Wednesday, January 31, 2018

کمزور ادارتی پالیسی کا شاخسانہ

گزشتہ دنوں ایک نجی ٹی وی چینل کے اینکرپرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے پروگرام میں زینب قتل کیس کے نامزد ملزم عمر ان کے37عدد بینک اکاؤنٹس ہونے کادعوی کیا گیا۔ اینکرپرسن کا یہ دعویٰ ناقص معلومات پر مبنی تھا، جس کوتمام صحافتی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کانشانہ بنایا گیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران پروگرام کیے جانے والے اس اینکر کے دعویٰ کوقتل کیس کی اہمیت کے مطابق تحقیقات کاحصہ بناتے ہوئے سوموٹو ایکشن لیا اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو تمام شواہد کے ساتھ عدالت پیش ہونے کے احکامات دیے۔ حکومتی اداروں کی جانب سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے دعوے کی تحقیق کے لیے فوری طور پر اقدامات کیے گئے لیکن یہ خبر اس وقت بری طرح باؤنس ہوئی جب سٹیٹ بینک آف پاکستان سمیت دیگر سرکاری اداروں کی جانب سے ان معلومات کے غلط ہونے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

صحافتی حلقوں کی جانب سے اینکر پرسن کی ان معلومات کو پہلے ہی ناقص قرار دیا جارہا تھا کیوں کہ اس انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے وہ صحافی حضرات جو کہ تحقیقاتی رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں، بخوبی واقف تھے کہ ان معلومات کو اتنے قلیل وقت میں حاصل کرنا اتنا آسان نہیں اور پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پر عمل درآمد ابھی ایسا نہ ہے کہ نادرا جیسا کوئی بھی وفاقی ادارہ اتنی آسانی سے اپنی معلومات تک کسی صحافی کورسائی دے۔ لہٰذا یہ بات تو واضح تھی کہ اینکرپرسن کی جانب سے جارحانہ انداز میں یہ غلط معلومات اپنے پروگرام میں شیئر کرنا صرف پروگرام کی ریٹنگ کی خاطر ناظرین کو گمراہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے سوموٹو لیے جانے کے بعد مختلف چینلز پراس معلومات بارے کی جانے والی تنقید نہ صرف اینکر پرسن کی ساکھ کے لیے سوالیہ نشان بن چکی تھی، بلکہ عدلیہ بھی اس خبر کی تصدیق کو یقینی بنانے میں دلچسپی لیتی نظر آئی، کیونکہ یہ براہ راست ملک کے چوتھے بڑے ستون (میڈیا) کی ساکھ کا معاملہ تھا۔ اس غیر معمولی نوعیت کے کیس کی سماعت کے لیے مورخہ 28 جنوری بروز اتوار کو چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان کے میڈیا چینلز کے مالکان اور صف اول کے صحافیوں کو سپریم کورٹ رجسٹری لاہور میں حاضری یقینی بنانے کے نوٹسز جاری کیے او ر مقررہ تاریخ پر ہم نے ملک کے نامور صحافیوں کو عدالت کے روبرو دیکھا۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس موقع پر اینکر پرسن کی جانب سے اپنی معلومات کو مؤثر ثابت نہ کرنے پرسرزنش کی گئی۔

نجی چینل پر اپنے پروگرام کے دوران ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے غیر تصدیق شدہ معلومات کا تبادلہ اور ناظرین کو گمراہ کرنا درحقیقت صحافتی اقدار کی پامالی اور ہمارے نجی میڈیا اداروں کی ادارتی پالیسی پر عمل درآمد نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ پاکستان میں اس انڈسٹری کے اوائل میں جب اخبارات ہی معلومات کا بڑا ذریعہ سمجھے جاتے تھے، تو ان اشاعتی اداروں میں سینئرصحافیوں پرمشتمل ایڈیٹوریل بورڈ قائم ہوتا تھاجو کہ نشرواشاعت کے قواعد وضوابط طے کرتا تھا۔ 2002ء کے بعد الیکٹرانک میڈیا نے اپنی جگہ بنانا شروع کی تو اخبارات سے تعلق رکھنے والے بیشتر افراد نے الیکٹرانک میڈیا کے شعبہ کوجوائن کیا اور اخباری صنعت کے طرز پر چینلز کے لیے بھی قواعد و ضوابط طے کیے گئے۔ لیکن اگر ہم اب ملک کے ان 80 سے زائد نیوز چینلزپر نشر کیے جانے والے مواد کاجائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ چند ایک صف اول کے چینلز کے علاوہ دیگر چینلزمیں خبر کی جانچ پڑتال اور تصدیق کاعمل یقینی بنانے کے کوئی اقدامات نہ ہیں۔ ریٹنگ اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے خاطر ناقص معلومات پر مبنی مواد کا نشر کیا جانا اب ایک رواج بن چکا ہے۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے کیس میں بھی کچھ ایسی ہی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا گیا اورچینل منتظمین کی جانب سے دوران پروگرام کیے جانے والے غلط معلومات کے تبادلہ کو روکنے کے لیے کوئی مؤثر اقدامات نہ کیے جاسکے، جس کا خمیازہ شرمندگی کی صورت میں پوری صحافی برادری کو بھگتنا پڑا۔ ضرورت اس امر کی ہے تمام چھوٹے بڑے چینلز یہ یقینی بنائیں کہ خبر تصدیق شدہ اور تمام فریقین کے مؤقف پر مشتمل ہو، تاکہ کوئی بھی صحافی کسی خاص ایجنڈا کی خاطر اس سکرین کاغلط استعمال نہ کرے۔

The post کمزور ادارتی پالیسی کا شاخسانہ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2DRxEVH

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny