مورخہ 11 جنوری بروز اتوار اپنے کچھ احباب کے ساتھ لاہور کے ایک نواحی علاقے کے فارم ہاؤس پر دوپہر کے کھانے میں مشغول تھا کہ موبائل فون کی آواز نے اپنی جانب متوجہ کیا۔ مذکورہ فارم ہاؤس بارڈر ایریا کے قریب ہونے کے باعث موبائل سگنلز مکمل طور پر موصول نہ ہو رہے تھے،جس کے باعث کال بار بار منقطع ہوتی رہی۔ کال لاگ کی معلومات کے مطابق فون نمبر ایک پروفیشنل عزیز کا تھا اور بالآخر کوششوں کے بعد میں بیک کال ملانے میں کامیاب ہو ہی گیا۔
دوسری جانب مجھے رنجیدہ سی آواز میں وہ خبر سنائی گئی کہ جس نے میرے اوسان خطا کردیے۔ یہ خبر پاکستان کی ایک مضبوط عورت کی وفات کی تھی، جو کہ مظلوموں کے حقوق کی جنگ لڑتی لڑتی اس جہان فانی سے کچھ دیر قبل کوچ کر گئی تھی۔ جی ہاں!عاصمہ جہانگیر اس بے رحم معاشرے کے مظالم کا بھرپور مقابلہ کرنے والی وہ عورت تھی کہ جس نے اپنے دلیرانہ فیصلوں سے مردوں کوبھی شرمندہ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ہم میں سے زیادہ ترلوگ صرف عاصمہ جہانگیر کے آمرانہ طبقوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات بارے جانتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہوں نے اس بہادر عورت کو پولیس کی وین کی کھڑکی سے جھانکتی روتی بلکتی عورتوں سے وکالت ناموں پردستخط کرواتے یا پھراینٹوں کے بھٹوں پر چارپائی پر بیٹھ کر مزدور بچوں کے ہاتھوں کو سہلاتے دیکھا ہوگا۔
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں جاننے کا موقع مجھے بھی اس وقت ملا کہ جب اپنے سابقہ میڈیا ہاؤس سے متعلق کیسز کے سلسلہ میں ان کے دفتر آنا جانا ہوا۔ اس سے قبل عاصمہ جہانگیر کی شخصیت سے متعلق آشنائی بس ان کے بارے میں سنے گئے قصوں تک ہی محدود تھی یا پھر ان کی جانب سے دئیے گئے سخت بیانات سے ان کی دلیرانہ شخصیت کا اندازہ کر رکھا تھا۔
کوئی 8 سال قبل زمانہ طالب علمی کے دور میں بس اتنا سن رکھا تھا کہ اس ملک میں عاصمہ جہانگیر نامی ایک ایسی عورت بھی ہے کہ جس نے ایوب خان اور یحییٰ خان جیسے آمروں کے دور میں آمرانہ رویوں کے خلاف اس وقت آواز بلند کی کہ جب بڑے بڑے طرم خان اپنی مردانگی بھلا کر بغلوں میں منہ چھپائے بیٹھے تھے۔ یہ وہ عورت تھی کہ جوپولیس کے ڈنڈوں کے سائے میں نہ صرف آمروں کے مظالم کے خلاف سڑکوں پر سینہ سپر دکھائی دی بلکہ ریاستی مظالم کے خلاف لاچاروں کے حق میں نواز شریف اور بے نظیر جیسے سیاسی حکمرانوں کی بھی مخالفت کرتی رہی۔
شعبہ صحافت سے وابستگی کے بعد اورمیڈیا پر پابندیوں بارے قانونی معاملات کے کیسزکی پیروی کے دوران مجھے عاصمہ جہانگیر کی شخصیت کو جاننے کا موقع ملا۔ لاہور میں واقع ان کا دفتر کچھ لوگوں کے لیے جنت سے کم نہ تھا کہ جہاں ملک کے امیر دوست قانون سے تنگ آئے غریب سائل خالی جیب اپنے مقدمات کی پیروی کے لیے اس محسن عورت سے مدد طلب کرتے دکھائی دیتے تھے۔35 سال قبل صفیہ بی بی ذیادتی کیس میں ریاستی قانون کے خلاف ڈٹ جانے والی عاصمہ جہانگیر وفات سے قبل 66 سال کی عمر میں بھی ویسی ہی نڈر اور بے باک نظر آتی تھی۔
عاصمہ جہانگیر صرف عورتوں کے حقوق کے تحفظ کی نگہبان نہیں تھی، بلکہ وہ تو ان مسکین و لاچار مردوں کا کندھا بھی بنی کہ جنہیں وڈیروں نے منہ کالا کرکے چوراہوں پرتماشا بنایا۔ آج ان کی وفات کے بعد کمزور آمریت پسند طبقے جو کہ صرف طاقتور کو دیکھ کر قصیدے پڑھنے کا فن جانتے ہیں، اس عظیم عورت کو کم عقلی وعلمی کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ درحقیقت تو اس معاشرے کے مردوں کے لیے یہ بات باعث شرم ہے کہ جو زینب اوراسماء جیسی حواء کی بیٹیوں کی عزت کو نہ سنبھال پائے، وہاں عاصمہ جہانگیران آدم کے بیٹوں کو ظالموں کے کوڑوں سے بچاتی رہی۔
The post پاکستان کی ایک مضبوط عورت appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2o4eKjs
No comments:
Post a Comment