Saturday, March 24, 2018

انسٹن گرین، اک جہاں اور بھی ہے

جب کبھی بھی انگلینڈ کی بات ہو تو سب سے پہلے لندن ہی ذہن میں آتا ہے۔ لندن کی بات بھی تو کچھ اور ہے۔

جہاں تک میری بات ہے تو مجھے لندن کا خیال  نہیں آتا۔ ایسا نہیں کہ لندن مجھے پسند نہیں، بہت پسند ہے۔ وہاں کا زیر زمین ریلوے کا نظام، ملٹی کلچرڈ سوسائٹی، پکاڈلی کی شامیں، ہائیڈ پارک، میرا پسند یدہ ڈونر کباب، غرض بہت کچھ۔۔ بہت سے لوگوں کو انگلینڈ پسند ہی لندن کی وجہ سے ہے۔ لیکن میرے لئے برطانیہ کو پسند کرنے کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ایک آکسفورڈ شائر کاونٹی کا قصبہ “انسٹن گرین” اور دوسرا برطانیہ کا فیروز کسام۔ سفر برطانیہ کی روداد تو آپ میرے سفرنامہ “جاناں ترے شہر میں” پڑھ سکتے ہیں۔ آج میرا موضوع میرا عشق میرا پسندیدہ گائوں “انسٹن گرین” اور میرے ہیروز میں سے ایک “فیروز کسام” ہے۔

instein green

آکسفورڈ شہر سے شمال مغرب میں چپنگ نارٹن شہر کی طرف سفر کریں تو قریب دس میل کی مسافت پر یہ گائوں آباد ہے۔ میں جب سے انگلینڈ آیا تھا فیروز کسام سے ملنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن ان کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقات ممکن نہیں ہو پا رہی تھی۔ درجنوں بار کوشش کرنے کے باوجود ناکامی ہی حصے میں آئی تھی۔ مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اب یہ ملاقات شائد ممکن نہ ہو کہ ایک دن اچانک مجھے ایک کال موصول ہوئی۔ یہ کال کسام کے سٹاف میں سے کسی نے کی تھی۔ مجھے کہا گیا کہا گر کسام صاحب سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں تو آکسفورڈ کے لئے بس پکڑ لوں جو میں نے فوراً پکڑ لی۔ لندن سے چلنے والی یہ وائی فائی بس آکسفورڈ شہر کے دل میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے قرب میں واقع اسٹیشن پر اتارتی ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ انسٹن گرین جانے سے پہلے کیوں نہ اس یونیورسٹی کے درشن کر لوں جس کی شہرت بچپن سے ہی سنتا آیا تھا۔ لیکن یہ سوچ کر اس خیال کو عملی جامہ نہ پہنایا کہ یونیورسٹی تو صدیوں سے یہیں موجود ہے، کل بھی دیکھ سکتا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ فیروز کسام سے ملاقات کا موقع گنوا بیٹھوں۔

Heythrop-Park

اس لئے چپنگ نارٹن جانے کے لئے بس پکڑ لی جس کے راستے میں انسٹن گرین نامی قصبہ پڑتا تھا۔ آکسفورڈ سٹی سے انسٹن گرین تک کا یہ سفر بمشکل پچیس منٹ کا تھا۔ اس دوران میں یہی سوچتا رہا کہ فیروز کسام نے کس ویرانے میں بلا لیا ہے۔ اس جگہ رہنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟

آپ یقیناً سوچ رہے ہں گے کہ میں کسام کا بار بار ذکر کیوں کر رہا ہوں۔ یہ کون صاحب ہیں۔ تو دوستوں کہانی کچھ یوں ہے کہ فیروز کسام ایک برٹش بزنس مین ہے جو تنزانیہ میں پیدا ہوا تھا۔ یہ انیس سال کی عمر میں تنزانیہ سے برطانیہ چلا آیا۔ ستر کی دہائی کے آخر میں اس نے لندن کی ایک فش اینڈ چپس کی شاپ سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1980ء میں اس نے اپنا ایک چھوٹا سے ہوسٹل قائم کیا جہاں سیاسی پناہ لینے والے لوگوں کو رہائش مہیا کی جاتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ ترقی کرتا گیا اور نوے کی دہائی میں فیروز کسام کئی فائیو سٹار ہوٹلز کا مالک بن گیا۔ اس نے آکسفورڈ شائر فٹبال کلب بھی خرید لیا، آکسفورڈ فٹبال سٹیدیم بھی بنا ڈالا۔ اب یہ آکسفورڈ اور برطانیہ کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گیا۔ فیروز کسام پر بننے والی ایک دستاویزی فلم میں نے دیکھ رکھی تھی اور میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ ایسا کیسے ہوتا ہے کہ ایک محنت کش بغیر کسی سرمائے کے صرف اپنی محنت کے بَل بوتے پر اتنا آگے جا پائے۔

imgID147208289.jpg.gallery

انسٹن گرین کے بے نشان سے سٹاپ پر بس سے اترا تو فیروز کسام کا ڈرائیور مجھے وہاں لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ یہاں تک میں خاصا مایوس تھے کہ کہاں اتنی دور جنگلوں میں آ گیا ہوں جہاں نہ تو کوئی کبابش ہے، نہ ہی ڈکسی نہ ہے کے ایف سے اور مکڈونلڈ بھی کوئی نہیں۔ اور تو اور نہ بندہ نہ بندی زات۔ اس وقت تک میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جیسے جیسے میں آگے بڑھتا جائوں گے ویسے ویسے ہی اس قصبے کے عشق میں مبتلا ہوتا جائوں گا۔

گاڑی گائوں کے بیچ و بیچ جا رہی تھی اور میں اس علاقے کا حسن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ لش گرین وادیاں، چاروں طرف سیب کے درخت۔ درختوں کو بے انتہا سرخ سیبوں نے جھکا رکھا تھا۔ میرا دل چاہا، گاڑی رکوائوں اور چند سیب ضرور توڑ لوں۔ برابر میں بہتی ندی کا ہلکا ہکا شور، بہت بھلا لگ رہا تھا۔ ہماری منزل یہاں موجود ہیتھروپ پارک ہوٹل، کنٹری اینڈ گالف کلب تھا جسے حال ہی میں کسام نے خریدا تھا۔

ہوٹل کیا ایک سلطنت تھی۔ پرشکوہ عمارت، وسیع رقبہ، سبزہ، گالف کلب۔ سینکڑوں رومز، بڑے کشادہ ہالز، ہوٹل کی بار اور ریسٹورنٹ سے بھی باہر ندی اور سیب کے باغات کا نطارہ کیا جا سکتا تھا۔ جنگل میں منگل کا سماں تھا۔ میں نے فیروز کسام کو کہا تھا کہ میں آپ کو مل کر اگلے ہی روز واپس لندن آنا چاہتا ہوں لیکن اس نے کہا کہ نہیں آپ ایک رات یہاں قیام کرو گے۔ یہ جگہ ایسی تھی کہ ایک رات تو کیا بلاشبہ میں زندگی کی ساری راتیں بخوشی یہاں گزار سکتا تھا۔

heythrop-park-park-restaurant

رات کے کھانے پر فیروز کسام سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا، سر کوئی بہت لمبے چوڑے سوالات نہیں ہیں۔ صرف ایک سوال ہے کہ وہ کیا فارمولہ ہے جس کو لگا کر ایک بے وسیلہ نوجوان دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو سکتا ہے؟ فیروز کسام مسکرایا، اس نے کہا، سوال ایک ہے لیکن جواب ایسا بھی سادہ نہیں۔ برسوں کا سفر ہے جواب کے لئے پوری رات بھی ناکافی ہے۔ مختصر بتائے دیا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ پر بھروسہ۔ ایک ناکامی کچھ نہیں ہوتی، پے درپے ناکامیوں کو سہنا اور ٹوٹنا نہیں۔ اس نے کہا کہ اس کا یقین ہے کہ ایک کامیاب شخص جتنی بار زندگی میں فیل ہوتا ہے اتنی بار تو ایک ناکام شخص نے کوشش بھی نہیں کی ہوتی۔ اس نے کہا کہ اس نے کوشش کرنی کبھی نہیں چھوڑی اسی لئے وہ کامیاب ہے۔ اس نے مجھے کچھ دستاویزی فلمیں دیں جو اس کی زندگی اور کامیابی پر فلمبند کی گئی تھیں۔ جنہیں اکثر میں تب دیکھتا ہوں جب میں اپنے آپ کو بہت ٹوٹا ہوا پاتا ہوں۔ ایسا کرکے مجھے نئی تازگی، جذبہ اور توانائی ملتی ہے۔

wasif malik and feroz kassam

آپ نے سفر برطانیہ کی رودادیں تو بہت پڑھ رکھ ہوں گی۔ یہ کتابیں، بلاگز، اور کالمز آپ کو مادام تساو، بکھنگم پیلس، لندن بریج، آکسفورڈ، برمنگھم، مانچسٹر اور گلاسگو کی کہانیاں تو بتاتے ہوں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ انسٹن گرین آپ نے آج ہی دریافت کیا ہو گا اور شائد فیروز کسام کو بھی۔ کہتے ہیں کہ سفر وسیلہ ظفر ہوتا ہے، انسٹن گرین کا سفر میں کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن یہ سفر میرے لئے واقعی وسیلہ ظفر ثابت ہوا کیونکہ اسی سفر کی بدولت مجھے انسٹن گرین جیسی جگہ اور فیروز کسام جیسا استاد ملا۔

The post انسٹن گرین، اک جہاں اور بھی ہے appeared first on دنیا اردو بلاگ.



from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2FZQTNz

No comments:

Post a Comment

May or later: Rocket Lab may launch a small probe to Venus

By Unknown Author from NYT Science https://ift.tt/OPbFfny