Monday, February 26, 2018

کیا سوموٹو کا بے جا استعمال ہماری جمہوری اقدار کو کمزور کر رہا ہے؟

ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ موجودہ چیف جسٹس کے پے درپے سوموٹو نوٹسز نے ریاستی اداروں کو گویا خواب غفلت سے جگادیا ہے لیکن سوموٹو نوٹسز کسی بھی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہیں کیونکہ سوموٹو نوٹس زیادہ تر ہر اس بڑے مسئلے پر لیا جاتا ہے جو عوام الناس میں زیر بحث ہو۔ حال ہی میں زینب زیادتی کیس پر سپریم کورٹ نے سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے مجرموں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ یہ سوموٹو تب لیا گیا جب سوشل میڈیا پر (JustForZainab#) تحریک چلائی گئی.

لیکن زینب جیسی درجنوں معصوم بچیوں ہیں جن کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا، ان کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں، انہیں انصاف کون دے گا؟ کیا انہیں بھی انصاف کے حصول کے لیے ہزاروں افراد کی مدد سے سوشل میڈیا پر کوئی ٹرینڈ چلانا ہوگا؟

میری دانست میں تو سو موٹو نوٹسز بھی حصولِ انصاف کے لئے کار آمد ثابت نہیں ہو سکے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ہزاروں افراد سوموٹو نوٹس لینے کا مطالبہ کر چکے ہیں، ان کی اب تک کوئی شنوائی نہیں ہو سکی جبکہ یہ مطالبہ نہ صرف عوام کی طرف سے کیا گیا بلکہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس مطالبے کی حمايت کر چکی ہیں۔
سوموٹو نوٹسز نہ صرف ریاست کا بلکہ موجودہ نظام کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انصاف آج بھی غریب عوام کی پہنچ سے کوسوں میل دور ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سال 2017 کے دوران آئین کے آرٹیکل184/3 کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر 33 سوموٹو ایکشن لے چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ سال 2018 حصولِ انصاف کے لئے کتنا کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ دیکھا جائے تو 2018 آغاز ہی سے پاکستان کے لیے کچھ مثبت ثابت نہیں ہو رہا۔

پاکستان میں نہ تو جمہوری نظام موثر طریقے سے کام کر رہا ہے، نہ سیاسی پارٹیاں بہتر طور سے منظم ہیں اور نہ وفاقی یا صوبائی حکومتیں مناسب طریقے سے کام کر رہی ہیں۔ عام شہری کو انصاف کی فراہمی کے لئے ضروری ہے کہ نظام کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے کیونکہ اسی صورت میں ہی بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک تقریب سے خطاب کے دوران موجودہ نظام کے بارے میں اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہو کہا کہ “جب تک ہم نے اس عدالتی نظام کی بنیادوں کو نہیں بدلا، اوپری ڈھانچہ بدلنا ناممکن ہے لوگ انصاف کیلئے ہماری جانب دیکھ رہے ہیں.”

یہ بات بڑے افسوس سے کہنی پڑ رہی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں انصاف کا فقدان ہے۔ ماسوائے چند دیانتدار اور خداترس ججوں کے علاوہ آوے کا آوہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ ”وکیل کرنے کے بجائے جج کرلو” ایک محاورہ بن چکا ہے۔ انفرادی مقدموں کا تو کیا، قومی اور سیاسی مسائل میں بھی بددیانتی کی انتہا ہو گئی ہے۔
کیا پاکستان میں بنیادی انصاف کا ڈھانچہ اس قدر کمزور ہے کہ ہر عام و خاص مسئلے پر سوموٹو لیا جائے؟

سوموٹو کا آپشن تب استعمال کیا جاتا ہے جب عوام الناس کو درپیش کسی سنگین مسئلے پر ناانصافی کا خطرہ ہو۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم ایسے جمہوری نظام میں زندگی بسر کر رہے ہیں جہاں انصاف کے لیے عوام خود سوموٹو کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنے کی بجائے عملی اقدامات کئے جائیں۔

The post کیا سوموٹو کا بے جا استعمال ہماری جمہوری اقدار کو کمزور کر رہا ہے؟ appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2F3NnjX

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny