Monday, February 26, 2018

یہ دن بھی دیکھنے تھے ہمیں

یہ دن بھی دیکھنے تھے ہمیں۔ جو جمہوریت کے چیمپئن بنے پھرتے تھے وہ بظاہر بوٹوں سے چمٹ گئے۔ اور جنہوں نےجنرلوں اور کرنلوں کے کہنے پر سیاست شروع کی ، وہ آج ووٹ کے تقدس کا مقدمہ لڑنے کے لئے ڈٹے نظر آتے ہیں۔

پیپلز پارٹی والے کہتے ہیں کہ نواز شریف تو خود فوجی آمریت کی پیداوار ہیں۔ یاد ہے انہوں نے کس طرح عدلیہ پر حملہ کروایاتھا ؟ احتساب کے نام پر کس طرح سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں تھیں؟

جی ہاں ، سب یاد ہے۔ ہم اس ملک میں یہی سب دیکھتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔

لیکن غلطیاں کس نے نہیں کیں؟ نواز شریف تین مرتبہ وزارت اعظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد اگر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ ملک ایسے نہیں چل سکتا ، تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔ دیر آئے، درست آئے!

مسئلہ یہ نہیں کہ الیکشن میں کیا ہوگا۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی حکومت بنے گی، کیا اسے چلنے دیا جائے گا ؟ اسے ملک کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی پر اختیار ہوگا یا نہیں؟ حکومت کے سکیورٹی ادارے اس کے ماتحت چلیں گےیا پھراپنی روایتی ریاست ہٹ دھرمی پر کاربند رہتے ہوئے وزیراعظم کو ہی چلتا کرنے کی سازشوں میں لگ جائیں گے؟

نواز شریف نے اپنے اس چار سالہا دور میں کئی غلطیاں کیں۔ انہوں نے جمہوری اداروں خصوصاً پارلیمان کو ہمیشہ کی طرح نظرانداز کیا۔ ان پر مغلیہ طرز حکمرانی کی تنقید ہوتی رہی لیکن انہوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ انہوں نے دیگر جمہوری قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کو بھی کوئی خاص اہمیت نہ دی ۔

لیکن یہ ایسی باتیں نہ تھیں جن کی وجہ سے انہیں فارغ کرایا گیا۔ ان کی سب بڑی غلطی شاید یہ تھی کہ انہوں نے جمہوریت مخالف قوتوں کو انڈر اسٹیمٹ کیا۔ انہوں نے جنرل مشرف کے احتساب پر واضع موقف اختیار کیا لیکن فوج انہیں بچا لے گئی۔ پھر دھرنے لگوائے گئے۔حکومت کمزور ہوتی گئی اور آرمی چیف خود کو مضبوط کرتے گئے۔ نواز شریف برداشت سے کام لیتے رہے۔ انہوں نے خارجہ پالیسی کو سرنڈر کیا لیکن کلبھوشن یادیو کے معاملے پر آخری وقت تک بول کر نہ دیئے۔ انہیں دبائو میں رکھنے کے لئے مسلسل شرارتیں ہوتی رہی ۔ نواز شریف کڑوے گھونٹ پیتے گئے اور سمجھوتے کرتے گئے۔ حتیٰ کہ وردی والوں کی فرمائش پر انہوں نے اپنے کئی قریبی ساتھیوں کو کابینہ سے الگ کیا ۔ لیکن پھر بھی انہیں چلتا کیا گیا۔

آج میاں صاحب عوام کی عدالت میں بظاہر اپنی ذات کا مقدمہ لڑ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ نظام کے اس بنیادی بگاڑ کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو اس ملک کے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ بے شک کرپشن ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے لیکن اس سے کہیں بڑا مسئلہ سول ملٹری عدم توازن ہے، جس پر آج اگر کوئی بات کررہا ہے تو وہ نواز شریف ہیں۔ پی ٹی آئی اورپیپلز پارٹی والے اس بنیادی بگاڑ سے فائدہ اٹھانے کے لئے بے تاب ہیں اور اقتدار کی خاطر کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔

موقع پرستی کی سیاست عارضی طور پر شاید کامیاب ہو لیکن آخر کار دم توڑ دیتی ہے۔ اب تو ہماری عسکری حلقوں کو بھی یہ بات سمجھ آجانی چاہیئے کہ سیاسی انجینئرنگ بھی ایک حد تک ہی کی جا سکتی ہے۔آخر آپ کب تک زور زبردستی اور بلیک میلنگ کے ذریعے سیاستدانوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں؟

The post یہ دن بھی دیکھنے تھے ہمیں appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ http://ift.tt/2F5EYwx

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny