Monday, February 26, 2018

زکریّا ! پیڑوں کی مت سن،  یہ جنگل ہے خمیازوں کا

بلاگ کے عنوان میں موجود شعر علی زریون کا  کہا ہوا شعر ہے۔ اس ملک کا سیاست دان شاید عقل کھو چکا ہے یا عقل کو استعمال کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ جب اپنے ذاتی مفادات ریاست سے زیادہ عزیز ہو جائیں تو ملک انتشار کی جانب بڑھتا ہے، جس سے سیاستدان کا ذاتی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر ملک کا نقصان ہی ہوتا ہے۔ نواب محمد احمد قصوری کے قتل کی سازش بھٹو نے کی تھی یا نہیں کی تھی یہ ایک طویل بحث ہےلیکن اس کا ٹرائل ہمارے عدلیہ کے نظام کا سیاہ باب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کیس میں گواہان سرکاری سرپرستی میں لائے گئے، پورا کیس حکومت نے اپنی طاقت کے زور پر لڑا اور سونے پر سہاگہ مولوی مشتاق جیسا جج جس نے بھٹو کو غدار اور پتا نہیں کن کن لغویات سے نوازا لیکن بھٹو نے جواب میں  سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا۔

بھٹو کی وجہءِ شہرت اس کا ضدی پن تھا۔ بھٹو جس کے بارے میں تاریخ لکھتی ہے کہ جب تختے پر بھی آیا تب بھی سر میں سریا تھا اور جھکنے کے لئے سر تیار نہیں تھا۔ بھٹو چاہتا تو کمپرومائز کر لیتا، کوئی سودا کر کے کیس سے آزادی حاصل کر لیتا لیکن بھٹو نہیں مانا۔ بھٹو نے اداروں کے ساتھ لڑائی کا راستہ اختیار نہیں کیا، اگر کرتا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہ ہوتی کیونکہ اس کے مزاج کو یہ زیب دیتا تھا لیکن بھٹو نے ریاست کو مقدم جانا۔ اس نے عدالتوں پر تہمتیں نہیں لگائیں۔

SWEDEN-PAKISTAN-BHUTTO

مجیب الرحمان ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے پاکستان بنایا، لیکن مجیب کو اس نہج تک دھکیلا گیا کہ اس نے غدار کی تہمت کو ناگزیر سمجھا۔ مجیب الرحمان جب لاہور آئے، ان سے افتخار احمد نے چھ نکات کے بارے میں دریافت کیا جس پر مجیب نے کہا کہ ہاں ان پر بالکل بات ہو سکتی ہے۔ لیکن لاMV5BNWNiMDgxMDAtNzgyZS00ODg1LWE3NDktNGE5MjRiMjdiZjRkL2ltYWdlXkEyXkFqcGdeQXVyNDI3NjcxMDA@._V1_SY1000_SX1000_AL_ہور جلسے میں جب جماعت کے لڑکوں نے ان پر پتھر برسائے تو انہیں کہنا پڑا اب عبدالعلٰی مودودی کا جہاز ڈھاک لینڈ نہیں کر سکے گا۔ مجیب کو جب ایوب خان نے قید کیا، تب بھی مجیب چاہتا تو ایک بہت بڑی تحریک چلا سکتا تھا اور بنگلہ دیش نامی ریاست 1970ء میں ہی بنا لیتا اگر اسے ایسا کرنا مقصود ہوتا۔ لیکن ریاست اسے عزیز تھی، اسے ان قربانیوں کا ادراک تھا جو اس وطن کے لئے دی تھیں، اس نے ملک کو انتشار کی طرف نہیں دھکیلا اور نہ دھکیلنے دیا۔ یہ سب سبق ہے ہمارے آج کے سیاستدان کے لئے۔ آج کے سیاستدان کو سمجھنے کی ضرورت ہے ریاست ہےتو سیاست ہے۔ اداروں سے لڑائی میں بیرونی قوتیں تو فائدہ اٹھا سکتی ہیں، ریاست ہمیشہ نقصان کا شکار ہوتی ہے۔ اور اداروں سے لڑائی کی ریت اگر ڈل گئی تو بات صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں رہے گی۔ یہ حکمت عملی دوسرے ادارے اور طبقے بھی اپنائیں گے۔ جس کی واضح مثال احد چیمہ کا کیس ہے۔

حال ہی میں نیب نے احد چیمہ کو گرفتار کیا، جس پر پوری بیوکریسی سراپا احتجاج ہے۔ یہ بیوکریسی احد چیمہ کے لئے باہر نہیں نکلی بلکہ اپنا دامن بچانے نکلی ہے۔ کیونکہ اس ملک میں سیاستدانوں اور آمروں پر تو مقدمات بنےلیکن بیوکریسی ہمیشہ مقدس گائے رہی۔ جس نے سیاستدانوں کو فیسیلیٹیٹ کیا اور آمروں کو بھی۔ احد چیمہ کو نیب کئی دفعہ بلا چکا ہے، لیکن انہوں نے نیب کی کال پر کان نہیں دھرے۔ جس پر ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ احد چیمہ وہی جس نے آشیانہ اقبال کا 14ارب کا پروجیکٹ اس کمپنی کو دیا جو صرف 15 بلین کی مالیت رکھتی تھی۔ ان کے کرپشن کی فہرست لمبی ہے۔

Ahad-Khan-Cheema-1024

بحیثیت مجموعی ہم منافقت کا شکار نظر آتے ہیں۔ بےنظیر بھٹو کا کہا جملہ سچ لگنے لگتا ہے، “لاڑکانہ کی بیٹی کے لئے اور قانون ہے، پنجاب کے سیاستدان کے لئے اور۔” وہی زبان جو آج مسلم لیگ (ن) عدالت کے بارے میں کر رہی ہے اگر کسی اور صوبے کے لیڈر نے کی ہوتی تو ایک ہنگامہ برپا ہو جانا تھا۔ اگر فوج پر تنقید کسی چھوٹے صوبے کا کوئی شخص کرتا تو اسے غدار اور پتا نہیں کن کن چیزوں کی تہمتیں برداشت کرنا پڑتیں۔ اگر کسی چھوٹے صوبے کے کسی لیڈر نے مجیب الرحمان کا ذکر اس طرح کیا ہوتا توشاید وہ اب تک قتل بھی کر دیا جا چکا ہوتا۔

سرائیکی وزیر اعظم اگر عدالت کا ایک حکم جو کہ آئین سے روگردانی ہو ،نہ مانے تو اس کو توہینِ عدالت کے الزام میں وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور یوسف رضا گیلانی کا نام آج تک ای۔سی۔ایل میں ہے۔ راجہ پرویز اشرف کا نام ابھی تک ای۔سی۔ایل میں تو رکھا جا سکتا ہے لیکن خادم رضوی کو مغلظات پر توہینِ عدالت کا ایک نوٹس نہیں جاری کیا جا سکتا۔ یہ سب باتیں یہاں کرنا کسی صوبائی تعصب کے لئے مقصود نہیں ہیں لیکن ہم حقائق سے بھی نظریں نہیں چرا سکتے۔ ہم اگر ترقی چاہتے ہیں تو  ضروری ہے کہ قانون اس ملک کے سب لوگوں کے لئے ایک ہی ہو۔

اب کچھ بات اپوزیشن کی بھی کر لیتے ہیں۔ عمران خان نے یوں تو کہہ دیا کہ عدالت نے ایک کمزور فیصلہ دیا جس نے نوازشریف کو مضبوط کیا۔ لیکن خان صاحب شاید بھول گئے کہ نوازشریف نے عدالت کے خلاف ایک بیانیہ بنانا ہی تھا، اس بیانئے کو کاؤنٹر عدالت نے نہیں اپوزیشن نے کرنا تھا۔ فیصلہ آنے کے بعد عمران خان صاحب خو دتو نتھیا گلی جا کے بیٹھ گئے اور نوازشریف نے اپنا بیانیہ مضبوط کیا اور بیچا، جسے عوام نے بلاشبہ خریدا۔ ان کی مقبولیت میں بہت حد تک اضافہ ہوا۔ اس سب کے دوران عمران خان صاحب نتھیا گلی میں واک کرتے رہے۔ انہوں نے میاں صاحب کو موقعہ دیا کہ وہ خود کو مضبوط کر لیں۔

nawaz-sharif-humiliated-in-saudi-arabia-imran-khan-1513928753-9012

اس ملک کے سیاست کے علاوہ بھی بہت مسائل ہیں لیکن وہ اس سیاست کے نیچے دب گئے ہیں۔ یونیسیف نے ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق ہر پیدا ہونے والے دس بچوں میں سے ایک بچہ جانبر نہیں ہو پاتا۔ اس ملک میں ہیپاٹائٹیس کے مریض سوا کروڑ سے زائد ہیں۔ اس ملک میں دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر سڑکوں پر خوار ہو رہا ہے۔ ہمارا آئین سٹائن اور نیوٹن ورکشاپ پراستاد کی گالیاں سنتا نظر آتا ہے۔ لیکن نہیں حضور! یہ بتائیں نواز شریف اگلے الیکشن جیتیں گے یا نہیں؟

The post زکریّا ! پیڑوں کی مت سن،  یہ جنگل ہے خمیازوں کا appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2CIt1I0

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny