ہم ہر روز کسی نہ کسی سیاستدان، سرکاری محکمے یا پھر کچھ نہ ملے تو سڑک پر ٹریفک کنٹرول کرنے والے فارمی انڈے – معاف کیجیے گا، ٹریفک پولیس اہلکار – کی ایسی تیسی، مطلب مدح سرائی، کر رہے ہوتے ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے پوری قوم کی طرح ہمارے کانوں میں بھی دو افراد کے نام اور ۤآنکھوں کے سامنے ان کی تصویریں ہی بار بار آرہی ہیں۔ جی ہاں! وہ افراد ہیں عمران اور راؤ انوار۔ عمران کا قصہ تو تمام ہوا کیونکہ وہ درندہ قانون کی گرفت میں آچکا ہے۔ (اس کےلیے یہ لفظ استعمال کرنے پر مجھ جیسے درندے کو شدید اعتراض ہے کیونکہ کوئی درندہ بھی ایسا کام نہیں کرتا۔) لیکن راؤ انوار کا معاملہ ابھی باقی ہے۔
ہمارے ٹُۤلّے (اوہ، معاف کیجیے گا، پھر سے قلم پھسل گیا)، پولیس افسران اور اہلکار انتہائی بہادر، جرأت مند، ایماندار، فرض شناس، نمازی، الحاج، صوم و صلوۃ کے پابند، حلال روزی کمانے والے اور ہماری عزتوں کے محافظ ہیں۔ یقین جانیے میں ان کےلیے یہی صفات، القاب و خطاب لکھنا چاہتا تھا اور ۤآپ بھی ان سے کوئی الٹا مطلب نہ نکالیے گا کیوں کہ ہم سب کو اپنی اپنی تشریف بہت پیاری ہے۔
چند روز پہلے کی بات ہے، دفتر سے دوست کے ہمراہ موٹر سائیکل پر واپس گھر جارہا تھا۔ راستے میں ہماری انتہائی قابل احترام سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب جارہے تھے۔ ظاہر ہے بھائی، اب وہ ہم جیسے کیڑے مکوڑے تو ہیں نہیں، اللہ نے ان فرشتہ صفت لوگوں (گالی سے پرہیز کیجیے) ہم پر حکومت کرنے کےلیے اتارا ہے، ان کی جان بہت پیاری ہے، وقت انتہائی قیمتی ہے۔ حکومت نے ان کی حفاظت کےلیے صرف چار عدد گاڑیاں دی تھیں جن میں چٹاپٹی کپڑوں والے بیٹھے تھے (بال بچے والا ہوں، درست نام لیا تو مصیبت ہوجائے گی)۔ ہم سڑک کی دوسری طرف راستہ ملنے کا انتظار کررہے تھے۔
اسی دوران نجانے کیا ہوا کہ موٹر سائیکلوں پر سوار ہمارے جیسے 3 دہشت گرد اس قافلے کے ساتھ چلنے کی جرأت کر بیٹھے۔ بس پھر کیا تھا! ان تینوں کو ماں بہن کی گالیاں پورے 140 کلومیٹر فی منٹ کے حساب سے پڑیں۔ گالیاں سن کر وہ بے چارے کھسیانے اور ہم تڑپ اٹھے کیونکہ گالیاں ہمارے لیے نہیں تھیں – اور اگر ہوتیں بھی تو ہم بھی کسی غیرت مند پاکستانی کی طرح سن لیتے کیونکہ غصہ نکالنے کےلیے ہمارے پاس ماں، بہن، بیوی اور بچے جو ہیں – اور وہ تو بہت خوش قسمت ہیں جو دفتروں میں افسری کرتے ہیں۔
جج صاحب کی گاڑی کے شیشے بند تھے کیونکہ ہم جیسے دہشت گرد سڑکوں پر کھلے جو پھر رہے تھے گویا رضیہ فل ٹائم دہشت گردوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ پھر یہ بھی ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے (ہمارے ہاں بہرہ بھی ہوتا ہے)۔ تو اس اندھے اور بہرے کو بھلا کسی کی کیا پڑی ہے؛ اور ویسے بھی قانون کی رکھوالی کرنے والوں کو گھر جانے کی جلدی تھی کیونکہ ان کی مسز، اور پیارے پیارے چنٹو منٹو ان کا انتظار جو کررہے تھے۔ اس لئے ہم جیسے ماں باپ کے کالے پیلوں کو پڑنے والی گالیاں کہاں سن سکتے تھے۔
ارے یہ کیا ہوا؟ ہم بات کررہے تھے راؤ انوار کی۔ لیکن ہم بھی تو ٹھہرے کراچی والے، ہمارا دماغ بھی ناں ’’خشکا‘‘ ہوگیا ہے۔ مغز کی سوئی گھر، گالی، ماں، بہن، بھائی، یونٹ اور سیکٹر پر ہی اٹکی ہوئی ہے (اوہ! آخری بار معاف کردیجیے اور ’’آخری 3 الفاظ‘‘ نہ پڑھیے، بڑی مشکل سے تو ان سے جان چھڑوائی گئی ہے)۔ ہاں! تو ہم بات کررہے تھے راؤ انوار کی۔
لوگ پتا نہیں کیوں راؤ انوار جیسے جرأت مند، نڈر، ایماندار، فرض شناس اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عظیم سپاہی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ عزت مآب راؤ انوار صاحب نے ایسا کچھ نہیں کیا جو کراچی میں پہلے نہیں ہوا۔
1990 کی دہائی میں ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے دوران بہادرعلی اور ذیشان کاظمی جیسے نام شاید لوگ بھول گئے ہیں۔ اپنے عظیم ہیرو چوہدری اسلم تو ابھی کل ہی کی بات ہیں۔ ان کے بعد ہی تو راؤ صاحب کی بہادری کے جوہر کراچی والوں پر کھلے۔ وہ اگر نہ بھی ہوئے تو دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتارنے، فرشتوں کی زمینوں کو دہشت گردوں سے واگزار کرانے اور لاپتا افراد کو اپنوں سے ملانے کےلیے فرض شناس پولیس کا ہر ایک افسر تیار بیٹھا ہے – بس اشارے کا انتظار ہے۔
ویسے بھی نام میں کیا رکھا ہے؟ کبھی خان، کبھی چوہدری تو کبھی راؤ، کام تو ایک ہی ہے ناں اور ہمارا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں، گالیاں تو روز سنتے ہیں۔ سو سنتے رہیں گے، آخر اللہ نے دو کان اور ماں بہنیں دی کس لیے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
The post راؤ ہو یا امراؤ… نام میں کیا رکھا ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.
from ایکسپریس اردو http://ift.tt/2EiGc85
No comments:
Post a Comment