
By MAUREEN RYAN from NYT Arts https://ift.tt/2J2TCaQ

روس میں فیفا ورلڈ کپ سے قبل ہی میگا ایونٹ کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا۔ فٹ بال ورلڈ کپ کی تیاریاں عروج پر پہنچ گئی ہیں، تاہم اس سال ہونے والے ورلڈ کپ سے متعلق آپ کتنا جانتے ہیں؟ نہیں تو کچھ دلچسپ حقائق ہم آپ کو بتاتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم...
The post فٹ بال ورلڈ کپ سال 2018۔۔!! آپ کتنا جاتے ہیں؟؟ appeared first on Samaa Urdu News.
سکول بس میں بیٹھ کر ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے تو حسبِ معمول طعنہ زنی شروع ہو گئی۔
”سنو! تم نے اپنی پیشانی پر سرخ تلک کیوں نہیں لگایا؟ تم مسلمان بد بُو دار کچرے کا ڈھیر ہو۔“
میں نے غصے پر قابو پاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو کاٹا، ”سرخ تلک ہندو لگاتے ہیں۔ میں مسلمان ہوں، اورہاں میں کچرے کا ڈھیر نہیں ہوں۔“
” شرط لگا لو! تم بد بو دار ہندو ہو لیکن چھپا رہے ہو۔“
میں نے اپنا سر جھٹکا اور اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں جانتا تھا وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی تضحیک مجھے پریشان کرنے کے لیے کر رہا ہے اور میں اپنی پریشانی ظاہر کر کے اسے تسکین فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
میں پانچویں گریڈ میں تھا اور میرے برابر میرا ہمسایہ مائیکل بیٹھا ہوا تھا جو پہلے گریڈ کا طالبعلم تھا۔ میرا چھوٹا بھائی احمد مجھ سے چند قطاریں چھوڑ کر بیٹھا تھا۔ مائیکل دیکھ رہا تھا کہ میں ان باتوں کی وجہ سے پریشان ہو رہا ہوں لیکن کم سِن ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک طرح سمجھ نہیں پایا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔ اُس لڑکے کا طنز بدستور جاری رہا، وہ میرے ہی سکول میں پڑھتا تھا اورسکول میں اپنی غنڈہ گردی کے لئے جانا جاتا تھا۔
”اور تم اس نیولے جیسے چینے لڑکے کے ساتھ ہر وقت کیوں چپکے رہتے ہو؟“
میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا،
”بکواس بند کرو، نالائق! کچھ شرم کرو۔ یہ پہلے گریڈ کا طالبعلم ہے۔ اسے تو بخش دو۔“
میں طیش میں آکر نجانے کیا کچھ کہہ گیا اور وہ یہی چاہتا تھا کہ میں غصے میں آ کے کچھ بولوں،
”اچھا جی!تم کیا بگاڑ لو گے میرا؟بدبو داراحمق ہندو!“ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا۔
مائیکل میرے ساتھ والی سیٹ پر ہی بیٹھا تھا اور میں کھڑکی کی طرف۔ میں ڈر گیا۔ میں لڑنا ہر گز نہیں چاہتا تھا۔
“چلو، مائیکل! ہم آگے چلے جاتے ہیں۔ ویسے بھی تمھارا سٹاپ آنے ہی والا ہے۔”احمد نے ہمیں گزرنے کے لیے جگہ دی۔ مائیکل بھی فوراً اٹھا اور سیٹوں کے درمیانی راستے پر کھڑا ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ میں اُٹھتا، وہ لڑکا دوڑتا ہوا مائیکل کی طرف لپکا اور اسے پیچھے سے زور دار دھکا دے دیا۔ مائیکل منہ کے بل فرش پر جا گرا۔ میں تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
”تم ٹھیک ہو، مائیکل؟“
مائیکل ہکا بکا تھا لیکن اسے کوئی بڑی چوٹ نہیں آئی تھی۔ وہ ایک مضبوط بچہ تھا۔ اس نےاثبات میں سر ہلاتے ہوئے بتایا کہ وہ ٹھیک ہے۔ اس کے چہرے پر خراشیں آئی تھیں۔ اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں کو چھلکنے سے روک لیا۔
“دیکھو تو۔۔۔یہ بدبودار احمق ہندو کیسے اس نیولے نما چینے لڑکے کی حمایت کر رہا ہے۔” اُس لڑکے نے اور قریب آتے ہوئے کہا تاکہ میں اس کی بات کو اچھی طرح سن سکوں۔ میں جوں ہی کھڑا ہوا تو اسے موقع مل گیا۔ اس نے مجھے بھی زور دار دھکا دیا اور میں مائیکل کے اوپر جا گرا۔ میں اور مائیکل بس کے فرش پر اوپر تلے پڑے تھے۔
اس کے بعد تو جیسے اندھیرا چھا گیا اور جو کچھ بھی ہوا مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ پتہ نہیں میں نے اس موقع پر کیا پلان بنایا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں اس لڑکے پر لپکا، ایک ہاتھ سے اس کو گلے سے پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے پے در پے زوردارمکّے رسید کیے۔ پھر مجھے اُس کا چلّانا یاد ہے اور چٹاخ کی وہ آوازیں بھی جو میرا مکا اُس کے جبڑے پر لگنے سے پیدا ہو رہی تھیں۔ مجھے وہ جوش، وہ غصہ اور بہتا ہوا خون بھی یاد ہے۔
یہ لڑائی تھوڑی دیر ہی جاری رہی۔ شاید چند سیکنڈ۔ خون کو دیکھ کر میں ڈر گیا۔ میں اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچانا چاہتا تھا۔ وہ لڑکا ہچکیاں لینے لگا اور میری غیر متوقع جوابی کارروائی دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ وہ سہما ہوا تھا۔ شاید اسے ڈر تھا کہ میں ایک اور حملہ نہ کر دوں۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مائیکل بت بنا کھڑا تھا اور احمد بھی بالکل چپ چاپ تھا۔بس رکی اور چاروں طرف خاموشی چھا گئی۔ میں ہکا بکا تھا۔ کسی کو توقع نہ تھی کہ میں ایسا بھی کر سکتا ہوں۔ میں نے جو کچھ کیا تھا اس پر میں خود بھی حیران تھا۔ میں غضب ناک اور غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔ اس سے قبل میں نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا کروں؟
مجھے اس وقت یہی بات مناسب لگی کہ میں اپنا اور مائیکل کا بیگ اٹھا کر بس سےاتر جاؤں۔ مائیکل بھی میری پیروی میں بس سے اُتر گیا اور ہم دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ بس ڈرائیور ڈاٹی نے مجھے پیچھے سے آواز دی لیکن میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ وہ مجھے اس وقت سے جانتی تھی جب میں پہلے گریڈ میں تھا۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ بہت پیار اور ہمدردی سے پیش آتی۔ میں اس پر بھروسہ کرتا تھا۔ لیکن اس روز میں نے اس کی طرف بھی توجہ نہ دی بلکہ اس کے بلانے کے باوجود چلتا رہا۔ میں اور مائیکل خاموشی سے چلتے رہے۔ شاید وہ مجھے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن بول نہیں پا رہا تھا۔
مائیکل کو اس کے گھر چھوڑنے کے بعد میں اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔ پتہ نہیں، اب کیا ہوگا؟ مجھے اپنے کیے پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
احمد بس میں ہی بیٹھا رہا اور مجھ سے پہلے گھر پہنچ گیا۔ جب میں گھر آیا تو باروچی خانے کے راستے ہال میں داخل ہوا اور وہاں سے سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ میں نے اپنا بیگ کمرے کے ایک کونے میں پھینکا اور بیڈ پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ میں کس کا انتظار کر رہا تھا؟ مجھے معلوم نہیں تھا۔ لیکن میں اِتنا جانتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، اور جو بھی ہوگا اچھا نہیں ہو گا۔
اور پھر وہی ہوا۔ توقع کے عین مطابق، فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اس لڑکے کا باپ تھا۔
”قاسم!“، ابو نے بیٹھک سے آواز دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ وہ کیوں بلا رہے ہیں۔ میں اور میرا بھائی جب کبھی آپس میں لڑتے تو ہمیں خوب ڈانٹ پلائی جاتی تھی۔ کسی باہر کے لڑکے سے لڑائی؟ میری تو شامت آنے والی تھی۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ یہ میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے خوف اور اندیشوں سے بھرا یہ پیدل مارچ اپنے کمرے سے ہال تک اور پھر لوِنگ روم سے ہوتے ہوئے ابو کے سٹڈی روم تک کیسے کیا۔ ان کے تیور بتا رہے تھے کہ مجھے بیٹھنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے سامنے کھڑے رہنا ہے۔ انھوں نے سیدھا میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا،
”کیا ہوا تھا؟“
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بات کہاں سے شروع کروں لہذا میرے ذہن میں جو بات سب سے پہلے آئی میں نے وہی کہہ دی،
”اس نے مجھے بدبو دار اور احمق ہندو کہہ کر پکارا تھا۔“
ابو میرے جواب سے مطمئن نہ ہوئے، ”اور اِس بات پر تمھیں اُسے مارنا چاہئیے تھا؟“
میں نے اصرار کیا، ”لیکن وہ کئی ہفتوں سے میرے پیچھے پڑا ہوا تھا۔“
میں رونا تو نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ میری آنکھیں بے اختیار برسنے لگیں۔
”اور اس بات پر تمھیں اسے مارنا چاہیئے تھا؟“ ابو کا لہجہ اب کرخت ہو رہا تھا۔ بار بار ایک ہی سوال میرے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔
”جی۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔ میں نے تو اسےاس لیے مارا کیونکہ اس نے ہمیں دھکا دے کر گرا دیا تھا۔“ میں نے ڈبڈباتی آنکھوں سے ابو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” ’ہمیں‘ سے تمھاری کیا مراد ہے ؟ کھل کر بتاؤ۔“میں نے خود کو سنبھالا اور اپنی بہتی ہوئی ناک رگڑتے ہوئے کہنے لگا،
”جی۔۔۔ میرا مطلب ہے مجھے اور مائیکل کو۔“
”مائیکل، ہمارا ہمسایوں کا بچہ؟“
”ہاں جی۔۔۔ وہ اسے برے ناموں سے بلا کر چھیڑ رہا تھا اور پھر دھکا دے کر نیچے گرا دیا۔وہ بے چارہ چھوٹا سا بچہ ہے۔“ میں نے پھر سے ناک رگڑتے ہوئے کہا۔
ابو نے تھوڑا توقف کیا اور پھر بولے، ”اچھا، تو اس نے تمھارا اور تمھارے مذہب کا مذاق اُڑایا اور ہمارے ہمسائے کو اور تمھیں دھکا دیا؟“
”جی ہاں!“
”ٹھیک ہے، جاؤ۔“
وہاں رک کر مزید تفصیل میں جانے کے بجائے میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ باہر آکر میں نے اپنے ابو کو اس لڑکے کے باپ کو فون کرتے سنا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے آواز آئی، ”کوئی پریشانی کی بات نہیں، معافی تلافی کی بھی ضرورت نہیں، بچے جو ہوئے، بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے۔“
”قاسم! باہر کھڑے ہو کر باتیں سننے سے بہتر ہے تم اندر آجاؤ۔“
میں نے شرماتے ہوئے دروازہ کھولا اور دوبارہ کمرے کے اندر آگیا۔ اب کی بار کھڑے رہنے کے بجائے میں وہاں بیٹھ گیا۔ ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ اب میں نے رونا بند کر دیا تھا۔ آخر میں بولا،
”کیا میرے لیے کوئی مسئلہ ہے؟“
ابو نے نفی میں سر ہلایا۔
”تو پھر۔۔۔؟“
ابو نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ”دیکھو، بیٹا! میں تمھیں کبھی ایسا نہیں کہوں گا کہ اپنا یا اپنے دوست کا دفاع کرنا غلط ہے۔ مجھے خوشی ہےکہ تم نے کسی ایسے انسان کا ساتھ دیا جو اپنا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔“
مجھے معلوم تھا ابو کی اس ساری بات کو ایک ’لیکن‘ نیا رخ دے دے گا۔
”لیکن تمھیں یہ بات سیکھنی ہو گی کہ زندگی میں بعض اوقات لوگ تمھارے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کریں گے۔ یہ زندگی کا حصہ ہے۔“
میں نے وہی سوال کیا جو اس موقع پر ایک دس سالہ بچہ پوچھ سکتا تھا۔
”کیوں؟“
”کیونکہ لوگ ایسی باتوں سے ڈرتے ہیں جنھیں وہ سمجھ نہیں پاتے۔“
”تو ہم انھیں سمجھا بھی تو سکتے ہیں۔“
”ہم انھیں سمجھا سکتے ہیں، بیٹا! لیکن مار پیٹ سے نہیں۔ ہم کبھی بھی کسی کو مکّا مار کر بات نہیں سمجھا سکتے۔“
میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور سر جھکا کر سوچنے لگا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔
”لیکن کیسے؟ میں نے اسے کتنا روکا مگر وہ باز نہیں آیا۔ وہ کئی ہفتوں سے میرے ساتھ بدتمیزی کر رہا تھا اور دھونس جما رہا تھا۔ میں اور کیا کرتا؟“
”تم اس کا دل جیتنے کی کوشش کرتے۔“
”کیا مطلب۔۔۔؟“ میں نے منہ پھلاتے ہوئے حیرت سے کہا۔ مجھے یہ جواب پسند نہیں آیا تھا۔ مجھے یہ بات خوشامدی سی لگی اور پوری طرح سمجھ بھی نہ آئی۔
”ابو! مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی۔“
”سمجھ آ جائے گی۔ پہلے جاؤ، جا کر اپنا ہوم ورک کرو۔“
”لیکن۔۔۔“
”اب جاؤ اس سے پہلے کہ میں اپنا ارادہ بدل لوں۔“
میں خاموشی سے اٹھا اور اپنا سر ہاں میں ہلاتا ہوا وہا ں سے چلا آیا۔
لڑائی کے دوران جو کچھ ہوا، پھراس لڑکے کے باپ کا فون اور اس کے بعد کسی مصیبت میں پڑنے سے بچ جانا۔۔۔ ان سب باتوں کو میں پوری طرح سمجھ نہ پایا۔ البتہ مجھے دو باتیں بہت اچھی طرح سمجھ آ گئیں۔ پہلی یہ کہ میرے ابو کا نقطۂ نظر بالکل غلط تھا۔ انھیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں نے اس غنڈے سے جان چھڑانے کی کتنی کوشش کی اور یہ لڑائی کتنے عرصے تک ٹالے رکھی۔ وہ بالکل نہیں جانتے تھے کہ میرا اصل مدعا کیا تھا، اور نہ ہی میں اُن کی بات پوری طرح سمجھ سکا تھا۔ سچ تو یہ ہے مجھے اُن کی بات سمجھنے میں کئی سال لگ گئے۔
دوسری یہ کہ میرے ساتھ غنڈہ گردی کی گئی تھی۔ مجھ پر میرے مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا یہ پہلا حملہ تھا اور یقیناً یہ آخری حملہ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لڑکے کو اسلام تو دور، اپنے عقیدے کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک بات ضرور جانتا تھا۔۔۔کہ میں اس سے مختلف تھا اور یہ بات اس کے لیے کافی تھی کہ اس بنیاد پر وہ میری تحقیر اور ملامت کرے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب کبھی بھی میرے مذہب کی بنیاد پر مجھ سے امتیاز برتا گیا، امتیاز برتنے والے لوگ میرے اور اپنے عقیدے کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ جہالت عمر، جنس، مذہب، تہذیب، سب کو مات دے دیتی ہے۔
بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے کہ دس سال کے معصوم بچے اپنے ساتھی بچوں کے مذہب کا مذاق اڑائیں لیکن دیکھا جائے تو کل ان کی یہی معصومیت کچھ اور رنگ بھی دکھا سکتی ہے۔ اسی ذہنیت کے ساتھ پروان چڑھنے والے یہ بچے چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر مذہبی رہنما، سیاسی قائد یا ایسے آمر بن سکتے ہیں جو اپنے سے مختلف عقائد کے حامل افراد کے لیے موت کے پروانے جاری کرنے والے ہوں! ایسا سب کچھ ہونے کے لیے کسی مدت کا تعین تو نہیں کیا جاسکتا البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایسی ذہنیت کو پروان چڑھانے کے پیچھے مذہب سے زیادہ جہالت اور بدتہذیبی کےعناصر ہی کار فرما ہوتے ہیں۔
نوٹ: مندرجہ بالا مضمون مصنف کی پہلی کتاب The Wrong Kind of Muslim سے اخذ کر کے دنیا بلاگز کے قارئین کے لئے اردو میں ڈھالا گیا ہے۔
The post مذہبی منافرت سے میرا پہلا سامنا appeared first on دنیا اردو بلاگ.
گذشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر “کون لوگ او تسی” بڑا ٹرینڈ کیا اور دو روز قبل تحریکِ انصاف کے نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا نام واپس لینے کے بعد سے “یوٹرن” ٹاپ ٹرینڈ بنا اور ہر کوئی یوٹرن کا راگ الاپنے لگا۔
تحریکِ انصاف نے نگران وزیرِ اعلیٰ کے پی کا بھی نام دے کر واپس لیا اور پھر پنجاب میں ناصر کھوسہ کا نام دے کر واپس لے لیا گیا جس پر ہماری سوشل میڈیا بریگیڈ بڑی ناراض دکھائی دی بلکہ خود پی ٹی آئی والے بھی اپنی جماعت کے اس عمل پر تنقید کرتے رہے اور یوں “کون لوگ او تسی” کی جگہ “یوٹرن” نے لے لی۔
تحریکِ انصاف اور عمران خان کی جانب سے اپنے بیان سے مکر جانا یا یوٹرن لینا بہت ہی معمولی بات ہے۔ پتہ نہیں کیوں اب یاروں کو برا لگتا ہے اور وہ تنقید پر اتر آتے ہیں۔ شاید یہ لوگ خان صاحب کے یوٹرن بھول گئے ہیں تو کیوں نہ عمران خان کے یوٹرن یاد کرا دئیے جائیں۔ ہو سکتا ہے انہیں کچھ یاد آجائے ورنہ ہم تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ “کون لوگ او تسی؟”
یوٹرن کی تاریخ نہ جانے کتنی پرانی ہے لیکن ہم زیادہ پیچھے نہیں جائیں گے۔ 2013ء میں عمران خان نے نجم سیٹھی پر پینتیس پنکچر کا الزام لگایا اور دعویٰ کیا کہ میرے پاس ٹیپ موجود ہے لیکن بعد میں یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ بیان سیاسی تھا۔
خان صاحب سابق چیف جسٹس پر بھی دھاندلی کا الزام لگا کر دستبردار ہو چکے ہیں۔ جناب نے کہا تھا افتخار چودھری اس ملک کی آخری امید ہیں اور پھر فرمایا کہ افتخار چودھری بھی دھاندلی میں ملوث ہیں۔ اس یوٹرن پر بھی بندہ پوچھے “او پائی کون لوگ او تسی؟”
عمران خان نے پرویز الہیٰ کو سب سے بڑا ڈاکو قرار دیا اور اس کے بعد فرمایا پرویز الہیٰ اور ہم مل کر کرپشن کےخلاف لڑیں گے۔ اسی طرح جناب نے کہا شیخ رشید جیسے آدمی کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں اور پھرایسا یوٹرن لیا کہ اب کہتے ہیں شیخ رشید اور ہماری سوچ ایک ہے۔ کپتان نے بابر اعوان کو چور کہا اور پھر اسے ہی اپنا وکیل بھی رکھ لیا۔ اس یوٹرن پر بھی پوچھنا تو بنتا ہے “کون لوگ او تسی؟”
عمران خان ہمیشہ موروثی سیاست کےخلاف آواز اٹھاتے رہے۔ موروثی سیاست کو بنیاد بنا کر بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور مریم نواز کو نشانہ بناتے رہے۔ لودھراں میں ضمنی الیکشن کے وقت جہانگیر ترین کے بیٹے کو ٹکٹ دے دیا۔ او پائی کون لوگ او تسی؟
شادیوں کا تو جناب کو بڑا شوق ہے پوری ہیٹرک کر رکھی ہے۔ ایک بار کہا تھا نواز شریف کے استعفے تک شادی نہیں کروں گا لیکن پھر دھرنے کے دوران ہی کہہ دیا کہ دھرنا اس لئے دے رہا ہوں تاکہ میں شادی کرسکوں۔ پھر طلاق پر کہا کہ طلاق کی باتیں میڈیا کر رہا ہے، سب جھوٹ ہے لیکن جب طلاق ہوگئی تو فرمایا طلاق میرا ذاتی مسئلہ ہے، کوئی بات نہ کرے۔ آخر بتا کیوں نہیں دیتے۔ کون لوگ او تسی؟
بشریٰ مانیکا کی خبر لیک ہوئی تو کہا صرف پیغام بھیجا ہے۔ پھر انہی گواہان کی گواہی پر نکاح بھی کرلیا۔
جناب نے اعلان کیا کہ نواز شریف کو وزیراعظم نہیں مانتا پھر اسی نواز شریف کے لگائے ہوئے آرمی چیف کو مبارکباد بھی پیش کرتے رہے۔ نواز شریف کی نااہلی کو بہترین فیصلہ قرار دیا اور پھر خود ہی کہہ دیا کہ کمزور فیصلہ دیا ہے۔۔ او پائی دس دیو کون لوگ او تسی؟
خان صاحب نے کہا آف شور کمپنی رکھنے والے چور ہیں، پھر جب اپنی نکل آئی تو کہا میں نے آف شور کمپنی اس لئے بنائی تاکہ ٹیکس بچا سکوں۔ جب بنی گالہ میں ان کے گھر کا کیس چلا تو پہلے کہا بنی گالہ کائونٹی کے پیسوں سے خریدا پھر اچانک یوٹرن لیا اور کہا نہیں نہیں بنی گالہ تو جمائما نے گفٹ کیا۔ جب بتا نہیں سکتے تو پوچھتے کیوں ہو۔۔ کہ کون لوگ او تسی ؟
جب پانامہ اسکینڈل کھلا تو عمران خان نے کہا کہ ہمارے پاس پانامہ کے ثبوت ہیں لیکن جب ثبوت عدالت نے مانگے تو کہا ثبوت دینا حکومت کا کام ہے۔ اسی طرح جب خود عمران خان پر کیس ہوا تو کہا کہ ثبوت وہ دیتا ہے جو الزام لگاتا ہے۔۔ اوپائی کون لوگ او تسی؟
عمران خان کے بڑے بڑے یوٹرن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جناب نے آصف زرداری کو بیماری قرار دیا اور پھر سینیٹ میں اسی بیماری کو ووٹ بھی دے دیا اور تو اور کہتے تھے میرے لوگوں کو خریدا نہیں جا سکتا۔ پھر کہا کہ میرے لوگ بک گئے۔
جناب میٹرو بس کو جنگلا بس کہتے تھکتے نہیں تھے لیکن پشاور میں یہی جنگلہ بس بنالی۔ پنجاب میں میٹرو بس کے ایلی ویٹڈ ٹریک پر بھی تنقید کی اور کہا دنیا کے کسی ملک میں بس اوپر ہوا میں نہیں چلتی پھر پشاور میں بھی ایلی ویٹڈ ٹریک بنالیا اور کہا نیچے جگہ نہیں تھی۔ آخر کون لوگ او تسی؟
دھرنے کے دوران نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کیا لیکن اپنے ہی نمائندوں کے اسمبلی سے استعفے دلوادئیے۔ عمران خان نے 2009ء میں الطاف حسین کی تعریف کی اور پھر قاتل اور دہشت گرد کہا اور تو اور زہرہ شاہد کے قتل کا الزام بھی ایم کیو ایم والوں پر لگا دیا۔ اسی طرح عمران خان پرویز مشرف، افتخار محمد چودھری، چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی تعریفیں کیں اور اس کے بعد ان پر تنقیدی نشتر برسائے۔
شخصیات تو شخصیات جناب نے اداروں کو بھی نہ بخشا پہلے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کیا اور پھر خود ہی واپس بھی آگئے۔ کتنی بار یہ مجھے یاد نہیں۔ ویسے تو یہ خود عمران خان کو بھی نہیں یاد رہتا کہ وہ آخری بار پارلیمنٹ کب گئے تھے۔ لیکن خان صاحب کی اسی حرکت پر میاں صاحب کو کہنے کا موقع مل گیا کہ خان صاحب نے تھوک کے چاٹا ہے۔ اب میاں صاحب کو کون سمجھائے کہ یہ تھوک کے نہیں چاٹا صرف یوٹرن لیا گیا ہے۔
عمران خان خود کو دھرنے اور احتجاج کا ماہر کہتے ہیں اور وہ عوام کو سڑکوں پر لانے کی بات تو ایسے کر دیتے ہیں جیسے اماں بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی ہیں کہ آنے دے تیرے باپ کو سب بتائوں گی اور بچے سہم جاتے ہیں لیکن ابا کے آنے پر اماں کو کچھ یاد ہی نہں رہتا۔ اسی طرح عمران خان نے بھی تئیس اکتوبر کو اسلام آباد بند کرنے کا اعلان کیا پھر یوٹرن لے کر دھرنے کی تاریخ تبدیل کرکے دو نومبر کردی۔ یاد آیا دھرنے سے پہلے خان صاحب نے شیخ رشید کے ساتھ لال حویلی کے سامنے ٹریلر دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح مکر گئےاور ٹریلر نہیں دکھایا۔ بھلا ہو شیخ رشید کا جنہوں نے موٹرسائیکل پر ایسا اسٹنٹ کیا کہ ان کی پوری فلم ہی ہٹ ہوگئی۔
ستائیس اکتوبر سے یکم نومبر تک پولیس اور ایف سی کے ساتھ پی ٹی آئی کارکنوں کی جھڑپیں چلتی رہیں لیکن خان صاحب بنی گالہ سے باہر تک نہیں نکلے اور پھر جب معاملہ حل ہوگیا تو جناب نے یکم نومبر کو دھرنے کی بجائے یوم تشکر منانے کا اعلان کر دیا تھا۔
ایک بار عمران خان صاحب نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات فوری ہونے چاہئیے اور اسی میں ملک کے مسائل کا حل ہے۔ شاید وہ خود شیروانی پہننے کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہیں لیکن وہ اپنے اس مطالبے سے بھی پھر گئے اور شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم نے جماعت سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا ہےکہ انتخابات وقت پر ہی ہونے چاہئیے۔۔ پتہ نہیں یہ بیان دینے سے پہلے مشاورت کیوں نہیں کر لیتے یا ان کی مشاورت ہوتی ہی بیان داغنے کے بعد ہے۔
لگتا ہے تحریک انصاف کو ٹرائی بال کھیلنے کی عادت پڑ گئی ہے۔ ان کی پہلی بال اگر مس ہوجائے یا ان کی وکٹیں اڑ جائیں، وہ گیند ان کیلئے ٹرائی ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ فوراً دوسری بال کا مطالبہ کر دیتے ہیں یا یوٹرن لے لیتے ہیں۔
تحریک انصاف کو اپنی یوٹرن پالیسی بدلنی ہوگی کیوں کہ اب عوام میں سنجیدگی اور شعور پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اگر عمران خان نے اپنا ووٹ بنک بڑھانا ہے تو انہیں یہ باور کرنا ہوگا کہ وہ سیاسی طور پر نابالغ ہیں۔
The post “کون لوگ او تسی” بمقابلہ “کپتان کا یوٹرن” appeared first on دنیا اردو بلاگ.
سائنس کی فیوض و بر کات کے باعث جہاں دنیا انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئی، وہیں مکتوب نگاری کا عمل نہ صرف متروک ہو کر رہ گیا بلکہ اس صنف کے ذریعے ادب میں تخلیق کا دروازہ بھی عملاً بند ہو کر رہ گیا ہے۔
جانگسل تنہائیوں کا کرب، ہجر و فراق کی صعوبتیں ہوں یا قربتوں کے نشاط آمیز لمحات، اسرارو رموز کی تفہیم ہو یا، دل کی بات، تشبیہات، استعارے، طرز تخاطب، الفاظ کا خوبصورت استعمال، یہ سب کچھ بیان کرنے میں مکتوب نگاری نے ایک کلیدی کردار ادا کیا۔
ٹیکنالوجی کیا عام ہوئی مکتوب نگاری بھی اپ گریڈ ہوگئی۔ ای میل، ایس ایم ایس واٹس ایپ، ٹوئٹر اور ایسی کئی ایپلی کیشنز سے جہاں فاصلے سمٹے وہیں مختصر الفاظ اور علامتی نشانوں کے اس حیران کن انقلاب سے مکتوب نگاری پر ایسی کاری ضرب پڑی کہ اس صنف کی آبیاری کرنے والے چشموں کے سوتے ہی خشک نہیں ہوئے۔ بلکہ مکتوبات کے ذریعےاردو ادب کی پھلنے پھولنے والی زمین ہی بانجھ ہو کر رہ گئی۔
ماضی کے جھروکوں سے جھانکیں تو مکتوب نگاری نے نہ صرف عشق و محبت، رمزیہ گفتگو اور ادب و آداب کے قرینے، سلیقوں کے ساتھ بات کہنے کا وصف عام کیا بلکہ اردو زبان میں ادب کی ایک نئی جہت کو بھی فروغ دیا۔ مکتوب نگاری میں جس طرح ڈاکٹر رشید جہاں نے فیض کو اسی طرح علامہ اقبال نے عطیہ فیضی کو علمی و ادبی طور پر متاثر کیا۔ جاں نثار اختر کو صفیہ کے لکھے گئے خط بھی اردو ادب کا مرقع ہیں۔
علامہ اقبال کے اپنی جرمن اتالیق ایما کوسٹے کو تحریر کر دہ خطوط بھی دل کی بات سیلقے سے کہنے کا شاہکار ہیں۔
مرزا ا سد اللہ خاں غالب نے سادہ و پرکار، حسین و رنگین خطوط کے ذریعے اردو نثر میں سلاست، روانی اور جستگی سکھائی۔ غالب کے خطوط نے اپنے دلکش اسلوب سے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ان کے خطوط آج بھی ندرتِ کلام کا بہترین نمونہ ہیں۔
The post جدید ٹیکنالوجی اور مکتوب نگاری کا عمل appeared first on دنیا اردو بلاگ.
By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny