فروری کا مہینہ جیسا ہی شروع ہوتا ہے ہر طرف ایک چیز کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے اور وہ ہے ویلنٹائن ڈے، جی ہاں عام فہم میں اسے محبتوں کا دن کہتے ہیں تاہم جیسے جیسے حالات بدلے اس کو فحاشی کے دن کا لقب ملا۔
تحریر کے ابتدا میں ہی آپ قارئین کے سامنے یہ بات رکھتا ہوں کہ میں اس کے حق میں نہیں البتہ مخالفت میں بھی بات نہیں کررہا کیونکہ میرا ماننا ہے کہ محبت ایک ایسا عنصر ہے جس کے لیے کوئی علامتی دن مخصوص نہیں ہونا چاہیے۔
خیر کچھ لوگ جو دائیں بازو کے نظریات سے زیادہ قربت رکھتے ہیں وہ اس کو فحاشی کا دن قرار دیتے ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے کہ جو عورت کسی مرد سے پھول لیتی ہے وہ اچھی ، شریف یا پاک دامن خاتون نہیں کہلاتی (حتی کہ اگر چودہ فروری کو وہ مجبور جسم فروش جو چودہ فروری کو دھندے پر نہیں جاتی, یہ پھول لینے والی اس سے بھی بدتر ہوتی ہے.)
ویلنٹائن کی تاریخ بہت مبہم ہے، اس بارے میں کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ کسی عیسائی شخص نے بادشاہ کی بیٹی کو 14 فروری کے روز پرپوز کیا یعنی اُس سے اظہار محبت کیا جس کے بعد بادشاہ نے اُسے زندان میں ڈالا اور یوں ویلنٹائن کا اظہار محبت رہتی دنیا تک قائم رہا۔
پاکستان میں بسنے والے کچھ لوگ اس دن کی شدید حد تک مخالفت کرتے نظر آتے ہیں کیونکہ اُن کا ماننا ہے یہ مغربی تہوار ہے جس کی وجہ سے عورت کا مقام و مرتبہ مسخ ہوتا ہے اور وہ اس دن کو منا کر محض فاحشہ ہوجاتی ہے۔
دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد یا طبقہ ویلنٹائن پر اس قدر شدید ردعمل دیتے ہیں کہ وہ عورت کو بازاری، فاحشہ، قرار دیتے ہیں بات یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ ناجائز اولاد زنا جیسے القابات بھی عورت کو سننے پڑتے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ بھی ہو نشانہ عورت کو ہی بنایا جاتا ہے جیسے کہ تم کسی کو پھول دو گے، مبارک باد دو گے یا ملو گے تو تمھاری بہن بیٹی بھی محفوظ نہیں رہے گی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ویلنٹائن منانے والے دائیں بازو کی سوچ اور نظریات والے طبقے سے اس قدر لڑتے ہیں کہ بعض اوقات تو وہ اکیلے رہنے کے باوجود 14 فروری کو گلاب ہاتھ میں تھامے نئے کپڑے پہن کر کہیں نکل جاتے ہیں تاکہ محبت کا پیغام دے سکیں۔
اس دن کا منانا جائز ہے یا ناجائز، یہ ایک طویل بحث ہے محض اس بنیاد پر ویلنٹائن ڈے کو نہ منایا جائے کہ یہ مغربی ثقافت کا دن ہے تو ہمیں بہت ساری چیزوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا جیسے کہ نئے سال کی آمد، انگریزی کلینڈر کے حساب سے ملنے والی تنخواہ، ہمارے گھروں میں استعمال ہونے والی اشیاء، ٹی وی، لباس اور سب سے بڑھ کر اتوار کے روز کی تعطیل کیونکہ یہ بھی مغربی روایات کی عکاس ہیں۔
دوسری اہم بات یہ کہ مجھے اس دن کے ماننے پر حجتیں دینے والوں کی خدمت میں ایک گزارش کرنی ہے اور وہ یہ کہ جناب والا نئے سال کا آغاز اور اُس پر ہونے والا جشن بھی ایک وقت میں گناہ سمجھا جاتا تھا، ٹی وی کو گھروں میں رکھنے کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا تھا مگر جیسے جیسے حالات تبدیل ہوئے ان سب چیزوں کو رکھنے کی اجازت دی گئی اور آج تقریبا ہر ہی فقہ کا عالم ان پر بیٹھ کر اپنے درس و دروس بیان کررہا ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات یہ کہ جب انٹرنیٹ پاکستان پہنچا تو اسے اسلام مخالف مغربی اور یہودی سازش قرار دیا گیا، فیس بک استعمال کرنے والوں کو متنبہ کیا گیا مگر وقت گزرا اب یوٹیوب ہو یا فیس بک انٹرنیٹ پر تقریبا ہر جگہ ہی درس و دروس کے ویڈیوز اور اسلامی تعلیمات اور دیگر تشریحات میسر ہیں۔
ویسے بھی من الحیث القوم ہم قلیل المدتی سوچ رکھنے والا معاشرہ ہیں، کل کو سب کچھ فراموش کردیتے ہیں اگر حافظہ مضبوط رہتا تو یاد آتا ہے ملکی پالیسی کے تحت ایک بار جہاد کو سب سے افضل عمل قرار دیا گیا اور پھر مجاہدین کو سرکاری سطح پر ہی مسلح افراد یا پھر دہشت گرد قرار دے کر پھانسیاں یا مقابلے کیے گئے۔
ویلنٹائن ڈے بالکل مغربی تہوار ہے، اسے سیلیبریٹ نہیں کرنا چاہئیے بلکہ اس دن پر سرکاری سطح پر پابندی عائد کی جائے اور جو لوگ فحاشی پھیلائیں انہیں گرفتار کر کے سخت سزائیں دی جائیں، مگر حضور والا یہ پالیسی ہمیشہ رکھیے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ کل آپ اس دن کو بھی نئے سال کی آمد کی طرح سرکاری سطح پر منانا شروع کریں۔
بس مجھے یہ خدشہ ہے کہ ہمارا قول اور فعل جو آج ہے اُسے کل بھی رہنا چاہیے کیونکہ اچھی قومیں تضاد کی نظر نہیں ہوتیں۔
The post ویلنٹائن سے پہلے کچھ چیزیں حرام تھیں appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2EHr0R9
No comments:
Post a Comment