Friday, June 1, 2018

 مذہبی منافرت سے میرا پہلا سامنا

سکول بس میں بیٹھ کر ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے تو حسبِ معمول طعنہ زنی شروع ہو گئی۔

”سنو! تم نے اپنی پیشانی پر سرخ تلک کیوں نہیں لگایا؟ تم مسلمان بد بُو دار کچرے کا ڈھیر ہو۔“

میں نے غصے پر قابو پاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو کاٹا، ”سرخ تلک ہندو لگاتے ہیں۔ میں مسلمان ہوں، اورہاں میں کچرے کا ڈھیر نہیں ہوں۔“

” شرط لگا لو! تم بد بو دار ہندو ہو لیکن چھپا رہے ہو۔“

میں نے اپنا سر جھٹکا اور اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں جانتا تھا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی تضحیک مجھے پریشان کرنے کے لیے کر رہا ہے اور میں اپنی پریشانی ظاہر کر کے اسے تسکین فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔

میں پانچویں گریڈ میں تھا اور میرے برابر میرا ہمسایہ مائیکل بیٹھا ہوا تھا جو پہلے گریڈ کا طالبعلم تھا۔ میرا چھوٹا بھائی احمد مجھ سے چند قطاریں چھوڑ کر بیٹھا تھا۔ مائیکل دیکھ رہا تھا کہ میں ان باتوں کی وجہ سے پریشان ہو رہا ہوں لیکن کم سِن ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سمجھ نہیں پایا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔ اُس لڑکے کا طنز بدستور جاری رہا، وہ میرے ہی سکول میں پڑھتا تھا اورسکول میں اپنی غنڈہ گردی کے لئے جانا جاتا تھا۔

”اور تم اس نیولے جیسے چینے لڑکے کے ساتھ ہر وقت کیوں چپکے رہتے ہو؟“

میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا،

”بکواس بند کرو، نالائق! کچھ شرم کرو۔ یہ پہلے گریڈ کا طالبعلم ہے۔ اسے تو بخش دو۔“

میں طیش میں آکر نجانے کیا کچھ کہہ گیا اور وہ یہی چاہتا تھا کہ میں غصے میں آ کے کچھ بولوں،

”اچھا جی!تم کیا بگاڑ لو گے میرا؟بدبو داراحمق ہندو!“ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔

مائیکل میرے ساتھ والی سیٹ پر ہی بیٹھا تھا اور میں کھڑکی کی طرف۔ میں ڈر گیا۔ میں لڑنا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔

“چلو، مائیکل! ہم آگے چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی تمھارا سٹاپ آنے ہی والا ہے۔”احمد نے ہمیں گزرنے کے لیے جگہ دی۔ مائیکل بھی فوراً اٹھا اور سیٹوں کے درمیانی راستے پر کھڑا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ میں اُٹھتا، وہ لڑکا دوڑتا ہوا مائیکل کی طرف لپکا اور اسے پیچھے سے زور دار دھکا دے دیا۔ مائیکل منہ کے بل فرش پر جا گرا۔ میں تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

”تم ٹھیک ہو، مائیکل؟“

مائیکل ہکا بکا تھا لیکن اسے کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی تھی۔ وہ ایک مضبوط بچہ تھا۔ اس نےاثبات میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے۔ اس کے چہرے پر خراشیں آئی تھیں۔ اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو چھلکنے سے روک لیا۔

“دیکھو تو۔۔۔یہ بدبودار احمق ہندو کیسے اس نیولے نما چینے لڑکے کی حمایت کر رہا ہے۔” اُس لڑکے نے اور قریب آتے ہوئے کہا تاکہ میں اس کی بات کو اچھی طرح سن سکوں۔ میں جوں ہی کھڑا ہوا تو اسے موقع مل گیا۔ اس نے مجھے بھی زور دار دھکا دیا اور میں مائیکل کے اوپر جا گرا۔ میں اور مائیکل بس کے فرش پر اوپر تلے پڑے تھے۔

اس کے بعد تو جیسے اندھیرا چھا گیا اور جو کچھ بھی ہوا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ پتہ نہیں میں نے اس موقع پر کیا پلان بنایا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں اس لڑکے پر لپکا، ایک ہاتھ سے اس کو گلے سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے پے در پے زوردارمکّے رسید کیے۔ پھر مجھے اُس کا چلّانا یاد ہے اور چٹاخ کی وہ آوازیں بھی جو میرا مکا اُس کے جبڑے پر لگنے سے پیدا ہو رہی تھیں۔ مجھے وہ جوش، وہ غصہ اور بہتا ہوا خون بھی یاد ہے۔

یہ لڑائی تھوڑی دیر ہی جاری رہی۔ شاید چند سیکنڈ۔ خون کو دیکھ کر میں ڈر گیا۔ میں اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ لڑکا ہچکیاں لینے لگا اور میری غیر متوقع جوابی کارروائی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ وہ سہما ہوا تھا۔ شاید اسے ڈر تھا کہ میں ایک اور حملہ نہ کر دوں۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مائیکل بت بنا کھڑا تھا اور احمد بھی بالکل چپ چاپ تھا۔بس رکی اور چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ میں ہکا بکا تھا۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ میں ایسا بھی کر سکتا ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا تھا اس پر میں خود بھی حیران تھا۔ میں غضب ناک اور غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ اس سے قبل میں نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کروں؟

مجھے اس وقت یہی بات مناسب لگی کہ میں اپنا اور مائیکل کا بیگ اٹھا کر بس سےاتر جاؤں۔ مائیکل بھی میری پیروی میں بس سے اُتر گیا اور ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ بس ڈرائیور ڈاٹی نے مجھے پیچھے سے آواز دی لیکن میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ وہ مجھے اس وقت سے جانتی تھی جب میں پہلے گریڈ میں تھا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ بہت پیار اور ہمدردی سے پیش آتی۔ میں اس پر بھروسہ کرتا تھا۔ لیکن اس روز میں نے اس کی طرف بھی توجہ نہ دی بلکہ اس کے بلانے کے باوجود چلتا رہا۔ میں اور مائیکل خاموشی سے چلتے رہے۔ شاید وہ مجھے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں پا رہا تھا۔

مائیکل کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ پتہ نہیں، اب کیا ہوگا؟ مجھے اپنے کیے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔

احمد بس میں ہی بیٹھا رہا اور مجھ سے پہلے گھر پہنچ گیا۔ جب میں گھر آیا تو باروچی خانے کے راستے ہال میں داخل ہوا اور وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے اپنا بیگ کمرے کے ایک کونے میں پھینکا اور بیڈ پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ میں کس کا انتظار کر رہا تھا؟ مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن میں اِتنا جانتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، اور جو بھی ہوگا اچھا نہیں ہو گا۔

اور پھر وہی ہوا۔ توقع کے عین مطابق، فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اس لڑکے کا باپ تھا۔

”قاسم!“، ابو نے بیٹھک سے آواز دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ کیوں بلا رہے ہیں۔ میں اور میرا بھائی جب کبھی آپس میں لڑتے تو ہمیں خوب ڈانٹ پلائی جاتی تھی۔ کسی باہر کے لڑکے سے لڑائی؟ میری تو شامت آنے والی تھی۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے خوف اور اندیشوں سے بھرا یہ پیدل مارچ اپنے کمرے سے ہال تک اور پھر لوِنگ روم سے ہوتے ہوئے ابو کے سٹڈی روم تک کیسے کیا۔ ان کے تیور بتا رہے تھے کہ مجھے بیٹھنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے سامنے کھڑے رہنا ہے۔ انھوں نے سیدھا میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا،

”کیا ہوا تھا؟“

مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں لہذا میرے ذہن میں جو بات سب سے پہلے آئی میں نے وہی کہہ دی،

”اس نے مجھے بدبو دار اور احمق ہندو کہہ کر پکارا تھا۔“

ابو میرے جواب سے مطمئن نہ ہوئے، ”اور اِس بات پر تمھیں اُسے مارنا چاہئیے تھا؟“

میں نے اصرار کیا، ”لیکن وہ کئی ہفتوں سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا۔“

میں رونا تو نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ میری آنکھیں بے اختیار برسنے لگیں۔

”اور اس بات پر تمھیں اسے مارنا چاہیئے تھا؟“ ابو کا لہجہ اب کرخت ہو رہا تھا۔ بار بار ایک ہی سوال میرے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔

”جی۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔ میں نے تو اسےاس لیے مارا کیونکہ اس نے ہمیں دھکا دے کر گرا دیا تھا۔“ میں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

” ’ہمیں‘ سے تمھاری کیا مراد ہے ؟ کھل کر بتاؤ۔“میں نے خود کو سنبھالا اور اپنی بہتی ہوئی ناک رگڑتے ہوئے کہنے لگا،

”جی۔۔۔ میرا مطلب ہے مجھے اور مائیکل کو۔“

”مائیکل، ہمارا ہمسایوں کا بچہ؟“

”ہاں جی۔۔۔ وہ اسے برے ناموں سے بلا کر چھیڑ رہا تھا اور پھر دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔وہ بے چارہ چھوٹا سا بچہ ہے۔“ میں نے پھر سے ناک رگڑتے ہوئے کہا۔

ابو نے تھوڑا توقف کیا اور پھر بولے، ”اچھا، تو اس نے تمھارا اور تمھارے مذہب کا مذاق اُڑایا اور ہمارے ہمسائے کو اور تمھیں دھکا دیا؟“

”جی ہاں!“

”ٹھیک ہے، جاؤ۔“

وہاں رک کر مزید تفصیل میں جانے کے بجائے میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر آکر میں نے اپنے ابو کو اس لڑکے کے باپ کو فون کرتے سنا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے آواز آئی، ”کوئی پریشانی کی بات نہیں، معافی تلافی کی بھی ضرورت نہیں، بچے جو ہوئے، بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے۔“

”قاسم! باہر کھڑے ہو کر باتیں سننے سے بہتر ہے تم اندر آجاؤ۔“

میں نے شرماتے ہوئے دروازہ کھولا اور دوبارہ کمرے کے اندر آگیا۔ اب کی بار کھڑے رہنے کے بجائے میں وہاں بیٹھ گیا۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ اب میں نے رونا بند کر دیا تھا۔ آخر میں بولا،

”کیا میرے لیے کوئی مسئلہ ہے؟“

ابو نے نفی میں سر ہلایا۔

”تو پھر۔۔۔؟“

ابو نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ”دیکھو، بیٹا! میں تمھیں کبھی ایسا نہیں کہوں گا کہ اپنا یا اپنے دوست کا دفاع کرنا غلط ہے۔ مجھے خوشی ہےکہ تم نے کسی ایسے انسان کا ساتھ دیا جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔“

مجھے معلوم تھا ابو کی اس ساری بات کو ایک ’لیکن‘ نیا رخ دے دے گا۔

”لیکن تمھیں یہ بات سیکھنی ہو گی کہ زندگی میں بعض اوقات لوگ تمھارے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کریں گے۔ یہ زندگی کا حصہ ہے۔“

میں نے وہی سوال کیا جو اس موقع پر ایک دس سالہ بچہ پوچھ سکتا تھا۔

”کیوں؟“

”کیونکہ لوگ ایسی باتوں سے ڈرتے ہیں جنھیں وہ سمجھ نہیں پاتے۔“

”تو ہم انھیں سمجھا بھی تو سکتے ہیں۔“

”ہم انھیں سمجھا سکتے ہیں، بیٹا! لیکن مار پیٹ سے نہیں۔ ہم کبھی بھی کسی کو مکّا مار کر بات نہیں سمجھا سکتے۔“

میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور سر جھکا کر سوچنے لگا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔

”لیکن کیسے؟ میں نے اسے کتنا روکا مگر وہ باز نہیں آیا۔ وہ کئی ہفتوں سے میرے ساتھ بدتمیزی کر رہا تھا اور دھونس جما رہا تھا۔ میں اور کیا کرتا؟“

”تم اس کا دل جیتنے کی کوشش کرتے۔“

”کیا مطلب۔۔۔؟“ میں نے منہ پھلاتے ہوئے حیرت سے کہا۔ مجھے یہ جواب پسند نہیں آیا تھا۔ مجھے یہ بات خوشامدی سی لگی اور پوری طرح سمجھ بھی نہ آئی۔

”ابو! مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔“

”سمجھ آ جائے گی۔ پہلے جاؤ، جا کر اپنا ہوم ورک کرو۔“

”لیکن۔۔۔“

”اب جاؤ اس سے پہلے کہ میں اپنا ارادہ بدل لوں۔“

میں خاموشی سے اٹھا اور اپنا سر ہاں میں ہلاتا ہوا وہا ں سے چلا آیا۔

لڑائی کے دوران جو کچھ ہوا، پھراس لڑکے کے باپ کا فون اور اس کے بعد کسی مصیبت میں پڑنے سے بچ جانا۔۔۔ ان سب باتوں کو میں پوری طرح سمجھ نہ پایا۔ البتہ مجھے دو باتیں بہت اچھی طرح سمجھ آ گئیں۔ پہلی یہ کہ میرے ابو کا نقطۂ نظر بالکل غلط تھا۔ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں نے اس غنڈے سے جان چھڑانے کی کتنی کوشش کی اور یہ لڑائی کتنے عرصے تک ٹالے رکھی۔ وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ میرا اصل مدعا کیا تھا، اور نہ ہی میں اُن کی بات پوری طرح سمجھ سکا تھا۔ سچ تو یہ ہے مجھے اُن کی بات سمجھنے میں کئی سال لگ گئے۔

دوسری یہ کہ میرے ساتھ غنڈہ گردی کی گئی تھی۔ مجھ پر میرے مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا یہ پہلا حملہ تھا اور یقیناً یہ آخری حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لڑکے کو اسلام تو دور، اپنے عقیدے کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک بات ضرور جانتا تھا۔۔۔کہ میں اس سے مختلف تھا اور یہ بات اس کے لیے کافی تھی کہ اس بنیاد پر وہ میری تحقیر اور ملامت کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کبھی بھی میرے مذہب کی بنیاد پر مجھ سے امتیاز برتا گیا، امتیاز برتنے والے لوگ میرے اور اپنے عقیدے کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہالت عمر، جنس، مذہب، تہذیب، سب کو مات دے دیتی ہے۔

بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے کہ دس سال کے معصوم بچے اپنے ساتھی بچوں کے مذہب کا مذاق اڑائیں لیکن دیکھا جائے تو کل ان کی یہی معصومیت کچھ اور رنگ بھی دکھا سکتی ہے۔ اسی ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھنے والے یہ بچے چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر مذہبی رہنما، سیاسی قائد یا ایسے آمر بن سکتے ہیں جو اپنے سے مختلف عقائد کے حامل افراد کے لیے موت کے پروانے جاری کرنے والے ہوں! ایسا سب کچھ ہونے کے لیے کسی مدت کا تعین تو نہیں کیا جاسکتا البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایسی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے پیچھے مذہب سے زیادہ جہالت اور بدتہذیبی کےعناصر ہی کار فرما ہوتے ہیں۔


نوٹ: مندرجہ بالا مضمون مصنف کی پہلی کتاب The Wrong Kind of Muslim سے اخذ کر کے دنیا بلاگز کے قارئین کے لئے اردو میں ڈھالا گیا ہے۔

The post  مذہبی منافرت سے میرا پہلا سامنا appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2J2wGbB

“کون لوگ او تسی” بمقابلہ “کپتان کا یوٹرن”

گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر “کون لوگ او تسی” بڑا ٹرینڈ کیا اور دو روز قبل تحریکِ انصاف کے نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا نام واپس لینے کے بعد سے “یوٹرن” ٹاپ ٹرینڈ بنا اور ہر کوئی یوٹرن کا راگ الاپنے لگا۔

تحریکِ انصاف نے نگران وزیرِ اعلیٰ کے پی کا بھی نام دے کر واپس لیا اور پھر پنجاب میں ناصر کھوسہ کا نام دے کر واپس لے لیا گیا جس پر ہماری سوشل میڈیا بریگیڈ بڑی ناراض دکھائی دی بلکہ خود پی ٹی آئی والے بھی اپنی جماعت کے اس عمل پر تنقید کرتے رہے اور یوں “کون لوگ او تسی” کی جگہ “یوٹرن” نے لے لی۔

تحریکِ انصاف اور عمران خان کی جانب سے اپنے بیان سے مکر جانا یا یوٹرن لینا بہت ہی معمولی بات ہے۔ پتہ نہیں کیوں اب یاروں کو برا لگتا ہے اور وہ تنقید پر اتر آتے ہیں۔ شاید یہ لوگ خان صاحب کے یوٹرن بھول گئے ہیں تو کیوں نہ عمران خان کے یوٹرن یاد کرا دئیے جائیں۔ ہو سکتا ہے انہیں کچھ یاد آجائے ورنہ ہم تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ “کون لوگ او تسی؟”

یوٹرن کی تاریخ نہ جانے کتنی پرانی ہے لیکن ہم زیادہ پیچھے نہیں جائیں گے۔ 2013ء میں عمران خان نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچر کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ میرے پاس ٹیپ موجود ہے لیکن بعد میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ بیان سیاسی تھا۔

5a9f8fa0b15bf

خان صاحب سابق چیف جسٹس پر بھی دھاندلی کا الزام لگا کر دستبردار ہو چکے ہیں۔ جناب نے کہا تھا افتخار چودھری اس ملک کی آخری امید ہیں اور پھر فرمایا کہ افتخار چودھری بھی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ اس یوٹرن پر بھی بندہ پوچھے “او پائی کون لوگ او تسی؟”

644082-cj-1386767572-909-640x480

عمران خان نے پرویز الہیٰ کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا اور اس کے بعد فرمایا پرویز الہیٰ اور ہم مل کر کرپشن کےخلاف لڑیں گے۔ اسی طرح جناب نے کہا شیخ رشید جیسے آدمی کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں اور پھرایسا یوٹرن لیا کہ اب کہتے ہیں شیخ رشید اور ہماری سوچ ایک ہے۔ کپتان نے بابر اعوان کو چور کہا اور پھر اسے ہی اپنا وکیل بھی رکھ لیا۔ اس یوٹرن پر بھی پوچھنا تو بنتا ہے “کون لوگ او تسی؟”

Cv2yD3PXEAASDzD

عمران خان ہمیشہ موروثی سیاست کےخلاف آواز اٹھاتے رہے۔ موروثی سیاست کو بنیاد بنا کر بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز کو نشانہ بناتے رہے۔ لودھراں میں ضمنی الیکشن کے وقت جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا۔ او پائی کون لوگ او تسی؟

شادیوں کا تو جناب کو بڑا شوق ہے پوری ہیٹرک کر رکھی ہے۔ ایک بار کہا تھا نواز شریف کے استعفے تک شادی نہیں کروں گا لیکن پھر دھرنے کے دوران ہی کہہ دیا کہ دھرنا اس لئے دے رہا ہوں تاکہ میں شادی کرسکوں۔ پھر طلاق پر کہا کہ طلاق کی باتیں میڈیا کر رہا ہے، سب جھوٹ ہے لیکن جب طلاق ہوگئی تو فرمایا طلاق میرا ذاتی مسئلہ ہے، کوئی بات نہ کرے۔ آخر بتا کیوں نہیں دیتے۔ کون لوگ او تسی؟

بشریٰ مانیکا کی خبر لیک ہوئی تو کہا صرف پیغام بھیجا ہے۔ پھر انہی گواہان کی گواہی پر نکاح بھی کرلیا۔

images (1)

جناب نے اعلان کیا کہ نواز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتا پھر اسی نواز شریف کے لگائے ہوئے آرمی چیف کو مبارکباد بھی پیش کرتے رہے۔ نواز شریف کی نااہلی کو بہترین فیصلہ قرار دیا اور پھر خود ہی کہہ دیا کہ کمزور فیصلہ دیا ہے۔۔ او پائی دس دیو کون لوگ او تسی؟

خان صاحب نے کہا آف شور کمپنی رکھنے والے چور ہیں، پھر جب اپنی نکل آئی تو کہا میں نے آف شور کمپنی اس لئے بنائی تاکہ ٹیکس بچا سکوں۔ جب بنی گالہ میں ان کے گھر کا کیس چلا تو پہلے کہا بنی گالہ کائونٹی کے پیسوں سے خریدا پھر اچانک یوٹرن لیا اور کہا نہیں نہیں بنی گالہ تو جمائما نے گفٹ کیا۔ جب بتا نہیں سکتے تو پوچھتے کیوں ہو۔۔ کہ کون لوگ او تسی ؟

جب پانامہ اسکینڈل کھلا تو عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس پانامہ کے ثبوت ہیں لیکن جب ثبوت عدالت نے مانگے تو کہا ثبوت دینا حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح جب خود عمران خان پر کیس ہوا تو کہا کہ ثبوت وہ دیتا ہے جو الزام لگاتا ہے۔۔ اوپائی کون لوگ او تسی؟

59cdb38ad2cb9

عمران خان کے بڑے بڑے یوٹرن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جناب نے آصف زرداری کو بیماری قرار دیا اور پھر سینیٹ میں اسی بیماری کو ووٹ بھی دے دیا اور تو اور کہتے تھے میرے لوگوں کو خریدا نہیں جا سکتا۔ پھر کہا کہ میرے لوگ بک گئے۔

جناب میٹرو بس کو جنگلا بس کہتے تھکتے نہیں تھے لیکن پشاور میں یہی جنگلہ بس بنالی۔ پنجاب میں میٹرو بس کے ایلی ویٹڈ ٹریک پر بھی تنقید کی اور کہا دنیا کے کسی ملک میں بس اوپر ہوا میں نہیں چلتی پھر پشاور میں بھی ایلی ویٹڈ ٹریک بنالیا اور کہا نیچے جگہ نہیں تھی۔ آخر کون لوگ او تسی؟

دھرنے کے دوران نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا لیکن اپنے ہی نمائندوں کے اسمبلی سے استعفے دلوادئیے۔ عمران خان نے 2009ء میں الطاف حسین کی تعریف کی اور پھر قاتل اور دہشت گرد کہا اور تو اور زہرہ شاہد کے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم والوں پر لگا دیا۔ اسی طرح عمران خان پرویز مشرف، افتخار محمد چودھری، چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی تعریفیں کیں اور اس کے بعد ان پر تنقیدی نشتر برسائے۔

Altaf_Hussain_23July2016 (3)

شخصیات تو شخصیات جناب نے اداروں کو بھی نہ بخشا پہلے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا اور پھر خود ہی واپس بھی آگئے۔ کتنی بار یہ مجھے یاد نہیں۔ ویسے تو یہ خود عمران خان کو بھی نہیں یاد رہتا کہ وہ آخری بار پارلیمنٹ کب گئے تھے۔ لیکن خان صاحب کی اسی حرکت پر میاں صاحب کو کہنے کا موقع مل گیا کہ خان صاحب نے تھوک کے چاٹا ہے۔ اب میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ یہ تھوک کے نہیں چاٹا صرف یوٹرن لیا گیا ہے۔

عمران خان خود کو دھرنے اور احتجاج کا ماہر کہتے ہیں اور وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی بات تو ایسے کر دیتے ہیں جیسے اماں بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ آنے دے تیرے باپ کو سب بتائوں گی اور بچے سہم جاتے ہیں لیکن ابا کے آنے پر اماں کو کچھ یاد ہی نہں رہتا۔ اسی طرح عمران خان نے بھی تئیس اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا پھر یوٹرن لے کر دھرنے کی تاریخ تبدیل کرکے دو نومبر کردی۔ یاد آیا دھرنے سے پہلے خان صاحب نے شیخ رشید کے ساتھ لال حویلی کے سامنے ٹریلر دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح مکر گئےاور ٹریلر نہیں دکھایا۔ بھلا ہو شیخ رشید کا جنہوں نے موٹرسائیکل پر ایسا اسٹنٹ کیا کہ ان کی پوری فلم ہی ہٹ ہوگئی۔

Sheikh_Rasheed

ستائیس اکتوبر سے یکم نومبر تک پولیس اور ایف سی کے ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں کی جھڑپیں چلتی رہیں لیکن خان صاحب بنی گالہ سے باہر تک نہیں نکلے اور پھر جب معاملہ حل ہوگیا تو جناب نے یکم نومبر کو دھرنے کی بجائے یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا تھا۔

ایک بار عمران خان صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات فوری ہونے چاہئیے اور اسی میں ملک کے مسائل کا حل ہے۔ شاید وہ خود شیروانی پہننے کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے اس مطالبے سے بھی پھر گئے اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے جماعت سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہےکہ انتخابات وقت پر ہی ہونے چاہئیے۔۔ پتہ نہیں یہ بیان دینے سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کر لیتے یا ان کی مشاورت ہوتی ہی بیان داغنے کے بعد ہے۔

لگتا ہے تحریک انصاف کو ٹرائی بال کھیلنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ان کی پہلی بال اگر مس ہوجائے یا ان کی وکٹیں اڑ جائیں، وہ گیند ان کیلئے ٹرائی ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ فوراً دوسری بال کا مطالبہ کر دیتے ہیں یا یوٹرن لے لیتے ہیں۔

تحریک انصاف کو اپنی یوٹرن پالیسی بدلنی ہوگی کیوں کہ اب عوام میں سنجیدگی اور شعور پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگر عمران خان نے اپنا ووٹ بنک بڑھانا ہے تو انہیں یہ باور کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔

 

The post “کون لوگ او تسی” بمقابلہ “کپتان کا یوٹرن” appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2sxxOIW

جدید ٹیکنالوجی اور مکتوب نگاری کا عمل

سائنس کی فیوض و بر کات کے باعث جہاں دنیا انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئی، وہیں مکتوب نگاری کا عمل نہ صرف متروک ہو کر رہ گیا بلکہ اس صنف کے ذریعے ادب میں تخلیق کا دروازہ بھی عملاً بند ہو کر رہ گیا ہے۔

جانگسل تنہائیوں کا کرب، ہجر و فراق کی صعوبتیں ہوں یا قربتوں کے نشاط آمیز لمحات، اسرارو رموز کی تفہیم ہو یا، دل کی بات، تشبیہات، استعارے، طرز تخاطب، الفاظ کا خوبصورت استعمال، یہ سب کچھ بیان کرنے میں مکتوب نگاری نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

ٹیکنالوجی کیا عام ہوئی مکتوب نگاری بھی اپ گریڈ ہوگئی۔ ای میل، ایس ایم ایس واٹس ایپ، ٹوئٹر اور ایسی کئی ایپلی کیشنز سے جہاں فاصلے سمٹے وہیں مختصر الفاظ اور علامتی نشانوں کے اس حیران کن انقلاب سے مکتوب نگاری پر ایسی کاری ضرب پڑی کہ اس صنف کی آبیاری کرنے والے چشموں کے سوتے ہی خشک نہیں ہوئے۔ بلکہ مکتوبات کے ذریعےاردو ادب کی پھلنے پھولنے والی زمین ہی بانجھ ہو کر رہ گئی۔

ماضی کے جھروکوں سے جھانکیں تو مکتوب نگاری نے نہ صرف عشق و محبت، رمزیہ گفتگو اور ادب و آداب کے قرینے، سلیقوں کے ساتھ بات کہنے کا وصف عام کیا بلکہ اردو زبان میں ادب کی ایک نئی جہت کو بھی فروغ دیا۔ مکتوب نگاری میں جس طرح ڈاکٹر رشید جہاں نے فیض کو اسی طرح علامہ اقبال نے عطیہ فیضی کو علمی و ادبی طور پر متاثر کیا۔ جاں نثار اختر کو صفیہ کے لکھے گئے خط بھی اردو ادب کا مرقع ہیں۔

علامہ اقبال کے اپنی جرمن اتالیق ایما کوسٹے کو تحریر کر دہ خطوط بھی دل کی بات سیلقے سے کہنے کا شاہکار ہیں۔

مرزا ا سد اللہ خاں غالب نے سادہ و پرکار، حسین و رنگین خطوط کے ذریعے اردو نثر میں سلاست، روانی اور جستگی سکھائی۔ غالب کے خطوط نے اپنے دلکش اسلوب سے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ان کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔

The post جدید ٹیکنالوجی اور مکتوب نگاری کا عمل appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2J4W7cJ

نیمبو پانی

ہم نے اس سال عالمی یومِ آب پرعلم کا دریا چھلکایا تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک دنیا فیض یاب ہوگی لیکن کسی نے چلو بھر پانی پینا گوارا نہیں کیا۔ اب سورج سوا نیزے پر آ چکا ہے۔ ہر طرف سے العتش العتش کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔ ہم نے سوچا کہ پھر ڈول ڈالنا چاہئیے۔ شاید اس مرتبہ امید بھر آئے۔

پانی کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ زمین پر اسی کا راج ہے۔ جہاں یہ جھرنوں، چشموں، آبشاروں، جھیلوں، ندیوں، نہروں، دریاؤں اور سمندروں کی صورت خشکی پر حکومت کر رہا ہے۔ جلوہ آرائی کے لیے لطافت کے ساتھ کثافت بھی ضروری ہے۔ اس لیے جوہڑوں، چھپروں، نالوں اور بدروؤں کا جال بچھا ہوا ہے۔

جس کا راج ہو اسی کے گن گائے جاتے ہیں۔ اس لیے پہلے جگہوں اور شہروں کے نام پانی پر رکھے جاتے تھے۔ پنجاب، سرگودھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاک پتن، تربیلا، مانسر وغیرہ۔ اس فہرست میں پانی پَت اس لیے شامل نہیں کیا کہ اس کی وجہء تسمیہ کا ڈول خون سے بھرا ہوا ہے۔

پانی جاپانی نہیں سنسکرت لفظ ہے۔ جاپانی اسے میزو، چینی چوآئی، ترکی سُو اور یونانی نَیرو کہتے ہیں۔ سنسکرت کی ساری بیٹیاں اردو، ہندی، بنگالی، برمی پانی پیتی اور پلاتی ہیں۔ پہاڑیے پانڑی اور سندھو دھارے کے میٹھے مانڑو کھارے پانڑیں پیتے ہیں۔ پانی کو آپ آب، ماء، واٹر، اوبو کچھ بھی کہیں ہر نام میں آپ کو اختصار اور پیار ملے گا۔

ہمارا خیال تھا کہ بوتل بند کمپنیاں اکوافینا، نسلے، کنلے، اسپرنگلے جیسے نام رکھتی ہیں۔ ایک دن جو بوتل بند برانڈز کی فہرست پر نظر پڑی تو روح تک پھیل گئی تاثیر مسیحائی کی۔ وادی، شبنم، چشمہ، جھرنا، آبشار، جھیل، ندی سے لے کر شفاف ناموں کا یہ سلسلہ زم زم، کوثر، تسنیم، سلسبیل، سلوی اور وانیا ایسے مقدس نامون تک پھیلا ہوا ہے۔

پانی ازل سے مقدس ہے۔ زم زم، عیون عین، گنگاجل اور امرت جل اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار ٹھنڈے اور تتّے پانیوں کی پارسائی کا دعویٰ اور شہرہ ہے۔

پانی کا بے رنگ اور بے ذائقہ ہونا کتابی باتیں ہیں۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتے ہوئے ہم نے دیکھا کہ پانی شفاف اور گدلا؛ نیلا اور سبز؛ آسمانی اور مٹیالا؛ میٹھا اور کھاری؛ ٹھنڈا اور گرم؛ ہلکا اور بھاری؛ پاک اور ناپاک ہر طرح کا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پانی کے بہت سے جوڑ ہیں۔ کبھی بدنام زمانہ کالے پانی کا چرچا تھا آج بلیک واٹر کا شہرہ ہے۔

پانی بہروپیا ہے۔ جمتا، پگھلتا اور اڑتا پھرتا ہے۔ برف، بخارات، بارش، آبشار، جھرنا، چشمہ، حوض، تال (تالاب)، جھیل، ندی، دریا، سمندر۔۔۔ کیا کیا جلوے دکھاتا ہے۔

پانی سیلانی ہے۔ ہمالیہ کی چوٹیاں، وادیاں، میدان، صحرا اور سمندر اس کی زد میں ہیں۔ سفر بائی لینڈ ہو یا بائی ائیر کسی ٹکٹ، ویزے اور پاسپورٹ سے بے نیاز ہے۔ کبھی کبھار چکر جیکب آباد، سبی، خضدار اور تھر کا بھی لگا لیتا ہے لیکن کشمیر، سکردو، چترال، سوات کو زیادہ پسند کرتا ہے۔

پانی تہذیبوں کو جنم دیتا ہے۔ اسی لیے معروف تر تہذیبیں نیل، دجلہ، سندھ اور سواں وغیرہ کے دھانے پروان چڑھیں۔ انہی پانیوں نے ان تہذیبوں کا مٹایا۔ اس لیے اب احتیاطاً نئی تہذیبیں لیاریوں اور لئیوں کے دھانے پروان چڑھ رہی ہیں۔

پانی گھر کو جنت بنا دیتا ہے۔ اب گھروں میں قدموں کے نیچے نہریں تو بحریہ مالکان ہی بہا سکتے ہیں۔ لیکن گرتی آبشاریں اور اچھلتے فوارے بھی کسی جنت سے کم خوبصورت نہیں ہیں۔ صحن میں درختوں، پتھروں اور پودوں کے ساتھ پانی اور روشنی کا اہتمام گھر کو ارم بنا دیتا ہے۔

پانی ہر جاندار کے لیے ضروری ہے لیکن پانی کے محکمے کے لیے ناگزیر ہے۔ اس کا مستعد عملہ نکاسی و فراہمی آب کے منصوبوں کی فائلوں کی حفاظت کے لیے پتہ پانی کر دیتا ہے۔ اس سے پانی میں پوشیدہ خواص کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جل تھل ایک اس وقت ہوتا ہے جب آسمان ٹوٹ کر برستا ہے۔ سڑکیں نہریں بن جاتی ہیں۔ نئے ٹینڈر کھلتے ہیں، حقہ پانی چلتا اور مال پانی بنتا ہے۔ کوئی دم نہیں مارتا۔

جہاں مقدس پانی ہو وہاں خضر اور الیاس نما کیوں نہیں ہوں گے؟ چناچہ گلی گلی پانی ضرور دم ہر رہا ہے اور اس کے چھینٹے مارے جا رہے ہیں۔ پھونکوں سے جراثیم زدہ پانی آب شفا بن جاتا ہے۔ صدیوں کا مریض ذہن اٹھ بیٹھتا ہے اور بے سدھ جسم دندناتا پھرتا ہے۔

کبھی جو پانی پینے پلانے پر جھگڑتے تھے اب وہ مزے سے آب خوروں میں پانی پیتے اور بحرِ مردار میں گھوڑے دوڑاتے پھر رہے ہیں۔ پانی دینا تو درکنار آگ پر ڈالنے کو پانی نہیں ملتا۔ لوگ پانی پانی ہونے کے بجائے پانی پانی کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوستو! رمضان کا مہینہ ہے۔ اس لیے ہم نے آبِ تلخ کا ذکر نہیں کیا۔ افطار کا لطف دوبالا کرنے کے لیے آبِ سادہ میں جو نیمبو، نمک اور سکرین کی آمیزش کی ہے آپ کو کیسی لگی؟؟

The post نیمبو پانی appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2H9zopY

Does the media have a problem with coverage of mass shootings?

Parkland students reignite debate on whether the media is reporting on mass shootings responsibly.

from BBC News - World https://ift.tt/2Jo9i7X

نوجوان نسل کی آمد سے فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، میبل خان

 لاہور: خوبرواداکارہ وماڈل میبل خان نے کہا ہے کہ پاکستان فلم انڈسٹری میں نوجوان نسل کی آمد سے برسوں سے چھایا بحران ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

’’ایکسپریس‘‘سے گفتگوکرتے ہوئے میبل خان نے کہا کہ اس وقت ہماری فلم انڈسٹری کودوسرے ممالک کے ساتھ مشترکہ فلمسازی کی اشد ضرورت ہے۔ بھارت، ایران، چائنہ اوردیگرمغربی ممالک کے ساتھ مل کر یا سارک ممالک کے ساتھ مشترکہ فلمسازی کا عمل بھی موجودہ دورکی ضرورت ہے۔

میبل خان نے کہا کہ دنیا بھرمیں اس وقت کو پروڈکشن پرتوجہ دی جارہی ہے۔ اس سے دو بڑے فائدے ہوتے ہیں، ایک تودوممالک کے درمیان تعلقات مستحکم اورمضبوط ہوتے ہیں اوردوسرا دونوں ممالک کے لوگ جب مل کرکام کرتے ہیں تواس سے بہت کچھ سیکھنے کوملتا ہے، جومستقبل میں آگے بڑھنے کیلیے درست سمت کا تعین کرتا ہے۔

اداکارہ نے کہا کہ اس وقت ہمارے ہاں فلم میکنگ کے معیار میں بہتری دکھائی دے رہی ہے اوربہت سے نوجوان فلم کے شعبے سے وابستہ ہورہے ہیں۔ دوسری جانب کوپروڈکشن کوفروغ دینے کیلیے ہمارے فلم میکرآجکل خاصے سرگرم ہیں، اس لیے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی فلم میں انقلابی تبدیلیاں رونماہونگی اوریہاں ہونے والا کام دنیا بھرمیں پسند کیاجائے گا۔

The post نوجوان نسل کی آمد سے فلم انڈسٹری کا بحران ختم ہوتا دکھائی دے رہا ہے، میبل خان appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2swxevh

سمندری ہوائیں چلنے سے شہر میں گرمی کی شدت میں کمی آگئی

 کراچی: شہر میں شدید گرمی کی حالیہ لہر میں نمایاں کمی آگئی۔

محکمہ موسمیات کے مطابق بالائی سندھ پر ہوا کے کم دباؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرمی کی لہر میں اگلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید کمی کا امکان ہے اور ایک سے دوروز کے دوران شمال اور شمال مغربی ہواؤں کاسلسلہ بھی تھم جائے گا ،جنوب مغربی سمت کی سمندری ہوائیں اپنے معمول کی رفتار سے چل پڑے گی جس کے دوران یہ توقع ہے کہ اگلے ہفتے کے دوران شہر کا درجہ حرارت معتدل اور متوازن رہ سکتا ہے ۔

گزشتہ روز شہر کا کم سے کم درجہ حرارت 29جبکہ زیادہ سے زیادہ 38.4ڈگری ریکارڈ ہوا ،دوپہر کے وقت ہوا میں نمی کاتناسب 52فیصد تک بڑھنے کی وجہ سے حدت محسوس کی گئی تاہم صبح کے وقت بند سمندری ہوائیں بحال ہونے کے بعد پارہ مذید بلند ہونے سے رہ گیا۔

محکمہ موسمیات کے مطابق آج شہر کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 36سے38ڈگری کے درمیان رہنے کا امکان ہے جبکہ موسم گرم اور مرطوب رہ سکتا ہے۔

The post سمندری ہوائیں چلنے سے شہر میں گرمی کی شدت میں کمی آگئی appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2LNyFOL

ماہ مئی میں حادثات اور واقعات میں 216 افراد ہلاک

 کراچی: ماہ مئی میں شہر قائد میں ڈاکوؤں نے مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے 5 شہریوں کو ہلاک اور 46افراد کو زخمی کردیا اور فائرنگ کے دیگر واقعات میں میاں ،بیوی ،سالا،بہنوئی اور تین خواتین سمیت 16افراد جاں بحق اور 55افراد زخمی ہوگئے۔

روزنامہ ایکسپریس کے اعداد و شمار ، پولیس اور متعلقہ اداروں سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق شہر قائد میں ماہ مئی میں بھی نامعلوم مسلح ملزمان نے ڈکیتی مزاحمت پر 5افرد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا،مئی کو ڈاکس کے علاقے میں ڈاکوؤں نے مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے مچھلی کے بیوپاری عبدالقادر کو قتل کیا ،6مئی کو سائٹ سپر ہائی وے پر ڈاکوؤں کی فائرنگ سے نوجوان عبیداﷲ ہلاک ہوا۔

7مئی کو مبینہ ٹاؤن میں لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر ملزمان نے فائرنگ کرکے لودھی پوری کو ہلاک کردیا تھا ،13مئی کو تیموریہ کے علاقے میں نامعلوم ملزمان نے دکان میں گھس کر لوٹ مار کی اور مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے محمد دانش اور محمد سلیم کو ہلاک کردیاتھا جبکہ شہر کے مختلف علاقوں میں نامعلوم ملزمان نے ڈکیتی مزاحمت پر46افرد کو شدید زخمی کیا، مسلح ملزمان نے ذاتی دشمنی اوردیگر واقعات میں فائرنگ کرکے سالا ، بہنوئی  میاں بیوی ،تین خواتین سمیت 16افراد ہلاک اور55افراد کو زخمی کردیا تھا۔

شہر میں ذاتی دشمنی، گھریلوں جھگڑوں اور دیگر واقعات پر ملزمان نے تشدد ،تیز دھار آلے اور گلہ گھونٹ کر ماں اسکے کمسن بیٹے ، تین خواتین اور ایک کمسن بچے سمیت 14افراد کو قتل کردیا ان واقعات میں ملوث پولیس نے چند ملزمان کو گرفتار بھی کیا تھا۔

ماہ مئی میں دہلانے والے مذکورہ واقعات میں ایک واقعہ فرئیر کے علاقے میں 23مئی کو رونما ہوا جس میں ساس اور دیوار نے مل کر بھابھی رمشاء اسکے کمسن بیٹے دو سالہ عبد الہادی کو گھر میں تشدد کا نشانہ بنا کر آٹھویں منزل کر دھکا کر قتل کردیا تھا پولیس نے ساس اور دیور کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا تھا۔

25مئی سائٹ سپر ہائی وے تھانے کی حدود میں ملزم نے ڈیڑھ سالہ راحیل کو تشدد کرکے قتل کیا تھا ،27مئی کو باپ نے نوجوان بیٹی کو ذاتی جھگڑے کے دوران گلہ گھونٹ کر قتل کیا تھا ،9مئی کو لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں لیاری گینگ وار کے کارندوں نے دستی بم سے حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک شہری شدید زخمی ہوا تھا ۔

11مئی کو پولیس نے لیاری گینگ وار سے تعلق رکھنے والے کارندے کی نشاندہی پر منگھوپیر میں ایک مکان سے کئی روز پرانی نوجوان زوہیب خان کی لاش برآمد کی تھی ملزم نے مقتول کو اغواء کے بعد تشدد کانشانہ بنایا اور فائرنگ کرکے قتل کردیا اور لاش دفنا دی تھی ۔اینٹی انکروچمنٹ سیل اور ڈسٹرکٹ پولیس کی جانب سے10مئی کو صدر ایمپریس مارکیٹ غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائی کی تھی اس دوران پولیس کے مبینہ تشدد سے ایک شہری40 سالہ محمد معروف نامی شخص ہلاک ہوگیا تھا۔

پولیس کا موقف تھا کہ متوفی تشدد سے نہیں دل کو دورہ پڑنے سے ہلاک ہوا ۔8مئی کو ساحل تھانے کی حدود سے نامعلوم اغوا کاروں نے تاجر حنیف سورتی کا اغواء کیا جبکہ 29مئی کو سول اسپتال سے نامعلوم افراد نے تین سالہ بچے کو اغوا کرلیا جس کی تلاش تاحال جاری ہے ،علاوہ ازیں شہر قائد میں ٹریفک حادثات میں 88 افراد ہلاک ،15افراد کی لاشیںملیں ، خواتین سمیت15افراد نے خودکشیاں کی جبکہ دیگر حادثات و واقعات میں 61افراد ہلاک ہوئے ۔

ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق ماہ مئی میں ہیٹ اسٹروک میں 66افراد لقہ اجل بنے ، شہر قائد کے مختلف مقامات پر ٹریفک حادثات میں ماں بیٹے سمیت88افراد ہلاک ہوئے،خواتین سمیت 15نے خودکشی کی ، شہر کے مختلف علاقوں سے 15افراد کی لاشیں ملیں تھی ،کرنٹ لگنے سے 15افراد لقہ اجل بنے ،ٹرین کی زد میں آکر 6افراد جاں بحق ہوئے ،چھت سے گرنے و دیگر واقعات میں 12افراد ہلاک ہوئے ، ڈوب کر 14افراد جان کی بازی ہار گئے۔

موچکو میں گھر میں آتشزدگی کے واقعات میں جھلس کر ماں اسکے 8بچے جاں بحق ہوئے جبکہ آتشزدگی کے دیگر واقعات میں جھلس کر 2افراد ہلاک ہوئے،دم گھٹنے سے 2افراد جان کی بازی ہار گئے۔

واضح رہے کہ ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان دعوٰی تھا کہ ماہ مئی میں شہر میں جاری ہیٹ اسٹروک اور ویو کے دوران 66افراد جاں بحق ہوئے ۔

The post ماہ مئی میں حادثات اور واقعات میں 216 افراد ہلاک appeared first on ایکسپریس اردو.



from ایکسپریس اردو https://ift.tt/2xu4cCk

Wikipedia article of the day for June 1, 2018

The Wikipedia article of the day for June 1, 2018 is Pioneer Helmet.
The Pioneer Helmet is a boar-crested Anglo-Saxon helmet dating from the late seventh century. During a March 1997 excavation, it was found in Wollaston, Northamptonshire, in a young man's grave, probably the burial mound of a high-status warrior, along with a hanging bowl and a pattern welded sword. The sparsely decorated helmet is one of only six Anglo-Saxon helmets yet discovered, joined by finds from Benty Grange, Sutton Hoo, York, Shorwell and Staffordshire. Like most of these, it is one of the crested helmets that flourished in England and Scandinavia from the sixth through the eleventh centuries. Boar-crested helmets are a staple of Anglo-Saxon imagery, evidence of a Germanic tradition in which the boar invoked the protection of the gods. In the Anglo-Saxon poem Beowulf, such helmets are mentioned five times. Unveiled at the New Walk Museum in Leicester, the helmet is on display at the Royal Armouries Museum in Leeds.

Thursday, May 31, 2018

How Sweden is preparing for its election to be hacked

Will a "Facebook hotline" and propaganda lessons keep polls free and fair?

from BBC News - World https://ift.tt/2H6xOoK

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny