Saturday, March 24, 2018

چڑیا والے پنکچر بابا کی نوٹنکی سے لاہور پنکچر

ایک حکایت ہے کہ ایک آدمی کسی راستے سے گزر رہا تھا۔ اس نے ایک بھوک سے نڈھال بندر دیکھا۔ اس شخص کو ترس آیا اور بندر کو اپنے ساتھ لے لیا۔ اس کو کھانا کھلایا۔ کھانا کھاتے ہوئے بندر کے منہ پر مکھیاں بیٹھنے لگیں۔ اس شخص نے ایک چھڑی پکڑی اور اس کو آہستہ سے بندر کے منہ پر رکھا جس سے مکھیاں اڑ گئیں۔ کھانے کے بعد تپتی گرمی میں آدمی نے سوچا کہ کچھ گھڑی کیلئے نیند لے لوں۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا۔ سوتے ہوئے کچھ مکھیاں اس شخص کے چہرے پر بیٹھنا شروع ہو گئیں۔ جب بندر نے دیکھا کہ مکھیاں اس کے محسن کے چہرے پر بیٹھ رہی ہیں۔ اس کو فوراً وہ عمل یاد آگیا جو کچھ دیر پہلے اس کے ساتھ ہوا تھا۔ بندر کیوں کہ جانور تھا اس کو اتنی عقل نہیں تھی۔ قریب ہی ایک ڈنڈا پڑا ہوا تھا۔ بندر نے وہ ڈنڈا اٹھایا اور مکھیاں اڑانے کی خاطر زور سے اس شخص کے چہرے پر مارا اور وہ وہیں دم توڑ گیا۔ اس حکایت کا اخلاقی سبق یہ ہے کہ نادان کی دوستی ہمیشہ خسارے اور گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔

اس حکایت کو پڑھ کر راقم کو چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی کی یاد آگئی جن کی بے وقوفی اور ضد کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ کی آبادی والا شہر لاہور گزشتہ کچھ دنوں کے لیے بند ہو کر رہ گیا تھا۔ راقم نے ورلڈ الیون کی آمد پر ایک کالم بعنوان ‘نجم سیٹھی بمقابلہ سنی لیون’ لکھا تھا جس کے بعد گمان تھا کہ شاید نجم سیٹھی کو کچھ ہوش آ ہی جائے گا مگر ایسا نہ ہوا۔ میری ناقدین سے گزارش ہے کہ اُس کالم اور موجودہ کالم کو بغور پڑھیں تاکہ کہ تعریف و تنقید کرتے ہوئے آپ کو دقت نہ پیش آئے۔

میں ایک مزدور ہوں۔ روز دیہاڑی کرتا ہوں۔ پورا دن محنت کرکے اپنی روزی کماتا ہوں۔ شام کو پیسے بیوی کو لاکر دیتا ہوں۔ وہ سالن روٹی بناتی ہے اور سب گھر والے کھانا کھا کر رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پھر اگلی صبح اٹھ کر نئی روزی کی تلاش میں نکلتا ہوں۔ مگر آج تو سنا ہے کہ لاہور میں کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے۔ سڑکیں بند ہیں۔ میں گھر سے تو نکل پڑا ہوں لیکن اندر سے ڈر رہا ہوں کہ میچ کی وجہ سے شاید مجھے دیہاڑی نہ ملے۔ ایسا ہوا تو آج کسی دوست سے 50 روپے ادھار مانگ لوں گا۔ ایک کلو آٹا لے لوں گا۔ ایک پودینہ کی گٹھی لے لوں گا۔ اس کی چٹنی سے روٹی کھالیں گے۔

کل میچ نہیں ہوگا۔ کل دیہاڑی لگی تو وہ 50 روپے قرض واپس کر دوں گا۔ میں تو چٹا اَن پڑھ ہوں مگر ایک سوال اٹھ رہا ہے دماغ میں۔ اگر پورا شہر بند کرکے لاکھوں افراد کی روزی روٹی پر لات پر مار کر میچ کرایا جا رہا ہے تو کیا ہے ٹھیک ہے؟ پر سوال سے کیا ہوتا ہے میرے جیسے غریب کی کس نے سننی ہے۔

میں ایک ملازمت پیشہ شخص ہوں۔ میں مارکیٹنگ کا کام کرتا ہوں۔ سارا دن موٹر سائیکل پر شہر بھر میں پھرتا ہوں۔ میرا دفتر مجھے ایک ماہ کا پٹرول دیتا ہے۔ لیکن تنخواہ نہیں دیتا۔ میں جتنی مارکیٹنگ کرتا ہوں اس پر مجھے کمیشن ملتا ہے۔ ایک دن کا کمیشن کبھی 500 روپے تو کبھی 700 بن جاتا ہے کبھی محنت کے باوجود 100 یا 200 روپے ملتے ہیں۔ آج بھی گھر سے نکل رہا ہوں۔ مگر کچھ زیادہ پریشان ہوں۔ سنا ہے آج لاہور میں میچ ہورہا ہے۔ ٹی وی پر تو بڑے بڑے لوگ آکر کہتے ہیں کہ کرکٹ آگئی ہے۔ اس بار بہتر انتظامات ہیں، سڑکیں کھلی رہیں گی۔ مگر سب جھوٹ ہے، ایک ایک کلومیٹر کیلئے تین تین گھنٹے تک ٹریفک پھنسی رہتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اسٹیڈیم کے اطراف کی سڑکیں بند ہیں۔ لیکن اسٹیڈیم بھی تو شہر کے مرکز میں ہے۔ چاروں طرف سے آنے والی لاکھوں گاڑیاں اور موٹرسائیکل نکلیں کدھر۔ آج تو بجلی کے بل کی بھی آخری تاریخ ہے۔ آج تو ہر صورت کمیشن بنانا ہے۔ ویسے پورا شہر بند کرکے دنیا کو کیوں پیغام دیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے؟ چلو کیا فرق پڑتا ہے، میں تو ایک غریب آدمی ہوں۔ میرے بولنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟

میں ایک سرکاری ملازم ہوں۔ آج میری بیٹی کا نویں جماعت کا بورڈ کا پیپر ہے۔ دوپہر کو پرچہ ہے۔ میں نے باس سے چھٹی مانگی مگر اس نے کہا دفتر آؤ، دوپہر کو آدھی چھٹی لیکر بیٹی کو چھوڑ آنا۔ میں دفتر میں موجود ہوں۔ گھر 6 کلومیٹر دور ہے۔ اور آج رات کو لاہور میں میچ ہے۔ مگر تمام ٹریفک سیکورٹی کے نام پر ابھی سے ان علاقوں میں بین کر دی گئی ہے۔ میری بیٹی کے مستقبل کا سوال ہے۔ یا اللہ مجھے گھر پہنچنا ہے۔ گھر میں کوئی بھی نہیں، بیٹی اکیلی بھی پیپر دینے نہیں جا سکتی۔ میچ کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ بھی نہیں چل رہی۔ رکشے ٹیکسی کوئی بھی گاڑی ان علاقو ں میں جانے کیلئے تیار نہیں کیونکہ آج میچ ہے۔ کیا میچ اتنا ضروری ہے کہ ڈیڑھ کروڑ عوام کی خوشیوں اور مصروفیات کو قید کر کے ایک آزاد اور پرامن ملک کا تاثر دیا جائے؟ خیر میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے میں ایک معمولی آدمی ہوں۔

والد صاحب کو گلے کا کینسر ہے۔ ان کا آپریشن ہونا ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے فوری آپریشن کی ضرورت ہے۔ ان کی طبیعت بہت خراب ہے۔ ہسپتال ہے تو کچھ ہی دور مگر آج تو میچ ہے۔ میرے پاس گاڑی نہیں۔ ایک ٹیکسی منگوائی ہے۔ پچھلے تین گھنٹے سے ادھر ادھر گھوم رہا ہوں اپنے والد کو ٹیکسی میں لیکر مگر ہسپتال جانے کیلئے راستہ ہی نہیں مل رہا۔ ہر سڑک اور ملحقہ گلیوں میں ٹریفک جام ہے۔ قناتیں لگا کر اور خار دار تاریں لگا کر راستے بند کیے ہوئے ہیں ۔ ٹیکسی میں والد صاحب کی حالت بھی خراب ہو رہی ہے۔ وہ شوگر کے مریض بھی ہیں۔ ان کو واش روم جانے کی حاجت ہو رہی ہے مگر یہ سب ٹیکسی میں کس طرح ہو۔ یہ نجم سیٹھی کتنا بے حس ہے۔ دنیا کو ٹی وی کے ذریعے پیغام دے رہا ہے کہ پاکستان آئو اور دیکھو پاکستانی کتنے پرامن ہیں۔ نجم سیٹھی اپنی عوام کا گلا گھونٹ کر کونسا امن قائم کیا جاتا ہے؟ تمہیں کسی بیمار یا مجبور کا احساس نہیں؟ جی چاہتا ہے تمہارا خون پی جاؤں۔ اگر میری جگہ نجم سیٹھی تم ہوتے اور تمہارا بزرگ بیمار باپ یوں موت اور زندگی کی کشمکش میں ہوتا تو میں پوچھتا کہ کرکٹ کتنی ضروری ہے۔ مگر کیا کروں میں ایک مڈل کلاس ہوں۔ میرے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔

میں ایک پولیس اہلکار ہوں میری تعیناتی ضلع خانیوال میں ہے۔ میں ڈیوٹی کیلئے لاہور میں موجود ہوں کیونکہ آج لاہور میں کرکٹ میچ ہے۔ سنا ہے اسٹیڈیم میں 26 ہزار تماشائی ہوں گے اور میچ کیلئے 18 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔ اتنی زیادہ سیکیورٹی دے کر ہم کیا ثابت نہیں کر رہے کہ ہم واقعی ایک غیر محفوظ ملک ہیں۔ ہمیں ایک میچ کرانے کیلئے 18 ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی ضرورت ہے، اس سے زیادہ غیر محفوظ ہونے کی نشانی اور کیا ہوگی۔ سنا ہے بابا نجم سیٹھی کو نواز شریف نے انعام دیا ہے اور چیئرمین بنوا دیا ہے۔ عمران خان تو کہتا ہے 35 پنکچر کا انعام ہے۔ اللہ جانے کیا ہے۔ مگر دیکھو میں تو اپنی ڈیوٹی کر رہا ہوں، عوام راستہ مانگنے کی ضد کر رہے ہیں اور گالم گلوچ کر رہے ہیں۔ آخر یہ مجھے کیوں گالیاں دے رہیں ہیں، میں بھی تو ان کی طرح غریب آدمی ہوں۔ گالی دینی ہے تو ان کو دو جنہوں نے یہ تماشا لگایا ہے۔

میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں۔ میرے میاں فوت ہوگئے ہیں۔ چار بچوں کی پرورش کر رہی ہوں۔ ان کا مستقبل بنانے کیلئے رزق حلال کما رہی ہوں۔ روزانہ کی بنیادوں پر فیکٹری میں کام کرتی ہوں۔ آج میں بیمار ہوں اور موسم بھی خراب ہے۔ 250 روپے دیہاڑی ملی ہے۔ میرا گھر فیکٹری سے 8 کلومیٹر دور ہے۔ آج تو کوئی وین ہی نہیں مل رہی۔ سنا ہے آج کرکٹ کا میچ ہو رہا ہے لاہور میں۔ بارش ہورہی ہے۔ میں بیمار ہوں اور بارش میں بھیگتی اپنے گھر جا رہی ہوں پیدل۔ کوئی سواری ہی نہیں مل رہی۔ یہ کیسے بڑے لوگ ہیں جن کو کسی غریب کا خیال نہیں، کسی کی مجبوری کا خیال نہیں۔ ایک میچ کا بھلا ہم غریبوں سے کیا تعلق۔ کہتے ہیں میچ ہوگا تو پاکستان کا نام ہو گا۔ بھلا میری جیسی غریب کو اس سے کیا فائدہ۔ مجھے تو فیکٹری سے 250 روپے ہی دیہاڑی ملے گی۔ مجھے میچ کا کیا فائدہ؟ خیر میرے کوسنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ غریب کی یہاں کون سنتا ہے۔ بڑے لوگوں کیلئے تو غریب کیڑا مکوڑا ہی ہوتا ہے۔

معزز پاکستانیو! شاید 21 کروڑ کی آبادی میں زیادہ تر لوگ اس کو نہ سمجھ سکیں کیوں کہ میچ صرف لاہور میں ہی ہو رہے ہیں اور اب کراچی میں ہونے جا رہے ہیں۔ آپ ٹی وی اور میڈیا پر سب اچھا کی تصویر دیکھتے ہیں۔ میرا مؤقف یہ ہے کہ سالانہ نہیں بلکہ سال میں 365 دن پاکستان میں کرکٹ میچ کراؤ، ہاکی میچ کرائو اور جو مرضی کرائو۔ ایک طرف دیکھا جائے تو قذافی اسٹیڈیم میں 26 ہزار تماشائیوں کی گنجائش ہے۔ اور لاہور کی آبادی ڈیڑھ کروڑ۔ جس روز میچ ہوتا ہے اس روز اسٹیڈیم کے علاوہ پورا لاہور مسائل ہی مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ مریض، خواتین ، بیمار، بوڑھے، طالب علم، ملازمت پیشہ، ہر شخص ٹریفک مسائل سے گزرتا ہے۔ اس روز اکثریت اپنے روزگار سے محروم ہوتا ہے۔

عمران خان کا الزام تھا کہ 2013ء الیکشن میں نجم سیٹھی نے بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب 35 سیٹ نواز شریف کو جتوائیں۔ اور اس کو 35 پنکچر کا نام دیا۔ یہ تو شاید الزام ہی تھا پتہ نہیں سچ تھا یا جھوٹ۔ لیکن ایک بات سو فیصد ٹھیک ہے کہ نجم سیٹھی نے کرکٹ کے نام پر لاہور کو پنکچر کر دیا ہے۔

ایک ہی راگ آلاپ دیا جاتا ہے کہ دنیا کو پاکستان کی پر امن تصویر دکھائو۔ میرا صرف یہ کہنا ہے جو اصل تصویر ہے وہی دکھائو۔ میچ تفریح کا ذریعہ ہوتا ہے، ایک فیسٹیول ہوتا ہے۔ اس شہر کیلئے خوشیوں کا پیغام ہوتا ہے۔ یہاں زبردستی کی خوشحالی دکھائی جاتی ہے۔ کوئی شخص 50 سال ڈرائیونگ کرتا رہے اور کہے کہ اتنے تجربے کے بعد میرا ایکسیڈنٹ نہیں ہوسکتا تو یہ جھوٹ ہے۔ پاکستان میں ابھی مکمل دہشتگردی کا خاتمہ نہیں ہوا۔ کچھ دن پہلے رائیونڈ دھماکا اس کی مثال ہے۔ اللہ کرے یہ پورا ایونٹ اور ویسٹ انڈیز کا دورہ بھی کامیابی سے مکمل ہو لیکن ذرا ایک لمحے کیلئے سوچیں کہ اگر اس دوران سانحہ سری لنکن کرکٹ ٹیم جیسا کوئی واقعہ رونما ہو گیا تو پھر پاکستان کرکٹ کتنے سال پیچھے چلی جائے گی۔

ایک بات میں مکمل ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں اور جتنے سپورٹس صحافی ہیں وہ بھی میری بات کی سچائی کی گواہی دیں گے کہ چھوٹی ٹیموں کے دورہ پاکستان کی پیش کش پہلے بھی موجود تھی مگر اس وقت کے چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ، ذکا اشرف نے حامی نہیں بھری۔ کیوں کہ ان کو بھی پتہ تھا کہ پاکستان میں ابھی سیکیورٹی کی تسلی بخش صورتحال نہیں۔ اس پیشکش کو نجم سیٹھی نے قبول کر لیا اور سہرا لیا کہ انہوں نے کرکٹ بحال کرادی۔ چلو سہرا تو سجا لیا اپنی اچھائی کا مگر جو چیئرمین پی سی بی کی ڈھٹائی کی وجہ سے ڈیڑھ کروڑ لاہوریوں کو کرب اور تکلیف کا سامنا ہے اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ آپ تو نواز شریف کے منظور نظر ہو کر چیئرمین پی سی بی بن گئے۔ آپ کے ساتھ تو پروٹوکول ہی ہے تو آپ کو لاہور اچھا ہی لگنا ہے۔ ان سے پوچھیں جو 5، 5 گھنٹے سڑکوں پر میچ کی وجہ سے بارش میں زبردستی بھیگنے پر مجبور تھے اور آپ کو صلواتیں سنا رہے تھے۔

پہلے جنگیں ہوتی تھیں۔ سپاہی لڑ کر شہید ہوتے تھے۔ قومیں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی تھیں۔ جو عام لوگ جان قربان کرتے وہ بھی شہید کہلاتے مگر اب اشرافیہ نے شہید کیلئے بھی کئی اصطلاح متعارف کرادی ہیں۔ جیسے پی ایس ایل میچ ہورہا ہے۔ اس دن ٹریفک کے رش میں پھنس کر جو مریض ایمبولینس میں دم توڑ گیا وہ ملک میں امن کی بحالی کیلئے جان دینے والا ‘شہید ‘ ہے۔ جو طالب علم میچ کی وجہ سے اپنا بورڈ کا پیپر دینے سے رہ جاتا ہے اور فیل ہو جاتا ہے۔ اس کا فیل ہونا بھی ملک و قوم کیلئے ‘قربانی ‘ ہے۔ جس مزدور کا روزانہ کی بنیاد پر چولہا چلتا ہے، جس دن میچ کی وجہ سے اس کی دیہاڑی نہ لگے اور اس کے بیوی بچے اس روز فاقہ کریں، ان کا فاقہ ملک و قوم کیلئے ‘قربانی ‘ ہے۔

طاقت اور دولت کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔ اس میں بے ضمیر اور نااہل شخص اپنی اوقات سے باہر ہوجاتا ہے۔ نجم سیٹھی صاحب بطور صحافی ٹی وی پر آکر اپنی چڑیا کے ذریعے ملک کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے۔ اب چیئرمین پی سی بی بن کر عملی طور ڈیڑھ کروڑ لاہوریوں اور اب دو کروڑ کراچی والوں کو پنکچر لگا رہے ہیں۔

اگر ان صاحب میں تھوڑی سی بھی عقل ہے تو آئندہ میچ کرانے سے قبل ایسی حکمت عملی بنائیں جس سے ڈیڑھ کروڑ عوام ان کو ‘یاد ‘ نہ کریں وگرنہ ڈیڑھ کروڑ عوام میں سے کوئی تو ایک ایسا مظلوم ہوگا جس کی ہائے اس پنکچر بابا کو لگ جائے گی۔

یہ نہ سمجھا جائے کہ میری چڑیا والے بابا جی سے کوئی ذاتی دشمنی ہے۔ جس روز یہ ایک ایسا میچ کرائیں گے جس کی وجہ سے اس شہر کے عوام خوش ہوں گے تو یہی راقم ان کی تعریف میں بھی کالم لکھے گا۔ لیکن ان صاحب کی حرکات و سکنا ت سے لگتا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ قوم کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کے بارے میں صرف یہی رائے ہے

داغ دل گر نظر نہیں آتا
بُو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

مرتے ہیں آروز میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی ! ! !

The post چڑیا والے پنکچر بابا کی نوٹنکی سے لاہور پنکچر appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2HZBQjE

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny