بگڑ جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر ہم نے اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہوگا۔

The post پاکستان مسائل کا شکار کیوں؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2DOnYek

پی ٹی آئی نے بھی راؤانوارکی حمایت کی تھی

پيپلزپارٹي رہنما مولا بخش چانڈيو وضاحتوں پراترآئے۔ بولےپورےملک ميں ہماري حکومت نہيں، سياسي مخالفين ہميں بدنام کرنے کيلئے راؤ پر ہلکا ہاتھ رکھ رہے ہيں ۔راؤ انوار کے اچھے کام کي تو پي ٹي آئي نے بھي حمايت کي تھي۔ مزید کیا کہا؟ سنیے

The post پی ٹی آئی نے بھی راؤانوارکی حمایت کی تھی appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2rR9QLL

پی ٹی آئی کا خواجہ آصف کیخلاف چیئرمین نیب کوخط

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے وفاقی وزیر دفاع خارجہ آصف کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے لیے چیئرمین نیب کو خط لکھ دیا۔ خط کے مطابق خواجہ آصف کی منی نڈرنگ سے متعلق نا قابل تردید شواہد موصول ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے خواجہ آصف کیخلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات...

The post پی ٹی آئی کا خواجہ آصف کیخلاف چیئرمین نیب کوخط appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2GwMjTF

بھارتی اداکارہ پر جوتے سے حملہ

ممبئی / حیدر آباد : بالی ووڈ فلم باہو بلی کی اداکارہ تمنا بھاٹیا کو حیدر آباد میں تقریب کے دوران اس وقت عجیب صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ، جب ایک شخص نے اچانک ان پر جوتے سے حملہ کردیا۔ بھارتی ذرائع ابلاغ سے جاری اطلاعات کے مطابق بالی ووڈ اداکارہ تمنا بھاٹیا...

The post بھارتی اداکارہ پر جوتے سے حملہ appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2rR9Nzz

عاصمہ قتل کیس؛گرفتارملزم میڈیا کے سامنے پیش

کوہاٹ پولیس نے رشتے سے انکار پر جان سے مار دی جانے والی عاصمہ قتل کیس میں گرفتار ملزم صادق اللہ کو میڈیا کے سامنے پیش کردیا ۔ڈی پی او عباس مجید مروت کہتے ہیں مرکزی ملزم مجاہد آفریدی کی گرفتاری کیلئےانٹرپول سے رابطہ کرلیاگیا ہے۔ ملزمان سگےبھائي اور تحريک انصاف کي ضلعي قيادت کے...

The post عاصمہ قتل کیس؛گرفتارملزم میڈیا کے سامنے پیش appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2Gx6qBm

نااہلی کی مدت کا تعین وجہ کی بنیاد پرہونا چاہیئے

اسلام آباد: آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد احاطہ عدالت میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما جہانگیرترین کا کہنا تھا کہ جعلی ڈگری اور منی ٹریل پر نااہلی مختلف چیزیں ہیں۔ جہانگیر ترین نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف...

The post نااہلی کی مدت کا تعین وجہ کی بنیاد پرہونا چاہیئے appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2rR9GUF

نواز شریف کا سیاسی قتل کیا گیا ہے

نیب عدالت کے باہر میڈیا سے گفت گو میں وزیر مملکت طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم چیزوں کو بگاڑنا نہیں چاہتے، سدھارنا چاہتے ہیں، معاملات سدھار نے کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ یہ ہماری کمزوری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا شرم وحیا کا تھوڑا پردہ رہ گیا ہے...

The post نواز شریف کا سیاسی قتل کیا گیا ہے appeared first on Samaa Urdu News.



from Samaa Urdu News http://ift.tt/2GwM5vN

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny