ریل گاڑی تا جہاز تک کا فرق وہی بتا سکتا ہے جس نے اپنے سفر کا آغاز ریل گاڑی سے کیا ہو اور کئی برسوں تک ریل گاڑی پر سفر کرنے کے بعد اسے اتفاقاَ جہاز کا سفر کرنے کا موقع ملا ہو۔
مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا پاکستانی طبقہ پاکستان کی کل آبادی کا 80 فیصد ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے جن کے کمرے کا پنکھا چل چل کر شور کرنا شروع ہو جاتا ہے مگر وہ ہزار روپے خرچ کرکے پنکھا نہیں بدلتا کیونکہ اب اس کو اپنے پنکھے کے شور کے بغیر نیند بھی نہیں آتی۔
اس کو ہر سال دو سے تین مرتبہ کراچی تا فیصل آباد تک ریل گاڑی میں سفر کرنا پڑتا ہے، جانے کی وجہ یا تو عید ہوتی تھی یا کسی عزیزو اقارب کی شادی میں شرکت۔ اس سفر کا واحد راستہ ریل گاڑی ہے، جس کی کم سے کم ٹکٹ ایک ہزار سے لے کر پندرہ سو روپے تک ہوتی ہے۔
ریل گاڑی کے ذریعے کراچی تا فیصل آباد تک کا سفر کم سے کم بیس گھنٹے کا ہوتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ریل گاڑی مقررہ وقت پر ہی منزل مقصود پر پہنچے۔ ٹکٹ بکنگ فل ہونے کی صورت میں کچھ دن پہلے ہی سے بکنگ کروانی ہوتی ہے، جس کے لیے گھنٹوں قطاروں میں لگ کر اپنے نمبر کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔
بیماریوں سے بچنے کے لیے دو وقت کا کھانا گھر سے تیار کر کے لے جانا پڑتا ہے، واش روم میں لوٹا اور ہاتھ دھونے کے لیے صابن نہ ہونے کی صورت میں یہ اشیاء بھی ساتھ میں لازمی رکھنی ہوتی ہیں۔ کمپارٹمنٹ کا پنکھا خراب ہو تو شدید گرمی سے بچنے کے لیے ہاتھ والا پنکھا بھی ساتھ ہونا چاہئیے۔ ان تمام اشیاء کے ساتھ اپنا سامان لے کر ریلوے سٹیشن پہنچ کر اپنی ریل گاڑی کا انتظار کرنا ہوتا ہے۔ اگر اتفاق سے ریل گاڑی اپنے مقررہ وقت پر پہنچ جائے تو اس پر اپنا سامان لے کر سب کو دھکے دیتے ہوئے اپنی سیٹ تلاش کرنے کے بعد قبضہ کر کے بیٹھ جانا ہوتا ہے، نہیں تو کسی اور کا قبضہ بھی ہوسکتا ہے جس کے بعد طویل بحث ومباحثہ کرکے اپنی ٹکٹ دکھا کر سمجھانا ہوتا ہے کہ اس سیٹ پر سفر کرنے کا حق میرا ہے۔
جس کے بعد اٹھارہ گھنٹے کا سفر ایسے ہوتا ہے کہ جسم کا انجر پنجر ہل جاتا ہے اور ایسا سفر ہر سال میں دو سے تین مرتبہ کرنے کی عادت ڈال لینا ہی غریب کے لیے آخری اور واحد راستہ ہوتا ہے۔
مگر ایک دن اس غریب کے ساتھ ایسا اتفاق ہوتا ہے جو پہلے نہیں ہوا ہوتا۔ اس بار اس کو یہ سفر ہوائی جہاز میں کرنا نصیب ہوتا ہے۔ یہ سفر شاید اس کے خوابوں میں سے ایک خواب ہے جس کی تکمیل کی وجہ اس کے کسی عزیز کی اچانک وفات ہے جس میں شرکت کے لیے اسے فوری طور پر فیصل آباد پہنچنا ہے۔
اب وہ ریلوے اسٹیشن کی بجائے ہوائی اڈے کا رْخ کرتا ہے۔ اسے اپنے سامان میں لوٹے یا صابن رکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جہاز کا واش روم اس کے گھر کے بیت الخلاء سے بھی اچھا ہے۔ جیسے ہی وہ جہاز کے اندر پہلا قدم رکھتا ہے تو ائیر ہوسٹس اس کو سلام کرکے خوش آمدید کرتی ہے جس سے اس کے مزاج پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
اب اگر اسے پیاس بھی لگے تو سیٹ کے ساتھ لگا بٹن دبانے پر ائیر ہوسٹس پانی لیے حاضر ہو جاتی ہے، یہی ائیر ہوسٹس مقررہ وقت پر اس کا کھانا لیے بھی حاضر ہوتی ہے۔ جہاز میں چلنے والے اے سی کی وجہ سے اسے اپنے سامان میں رکھا ہاتھ والا پنکھا بھی استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس سفر کے دوران اسے اپنا ریل گاڑی کا وہ اٹھارہ گھنٹے کا سفر یاد آتا ہے جو سفر کم اور ذلت زیادہ ہے۔ 45 منٹ گزرنے کے بعد ہی جہاز میں اعلان ہو جاتا ہے کہ فیصل آباد آنے والا ہے جس کو سن کر وہ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ کاش یہ سفر طویل ہوتا۔
جہاز سے اترتے ہوئے یہ غریب دعا کرتا ہے کہ اے خدا! پاکستان کے ہر غریب کو جہاز میں سفر کرنے کی استطاعت فرما اورہمارے ملک میں بھی باعزت، تیز رفتار اور آرام دہ سفری سہولتیں بنائی جائیں تاکہ عوام انگریزی والے suffer کی بجائے اردو والا سفر کیا کرے۔ آمین۔
The post ریل گاڑی تا جہاز کا سفر appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2pDsPVV
No comments:
Post a Comment