مثل مشہور ہے کہ شادی وہ لڈو ہے، جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ یاد رہے یہ محاورہ پہلی شادی کے لڈو کے بارے میں ہے۔ جس کے ستائے ہوئے مردوں نے نہ صرف بیویوں پر لطیفے ایجاد کیے بلکہ گانے تک بنا ڈالے تاکہ کنوارے مردوں کو شادی کے نقصانات بتا سکیں اور انہیں اس لڈو سے بچا سکیں۔
بیویوں سے تنگ مرد حضرات نے کولمبس کے امریکا دریافت کرنے کا سہرا اسکی نہ ہونے والی شادی کے سر باندھا تھا۔ بقول ان دل جلوں کے اگر کولمبس شادی شدہ ہوتا تو بیوی کے تفتیشی سوالات مثلاً کدھر جا رہے ہو؟ کیوں جا رہے ہو؟ کب آؤ گے؟ سے تنگ آ کر وہ گھر سے نکلنے کا ارادہ ہی ترک کر دیتا اور امریکہ نہ دریافت کر پاتا۔ امریکہ کے علاوہ دنیا تاج محل سے بھی مرحوم ہو جاتی کیوں کہ ممتاز اگر زندہ ہوتی تومقبرے میں سو نقص نکال کراسے مسترد کر دیتی۔
یہی نہیں، بقول ان مردوں کے یہ بیچارہ” شوہر” شادی کے بعد ساس بہو کے درمیان بھی سینڈوچ بن جاتا ہے۔ بیوی کی طرفداری اسے زن مرید کا خطاب دلواتی ہے تو ماں کی طرفداری پر بیوی میکہ پہنچ جاتی ہے۔ غرض کہ زندگی سانپ والے کھیل کی طرح بن جاتی ہے جس کا ایک لیول عبور کر بھی لو تو دوسرا لیول اس سے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
اوراس کھیل کی مشکلات میں اضافہ بیوی اور ماں کے درمیان ہونے والی رسہ کشی سے ہوتا ہے۔ بیوی کو شاپنگ کروائو تو ماں بھی جوان بہو کے مقابلے پر آ جاتی ہے کہ جو اپنی بیوی کے لیے لائو، وہی میرے لیے بھی لانا۔ یوں مرد بیچارے کی تنخواہ دونوں کو اپنی مساوی محبت کا یقین دلانے پر ہی خرچ ہو جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی خطرناک، جذباتی اور معاشی حالات میں بھی مرد کی رومان پروری کیسے پنپ جاتی ہے؟ کیسے اس کے دل میں دوسری شادی کے خواب انگڑائی لینے لگتے ہیں؟
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان نامسائد حالات جن کا نقشہ گانے گا گا کر کھینچا جاتا ہے کہ “شادی نہ کرنا یارو، پچھتاؤ گے ساری لائف” کے بعد بھی دوسری شادی کا ڈھول گلےمیں باندھ لیتے ہیں۔ کامن سینس کی بات ہے اگر پہلی شادی نے دکھ دیا تو دوسری شادی اس پچھتاوے میں اضافہ ہی کر سکتی ہے اور اگر پہلی شادی نے خوشی دی تو دوسری شادی کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
یعنی ابھی ایک بیوی کی شاپنگ اور پارلر کے بل بھرے نہیں جاتے پھر دو دو بیویوں کے لیے کیسے سموسے لینے جائیں گے۔ پہلے ماں سے ایک بیوی کی شکایتیں سنتے تھے، اب دو دو بیویوں کے مرید کہلائیں گے۔ مزید براں ماں بھی پریشان، اب مقابلہ کروں تو کس سے کروں؟ کان بھروں تو کس کے خلاف بھروں؟ دوسری شادی کر کے یہ مرد حضرات اپنے ساتھ ساتھ والدہ محترمہ کی پریشانیوں میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
دوسری شادی کے بعد تو حالات کچھ اسی طرح کے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ایک بیوی کو زیور دلایا تو دوسری نے منہ بنایا۔ ایک کو گھر دلایا تو دوسری کو غش آیا۔ ایک بیوی کی سالگرہ منائی تو دوسری نے شامت لائی۔ کوئی تہوار ایک کے ساتھ منایا تو دوسری نے حشر اٹھایا۔ پھریہ سوال تو بنتا ہے نہ، اے ابنِ آدم! تو نے دوسری شادی کا لڈو کیوں کھایا؟
ویسے دوسری شادی کی مٹھائی اس مہنگائی کے دور میں اتنی گرانقدر ہے کہ مڈل کلاس والے تو بس اقرار الحسن کی دوسری شادی کی خبر کو سپورٹ کر کے ہی اپنے دل کی حسرتوں کو دلاسا دے دیتے ہیں اور جو بیچارے اس لڈو کو کھانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں وہ کبھی نہیں بتاتے کہ یہ لڈو گلے میں پھنس گیا ہے کیونکہ یہ بتا کر انہیں پھنسنا تھوڑی ہے۔
دور سے دیکھنے والوں کے لیے یہ ڈھول ابھی بھی سہانا ہے۔ پر لڈو چاہے پہلی شادی کا ہو یا دوسری شادی کا جو کھاتا ہے وہ بھی پچھتاتا ہے پر بتاتا نہیں۔ جو نہیں کھاتا وہ بس دوسری شادی کے ذکر پربس مسکرائے جاتا ہے۔ بلکل اسی طرح جس طرح عمران خان اپنے وزیر اعظم بننے کے ذکر پر تبسم فرماتے ہیں۔
The post دوسری شادی کا لڈو appeared first on دنیا اردو بلاگ.
from دنیا اردو بلاگ https://ift.tt/2jbCEr9
No comments:
Post a Comment